Category Archives: روز و شب

معیشت  اور  تکبّر

معیشت

سورۃ 25 الفرقان آیۃ 67 ۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ۔ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔

فخر و تکبّرسورۃ 31 لقمان  آیۃ 18 اور 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ۔  

ٹھٹھا مذاق

سورۃ 49 الحجرات  آیۃ 11 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ۔

اج آکھاں وارث شاہ نوں

اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچون بول     

تے اج کتابے عشق دا  کوئی اگلا ورقہ پھول       

اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین 

اج لکھاں دھیآں رودیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن  

اٹھ  دردمنداں دیا  دردیا  تک اپنا دیس پنجاب   

اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب    

کسے نے پنجاں پانیاں وچ اج دتی زہر  رلا           

تے اوہناں پانیاں نوں دتا دھرت نوں لا          

جتھے وجدی پھوک پیار دی او ونجلی گئی گواچ     

رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے اوس دی جاچ       

دھرتی تے لہو وسیا  تے قبراں پیّئاں چون               

 پریت دیاں شہزادیاں اج وچ مزاراں رون            

اج تے  سبے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور     

اج کتھوں لیآئیے  لب کے وارث شاہ اک ہور       

کہا ” کوچ کرو” اور کوچ کر گئے

حسن اتفاق ۔ ایک غزل بہت معروف ہوئی وہ لکھنے والے کی مشہور غزلوں میں سے آخری بن گئی اور گانے والے کی مشہور غزلوں میں سے بھی  آخری ثابت ہوئی ۔ ابن انشاء کی لکھی اور استاد امانت علی کی گائی ہوئی ۔

انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو

اس شہر میں جی کو لگانا کیا

وحشی کوسکوں سے کیا مطلب

جوگی کا ڈگر میں ٹھکانہ کیا

اس دل کے دریدہ دامن میں

دیکھو توسہی سوچو تو سہی

جس جھولی میں سو چھید ہوۓ

اس جھولی کو پھیلانا کیا

شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا

زنجیر پڑی دروازے میں

کیوں دیر گئے گھر آۓ ہو

سجنی سے کرو گے بہانہ کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں

کیوں بن میں نہ جا بسرا ہم کریں

دیوانوں کی سی نہ بات کرے

تو  اور  کرے  دیوانہ  کیا

عیدالاضحٰے مبارک ۔ کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر

سب مسلمان بہنوں اور بھائیوں جہاں کہیں بھی ہوں عیدالاضحٰے مبارک
ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک ۔ اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار يہ کہنا چاہیئے
البتہ عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر يہ ورد رکھنا چاہیئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَهَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَهُ
لَهُ الّمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلهَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلهَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیراً والحمدُللہِ کثیِراً و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا
اللّھم صلی علٰی سیّدنا محمد و علٰی آل سیّدنا محمد و علٰی اصحاب سیّدنا محمد و علٰی ازواج سیّدنا محمد و سلمو تسلیماً کثیراً کثیرا

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے
جنہوں نے حج ادا کیا ہے الله کریم اُن کا حج قبول فرمائے
جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کرنا ہے ۔ اللہ عِزّ و جَل اُن کی قربانی قبول فرمائے
اللہ کریم ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے اور امن کا گہوارہ بنا دے ۔ آمین ثم آمین

محبت کی کنجی

گھر میں پیار و محبت کی فضا زندگی کی بنیاد ہے

اپنے عزیزوں سے اختلاف کی صورت میں

صرف حال کے معاملہ پر ہی نظر رکھیئے

ماضی کی رنجشوں کو بیچ میں نہ لائیے

یاد رکھیئے کہ بہترین تعلقات وہ ہوتے ہیں

جن میں آپس میں ایک دوسرے سے محبت

ایک دوسرے کی ضرورت سے بڑھ جائے

حشر نشر

علامہ اقبال کے شعروں کے ساتھ بہت لوگوں نے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور بعض اوقات اس پسندیدگی نے حشر نشر کی صورت اختیار کی ۔ بہت پرانی بات ہے راولپنڈی میں راجہ بازار کے فوارہ چوک (جہاں کبھی فوارہ بنا دیا جاتا ہے اور کبھی توڑ دیا جاتا ہے) لیاقت روڈ پر چلیں تو بائیں طرف ایک ہوٹل ہوتا تھا “علی بابا ہوٹل ۔ آنہ روٹی دال مفت” اس ہوٹل کی دیوار پر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے ٹوٹل پر

تو شاہین ہے کر بسیرا علی بابا کے ہوٹل پر

اسی زمانہ میں ایک رسالے میں کارٹون شائع ہوا جس میں لکھا تھا

 خودی کو کر بلند اتنا کہ جا پہنچے پہاڑی پر

خدا بندے سے پھر پوچھے دس پترا اترسیں کس طراں