Category Archives: ذمہ دارياں

ہمتِ کرے انسان

سب ہموطنوں کو نویدِ صبح مبارک ہو ۔ اللہ کرے کہ اب ہر ہموطن پورے خلوص اور استقلال کے ساتھ خود اپنے نفس کے خلاف تحریک چلا کر اپنے اندر پیدا شدہ تمام قباہتوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے ۔

الحمدللہ ۔ وکلاء ۔ سول سوسائیٹی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے ثابت کر دیا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

جب 3 نومبر 2007ء کے بعد وکلاء کی تحریک نے زور پکڑا اور اپنی تحریک کو اپنے خُون سے سیراب کرنے کے باوجود انہوں نے شرافت کا ساتھ نہ چھوڑتے ہوئے اپنی جد و جہد جاری رکھی تو جمہور خود بخود اُن کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئی ۔ میں تو دعا اور دوا کر ہی رہا تھا ۔ وہ لوگ جو احتجاج کو بدامنی حتٰی کہ بدتمیزی تک کہتے تھے اُن میں اس تحریک کی خبریں ٹی وی سے سننے اور اخبار میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور پھر تحریک سے اُن کی دلچسپی بڑھنا شروع ہوئی ۔ تمام استعماری طاقتوں نے پھر دیکھ لیا کہ نہتے جمہور کی طاقت کیا ہوتی ہے ۔ لاہور جی پی او چوک پر پہنچنے والوں کو لگائی گئی کئی رکاوٹیں نہ روک سکیں ۔ نہ پولیس کی بھاری نفری اُن پر لاٹھیاں برسا کر اور اشک آور گیس کے 200 کے قریب گولے پھینک ان کے جذبہ کو کم کر سکی ۔ نواز شریف کے ساتھ حق کی راہ پر نکلنے والا جلوس ماڈل ٹاؤن سے کالا شاہ کاکو تک سات رکاوٹیں جو بڑے بڑے سامان سے بھرے کنٹینر لگا کر بنائی گئی تھیں ہٹاتے ہوئے گوجرانوالہ تک پہنچے ۔ مگر   آمر کی ضد گوجرانوالہ پہنچنے سے کچھ قبل دم توڑ گئی تھی

پاکستان بننے کے بعد یہ تحریک ہر لحاظ سے منفرد تھی ۔ اسے شروع کرنے والے نہ صرف تعلیم یافتہ تھے بلکہ قانون دان تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک جتنی تحاریک چلیں سوائے تحریک ختمِ نبوّت کے اُن سب کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق کسی شخص یا جماعت سے تھا جبکہ اس تحریک کا فائدہ تحریک شروع کرنے والوں کو ہوتا یا نہ ہوتا اصل فائدہ جمہور کو اور ملک کو ہونا تھا عدل کی صورت میں اور عدل قائم ہونے کے نتیجہ میں ملک و قوم کی ترقی کی صورت میں کیونکہ کسی قوم کی ترقی کی اوّلین شرط ملک میں عدل ہونا ہے ۔

یہ کسی کی شکست نہیں ۔ یہ فتح ہے جمہور کی اور جمہور کی فتح سب کی فتح ہوتی ہے ۔ یہ بھنگرے ڈالنے کا وقت نہیں بلکہ اپنے گناہوں اور اپنی غلطیوں پر پشیمان ہو کر اللہ سے معافی مانگنے کا ہے ۔ سچ کہا تھا کسی نے

سدا نہ باغ وِچ بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ باغ میں بُلبُل چہکے
سدا نہ رہن بہاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ رہیں بہاریں
دُشمن مرے تو خوشی نہ کریئے ۔ ۔ ۔ مرے دُشمن تو خوشی نہ کریں ہم
سجناں وی ٹُر جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ پیارے بھی چلے جائیں گے اک دن

عین اُس وقت جب قوم کو آنے والی خوشی کی بہار کی خوشبو آ رہی تھی چند ناعاقبت اندیشوں نے جن میں پیر پی پی پی کے مظہرالحق اور ایم کیو ایم کے رہنما شامل تھے قوم کے دماغ پراگندہ کرنے کیلئے کراہت آمیز آواز اُٹھائی ۔ اللہ ان لوگوں کو نیک ہدائت دے اور ہمارے پیارے وطن کو ایسے خودغرض لوگوں سے بچائے

پچھلی دو دہائیوں میں پڑھے لکھے ہموطنوں نے مجھے بہت مایوس کیا ۔ اکثر ان جملوں کا سامنا ہوتا لیکن کوئی خود کچھ کرنے کیلئے تیار ہوتا ۔
سب چور ہیں
ہماری قوم مردہ ہے
میں اکیلا کیا کروں ؟
اس مُلک میں کچھ نہیں ہو سکتا
غریب یا شریف آدمی کی کون سُنتا ہے ؟
وہی ہو گا جو امریکہ کرے گا

پہلے دو جملوں پر میں اُن سے کہتا کہ اگر میں آپکے جملے کو دہراؤں تو آپ خود وہ ہو جائیں گے جو آپ دوسروں کیلئے کہہ رہے ہیں مگر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا

پۓ در پۓ مُطلق العنانی نے ہمارے ہموطنوں کو بے حِس بنا دیا تھا یا پھر وہ حوادثِ روزگار میں پھنس کر رہ گئے تھے کہ کسی قومی معاملہ میں دِلچسپی کھو بیٹھے تھے ۔ میرا عقیدہ ۔ مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ اگر ذاتی غرض کی بجائے اجتمائی فائدے یا مقصد کیلئے جد و جہد کی جائے تو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں ۔ میں نے اور کئی دوسرے محبِ وطن حضرات نے متعدد بار اس کا اظہار اپنی تحاریر میں کیا

میں نے پچھلی چار دہائیوں میں مختلف قومی سطح کی محافل میں ہموطنوں کو استقلال کے ساتھ جد و جہد کی تلقین کی جس کی بنیاد میری اپنی زندگی کی جہدِ مسلسل تھی ۔آج مجھے 1973ء کے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب ہر طرف سے مجھے رُوپوش ہوجانے کا مشورہ اس بناء پر دیا جاتا تھا کہ مجھے خُفیہ والے کسی بھی وقت اُٹھا کر ایسی جگہ لے جائیں گے جہاں سے میری کوئی خبر نہ آئے گی ۔ وجہ سچ بولنا ۔ برائی کے خلاف اور اپنے ادارے کے ملازمین کے حقوق کیلئے آواز اُٹھانا تھی ۔ اللہ کی مہربانی ہوئی اور خُفیہ کے اعلٰی عہدیداروں نے نہ صرف مجھ سے معافی مانگی بلکہ آئیندہ کئی سال اپنے مسائل میں مجھ سے مشورہ کرتے رہے

وہ دن بھی یاد آئے ہیں جب پاکستان کے تمام سرکاری اداروں کے انجنیئرز کے حقوق کیلئے تحریک چلی تو میں فیڈریشن آف انجیئرز ایسوسی ایشنز آف پاکستان کا سینئر وائس پریزیڈنٹ ہونے کی حثیت سے اُن تین انجیئرز میں شامل تھا جنہوں نے 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے وقت نہ دیا اور کئی دن ضائع کرنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ وزیرِ مالیات سے رابطہ کریں وزیرِ مالیات نے وقت دینے کے بعد ہمیں اپنے دفتر کے بغلی کمرہ میں صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک بھوکا پیاسا بٹھائے رکھا اور بات نہ کی ۔ ہم گھروں کو نہ گئے اور دوسرے دن پھر پہنچ گئے ۔ وزیر مالیات نے ہمیں لاٹھیوں ۔ قید خانے اور چکی پیسنے سے ڈرایا لیکن پورے پاکستان میں انجنیئرز کی ہڑتال کا اعلان کرنے کے بعد نمونے کے طور پر صرف ایک گرڈ سٹیشن پر انجنیئرز نے کام چھوڑ دیا تو حکومت نے تمام انجنیئرز کو تنخواہ کا سکیل 17 اور سب سے جونیئر انجنیئرز کو پانچ پانچ اکنریمنٹ دینے کا اعلان کر دیا ۔ خیال رہے کہ میں مقابلہ کا امتحان پاس کر کے سکیل 17 سے بھی زیادہ تنخواہ پر بھرتی ہوا تھا ۔ اسلئے متذکرہ تحریک میں میرا ذاتی فائدہ بالکل نہ تھا ۔ ہم سب تحریک میں اپنی اپنی جیبوں سے خرچ کر رہے تھے

میں سب واقعات لکھنا شروع کروں تو کتاب بن جائے گی ۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ “ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا”۔ لیکن جد و جہد میں کوئی خود غرضی نہیں ہونا چاہیئے ۔ میں نے 22 جنوری 2008ء کو “شفاف انتخابات” کے عنوان سے جو لکھا تھا کاش اس پر کم از کم میری قوم کے سب پڑھے لکھے ہی عمل کرتے ۔ اب بھی سب کا بھلا ہو گا کہ ان صولوں کو یاد کر لیں اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرائیں ۔ اسی لئے نیچے نقل کر رہا ہوں

آنے والی حکومت آپ کی ہو گی اگر ۔ ۔ ۔

آپ خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیں

آپ تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کو ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو

آپ کسی کو نہ بتائیں کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کوئی پوچھے تو جواب میں کہیں ” آپ بالکل فکر نہ کریں ”

اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے عزیز و اقرب کو بھی اسی پر آمادہ کریں

قوم کے سوداگر

میں شاید ساتویں جماعت میں تھا [آج سے 57 سال قبل] جب میں نے ایک کتاب بعنوان ” قوم کے سوداگر ” پڑھی تھی ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ کوئی تاریخی واقعہ تھا یا کہانی اور نہ ہی مصنف کا نام یاد ہے کیونکہ اس واقعہ یا کہانی کو میرے ذہن نے قبول نہ کیا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ کیسے ممکن ہے کہ کسی قوم کا سربراہ جو اسی قوم کا فرد ہے اپنی ہی قوم کو غیروں کے ہاتھ بیچ سکتا ہے ۔ میرا متذکرہ تصوّر آہستہ آہستہ متزلزل ہونے لگا ۔ متعلقہ واقعات کی تاریخ طوالتٍ تحریر کا باعث بنے گی اسلئے اسے کسی اگلی نشست کیلئے اُٹھا رکھتے ہیں ۔ آج صرف اُس مطلق العنان آمر کی بات جس نے ۔ قومے فروختند و جہ ارزاں فروختند ۔ کے مصداق اندر ہی اندر قوم کا سب کچھ غیروں کو نہیں بلکہ دشمنوں کو بیچ دیا ۔ میں اُن 600 سے زائد بیگناہ پاکستانیوں کی بات نہیں کر رہا جو پانچ یا چھ ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے امریکہ کو فروخت کئے گئے ۔ اور نہ اُس آگ کی جس میں ملک کا شمال مغربی سرحدی علاقہ ۔جھونک دیا گیا اور اس کے نتیجہ میں ہزاروں بیگناہ فوجی ۔ امن پسند سویلین اور پاکستان کے خیرخواہ قبائلی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ بلکہ یہ خبر ان سب خبروں سے بھیانک ہے اور پرویز مشرف ہماری قوم کا بستر ہی گول کرنے کا بندوبست کر گیا ۔

کل اور آج کی خبریں پڑھ کر شاید کوئی قاری یہ سوچے کہ ایسا اچانک ہو گیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ آج سے سوا تین سال قبل میں نے اپنی ایک تحریر میں پیشگوئی نہیں بلکہ پرویز مشرف کے اقدام کا منطقی نتیجہ [logical or calculated result] بیان کر دیا تھا ۔ بہت پرانی ضرب المثل ہے

اب پچھتائے کیا ہوئے جب چڑیاں چُگ کئیں کھیت ۔

زیرِ نظر خبر

بھارت کی جانب سے دریائے چناب کا پانی روکے جانے کے معاملے پر اجلاس وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں اسلام آباد میں ہوا ۔ اجلاس میں انڈس واٹر کمشنر، چیئرمین واپڈا، چیئرمین ارسا اور وزارت کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے ۔ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ میں وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت نے بگلیہار ڈیم میں پانی ذخیرہ کر کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف وزی کی ہے، یہ معاملہ انڈس واٹر کمیشن کی سطح پر اٹھایا گیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈس واٹر کمشنر بگلیہار ڈیم کا دورہ بھی کریں گے ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی بند نہ کی تو ثالثی عدالت سے رجوع کرنے اور غیر جانبدار مبصرین کی تعیناتی کے آپشن موجود ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ نقصان کے ازالے کے لئے بھارت سے پانی کے بدلے میں پانی یا معاوضے کی ادائیگی کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا

مندرجہ بالا بیان کی حثیت شعیب صفدر صاحب کی تحریر کردہ فارمیلیٹی [formality] سے زیادہ کچھ نہیں ہے

اب پڑھیئے میری 27 جون 2005ء کی تحریر سے اقتباس

جو کھیل ہماری حکومت اپنے آقاؤں [امریکی حکومت] کے اشارہ پر کھیل رہی ہے اس کا ذاتی فائدہ پرویز مشرف کو اور سیاسی فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے ۔ نہ صرف جموں کشمیر کے لوگ بلکہ پاکستانی عوام بھی خسارے میں ہیں ۔ پرویز مشرف نے یک طرفہ جنگ بندی اختیار کی جس کے نتیجہ میں ۔ ۔ ۔

بھارت نے پوری جنگ بندی لائین پر جہاں دیوار بنانا آسان تھی وہاں دیوار بنا دی باقی جگہ کانٹے دار تاریں بچھا دیں یعنی جو سرحد بین الاقوامی طور پر عارضی تھی اسے مستقل سرحد بنا دیا ۔

سرحدوں سے فارغ ہو کر بھارتی فوجیوں نے آواز اٹھانے والے کشمیری مسلمانوں کا تیزی سے قتل عام شروع کر دیا اور متواتر روزانہ دس سے بیس افراد شہید کئے جارہے ہیں ۔ معصوم خواتین کی عزتیں لوٹی جا رہی ہیں اور گھروں کو جلا کر خاکستر کیا کیا جا رہا ہے ۔ کئی گاؤں کے گاؤں فصلوں سمیت جلا دیئے گئے ہیں ۔

بگلیہار ڈیم جس پر [تحریکِ آزادی کی وجہ سے] کام رُکا پڑا تھا جنگ بندی ہونے کے باعث بھارت بڑی تیزی سے تقریبا مکمل کر چکا ہے اور تین اور ڈیموں کی بھی تعمیر شروع کر دی گئی ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالی ہماری مدد فرمائے اور ایسا نہ ہو آمین مگر آثار یہی ہیں کہ جب متذکّرہ بالا ڈیم مکمل ہو جائیں گے تو کسی بھی وقت بھارت دریائے چناب کا پورا پانی بھارت کی طرف منتقل کر کے پاکستان کے لئے چناب کو خشک کر دے گا اور دریائے جہلم کا بھی کافی پانی روک لے گا ۔ اس طرح پانی کے بغیر پاکستان کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور زندہ رہنے کے لئے پاکستان کو بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے ۔ چنانچہ بغیر جنگ کے پاکستان بھارت کا غلام بن جائے گا ۔ قوم کو بیوقوف بنانے کے لئے پرویز مشرف نے منگلا ڈیم کو دس میٹر اونچا کرنے کا ملٹی بلین پراجیکٹ شروع کیا ہے ۔ چند سال بعد دریائے جہلم میں اتنا بھی پانی ہونے کی اُمید نہیں کہ ڈیم کی موجودہ اُونچائی تک جھیل بھر جائے پھر یہ اتنا روپیہ کیوں ضائع کیا جا رہا ہے ؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔ ایک ضمنی بات ۔ پہلی پلاننگ کے مطابق منگلا ڈیم کی اونچائی موجودہ اُونچائی سے دس میٹر زیادہ تجویز کی گئی تھی 1962ء میں کا م شروع ہونے سے پہلے ڈیم کی سیفٹی [safety] کو مدنظر رکھتے ہوئے اُونچائی دس میٹر کم کر دی گئی تھی ۔ اس لئے اب اُونچائی زیادہ کرنا پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ اس سلسلہ میں میں اور کئی دوسرے حضرات جن میں زیادہ تر انجنیئر ہیں اخباروں میں خط اور مضامین لکھ چکے ہیں مگر ہماری حکومت کو کسی کی پرواہ نہیں ۔

میرا روزہ ہے ؟

سب بزرگان ۔ بہنوں ۔ بھائیوں ۔ بھتیجیوں ۔ بھتیجوں ۔ بھانجیوں اور بھانجوں کو رمضان مبارک ۔ اللہ آپ سب کو اور مجھے بلکہ تمام مسلمانوں کو رمضان کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

آج پاکستان میں دوسرا روزہ ہے ۔ میں اس اظہارِ خواہش میں تاخیر کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ وجوہ زیادہ تر دنیاوی ہی ہیں ۔ دو فوتگیاں ہو گئیں اور کچھ دوسرے عُجلت طلب گھریلو کاموں نے پچھلے کچھ دن سے گھیرے رکھا ۔

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ ہر برائی سے بچنے کا نام ہے مگر پرانے تجربات بہت دِل شکن ہیں

ایک صاحب سنیما ہاؤس سے باہر نکلے تو ان سے پوچھا “آپ کا روزہ نہیں ہے کیا ؟” جواب دیا “روزے سے ہوں ۔ بس وقت گذارنے کیلئے آ گیا تھا”۔ آجکل سنیما ہاؤس تو لوگ کم ہی جاتے ہیں گھر میں ہی وی سی آر پر وڈیو کیسٹ یا کمپیوٹر پر سی ڈی لگا کر دیکھ لیتے ہیں ۔

روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا ۔ کم تولنا ۔ ناقص مال بیچنا تو عام سی بات ہے

غیبت کرنا ۔ چغلی کھانا اور کسی لڑکی یا عورت کی طرف جان بوجھ کر دیکھنا تو وطنِ عزیز میں گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا ۔

کسی پر گرمی کھانا تو شاید روزے میں فرض سمجھا جاتا ہے ۔

جس روزے کا اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی نے حُکم دیا ہے وہ مندرجہ بالا کسی بھی عمل یا کوئی دوسری غلطی سے ناقص ہو جاتا ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی ذی شعور شخص ناقص مال لینا پسند نہیں کرتا ۔ اگر مندرجہ بالا میں سے یا کوئی اور کئی غلطیاں ہو جائیں تو روزہ فاقہ بن جاتا ہے ۔

باسٹھواں یوم آزادی

 آؤ بچو ۔ سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر دی ہم نے قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد

آج آنے والی رات کو 11 بج کر 57 منٹ پر سلطنتِ خداداد پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے پورے 61 سال ہو جائیں گے ۔ میں کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ میں آزادی کی سالگرہ مبارک تو ہر سال ہی لکھتا ہوں اور اب یہ الفاظ ہی حالات نے پھیکے پھیکے کر دئیے ہیں ۔ آزادی کے 61 سال بعد بھی ہم پسماندگی اور پریشانی کا شکار کیوں ہیں ؟ اس پر غور کر کے ہمیں اپنی خامیاں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ جتنی جلد یہ خامیاں دور ہوں گی اتنی ہی تیز رفتاری سے ہمارا ملک ترقی کرے گا ۔ الحمدللہ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمارے مُلک کو ہر قسم کی نعمت سے مالامال کیا ہے لیکن ہموطنوں کی ناسمجھی کی وجہ سے قوم تنزل کا شکار ہے ۔

اندرونِ وطن

سب حقوق کا راگ الاپتے ہیں اور حقوق کے نام پر لمبی لمبی تقاریر اور مباحث بھی کرتے ہیں لیکن دوسروں کا حق غصب کرنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ سڑک پر اپنی گاڑی میں نکلیں تو دوسری گاڑیوں میں سے اکثریت کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح آپ سے آگے نکل جائیں یا آپ سے پہلے مُڑ جائیں ۔ چوراہے پر بتی ابھی سبز ہو نہیں پاتی کہ لوگ گاڑیاں بھگانے لگتے ہیں ۔ سڑک کے کنارے کھڑے کو کوئی سڑک پار کرنے نہیں دیتا

ہموطنوں کی اکثریت کو ہر چیز غیرملکی پسند ہے ۔ اپنے وطن کی بنی عمدہ چیز کو وہ حقیر جانتے ہیں اور دساور کی بنی گھٹیا چیز کو عمدہ سمجھ کر خریدتے ہیں ۔ کئی بار میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ کوئی صاحب دساور کی بنی چیز زیادہ دام دے کر خرید لائے اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ پاکستان کی بنی ہوئی ہے اور کم قیمت پر ملتی ہے ۔ مقامی دکاندار جب گاہکوں کی نفسیات تبدیل کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے مال پر فرانس ۔ جرمنی ۔ جاپان یا چین کا بنا ہوا لکھوانا شروع کر دیا ۔ میں اور دفتر کا ساتھی بازار کچھ خرید کرنے گئے وہاں ایک چیز پر چینی یا جاپانی زبان میں کچھ لکھا تھا ۔ اتفاق سے قریبی دکان سے دو جاپانی کچھ خرید رہے تھے ۔ میرا ساتھی وہ چیز لے کر ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا یہ جاپان کا بنا ہوا ہے تو وہ مسکرا کر کہنے لگے کہ یہ لکھا ہے پاکستان کا بنا ہوا

ملبہ یا کُوڑا کرکٹ بنائی گئی جگہ کی بجائے اپنے گھر کے قریب جہاں بھی خالی پلاٹ یا جگہ ہو وہاں انبار لگا دینا اپنی خُوبی سمجھا جاتا ہے ۔ قومی یا دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچانا شاید بہادری سمجھا جاتا ہے اور بجلی کی چوری کئی ہموطنوں کی فطرت ہے اور وہ اسے اپنی عقلمندی یا چابکدستی سمجھتے ہیں ۔ دکاندار مال کا عیب گاہک کی نظروں سے اوجھل کر کے عیب دار مال بیچتے ہیں

میرے ہموطن ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں پاکستان میں کیا رکھا ہے ؟ یا کہہ دیں گے یہ بھی کوئی ملک ہے ۔ اپنے ہموطنوں کے متعلق کہیں گے کہ سب چور ہیں ۔ اس وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے آپکو بھی چور کہہ رہے ہیں

بیرونِ وطن

بیرونِ وطن ہموطنوں کی اکثریت بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو نیچا دِکھانے پر تُلے رہتے ہیں ۔ گو اپنا یہ حال کہ عمر برطانیہ میں گذاری مگر صحیح انگریزی بولنا اور لکھنا نہ سیکھا ۔ سعودی عرب میں بیس پچیس سال رہے اور قرآن شریف صحیح طور پڑھنا نہیں آتا ۔

ایک صاحب جو برطانوی شہری ہیں پاکستان آئے ۔ ایک پتلون مجھے دکھا کر کہنے لگے “یہ میں نے لندن سے خریدی ہے ۔ ایسی اچھی کوئی پاکستان میں بنا سکتا ہے ؟” میں نے پتلون پکڑ کر دیکھی تو خیال آیا کہ یہ کپڑا تو وطنِ عزیز میں ملتا ہے ۔ میں نے پتلون بنانے والی کمپنی کا نام ڈھونڈنا شروع کیا ۔ پتلون کے اندر کی طرف ایک لیبل نظر آیا جس پر انگریزی میں لکھا تھا “پاکستان کی بنی ہوئی”۔

کچھ سالوں سے ایک نیا موضوع مل گیا ۔ “پاکستان خطرناک مُلک ہے ۔ وہاں روزانہ دھماکے ہوتے ہیں ۔ جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے”۔ جس کو دیکھو وہ ہر باعمل مسلمان کو دہشتگرد قرار دے رہا ہے ۔

میں پاکستان سے باہر درجن بھر ملکوں میں گیا ہوں اور آٹھ دس دوسری قوموں سے میرا واسطہ رہا ہے ۔ میں نے کسی کے منہ سے اپنے ملک یا قوم کے خلاف ایک لفظ نہیں سُنا لیکن جس ملک میں بھی میں گیا وہاں کے پاکستانی یا جن کے والدین پاکستانی تھے کو پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف وہاں کے مقامی لوگوں کے سامنے باتیں کرتے سنا ۔

کاش ہموطن ایک قوم بن جائیں اور ہم صحیح طور سے یومِ پاکستان منا سکیں

کیا دین اس دنیا کے کاروبار سے لاتعلق ہے ؟

مادیت پرستی نے دنیا کو اتنا محسور کر دیا ہے کہ آج کے دور کا انسان حقائق کو تسلیم کرنا تو کُجا حقائق سمجھنے کی بھی کوشس نہیں کرتا اور صرف اپنے تخلیق کردہ مادہ اور اطوار کو ہی حقیقت سمجھتا ہے ۔ انسان کی دین سے دُوری کا بنیادی سبب بھی یہی ہے ۔ ہم لوگ طبعیات ۔ کیمیا ۔ ریاضی ۔ معاشی ۔ معاشرتی ۔ وغیرہ مضامین کی کتابوں کو جس انہماک اور محنت کے ساتھ پڑھتے اور یاد رکھتے ہیں اگر اسی طرح دین کی بنیادی کتاب “قرآن شریف” کو بھی پڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے سمجھ نہ سکیں ۔ جس قوم کے افراد کا یہ حال ہو کہ دوسرے مضامین کی سینکڑوں سے ہزاروں صفحات پر مشتمل غیر زبان میں لکھی کُتب کے مقابلہ میں اسلامیات کی پچاس صفحوں کی کتاب بھی بوجھل محسوس ہو ایسے افراد سے دین کو سمجھنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ۔

آمدن برسرَ مطلب ۔ دین ہے کیا ؟
دنیا میں ہر مصنوعی پرزہ کے استعمال کا طریقہ اس کے ساتھ لکھ کر دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی احتیاطی تدابیر [Procedure; Operation layout or Process chart; Does and don’ts; Warning, etc] ہوتی ہیں ۔ مختلف اداروں میں کام کرنے والوں کو بھی لکھا ہوا یا زبانی طریقہ کار [Job description] مہیا کیا جاتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ۔ اسی طرح ہر اچھے معاشرہ میں زندگی گذارنے کا طریقہ بھی مروّج ہوتا ہے ۔

ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہر کام کے کرنے کے طریقہ کو آج کی ترقی یافتہ دنیا نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اسے آئی ایس او [ISO 2000 to ISO 14000] میں شامل کر لیا ہے اور مشہور ادارے اور کارخانے اس کی سندیں حاصل کرتے پھر رہے ہیں ۔

دین یہ کہتا ہے کہ اچھی زندگی کس طرح گذاری جاتی ہے ۔ اپنے خاندان کے افراد سے ۔ رشتہ داروں سے ۔ محلے والوں سے ۔ ہمسفر سے ۔ مُحتاجوں سے ۔ اپنے افسر سے ۔ اپنے ماتحت سے غرضیکہ ہر انسان سے اچھی طرح پیش آنے کا دین حُکم دیتا ہے اور دین جسم کی صفائی ۔ لباس ۔ کھانا پینا ۔ چلنا پھرنا ۔ لین دین ۔ تجارت ۔ ملازمت ۔ زندگی کے ہر شعبہ اور ہر فعل کے متعلق خوش اسلوبی کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ اور ہر بات تفصیل سے بتاتا ہے ۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ چودہ صدیاں قبل قرآن شریف میں جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے احکام آئے آج کے جدید ترین انتظامی قوانین اُنہی سے ماخوذ ہیں مگر عمدگی میں اتنے کامل نہیں ہیں ۔ بات سمجھ سے باہر یہ ہے کہ اگر دین کو دنیا سے الگ ہی رکھنا ہے تو پھر دین کیا چوپایوں اور پرندوں کیلئے ہے ؟

نعرہ اور عمل

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ چند صدیاں قبل نعرہ کسی شخص ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم کی شناخت ہوا کرتی تھی ۔ اپنے اس نعرے یا قول کی خاطر فرد ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم اپنی جان تک قربان کر دیتے تھے مگر یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ کوئی کہے “نعرہ کچھ ہے اور عمل کچھ اور”۔ نعرے اب بھی ہیں اور پرانے وقتوں کی طرح حِلم سے نہیں بلکہ ببانگِ دُہل لگائے جاتے ہیں مگر اب ان نعروں کا مقصد عام طور پر اپنے گھناؤنے عمل پر پرہ ڈالنا ہوتا ہے ۔

دورِ حاضر میں نان نہاد ترقی یافتہ دنیا کے سب سے بڑے نعرے ” امن” اور “انسان کی خدمت” ہیں جبکہ یہ نعرے لگانے والوں کے عمل سے ان کا نصب العین دنیا میں دہشتگری اور اپنی مطلق العنانی قائم کرنا ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن ہمیں غیروں سے کیا وہ ہمارے سجّن تو نہیں ہوسکتے ۔

آج ہماری قوم کی حالت یہ ہے کہ اللہ کی آیتوں کی بجائے شاعروں کے شعروں پر شاید زیادہ یقین ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ تْجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ۔ اسلئے کسی سے کُچھ کہا جائے تو وہ یہی جواب دیتا ہے ۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی نعروں کی ۔ افواجِ پاکستان یعنی مملکتِ خداد داد پاکستان کی فوج کا نعرہ ہے
ایمان ۔ تقوٰی اور جہاد فی سبیل اللہ

میں جب وطنِ عزیز میں کسی فوجی علاقہ کے سامنے سے گذرتے ہوئے یہ نعرہ لکھا پڑھتا تھا تو سوچا کرتا تھا کہ جس نعرے پر عمل نہیں کر سکتے وہ لکھا کیوں ہے ؟ لیکن پچھلے دو سال سے تو عمل اس نعرے کے بالکل خلاف ہے جس نے مجھے پریشان کر رکھا ہے ۔ کبھی باجوڑ کے قصبہ ڈماڈولا کے دینی مدرسے کے درجنوں معصوم کم عمر طالب علموں کی لاشیں نظر آکر تڑپاتی ہیں اور کبھی جامعہ حفصہ میں گولیوں اور گولوں سے ہلاک کی جانے والی اور سفید فاسفورس کے گولوں سے زندہ جلائی جانے والی 4 سال سے 17 سال کی سینکڑوں معصوم ۔ یتیم یا لاوارث طالبات کی یاد پریشان کرتی ہے ۔ تو کبھی اپنے وطن میں چلتے پھرتے یا گھر سے اُٹھا کر غائب کئے گئے ہموطنوں کی ماؤں کے نہ رُکنے والے آنسو اور ان کے بلکتے بچوں کے اُداس سپاٹ چہرے خُون کے آنسو رُلاتے ہیں ۔ کہیں بلوچستان آپریشن ہے تو کہیں سوات مالاکنڈ آپریشن ۔

سوچتا ہوں کہ اگر ہمارے فوجی جرنیلوں کو دین اور وطن سے کوئی محبت نہیں تو وہ یہ نعرہ ختم کیوں نہیں کر دیتے ۔ کیا اُنہیں احساس ہے کہ یہ نعرہ لکھ کر اور پھر اس کی خلاف ورزی کر کے وہ دوہرے جُرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ؟