Category Archives: ذمہ دارياں

احوالِ قوم ۔ 2 ۔ نبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کی تعليم

تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
ميری حد سے رُتبہ نہ میرا بڑھانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انساں ہیں واں جس طرح سرفگندہ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ
بنانا نہ تُربت کو میری صنم تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ کرنا مری قبر پر سر کو خَم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سے کم تم۔ ۔ کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم
مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی

سکھائی انہیں نوعِ انساں پہ شفقت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہا ہے یہ اسلامیوں کی علامت
کہ ہمسایہ سے رکھتے ہیں وہ محبت۔ ۔ ۔ شب و روز پہنچاتے ہیں اس کو راحت
وہ جوحق سے اپنے لئے چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہر بشر کے لئے چاہتے ہیں
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کسی کے گر آفت گزر جائے سر پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
ڈرایا تعصب سے ان کو یہ کہہ کر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ زندہ رہا اور مرا جو اسی پر
ہوا وہ ہماری جماعت سے باہر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ساتھی ہمارا نہ ہم اس کے یاور
نہیں حق سے کچھ اس محبت کو بہرہ۔ ۔ کہ جو تم کو اندھا کرے اور بہرہ

بہتوں کا بھلا ہو گا

ہمارا ملک اور ہماری قوم تاريخ کے بد ترين سيلاب سے دوچار ہيں جس نے پونے دو کروڑ ہموطنوں کو متاءثر کيا ہے اور ملک کے بہترين زرعی علاقہ کو تباہ کر ديا ہے ۔ کھڑی فصليں ۔ برداشت کے بعد ذخيرہ کی گئی لاکھوں ٹن اجناس اور ہزاروں مويشی بھی سيلاب کی نذر ہو گئے ہيں ۔ اللہ کی طرف سے ہماری اجتماعی غلطيوں پر سرزنش ايک طرف مگر ہميں يہ نہيں بھولنا چاہيئے کہ انسان خود اپنی تباہی کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ ہماری بے راہ روی تو سزا کی مستحق ہے ہی ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم صرف اپنے ماضی پر روتے اور گذر جانے والے اور موجود اپنے مفروضہ مخالفوں کو کوستے رہے مگر اپنے مستقبل کيلئے سوائے اپنی ذاتی جيبيں بھرنے کے کچھ نہ کيا

اب وقت ہے جاگنے کا اور دوسروں پر الزام دھرنے کی بجائے خود محنت کرنے کا ۔ يہ وقت بھی لد گيا تو پھر تباہی کے سوا کچھ نہيں

آج مجھے محمد سعد صاحب کی ايک چِٹھی ملی ۔ جو سوال انہوں نے پوچھا ہے وہ بہت سے ہموطنوں کے ذہنوں ميں کلبلا رہا ہو گا ۔ اس لئے ميں محمد سعد صاحب کی چِٹھی اور اس کا ميری طرف سے جواب نقل کر رہا ہوں

محمد سعد صاحب کی چِٹھی

السلام علیکم۔
کچھ دن پہلے آپ نے کسی کے بلاگ پر وزیرِ اعلیٰ صوبہ خيبر پختونخوا (یا شاید کسی اور عہدیدار) کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ

اگر کالاباغ ڈیم ہوتا تو فلاں فلاں علاقے ڈوب چکے ہوتے۔

اس وقت بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں آئی اور اب تو کافی دن گزر جانے کے باعث مجھے کچھ بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔ ذرا آسان الفاظ میں سمجھا دیجیے گا۔ شکریہ۔
والسلام۔

ميرا جواب

السلام علیکم و رحمة اللہ

جو فقرہ آپ نے مجھ سے منسوب کيا ہے اور ميں نے اسے موٹا اور

سُرخ

کر ديا ہے ۔ ايسا ميں نے نہ کبھی لکھا ہے اور نہ کبھی کہا ہے ۔ وزير اعلٰی خيبر پختونخوا امير حيدر ہوتی صاحب نے کہا تھا کہ “اگر کالا باغ ڈيم بن جاتا تو اس سے بہت زيادہ نقصان ہوتا “۔ اس بيان کا جغرافيائی اور منطقی جواز موجود نہيں ہے

شايد آپ ہی نے کبھی کہا تھا کہ آپ کو اُردو کم کم آتی ہے ۔ سو اب ميں کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو اُردو کی سمجھ کم ہے
اچھا اب ميں آسان طريقہ سے اپنے خيالات لکھتا ہوں

پہلے آپ مندرجہ ذيل ربط پر گوگل نقشہ کھولئے

http://www.nationsonline.org/oneworld/map/google_map_pakistan.htm

اس نقشہ ميں ميانوالی تلاش کيجئے جو ہائی وے اين 60 پر ہے
ميانوالی کے مغرب ميں لکی مروت ہے
لکی مروت کے جنوب ميں ذرا دور ڈيرہ اسمٰعيل خان ہے

اگر کالا باغ ڈيم بن گيا ہوتا تو

1 ۔ صوبہ خيبر پختون خوا ميں شامل ڈيرہ اسمٰعيل خان ۔ اس کے ارد گرد کا علاقہ اور اس کے شمال ميں لکی مروت تک کا علاقہ سيلابی پانی ميں ڈوبتے سے بچ جاتا

2 ۔ صوبہ پنجاب ميں ميانوالی ۔ اس کے ارد گرد کا علاقہ اور ڈيرہ غازی خان اور ملتان سميت ميانوالی کے جنوب کا علاقہ سيلابی پانی ميں ڈوبتے سے بچ جاتا

3 ۔ کالا باغ ڈيم بنانے کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان سيلاب سے محفوظ رہتے

اب آپ ميانوالی پر نظر رکھتے ہوئے شمال کی طرف جائيں يعنی نقشے کو نيچے کی طرف سرکاتے جائيں تو آپ کو ماڑی انڈس اور کالا باغ آمنے سامنے لکھا نظر آئے گا ۔ مزيد شمال کی طرف جائيں تو پہاڑ ہی پہاڑ ہيں آبادی نہيں ہے

نوشہرہ کالا باغ سے بہت دور ہے ۔ ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ نوشہرہ کی سطح کالا باغ ڈیم کی اُونچائی کی سطح سے بہر اُوپر ہے ۔ نوشہرا تک تو پانی جائے گا ہی نہیں ۔ فی زمانہ نوشہرہ میں سیلاب آتے ہیں کیا وہ کالا باغ ڈیم کی وجہ سے ہیں ؟

فی امان اللہ
الداعی الخير
افتخار اجمل بھوپال

سيلاب زدگان کی امداد

ميں ويب گردی کر رہا تھا کہ سيلاب زدگان کی امداد کا جائزہ لوں ۔ مجھے صرف ايک سرکاری ويب سائٹ ملی ہے جو حکومتِ پنجاب کی ہے ۔جس کے مطابق

اب تک موصول ہو نے والی امداد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 191710000 روپے
خيموں کی کُل تعداد جو مطلوب ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100000
جتنے خيمے متاءثرين کيلئے بھيج ديئے گئے ہيں ۔ ۔ ۔ 26538

اس ميں ايسے افراد اور جماعتوں کيلئے رہنمائی موجود جو کچھ کرنا چاہتے ہيں ۔ مثال کہ طور پر

اگر آپ ريسکيو يا کسی قسم کی مدد چاہتے ہيں
يا
جو ريليف کا کام آپ کر رہے ہيں اس ميں کسی قسم کی مدد يا سہولت چاہتے ہيں
تو مندرجہ ذيل نمبر پر ٹيليفوں کيجئے

1124

اگر آپ اين جی او ہيں اور امداد پہنچانے کيلئے معلومات حاصل کرنا چاہتے ہيں يا تجاويز دينا چاہتے ہيں
يا
آپ رضاکارانہ طور پر امدادی کام ميں حصہ لينا چاہتے ہيں
يا
آپ ايک ريليف کيمپ يا ڈسٹريبيوشن سينٹر اپنانا چاہتے ہيں
تو
مندرجہ ذيل پتہ يا ٹيليفون يا فيکس پر رابطہ کيجئے

ريليف اينڈ کرائسس منيجمنٹ ڈيپارٹمنٹ ۔ 8/48 ۔ لارنس روڈ ۔ لاہور

ٹيليفون نمبر ۔ لاہور کا کوڈ ہے 042
99204408
99204404
99204403

فيکس نمبر
99204405
99204439

ريليف کنٹرول سينٹر
99200549
99201253

پوليس کنٹرول روم ۔ [ان نمبروں پر غير ممالک سے سکائپ کے ذريعہ بات کی جا سکتی ہے]
+92-42-9211879 begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting begin_of_the_skype_highlighting              +92-42-9211879      end_of_the_skype_highlighting
+92-42-9211880

مزيد تفصيل کيلئے يہاں کلِک کيجئے

کيا کريں ؟ کيسے کريں ؟

جب سے سيلاب زدگان کی مدد کے متعلق بات شروع ہوئی ہے ” کيا کريں ؟ کيسے کريں ؟ ” کافی سننے ميں آيا ۔ دريں اثنا مجھے ايک قول ياد آيا ” تعليمی سند اس بات کا اشارہ ہے کہ اب عملی زندگی ميں قدم رکھا جا سکتا ہے”

يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ تجربہ کا کوئی نعم البدل نہيں ۔ مثال کے طور پر ايک آدمی تيراکی کے جتنے بھی تحريری امتحان پاس کر لے جب تک پانی ميں ڈبکی نہيں لگائے گا تيرنا نہيں سيکھ سکتا ۔ آج ہم جن لوگوں کو سائنس کا اُستاد مانتے ہيں اُنہوں نے يہ مقام اسناد کی وجہ سے حاصل نہيں کيا تھا بلکہ يہ مقام اُنہوں نے محنت اور تجربے سے حاصل کيا

چنانچہ بجائے فلسفہ شروع کرنے کے بہتر ہو گا کہ جو تجربہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی توفيق اور اللہ ہی کی رہنمائی سے ہميں اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کے بعد امداد کے سلسلہ ميں حاصل ہوا اور اب سيلاب زدگان کی امداد کيلئے اسے اللہ کے فضل سے بخير و خُوبی استعمال کيا جا رہا ہے بيان کيا جائے

زلزلہ کی تباہی کے بعد ہم نے امداد کی پہلی کھيپ انجمن ہلالِ احمر کے حوالے کی ۔ دو دن گذرنے کے بعد بھی کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ امداد بھيجی بھی گئی ہے کہ نہيں ۔ امداد کا حجم ايک ٹرک سے زيادہ ہونے کے باعث کسی کونے کھدرے ميں تو چھپ نہيں سکتی تھی

اس کے بعد ہمارے علم ميں آيا کہ جامعہ فريديہ اسلام آباد والے بندوبست کر رہے ہيں ۔ ميں نے لال مسجد جاکر حالات معلوم کئے ۔ اُنہوں نے کہا ” وہاں نہ چولہا ہے نہ ديگچی نہ رکابی نہ پيالہ ۔ اسلئے بھنے ہوئے چنے ۔ کھجوريں ۔ چھوہارے ۔ بسکٹ وغيرہ کا بندوبست کريں ۔ دوسرے دن مجھ سے چھوٹا بھائی ايک سوزوکی پک اپ بھر کر لال مسجد پہنچا ۔ ميں کار ميں براہِ راست وہاں پہنچا ۔ يک دم جامعہ فريديہ کے چند اساتذہ اور طلباء آ گئے اور بورياں اُٹھا کر لے گئے ۔ آخری بوری مرحوم عبدالرشيد غازی نے اٹھائی تھی ۔ يہ عبدالرشيد غازی صاحب سے ميری دوسری اور آخری ملاقات تھی

دوسرے دن معلوم کيا تو وہ لوگ خود سوچ ميں پڑے تھے کہ خالی ٹرک واپس کيوں نہ آيا ۔ انہوں نے تين ٹرک اور بھيجے اور ساتھ ايک ايسے آدمی کو بھيجا جس کے پاس موبائل فون تھا ۔ اس نے بھی رات تک رابطہ نہ کيا ۔ اگلے دن اس کا فون آيا کہ متاثرہ علاقے تک جا نہيں سکتے اور نہ وہاں موبائل کام کرتا ہے کيونکہ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے ۔ وہ واپس مانسہرہ شہر آ کر ٹيليفون کر رہا ہے ۔ اس نے بتايا کہ ٹرک کھڑے کر کے سامان کندھوں پر لاد کر ميلوں پيدل چل کے پہنچايا جا رہا ہے

اس پر ہم لوگوں نے سوچا کہ کيوں نا ہم خود ايک ايسی جماعت تشکيل ديں جس ميں کندھوں پر سامان رکھ کر پہنچانے والے بھی ہوں اور کم از کم ايک آدمی ايسا شامل ہو جو علاقہ سے اچھی طرح واقف ہو ۔ مينجمنٹ ميرے سب سے چھوٹے بھائی جو راولپنڈی ميڈيکل کالج ميں پروفيسر اور ڈسٹرکٹ ہيڈکوارٹر ہسپتال راولپنڈی ميں سرجری يونٹ کا سربراہ ہے نے اپنے ذمہ لی ۔ تين دنوں ميں خيموں ۔ لوہے کی چادروں ۔ پينے کے پانی سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے 10 لٹر والے کينوں اور کھانے کا خشک سامان سے لدے تين ٹرک تيار ہو گئے اور ميرا بھائی اپنی کار پر قافلے کی کمان کرتا ہوا روانہ ہوا ۔ ايک پک اپ ميں چند لوگ آگے بھيج ديئے کہ جا کر صورتِ حال کا جائزہ لے کر امدادی سامان کا خيال رکھتے ہوئے متاثرين کے ناموں کے ساتھ فہرست تيار کر ليں کہ کس کی کيا ضروت ہے ؟ اور انہيں بتا ديں کہ انہيں کوئی تکليف کرنے کی ضرورت نہيں ۔ جہاں وہ بيٹھے ہيں وہيں انہيں مطلوبہ چيزیں مل جائيں گی جو فی الحال تھوڑی ہيں بعد ميں اِن شاء اللہ اور آ جائيں گی

ٹرک جہاں تک جا سکتے تھے گئے ۔ وہاں پہلے بھيجے گئے نمائندوں ميں سے ايک آدمی اپنی پک اپ کی بجائے ايک بڑی پک اور اس کے ڈرائيور کے ساتھ کھڑا تھا جو علاقہ سے اچھی طرح واقف اور ماہر ڈرائيور تھا ۔ اس پک اپ والے نے کہا کہ “صرف ڈيزل آپ ڈلواتے رہيں ميں مزدوری نہيں لوں گا”۔ اسے جذبہ کہا جاتا ہے ۔ ميرا بھائی پک اپ پر پہلے پھيرے ميں گيا ۔ سامان پک اپ پر لاد کر دو دن ليجاتے رہے کيونکہ راستے ختم ہو چکے تھے پہاڑ کے اوپر نيچے جان ہتھيلی پر رکھے ہوئے سفر کرتے رہے

وہاں اپنا آدمی فہرست کے ساتھ موجود تھا وہ پک اپ کا سامان ديکھ کر بتاتا جاتا کہ يہ فلاں کو دے ديں يہ فلاں کو ۔ اگر کوئی از خود سامان لينے آگے بڑھتا تو اسے نہائت تحمل سے کہا جاتا کہ “جن کے نام لکھے گئے ہيں ان سب کو ملے گا ۔ صرف اپنا سامان اٹھانے ميں آپ ہماری مدد کر سکتے ہيں”

تيسرے دن ان کی واپسی ہوئی ۔ اس کے بعد ايک ايک ہفتہ کے وقفہ سے مزيد دو پھيرے لگائے گئے جن ميں ايک بار ميرا دوسرا بھائی بھی ساتھ گيا اور ايک بار ميری بھابھی بھی ساتھ گئيں تاکہ عورتوں کی مخصوص بيماريوں کے سلسلہ ميں ان کا معائنہ کر سکيں ۔ وہ ڈاکٹر ہيں ۔ مردوں اور عورتوں کی عام بيماريوں کے سلسہ ميں ميرا بھائی ہی انہيں ديکھتا رہا

اللہ کی مہربانی سے سيلاب کے سلسہ ميں بھی متذکرہ بالا تجربہ دہرايا گيا ہے اور کسی قسم کی بھيڑ چال نہيں ہوئی ۔ سب نے بڑے تحمل کے ساتھ سامان وصول کيا

زلزلہ کے سلسلہ ميں راستہ بہت دشوار گزار ہو گيا تھا اور وہاں فوری طور پر عارضی گھر بنانے کی ضرورت تھی کيونکہ ٹھنڈا علاقہ تھا اور موسم بھی سرد تھا ۔ سيلاب کے اثر سے راستہ زيرِ آب ہو گيا ہے اور پک اپ کی بجائے کشتی سے کام لينا پڑتا ہے

امدادی اداروں کے متعلق استفسار کيا جاتا ہے ۔ زلزلہ کے بعد سب سے زيادہ اور محنت سے امدادی کام ان لوگوں نے کيا جہنيں ہماری حکومت اور بہت سے ہموطن انتہاء پسند کہتے ہيں ۔سب سے آگے جماعت الدعوہ اس کے بعد جماعت اسلامی کا الخدمت ۔ چھوٹی چھوٹی جماعتيں مثال کے طور پر الشمس ۔ البدر ۔ اور ہم جيسے لوگوں نے بھی حصہ ڈالا

اب سيلاب ميں سب سے آگے پاکستان کے فوجی ہيں پھر وہی لوگ پيش پيش ہيں جنہيں انتہاء پسند کہا جاتا ہے اور ہم جيسے لوگ اپنی ہمت کے مطابق کام کر رہے ہيں ۔ رفاہی اداروں ميں جماعتِ اسلامی کا الخدمت اور فلاحِ انسانيت قابلِ ذکر ہيں

اگر لوگ باجماعت ہو کر مربوط طريقہ سے خود جا کر امداد کريں تو اس سے جو لُطف اور اطمينان حاصل ہو گا وہ کرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا اور اس کا اجر بھی سب سے زيادہ ہے

ايک درخواست ہے کہ متاءثرين کی بھاری تعداد کھاتے پيتے لوگ تھے ۔ از راہِ کرم اُنہيں پرانے کپڑے دے کر ان کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کيجئے ۔ زلزلہ کے بعد پرانے کپڑے پہنچانے سے نہ صرف متاءثرين کی عزتِ نفس اتنی مجروح ہوئی کہ زيادہ تر لوگوں نے آنسو بہاتے ہوئے لينے سے انکار کرديا بلکہ ڈھيروں کے ڈھير کپڑے ضائع ہوئے

قرآن شریف کا اَدَب

لوگ قرآن شریف کا اَدَب اِس طرح کرتے ہیں کہ اسے چُومتے ہیں آنکھوں سے لگاتے ہیں اور مخمل میں لپیٹ کر اُونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں تاکہ اُس کی بے اَدَبی نہ ہو ۔ کیا قرآن شریف یا حدیث میں اِس قسم کی کوئی ہدائت ہے ؟

بلاشُبہ قرآن شريف کا احترام کرنا چاہيئے اور اس کو پاک صاف ہو کر ہاتھ لگانا چاہيئے ليکن قرآن شریف کا اَدَب یہ ہے کہ ہم اسے اچھی طرح سمجھ کر اس پر صحیح طرح عمل کریں لیکن ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہت کم ہیں جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی کم جو اس پر عمل کرنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ ۔ پڑھے لکھوں ميں بھی ايسے مسلمان ہيں جنہوں نے قرآن شريف پڑھا ہی نہيں

لوگوں نے قرآن و حدیث سے مبرّا (بعض مخالف) اصُول خُود سے وُضع کر لئے ہوئے ہیں اور اُن کو اسلامی قرار دے کر اور اُن پر عمل کر کے جنّت کے خواہاں ہیں

کچھ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اللہ رحمٰن و رحیم ہے انہیں بخش دے گا یا تھوڑی سی سزا کے بعد وہ جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے

کچھ مسلمان کہلانے والے ایسے بھی ہیں جو 14 صدیاں پرانے دین کو آج کے ترقّی یافتہ دور میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں

فانی انسان کے بنائے ہوئے سائنس کے کسی فارمولے کو [جو قابلِ تغیّر ہیں] رَد کرنے کے لئے ہمیں سالہا سال محنت کرنا پڑتی ہے لیکن اللہ کے بنائے ہوئے دین کو رَد کرنے کے لئے ہمیں اتنی عُجلت ہوتی ہے کہ سمجھنے کی کوشش تو کُجا قرآن کو صحیح طرح سے پڑھتے بھی نہیں اور رَد کر دیتے ہیں

میرا سامنا ایسے لوگوں سے بھی ہوا جو خود تو عربی نہ جانتے ہیں اور نہ سیکھنا چاہتے ہیں مگر اُن کا استدلال ہے کہ قرآن شریف کے سب تراجم غلط ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ جب میں نے اُنہیں ایسے تراجم دکھانے کا کہا جو آپس میں مختلف ہیں تو جواب ندارد ۔ معلوم ہوا کہ کبھی قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا ہی نہیں یا قرآن شریف ہی نہیں پڑھا

کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن شریف میں تبدیلی کا عندیہ دینے والوں کو عملی یا مفید راستہ [pragmatic approach] قرار دیتے ہیں لیکن قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنا گوارہ نہیں کرتے

میں یقین رکھتا ہوں کہ قرآن شریف کی عربی میں تلاوت ثواب بھی کا کام ہے اور روزانہ تلاوت برکت کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہی نہیں تجربہ بھی ہے کہ اگر عربی میں تلاوت باقاعدہ جاری رکھی جائے تو مطلب سمجھنے میں ممِّد ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن جو بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ویسے تو ہم قرآن شریف کو سمجھنا برطرف کبھی کھول کر پڑھیں بھی نہیں اور نہ اس میں لکھے کے مطابق عمل کریں مگر کسی کے مرنے پر یا محفل رچانے کے لئے فرفر ایک دو پارے پڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ فرض پورا ہو گیا

ميں دو مواقع پر حيران و پريشان ہوا
جب ہم طربلس لبيا ميں تھے تو ايک ہموطن نے قرآن خوانی کيلئے بلايا ۔ ہمارے ايک دوست سے ان کی جان پہچان تھی وہ مجھے ساتھ لے گئے ۔ ہم کل 6 لوگ تھے جنہوں نے ايک قرآن شريف پڑھا ۔ جب ہم پڑھ چکے تر ايک ہموطن آئے اور گويا ہوئے “ميری طرف سے بھی ايک سپارہ کر ليجئے” ۔ کسی نے پوچھا ” کونسا ؟” جواب ديا “کوئی سا بھی کر ليں “۔ ہم ہکا بکا رہ گئے
ميں ملک سے باہر گيا ہوا تھا تو ايک رشتہ دار فوت ہو گئے ۔ واپس پہنچا تو معلوم ہوا ۔ ميں فاتحہ کہنے دوسرے شہر ان کے گھر گيا ۔ وہاں پہنچا توقرآن خوانی ہو رہی تھی معلوم ہوا کہ چاليسواں ہے ۔ قرآن خوانی کے بعد دعا شروع ہونے سے قبل صاحبِ خانہ نے کہا کہ اتنے قرآن شريف ختم ہوئے ہيں ۔ تعداد اتنی زيادہ بتائی کہ ميں بھونچکا رہ گيا ۔ قرآن شريف پڑھنے والے بيس بھی نہ تھے ۔ ميں نے بعد ميں پوچھا کہ” اتنی زيادہ بار قرآن شريف کس نے پڑھے ہيں ؟” جواب ملا ” وہ مسجد ميں لڑکے پڑھتے ہيں نا ۔ ان سے لے لئے ہيں”۔

اللہ ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام خرافات سے بچائے ۔ آمین

زندگی کا مقصد

استدعا ۔ دو نظموں کی صورت ميں

اپنے لئے تو سب جيتے ہيں اس جہاں ميں ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
سب سے بڑی عبادت ۔ انساں سے پيار کرنا ۔ ۔ ۔ اپنا لہو بہا کر دوسروں کی مانگ بھرنا
انساں وہی بڑا ہے ۔ جس نے يہ راز جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
آئے جو کوئی مُشکل ۔ ہمت سے کام لينا ۔ ۔ ۔ گِرنے لگے جو کوئی ۔ تم بڑھ کے تھام لينا
انساں وہی بڑا ہے ۔ جس نے يہ راز جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

‘ = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = =

کوشاں سبھی ہیں رات دن اک پل نہیں قرار ۔ ۔ ۔ ۔ پھرتے ہیں جیسے ہو گرسنہ گُرگِ خونخوار
اور نام کو نہیں انہیں انسانیت سے پیار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ بات کیا جو اپنے لئے جاں پہ کھیل جانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سیرت نہ ہو تو صورتِ سُرخ و سفید کیا ہے ۔ ۔ دل میں خلوص نہ ہو تو بندگی ریا ہے
جس سے مٹے نہ تیرگی وہ بھی کوئی ضیاء ہے ۔ ِضد قول و فعل میں ہو تو چاہيئے مٹانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بھڑ کی طرح جِئے تو جینا تيرا حرام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جینا ہے یہ کہ ہو تيرا ہر دل میں احترام
مرنے کے بعد بھی تيرا رہ جائے نیک نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تجھ کو یاد رکھے صدیوں تلک زمانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وعدہ ترا کسی سے ہر حال میں وفا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا نہ ہو کہ تجھ سے انساں کوئی خفا ہو
سب ہمنوا ہوں تیرے تُو سب کا ہمنوا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جان لے ہے بیشک گناہ “دل ستانا”
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو زبردست ہے تو قہرِ خدا سے ڈرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زیردست پر کبھی ظلم و ستم نہ کرنا
ایسا نہ ہو کہ اک دن گر جائے تو بھی ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔۔ پھر تجھ کو روند ڈالے پائوں تلے زمانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مل جائے کوئی بھوکا کھانا اسے کھلانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مل جائے کوئی پیاسا پانی اسے پلانا
آفت زدہ ملے ۔ نہ آنکھیں کبھی چرانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مضروبِ غم ہو کوئی مرہم اسے لگانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل میں ہے جو غرور و تکبر نکال دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نیک کام کرنے میں اپنی مثال دے
جو آج کا ہو کام وہ کل پر نہ ڈال دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا نہیں کسی کو دیتی سدا ٹھکانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایمان و دِین یہی ہے اور بندگی یہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قول ہے بڑوں کا ہر شُبہ سے تہی ہے
اسلاف کی یہی روشِ اولیں رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تجھ سے بھی ہو جہاں تک اپنے عمل میں لانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نفرت رہے نہ باقی ۔ نہ ظلم و ستم کہیں ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقدام ہر بشر کا اُمید آفریں ہو
کہتے ہیں جس کو جنت کیوں نہ یہی زمیں ہو ۔ اقرار سب کریں کہ تہِ دل سے ہم نے مانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

‘ = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = =

شاعر ۔ دونوں کے نامعلوم
پہلی نظم آدھی صدی قبل ريڈيو پاکستان سے سُنی تھی ۔ يہ شايد فلمائی بھی گئی تھی اور شايد پوری ياد بھی نہيں
دوسری نظم کہيں پڑھی اور اپنے پاس لکھ لی تھی

پاکستانی ابھی زندہ ہے

آج کے دبئی کے انگريزی اخبار “گلف نيوز” ميں ايک خبر پڑھ کر تازہ ہوا کا جھونکا آيا اور سينہ کشادہ ہو گيا ۔ ايک 32 سالہ پاکستانی بايزيد شفارس خان 2003ء سے متحدہ عرب امارات ميں ٹيکسی چلا کر اپنی روزی کما رہا ہے اور پاکستان ميں اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے ۔ پچھلے ماہ اپنے کمرے ميں آرام کر رہا تھا کہ ايک ساتھی نے بتايا کہ تين آدميوں نے ايک چور کو پکڑ ليا ہے ۔ بايزيد باہر نکلا تو ديکھا کہ چور ان کی گرفت سے نکلا جا رہا ہے ۔ اُس نے جاکر چور کو قابو کيا ہی تھا کہ وہ تين لوگ چھوڑ کر چلے گئے

بايزيد خان کہتا ہے کہ “ارد گرد کے لوگوں پر مجھے حيرت ہوئی کہ وہ کہہ رہے تھے چھوڑ دو ۔ خواہ مخوا اپنے گلے کيوں مصيبت ڈالتے ہو ۔ اُس کے ساتھی کل کو تُم سے بدلہ ليں گے ۔ ہم نے تو اچھائی کا ساتھ دينا اور برائی کو روکنا سيکھا ہے ۔ اس لئے ميں نے اسے نہ چھوڑا حالانکہ اس نے اپنے آپ کو چھڑانے کی بہت کوشش کی ۔ پوليس کو آنے ميں دير لگی مگر ميں نے اُسے نہ چھوڑا”

کاش ميرے ہموطن اس غريب ٹيکسی ڈرائيور سے ہی کچھ سبق سيکھيں جس نے غير ملک ميں بھی اچھائی اور برائی کو درست طريقہ سے ياد رکھا