Category Archives: ذمہ دارياں

بدلہ انسانوں سے مگر ۔ ۔ ۔

ہم اپنی روز مرّہ کی زندگی ميں خود ہی کچھ مفروضے بنا کر اپنا اوليں حق سمجھتے ہوئے اُن پر بے دھڑک عمل کرتے ہيں ۔ ان ميں سے ايک ہے بدلہ ۔ جب ہم کوئی بھی جنس ليتے ہيں مثال کے طور پر گوشت ۔ گاجريں ۔ سيب ۔ چنے کی دال ۔ وغيرہ تو اس کے بدلے ميں وہی کچھ ديتے ہيں جو اس جنس کے برابر ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر چنے کی دال کا نرخ اگر 50 روپے فی کيلو گرام ہے تو ايک کيلو دال کے بدلہ ميں ہم 50 روپے ہی ديں گے ۔ کبھی 51 روپے يا زيادہ دينا تو کُجا دينے کا سوچيں گے بھی نہيں

جب اختيار ہمارے ہاتھ ميں آجاتا ہے تو ہمارا طرزِ عمل يکسر تبديل ہو جاتا ہے مثال کے طور پر

انسانوں کے ساتھ سلوک
اگر کسی نے ايک گالی دی تو ہم جب تک اُسے حتٰی الوسعت دو چار گلياں دو چار تھپڑ دو چار گھونسے رسيد نہيں کر ليں گے ہمار بدلہ پورا نہيں ہو گا

کسی نے غلطی سے يا جان بوجھ کر ہمارے گھر کے آس پاس کوڑا پھينک ديا ۔ يہ ان کے نوکر کی غلطی ہو سکتی ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ہمسائے سے آرام سے بات کر کے اسے بہتری کی طرف مائل کريں ہمارا بدلہ کم از کم يہ ہوتا ہے کے ہمسائے کو بلا کر بے عزت کيا جائے يا گلی ميں اس کے مکان کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر اُسے گالياں دی جائيں

ہم اپنے گھر کے اندر سے ديوار کے اُوپر سے کوڑا لُڑھکا ديں ۔ وہ ہمسائے کے گھر کے اندر گرے اور ہمسايہ وہ کوڑا واپس پھينک دے تو ہمارے دل کو اس وقت تک اطمينان نہيں آتا جب تک اور کچھ نہيں تو دو چار گالياں واپس پھنکنے والے کو اس کے منہ پر نہ دے ليں

مندرجہ بالا واقعات سب حقائق کی بنياد پر ہيں اور ملک کے بڑے بڑے شہروں سے متعلق ہيں ۔ اب ايک ايسا واقعہ جس نے مجھے ورطے ميں ڈال ديا تھا ۔ ہم 2005ء ميں ڈيفنس فيز 5 کراچی کی ايک کوٹھی ميں کرائے پر رہ رہے تھے ۔ ميں قريبی مارکيٹ سے ايک سرکٹ بريکر لينے گيا ۔ ميں سرکٹ بريکرز ديکھ رہا تھا کہ ايک گاہک نے آکر دکاندار سے کہا کہ “اليکٹريشن چاہيئے” ۔ دکاندار نے خشکی سے کہا کہ “نہيں ہے” ۔ گاہک نے برہمی دکھائی تو دکاندار نے اسے کھری کھری سُنا ديں ۔ نوبت گندھی گاليوں تک پہنچی ۔ جب گاہک چلا گيا تو ميں نے دکاندار کو کہا “ديکھئے آپ دکاندار ہيں ۔ آپ کو گاہک کے ساتھ ايسا سلوک نہيں کرنا چاہيئے”۔ دکاندار بولا “صاحب ۔ پچھلے ماہ انہوں نے اليکٹريشن مانگا ۔ ميں نے اُجرت طے کر کے بھيج ديا ۔ کام کرنے کے بعد اليکٹريشن نے اُجرت مانگی تو آدھے پيسے ديئے ۔ اليکٹريشن نے اسرار کيا تو اُسے تھوڑے سے اور پيسے دے کر دھکا ديا اور کہا جا اب يہاں سے ۔ اليکٹريشن نے پھر اسرار کيا تو تين بھائيوں نے مل کر اس کی درگت بنا دی اور دھکے دے کر باہر نکال ديا”

اللہ کا فرمان ۔ جسے ہم شايد زيرِ غور نہيں لاتے

سورت 16 النحل آيت 126 ۔ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ

اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے

سورت 42 الشورٰی آيات 40 تا 43
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ
إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، (فی الواقع) اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔

اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد (برابر کا) بدلہ لے لے تو ایسے لوگوں پر (الزام) کا کوئی راستہ نہیں۔‏

یہ راستہ صرف ان لوگوں پر ہے جو خود دوسروں پر ظلم کریں اور زمین میں ناحق فساد کرتے پھریں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔‏

اور جو شخص صبر کرلے اور معاف کر دے یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے (ایک کام) ہے۔‏

سورت 2 البقرہ آيت 263 ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ

نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذاء رسانی ہو ، اور اللہ تعالٰی بےنیاز اور بردبار ہے۔

سورت 41 حٰمٓ السّجدہ يا فُصّلَت آيات 34 تا 36 ۔ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ
وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی ، برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔
اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں ، اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا
اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو ، یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے

انسانيت بمقابلہ توہينِ رسالت

شايد ميرے کچھ ہموطنوں کے خيال ميں محسنِ انسانيت رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی [خاکم بدہن] توہين انسانيت کے ذمرے ميں آتی ہے ۔ وہ لَبَّيْکَ اَللَّہُمَّ لَبَّيْکَ کہنے کی بجائے جب وائٹ ہاؤس سے کوئی صدا بلند ہوتی ہے تو لَبَّيْکَ اَلامريکَا لَبَّيْکَ کہتے ہوئے لپکتے ہيں اور زمينی حقائق ان کی نظروں سے اوجھل اور دماغ سے محو ہو جاتے ہيں

ميرا پاکستان نے آسيہ کے توہينِ رسالت کے متعلق تحرير لکھی ۔ زيادہ مبصرين حسبِ معمول روشن خيالی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ميں انسانی ہمدردی کے داعی اور باعلم ہونے کی خيالی پتنگيں اُڑانے لگے ۔ چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ريکارڈ پر موجود اور اخبار ميں چھپنے والے حقائق پيش کئے جائيں

آسيہ استغاثہ کی مختصر روداد

لاہور سے شايد 100 کلوميٹر دور ننکانہ صاحب کے ايک گاؤں اِٹن ولائی ميں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے عيسائی رہتے ہيں۔ اِٹن ولائی ميں فالسے کے کھيت ميں آسيہ اور کئی دوسری عورتيں جن ميں مسلمان اور عيسائی دونوں شامل تھيں کام کر رہی تھيں ۔ کام کے دوران کچھ عورتوں کے درميان نبيوں عليہم السلام اور مذاہب کا تذکرہ ہو رہا تھا کہ آسيہ نے نبی صلی اللہ عليہ و سلم اور قرآن شريف کی توہين ميں زبان درازی کی

19 جون 2010ء کوگاؤں کا کٹھ کيا گيا [ميٹنگ بلائی گئی] جہاں آسيہ نے اپنا قصور مانا اور کہا کہ “مجھے معافی دے دو”۔ مگر بات تھانے تک پہنچ چکی تھی جہاں سے اعلٰی افسران تک پہنچی ۔ اور قانون کے مطابق سيشن جج صاحب نے ايس پی انويسٹيگيشن کو تفتيش کا حکم ديا
ايس پی نے 29 جون 2010ء کو دونوں پارٹيوں کو بلايا ۔ 27 آدمی مدعيوں کی طرف سے اور 5 آدمی مدعيہ عليہ آسيہ کی طرف سے آئے اور ان کے بيانات قلمبند کئے گئے
بعد ميں عدالت سے اجازت لے کر ايس پی نے 6 جولائی 2010ء کو جيل ميں آسيہ کا بيان ليا ۔ آسيہ نے مؤقف اختيار کيا کہ “وہ عورتيں اسے مسلمان بنانا چاہتی تھيں ۔ اس کے انکار پر انہوں اس پر مقدمہ بنا ديا”۔ ليکن آسيہ اپنے اس مؤقف کا کوئی ثبوت پيش نہ کر سکی

عدالت ميں آسيہ کے وکيل نے صرف دو نقطے اُٹھائے
1 ۔ قانون کے مطابق تفتيش ايس پی کو کرنا ہوتی ہے مگر اس کی بجائے ايس ايچ او نے کی
2 ۔ صوبائی يا وفاقی حکومت سے اس کيس کی اجازت حاصل نہيں کی گئی
عدالت نے پہلے نقطہ کو غيرحقيقی قرار ديا اور دوسرے کے متعلق کہا کہ ايسا کوئی قانون نہيں
عدالت نے قاری سالم کے بيان کو سُنی سنائی بات قرار ديا ۔
کوئی بيان آسيہ کے مؤقف کی تائيد ميں نہ تھا
آسيہ نے عدالت ميں نہ تو کوئی دفاع پيش کيا اور نہ Section (2) CrPC کے تحت مدعيوں کے مؤقف پر اپنا بيان ديا يا داخل کرايا

کسی مبصر نے يہ کہا کہ ” عدالت ميں 6 آدميوں نے ہاتھ کھڑا کر ديا ۔ اور فيصلہ ہو گيا”۔
حقيقت يہ ہے کہ 5 آدميوں نے آسيہ کے خلاف بيان حلفی داخل کرائے ۔ ان کے علاوہ ايک نے آسيہ کے خلاف بيان ديا کہ “ميں نے سنا تھا کہ يہ ۔ ۔ وہ” جسے عدالت نے سنی سنائی کہہ کر مسترد کر ديا

مبصر شايد اس حقيقت سے واقف نہيں کہ اسمبلی ميں لوگ ہاتھ کھڑے کرتے ہيں تو قانون بن جاتا ہے ۔ اسی طرح ہاتھ کھڑے کرنے سے آئين ميں ترميم ہو جاتی ہے يا نيا آئين بن جاتا ہے تو عدالت ميں فيصلہ کيوں نہيں ہو سکتا

يہ سوال بھی پوچھا گيا کہ باقی مسلمان ممالک ميں بھی اسی طرح غريبوں کے ساتھ کيا جاتا ہے ؟ حقيقت يہ ہے کہ جس طرح وطنِ عزيز ميں حقيقت کچھ ہو نہ ہو کراری خبريں شائع کی جاتی ہيں جس کی وجہ ميرے ہموطنوں کا مزاج ہے جو چٹخارے دار خبريں پسند کرتے ہيں ۔ دوسرے ممالک ميں ايسی سچی خبر بھی چھاپنے کی اجازت نہيں جس سے اشتعال يا نقصِ امن پيدا ہونے کا خدشہ ہو ۔ اس کيلئے باقاعدہ قانون بنائے گئے ہيں اور ان پر فوری عمل ہوتا ہے ۔ البتہ امريکا اور يورپ ميں مسلمانوں يا اسلام کے خلاف من گھڑت کہانی بھی چھاپ دی جائے تو اسے آزادی اظہار کہہ کر اس کے خلاف کوئی کاروائی نہيں کی جاتی

انسانيت اور امن کے علمبردار اور عدمِ تشدد کا پرچارک امريکا پاکستان کے قبائلی علاقہ اور افغانستان ميں جو انسانيت بکھير رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اس سے پہلے کی انسانيت پسندی کی کچھ جھلکياں يہاں پر اور يہاں پر کلِک کر کے ديکھی جاسکتی ہيں
امريکا کی پشت پناہی اور دولت پر پلنے والے اسرائيل جسے امريکا دنيا کی بہترين جمہوريت قرار ديتا ہے ۔ اس کے نام نہاد جمہوری کردار پر طائرانہ نظر ڈالنے کيلئے يہاں پر ۔ يہاں پر اور يہاں پر نظر ڈالئے
اہنسا پرمودھرما کے پُجاری سيکولر بھات کی امن کی آشا کی ہلکی سی جھلک ديکھنے کيلئے يہاں پر ۔ يہاں پر اور يہاں پر کلِک کيجئے

اسلام توہينِ رسالت کے متعلق کيا کہتا ہے قرآن و حديث اور مستند سُنی اور شيعہ اماموں کے مسلک پڑھنے کيلے يہاں کلِک کيجئے

تبصروں ميں فرنگی دنيا کی انسانيت پرستی کا ذکر بھی آيا ۔ ان کی انسانيت پرستی اور انصاف کے کئی نمونے ميں چند سال قبل پيش کر چکا ہوں ۔ آج ايک برطانوی وکيل کی تحرير سے اقتباس پيش کرتا ہوں

Pakistan Penal Code (PPC) of 1860 dates from the British colonial period (British Raj : Sections 295 to 298 of the PPC) dealing with religious offences dates back to that period and were intended to prevent and curb religious violence.

The offences were introduced to curb religious hatred amending then s.153 of British India Act which did not include Islam and Raj Pal in 1929 could not be prosecuted for writing ‘A colourful Prophet’ which hurt scores of Muslims and the High Court was not able to provide relief and riots erupted post the writer’s murder in United India. However UK laws were never amended to grant protection to Muslims. In particular S. 295-C of the Pakistan Penal Code says, “whoever by words either spoken or written or by visible representations or in any manner whatsoever, or by any imputation, innuendo or institution, directly or indirectly defiles the sacred name of the holy Prophet Muhammad (PBUH) shall be punished with death or imprisonment for life and shall also be liable to fine.”

However these offences have little value to the West who take freedom of expression as a superior force to all other political and religious compulsions. Their Blasphemy law though covers Christianity but does not cover Islam. Article 10 of European Convention of Human Rights 1950 which is similar to Article 19 of the Constitution of Pakistan 1973 says as follows: “1. Everyone has the right to freedom of expression. This right shall include freedom to hold opinion and to receive and impart information and ideas without interference by public authority and regardless of frontiers. This article shall not prevent States from requiring the Licensing of broadcasting, television or cinema enterprises.”

During the Salman Rushdie affair in the 1980’s after writing a book ‘Satanic Verses’ Britain never prosecuted Salman Rushdie under the Blasphemy Laws of Britain for defiling the Prophet of Islam as British laws only covers Christianity. Under Ex Parte Choudhary [1991] 1 All ER 306, private prosecution was not allowed either by British Courts due to lack of legal provisions. Britain since has introduced the Racial and Religious Hatred Act 2006 which intends to curb preaching religious violence, however it still does not address the core and causes of igniting religious hatred albeit blasphemy.

However in the west denial of holocaust as to whether or not Jews were oppressed by Hitler’s Nazi regime is a criminal offence in most parts of Europe. Holocaust denial is illegal in a number of European countries: In Austria (article 3h Verbotsgesetz 1947) punishable from 6 months to 20 years, Belgium (Belgian Holocaust denial law) punishable from Fine to 1 year imprisonment, the Czech Republic under section 261 punishable from 6 months to 3 years, France (Loi Gayssot) punishable from Fine or 1 month to 2 years, Germany (§ 130 (3) of the penal code) also the Auschwitzlüge law section 185 punishable from Fine or 1 month to 5 years, Lithuania, The Netherlands under articles 137c and 137e punishable from Fine or 2 years to 10 years, Poland, Romania, Slovakia,and Switzerland (article 261bis of the Penal Code) punishable from 6 months to 3-5 years. In addition, under Law 5710-1950 it is also illegal in Israel and punishable from 1 year to 5 years. Italy enacted a law against racial and sexual discrimination on January 25, 2007 punishable from 3 years to 4 years.

Now looking at this tendency the way the West is displaying insensitivity to the Muslim World’s feelings, It will be quite illogical for Islamic countries angry with the behavior of the west to start awarding notorious leaders the highest awards of bravery or who accommodate and promote writers that challenge the myth of the ‘holocaust’. These sentiments though exist which call for serious consideration by OIC and the West to sit together and find a solution to this hugely charged issue as the common man of each society calls for peace and harmony between ancient civilizations. The irony is that East and West are grappling with the situation where each other’s criminals are seeking refugee. Salman Rushdie’s gets a knighthood for Satanic Verses and Tasleema Nasreen protection but there is no law at all to protect the long and strongly held belief of Muslims in the West.

قربانی اور اس کے لوازمات

ہر سال عیدالاضحٰے پر بکرا ۔ گائے ۔ اُونٹ وغیرہ کی قربانی کی جاتی ہے ۔ اس سلسلہ میں کئی باتیں سُننے اور دیکھنے میں آتی ہیں جن سے کم و بیش ہر ہموطن کو واسطہ پڑتا ہے ۔ کچھ باتیں تو ہمیشہ سے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو کچھ سال قبل نہ تھیں اور اب ہیں اسلئے انوکھی محسوس ہوتی ہیں

ہموطنوں کی بھاری اکثریت قربانی خود اپنے ہاتھ سے نہیں کرتی ۔ ايسا شايد صرف پاکستان بنگلہ ديش اور بھارت ميں ہوتا ہے ۔ ذبح کرنے کیلئے کسی قصائی یا نام نہاد قصائی کو پکڑ کر لایا جاتا ہے کئی جگہوں پر میں نے ایسے شخص کو بکرا ذبح کرتے دیکھا جسے ذبح کرنا تو بڑی بات ہے چھُری پکڑنے کا بھی سلیقہ نہ تھا ۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ قربانی دینے والے کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ذبح کرنے والا مسلمان بھی ہے یا نہیں ۔ جو چھُری اور ٹوکہ ہاتھ میں پکڑے نظر آ جائے اُسے پکڑ کر بکرا ذبح کروا لیا جاتا ہے ۔ اب تو 6 سال سے مجھے زمين پر بيٹھنے اور جھُکنے کی بھی اجازت نہيں ہے ۔ اچھے وقتوں ميں اللہ کے فضل سے ميں نے کم از کم 2 درجن قربانی کے جانور ذبح کئے اُن کی کھال اُتاری اور گوشت بھی بنايا

گوشت کی تقسيم

عام طور پر گوشت کے تین حصے کئے جاتے ہیں ایک اپنے لئے ۔ ایک عزیز و اقارب کیلئے اور ایک غُرباء میں تقسیم کرنے کیلئے ۔ یہ مُستحسن طریقہ ہے ۔ اگر سارا گوشت اپنے استعمال میں لایا جائے تو اس میں بھی کوئی بُرائی نہیں ۔ اسی طرح سارا گوشت پکا کر عزيز و اقارب کو کھلایا جا سکتا يا سارا گوشت عزيز و اقارب ميں بانٹا جا سکتا ہے يا سارا مساکين ميں تقسيم کيا جا سکتا يا اُنہيں پکا کر کھلايا جا سکتا ہے ۔ قربانی کے جانوار کے کسی بھی حصہ کے عِوض کچھ لینا حرام ہے ۔ کچھ لوگ اپنے افسر یا کسی اور بڑے آدمی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کافی سارا گوشت یا پوری ران اُسے بھیج دیتے ہیں ۔ یہ مناسب بات نہیں کیونکہ اس میں قربانی کے جذبہ کی بجائے خود ستائشی یا خودغرضی آ جاتی ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ مساکین اور اپنے عزيز و اقارب بالخصوص جن کی مالی حالت اچھی نہ ہو کا خیال رکھا جائے

عید والے دن کئی لوگ گوشت مانگنے آتے ہیں ۔ ان پر اگر غور کیا جائے تو کچھ لوگ چند گھروں سے گوشت لے کر چلے جاتے ہیں اور کچھ کے پاس پہلے سے ہی چار پانچ کلو گرام یا زیادہ گوشت ہوتا ہے اور وہ مزید گوشت اکٹھا کرتے جاتے ہیں ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی خاندان کے سب افراد گوشت مانگنے نکل پڑتے ہیں ۔ یہ لوگ مستحق لوگوں کا حق مارتے ہیں ۔ اس لئے میں تو بہتر سمجھتا ہوں کہ پہلے سے ہی اہل محلہ پر غور کیا جائے اور ان میں جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں ان کو ایک دن کیلئے کافی گوشت دے دیا جائے اور جو باقی بچے وہ مانگنے والوں میں بانٹا جائے ۔ اسلام آباد میں لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے لوگوں میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جو سارا سال گوشت نہیں کھاتے ۔ اگر ایسے لوگوں کو سال میں ایک دن کیلئے گوشت کھانے کو دیا جائے تو اُن کے دل سے جو دُعا نکلے گی اس کا اندازہ عام انسان نہیں کر سکتا

ايک نيا نعرہ
کچھ سالوں سے سُننے ميں آتا ہے “مسلمان اتنے زيادہ جانور ذبح کر کے ضائع کرتے ہيں ۔ يہی روپيہ زلزلہ يا سيلاب کے متاءثرين کو دے ديں”
يہی بات حج کے معاملہ ميں بھی کہی جاتی ہے
يہ خام خيالی ہے ۔ نفلی حج يا نفلی قربانی کرنے کی بجائے اس کی قيمت صدقہ کر دينا بہتر ہے مگر فرض حج کو ملتوی کرنے کی دينی وجوہات کے علاوہ کسی اور وجہ سے ملتوی کرنا جائز نہيں ہے ۔ اسی طرح قربانی کرنے کی بجائے اس کی قيمت صدقہ کرنے سے قربانی ساقط نہيں ہوتی ۔ اس طرح کے استدلال ماننے کا مطلب اللہ اور اللہ کے رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کے فرمان پر اپنی عقل کو ترجيح دينا ہے

امن کی آشا ۔ يا ۔ قوم کا استحصال ؟

آجکل ايک ٹی وی چينل ايک اشتہار بار بار دکھا رہا ہے جس کا منظر کچھ اس طرح ہے

پاکستان اور بھارت کے نزديک کسی قصبہ يا گاؤں ميں اپنے لوگ خيموں کے باہر کھڑے ايک بوڑھا پاکستانی فصا ميں اپنے ہاتھ بلند کئے کچھ عجيب سے اشارے کر رہا ہے اور باقی لوگ اُس کی ہلہ شيری کر رہے ہيں ۔ اُن سب کا رُخ بھارت کی طرف ہے جہاں کچھ خُوش پوش بھارتی اپنے پکے مکانوں سے باہر دُوربينوں کے ذريعہ ان نادار پاکستانيوں کو ديکھ رہے ہيں ۔ بھارتی اپنے گھروں ميں جا کر آل انڈيا ريڈيو کو ٹيليفوں پر بارتی فلمی گانا لگانے کی فرمائش کرتے ہيں ۔ جونہی گانا بجايا جاتا ہے ۔ پاکستانی اپنے 1950ء کے ماڈل ريڈيو کے گرد ناچنے لگتے ہيں

حقيقت يہ ہے کہ اس اشتہار کا ہر سيکنڈ اصل حالات کے بر عکس ہے ۔ آيئے ذرا حقائق کا اندازہ اُن اعداد و شمار سے لگاتے ہيں جو بين الاقوامی ادارے مہيا کرتے ہيں ۔ خيال رہے کہ يہ ادارے پاکستان دوست نہيں ہيں

1 ۔ پاکستان ميں 22 فی صد لوگوں کی آمدنی 1.20 ڈالر يوميہ سے کم ہے جبکہ بھارت مين 42 فيصد لوگوں کی آمدنی 1.2 ڈالر يوميہ سے کم ہے
2 ۔ پاکستان ميں بے گھر لوگوں کی تعداد ايک فيصد بھی نہيں جبکہ بھارت ميں 17 فيصد لوگ بے گھر ہيں ۔ خيال رہے کہ يہ اشتہار سيلابوں سے بہت پہلے کا چل رہا ہے

3 ۔ پاکستانيوں کو بھارت کے ريڈيو سے گانے سننے کی کيا ضرورت ہے جبکہ پاکستان ميں پچھلی صدی کے وسط سے ساری دنيا کی نشريات سُنی جا سکتی ہيں جن پر بھارتی فلمی گانے بھی سنائے جاتے ہيں ۔ پھر 2001ء سے ايف ايم چينل چل رہے ہيں جن پر بھاتی گانے عام سنائے جاتے ہيں ۔ اس کے بر عکس بھارت ميں ايف ايم کے لائيسنس 2007ء ميں جاری کئے گئے ہيں باقی 21 چينل سخت حکومتی نگرانی ميں چل رہے ہيں

4 ۔ 1950ء کا ماڈل ريڈيو سيٹ پاکستان ميں ايک عجوبہ ہی ہو سکتا ہے ۔ يہاں تو 80 فيصد آبادی ٹی ديکھ رہی ہے جبکہ بھارت کے 60 فيصد لوگوں کو يہ سہولت ميسّر ہے

5 ۔ کمال تو يہ ہے کہ بھارتی گاؤں ميں تو ٹيليفون کی سہولت اور پاکستانيوں کو ناچ کر اپنا پيغام دينا پڑے ؟ جبکہ پاکستان ميں 65 فيصد لوگوں کے پاس ٹيليفون کی سہولت موجود ہے اور بھارت ميں يہ سہولت صرف 50 فی صد لوگوں کو حاصل ہے

پاکستان نمبری کہاں سے بنتا ہے ؟ عوامی ادراک يا احساس سے ۔ خود گناہی کا يہ ادراک يا احساس کون اُجا گر کرتا ہے ہماے ٹی وی چينل اور اخبارات جو ايک واقعہ برائی کا پکڑتے ہيں اور اُسے دہرانے کا معمول بنا ليتے ہيں ۔ اس دوران بيسيوں اچھے واقعات نظروں سے اوجھل رہتے ہيں ۔ اور پاکستان دنيا کے بدترين مُلکوں ميں پاکستانيوں ہی کے غلط ادراک يا احساس کی وجہ سے پہنچ جاتا ہے

ميں يہ ٹائپ کر رہا ہوں اور جيو ٹی وی ” امن کی آشا” دکھا رہا ہے پاکستان اور بھارت کے عوام کو قريب لانے کيلئے ؟ کيا پرويز مشرف نے کرکٹ ۔ بسنت اور ناچ کے ذريعہ يہی کوشش نہيں کی تھی ؟ جس پر بھارتی رسالے نے لاہور کو “Bich in heat” کہا تھا ۔ اور وہ رسالہ جس کا مقام ممبئی ہے جہاں کم از کم 100000 جنسی ورکر [Sex workers] ہيں

کبھی اپ نے پڑھا ہے ؟ ايک دن ايسا نہيں ہوتا کہ اس کے پہلے صفحہ پر پاکستان کے خلاف کوئی انتہائی بودی خبر يا مضمون نہ ہو ۔ ان حالات ميں بھارت سے دوستی ؟

جو نيا نمبر جيو ٹی وی بتاتا ہے ميں نے اس پر ٹيليفون کيا مگر ميرا پيغام نشر نہيں کيا جبکہ وہ سب کا پيغام نشر کرنے کا دعوٰی کرتے ہيں

يہ چند اقتباسات عشر يعقوب صاحب کے مضمون ميں سے ہيں ۔ پورا مضمون پڑھے بغير مکمل صورتِ حال واضح نہيں ہو گی
پورا مضمون يہاں کلک کر کے پڑھيئے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ہم آہنگی ؟

ہندوؤں ميں ذات پات سُنی تھی مگر سب ذاتوں والے اپنے آپ کو ہندوستانی ہی کہتے ہيں بلکہ وہاں رہنے والے مسلمان بھی اپنے آپ کو ہندوستانی کہتے ہيں
جاپان کی آبادی تين چار مُختلف نسلوں پر مُشتمِل ہے مگر سب جاپانی اپنے آپ کو ايک قوم سمجھتے ہيں
جرمن ايک قوم ہيں چاہے وہ ميدانی علاقہ کے ہوں پہاڑی علاقہ کے ہوں ۔ مقامی ہوں يا آباد کار ہوں
ڈچ يعنی ہالينڈ کے لوگ ايک قوم ہيں جبکہ وہاں تين مختلف نسليں مختلف زبانيں بولنے والی آباد ہيں
بيلجيئم ايک چھوٹا سا ملک ہے ۔ اس چھوٹے سے مُلک ميں 4 مختلف نسليں آباد ہيں جن کی زبانيں بھی مختلف ہيں اس کےعلاوہ کچھ لبنانی عرب بھی وہاں آباد ہو چکے ہيں مگر يہ بيلجيک ہيں اور ايک قوم ہيں
امريکا کے تمام شہری ايک قوم ہيں جبکہ امريکا ميں درجنوں مختلف نسليں آباد ہيں اور ان کی ثقافتيں بھی مختلف ہيں ۔ [ميں گرين کارڈ والوں کی بات نہيں کر رہا]

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ايک ملک ميں صرف ايک قوم ہوتی ہے چاہے وہاں کئی زبانيں بولی جاتی ہوں ۔ ثقافتيں مختلف ہوں اور کئی مختلف نسليں رہتی ہوں

اگر ہم مسلمان ہيں تو سب مسلمان ايک قوم ہوتے ہيں کيونکہ وہ ايک نبی کی اُمت ہيں

ميری سمجھ ميں يہ نہيں آتا کہ ميرے ہموطن کيا ہيں ؟
کہ قوم کی بجائے قوميّتوں کی آوازيں ہر طر ف سے آ تی رہتی ہيں

ہمارے ملک ميں آدھی صدی قبل يہ صورتِ حال تھی

ايک ۔
دوست آں باشد کہ گيرد دستِ دوست در پريشاں حالی و در ماندگی
[ترجمہ ۔ دوست وہ ہوتا ہے جو بُرے وقت ميں کام آئے]

دو ۔
ہو گئی زندگی مجھ کو پياری ۔ مل گيا جب سے غمگسار مجھے
دوستی شمع بن کے چمکتی ہے ۔ راہ دکھلائے ميرا پيار مجھے

مگر اب کچھ اس طرح کی صورت نظر آتی ہے

تين ۔
دوست دوست نہ رہا پيار پيار نہ رہا
زندگی ہميں تيرا اعتبار نہ رہا

ہم پاکستان کے معرضِ وجود ميں آنے سے پہلے اور اس کے کچھ سال بعد تک ايک قوم تھے مگر پچھلی آدھی صدی ميں آہستہ آہستہ خلوص کی جگہ ماديّت ليتی گئی جس کے نتيجہ ميں پہلی دو صورتيں کم ہوتی گئيں اور تيسری صورت زور پکڑتی گئی
کيوں ؟
اسلئے کہ قدريں بدل گئيں ۔ خواہشات بڑھ گئيں ۔ محبت کی جگہ دولت نے لے لی
آج صرف دوسرے پر اعتراض کيا جاتا ہے مگر اپنے آپ کو کوئی بدلنے کو کوئی تيار نہيں
نتيجہ صاف ظاہر ہے

تباہی

يا اللہ ميرے ہموطنوں کو عقلِ سليم عطا فرما اور ہمت عطا فرما تاکہ وہ ابليس کے نرغے سے نکل سکيں

يہ کون ہے ؟ ؟ ؟

کوئی صاحب ” اُردو بلاگ کی دنيا ” کے نام سے ميری ساری اور کچھ اور لوگوں کی تحارير بغير ميرے يا اُن کے حوالہ يا ربط کے شائع کر رہے ہيں
مثال کے طور پر ميری آج کی تحرير “معذرت” اور “ہم کیا چاہتے ہیں ؟ ؟؟ ۔ ۔ ۔ آزادی ۔ آزادی ۔ آزادیيہاں اور يہاں کلک کر کے ديکھی جا سکتی ہيں ۔ اور تبصرہ کی سہولت بھی وہاں ميسّر نہيں
ہے کوئی جو مجھے بتائے کہ ميں کيا کروں ؟

نُکتہ دانوں کيلئے ۔ اسلامی معاشرے کا ايک نمونہ

مندرجہ ذيل ای ميل محمد سلیم صاحب نے شانتو- چين سے متعدد لوگوں کو بھيجی تھی ۔ اُن کے مطابق اُنہی نے اس واقعہ کا اُردو ميں ترجمہ کيا تھا ۔ يہ ميرے سميت کئی لوگوں کو پہنچی ۔ اس ای ميل ميں درج واقعہ کے متن کو کچھ بلاگز پر شائع کيا جا چکا ہے ۔ جہاں سے ميرے علم ميں آيا کہ ان بلاگرز کو جن لوگوں نے يہ ای ميل نقل کر کے بھيجی اصل بھيجنے والے کا نام حذف کر ديا ۔ ميرا اپنے بلاگ پر اس ای ميل کو دہرانے کا بنيادی مقصد محمد سلیم صاحب کی دعا کی درخواست قارئين تک پہنچانا ہے
ميں نے ای ميل کی تھوڑی سی تدوين کر دی ہے کہ قاری کو سمجھنے ميں آسانی رہے

محمد سليم صاحب کی ای ميل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

نوٹ: اس ایمیل کو پڑھتے ہوئے کسی لمحے آپکو اپنی آنکھوں میں نمی سی محسوس ہو تو جہاں
اپنی مغفرت کی دعاء کیجئے وہان اس خاکسار کو بھی یاد کر لیجیئے گا۔ محمد سلیم

‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”
عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟”
“یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں ۔ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ” ا ے امیر المؤمنین ۔ اس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا ؟”

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے ۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا

خود عمر رضی اللہ عنہ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ۔ اس صورتحال پر سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ” معاف کر دو اس شخص کو ”
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ” نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ” اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے ؟”
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ” میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو”
عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے”
عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور اس کے قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے

اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا ۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں
عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین”
ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”
وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”
سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے جن کا باپ ميرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔ ۔ ۔
” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”
” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”
” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”
” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے محمد سلیم کو، جس نے ترجمہ کر کے اس ایمیل کو اپنے احباب تک پہنچایا۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دینا انکو بھی، جن کو یہ ایمیل اچھی لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں ۔ آمین یا رب العالمین۔

آپکی دعاؤں کا طالب ہوں ۔ محمد سلیم/ شانتو – چائنا