Category Archives: ذمہ دارياں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ مجرب نسخہ

زندگی کے میدانِ کارزار میں حقیقی مؤثر ہتھیار اور فتحِ کا مجرب نسخہ

یقین ۔ خود اعتمادی ۔ جہدِ مسلسل ۔ صبر و تحمل ۔ انصاف اور محبت

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے چھ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک اور کچھ خوبصورت پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

اِن شاء اللہ جموں کشمير جلد آزاد ہو گا

انشاء اللہ العزيز

سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن

ہم کيا چاہتے ہيں ؟
آزادی آزادی آزادی

آج یومِ یکجہتیءِ جموں کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا

انتباہ ۔ کوئی کراچی یا اسلام آباد میں رہتا ہے یا پشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تین قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے

اِن شاء اللہ اپنے پيدائشی حق کو حاصل کرنے کی جد و جہد ميں شہيد ہونے والوں کی قرنياں رائيگاں نہيں جائيں گی

رنگ لائے گا شہيدوں کا لہو
اور ظُلم کی تلوار ٹوٹے گی
جموں کشمير آزاد ہو کر رہے
اِن شاء اللہ اِن شاء اللہ

ميں کيا جواب دوں ؟

ميری تحرير شکست خوردہ قوم پر ايک قاری عمران اقبال صاحب نے مندرجہ ذيل تبصرہ کيا ہے جس ميں ايک اہم قومی معاملہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ آج کی جوان نسل سے ميری درخواست ہے کہ اس سلسلہ ميں اپنی تعميری تجاويز سے نوازيں

عمران اقبال صاحب لکھتے ہيں ۔ ۔ ۔

کل جب آپ سے بات ہوئی تو آپ نے کہا تھا کہ “پاکستان پہلے ایسا نہیں تھا” اور پھر آپ نے مثال دی کہ “پہلے اگر کسی پارک میں لوگ گھاس پر چل رہے ہوتے تھے تو دوسرے لوگ کہتے تھے کہ بھائی اگر آپ نے بیٹھنا ہے تو گھاس پر بیٹھ جاؤ ورنہ راہ داری پر چلو” ۔۔۔ یہ تھیں قدریں۔۔۔

میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ “آج کی نسل اور ہم سے پہلی نسل میں کیا بنیادی فرق ہو گیا جو اب پہلے جیسی مروت نہیں رہی ؟” ۔۔۔ اور آپ نے جواب دیا تھا کہ “دین اور قانون سے بيگانگی”۔۔۔

میرے خیال میں۔۔۔ ہم اس حد تک پست اقدار اپنا چکے ہیں کہ اب اسے بدلنے میں ایک پوری نسل کی کوششیں چاہئیں ۔۔۔ ہماری نسل کے خون میں بے ایمانی، بے قدری اور بے مروتی بھری جا چکی ہے۔۔۔ اور میں اس کا قصور پچھلی نسل کو دونگا۔۔۔ انہی کی اسلام دوری اور مادی دنیا میں آگے بڑھنے کے شوق نے ہم سے وہ ساری اقدار چھین لیں جو کبھی ہمارا اثاثہ تھے۔۔۔ اور بقول آپ کے کہ پہلی تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے تو جب گھر بھر میں دین کا نام نہ ہو اور ہر وقت مادی مسائل کا ذکر ہو تو ہم بھی وہی سوچیں گے اور کریں گے جو ہمارے بڑوں نے کیا۔۔۔

جب میں “اپنی نسل” کی بات کرتا ہوں تو میں خود سمیت کسی کو الزام نہیں دے رہا لیکن کھلے دماغ اور دل سے سوچیئے کہ کیا ہماری نسل واقعی بے راہ روی کا شکار نہیں ؟ ۔۔۔ ہم میں وہ کونسی خامیاں‌نہیں رہ گئيں جو ہم نے قرآن میں ان قوموں کے بارے میں پڑھیں ہیں جن پر اللہ نے عذاب نازل فرمایا۔۔۔

لیکن ہم بخشے جا رہے ہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے سبب۔۔۔ ورنہ جو خامیاں ہم میں ہیں ان کے باعث اب تک ہم بندر یا سُوّر بن چکے ہوتے یا ہمیں بھی آسمان تک لے جا کر الٹا پھینک دیا جاتا۔۔۔

آپ نے فرمایا تھا کہ” آج کی نسل بہت بہتر ہے” تو میں آپ سے اس بات پر اس حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ دنیاوی علم اور کچھ کر دکھانے کی جہت نے ہمیں بہت فاسٹ فارورڈ کر دیا ہے۔۔۔ شاید میں کنویں کے مینڈک کی طرح ہوں جسے کچھ نظر نہیں آ رہا لیکن مجھے پڑھے لکھے، سوچنے سمجھنے والے اور لوجیک کے ساتھ گفتگو کرنے والے عالم دین سے ملنے کا اب بھی بہت انتظار ہے۔۔۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک یا ڈاکٹر اسرار احمد کو بہت سن چکا ہوں لیکن انہیں بھی صرف ایک خاص طبقہ ہی فالو کر رہا ہے۔۔۔ ہمیں چاہیے ایسے لوگ جو محلوں کی مساجد میں یہ خدمت انجام دیں ۔۔۔

میرا ماننا یہ بھی ہے کہ اگر ہمارا دین راسخ ہو جائے اور عقیدہ میں کوئی کمی نہ رہ جائے تو دنیا میں رہنے کے ہمارے اطوار ہی بدل جائیں گے۔۔۔ پھر لوگ قانون کی پاسداری بھی کریں گے اور ان میں توکل بھی آ جائے گا۔۔۔ اور میرے خیال میں توکل علی اللہ دنیا بھی بنا دیتا ہے اور آخرت بھی۔۔۔

عمران اقبال صاحب نے عجمان سے مجھے ٹيليفون کيا اور سير حاصل گفتگو کی ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ميرے ملک ميں ايسے جوان ہيں جو درست معلومات حاصل کرنے اور اپنے علمِ نافع ميں اضافہ کرنے کی کوشش ميں لگے رہتے ہيں ۔ ميں عمران اقبال صاحب کی صرف دو باتوں پر اپنا خيال پيش کروں گا

درست ہے کہ آج کی جوان نسل کی بے راہ روی ان سے پہلی نسل يعنی ميری نسل کی عدم توجہی يا غلط تربيت يا خود غرضی کا نتيجہ ہے مگر کُلی طور پر پچھلی نسل اس کی ذمہ دار نہيں

درست ہے کہ ہماری مسجدوں کی بھاری اکثريت پر غلط قسم کے لوگ قابض ہيں ۔ مگر اس کی وجہ بھی ہم خود ہی ہيں ۔ ہم ميں سے کتنے ہيں جنہوں نے مساجد ميں دينی لحاظ سے بہتری کيلئے خلوصِ نيت سے کوشش کی ہے ۔البتہ نکتہ چينی کرنے کيلئے اکثريت ميں ايک سے ايک بڑھ کر ہے

اسلام آباد کی سب سے بڑی سرکاری مسجد جسے لوگ لال مسجد کہتے ہيں کے خطيب کو حکومت گريڈ 12 کی تنخواہ ديتی ہے باقی مساجد ميں گريڈ 10 اور 8 کی ۔ دسويں جماعت کے بعد 8 سال علمِ دين حاصل کرنے والے کتنے ايسے خدمتگار ہو سکتے ہيں جو گريڈ 12 يا 10 يا 8 ميں ملازمت اختيار کريں گے ؟ جب حکومت ان کی سند کو ماسٹرز کے برابر مانتی ہے تو پھر ان لوگوں کو دوسری جامعات سے ماسٹرز کرنے والوں کی طرح گريڈ 15 کيوں نہيں ديا جاتا ؟ خاص کر اسلئے کہ ان لوگوں نے ايک اہم دينی فريضہ ادا کرنا ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل ميں خيال پيدا ہو کہ پھر يہ سب کہاں چلے جاتے ہيں ؟ ان ميں کئی ساتھ ساتھ بی ا انگلش اور ايم اے انگلش کے امتحان پاس کر ليتے ہيں اور مسجد کی بجائے دوسری ملازمتيں اختيار کرتے ہيں ۔ صرف چند ايسی مساجد کے خطيب بنتے ہيں جہاں جائز آمدن کا کوئی اور ذريعہ بھی ہو ۔ ايسی مساجد کے طور طريقے ہی الگ ہوتے ہيں ۔ کوئی کہيں چندہ مانگنے نہيں جاتا ۔ جمعرات کی روٹی کا کوئی رواج نہيں ہوتا اور نہ کسی کے گھر ميں ختم کے نام پر کھانا کھاتے ہيں ۔ يہاں يہ واضح کرنا بے جا نہ ہو گا کہ ايسے امام مسجد بھی ہيں جنہوں نے دينی تعليم کے ساتھ ساتھ معاشيات يا رياضی يا سائنس کی کم از کم گريجوئيشن کی ہوئی ہے

رحم کرو ۔ خد اکے لئے اس ملک پہ رحم کرو

تمام قومی ادارے ہمیشہ قوم کے مجموعی مزاج کو ملحوظ رکھ کر تعمیر ہوتے ہیں جس طرح 1973ء کا آئین بھٹو نے بنایا تھا۔ تمام قوانین اسلام کے مطابق

عدل ہی معاشروں کو جما جڑا رکھتا ہے۔ آئین کے تحت ، قانون کے تحت۔ علّامہ جاوید غامدی یوں تو ادھورے آدمی ہیں۔ اسلام کی روح سے زیادہ الفاظ کے لیکن ایک بات ان کی سو فیصد درست ہے ” آئین کو اگر مقدس نہ مانا جائے گا تو ملک کو قرار حاصل نہ ہوگا”۔

سلمان تاثیر کیس میں ایک سے بڑھ کر ایک فلسفہ ہے لیکن کسی کو انصاف کی فکر بھی ہے؟

آسیہ بی بی کیس میں عدالت نے فیصلہ کیا تھا۔ گوارا یا ناگوار ، اسے قبول کیا جاتا یا اعلٰی تر عدالت سے رجوع۔ شک کا فائدہ دے کر اعلٰی عدالتیں ملزموں کو ہمیشہ بری کرتی آئی ہیں۔ اسّی کے اسّی مقدمات میں

گورنر سلمان تاثير کو پریس کانفرنس نہ کرنی چاہئیے تھی۔ یہ نہ کہنا چاہئیے تھا کہ “صدر صاحب آسیہ بی بی کو معاف کر دیں گے”۔ عدالت رہا کرتی اور یہ تو ہولناک تھا کہ قانون ناموسِ رسالت کو “کالا قانون” کہا

اب سبھی مانتے ہیں کہ قانون درست ہے اور معاملہ بے حد نازک۔ وزیر داخلہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ان کے سامنے کوئی توہینِ رسالت کرے تو وہ اسے گولی مار دیں [قانون ہاتھ میں لینے کا جواز کیا ہوگا؟]
وزيرِ قانون بابر اعوان کہہ چکے کہ ان کے جیتے جی کوئی اس قانون میں ترمیم نہیں کر سکتا
پیپلز پارٹی اور اس کے ترقی پسند دانشوروں کی طرف سے پیش کئے جانے والے مؤقف کا کھوکھلا پن اور تضاد آشکار ہے

سانحہ کے بعد حکمران جماعت کے دو ہدف ہیں ۔ ایک مذہبی پارٹیاں اور دوسرا شریف خاندان
انصاف نہیں ۔ قاتل کو سزا نہیں ۔ حریفوں سے وہ بدلہ چاہتے ہیں ۔ بابر اعوان ۔ راجہ ریاض اینڈ کمپنی نے کسی دلیل کے بغیر شریف برادران کو مجرم قرار دے دیا ۔ یہ تکرار البتہ جاری رہے گی کہ مفاہمت ان کی سیاسی پالیسی ہے۔سبحان اللہ، سبحان اللہ۔

اسلام آباد انتظامیہ کے اعلٰی افسر گورنر سلمان تاثير کی میت لے کر لاہور پہنچے تو گورنر کے خاندان نے مقدمہ درج کرانے سے انکار کر دیا

عاصمہ جہانگیر کو بلایا گیا تو انہوں نے مذہبی جماعتوں کے خلاف مقدمہ داغنے کا مشورہ دیا ۔ وہی برصغیر کا مقدمہ بازی کا مزاج کہ حادثہ ہو جائے تو ہر اس شخص کو پھنسا دیا جائے جس سے “ذاتی” یا “نظریاتی”عداوت ہے

محترمہ عاصمہ جہانگیر سے پوچھيئے “کیا قتل کے قانون کی وجہ سے ہر سال ہزاروں بے گناہوں کی زندگیاں برباد نہیں ہوتیں؟ کیا اسے ختم کر دیا جائے؟ کون سا قانون ، کون سا دفتر، کون سا ادارہ اور منصب ہے جو منفی مقاصد کے لیے برتا نہیں جاتا۔ خود ریاست بھی ۔ کیا سب کی بساط لپیٹ دی جائے؟”

مرحوم گورنر کی پریس کانفرنس اور شیریں رحمٰن کے مسوّدہ قانون جمع کراتے ہی آشکار تھا کہ طوفان اٹھے گا۔ بزرجمہر جو نہیں جانتے کہ معاشرے اتفاقِ رائے میں جیتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ قومی اور مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ لگانی چاہئیے۔ ضد ایسی شدید کہ طوفان دیکھ کر بھی نہیں ٹلتے۔ معاشرہ منقسم ہے ، معیشت برباد، سیاست بے حد اُلجھی ہوئی، ملک کا مستقبل داؤ پر لیکن جذبات کا کھیل جاری ہے ۔ ہر شخص اپنے تعصبات کے پھریرے لہراتا ہوا نظر آتا ہے

اسلام کی اساس دو چیزیں ہیں۔ قرآن اور سنت

رحمتہ اللعالمین کی توہین ، اسلام کی عمارت کے دو ستونوں میں سے ایک کو گرا دینے کے مترادف ہے۔ جذبات کا نہیں ، یہ عقیدے کا معاملہ ہے ۔ ایمان کا معاملہ ہے ۔ پانچ کے پانچ [حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اورجعفریہ] مکاتبِ فکر سو فیصد اس پر متفق ہیں۔ اقبال سے بڑھ کر کسی مفکر پر اتفاقِ رائے نہ ہوا، وہ بھی

بات سمجھ میں نہیں آتی تو ناموسِ رسالت کے قانون پر ریفرنڈم کرا لیجئے۔ کسی ایک شہر میں کوئی ادارہ سروے کرلے۔ 90 فیصد لوگ اس قانون کے حامی ہیں۔ جو دانشور معترض ہیں، ان میں لاہور والوں کو میں جانتا ہوں۔ اقبال اور قائداعظم ہی نہیں ، اسلام کا بھی وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ سوال بالکل سادہ ہے “آپ لوگ اپنی رائے ہم پر مسلّط کیسے کر سکتے ہیں؟”

دانا اتنے ہیں کہ زندگی کے اولین سوال پر غور کرنے کی کبھی فرصت نہ پا سکے ۔ اس حیات اور کائنات کو کس نے پیدا کیا ؟ شرعی قوانین سے بحث کرتے ہیں حالانکہ قرآن کریم، حدیث اور اسلام کی علمی روایت کو چھُوا تک نہیں

درختوں کی جڑیں زمین اور اداروں کی جڑيں قومی مزاج ، تمدن ، تاریخ اور روایات میں ہوتی ہیں۔ مغربی تحریکوں کے زیرِ اثر یہ مفکرین ہوا میں جھُولتے ہیں اور قوم سے ان کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ بھی خلاء میں معلّق رہے۔ عام لوگوں کا اندازِ فکر عملی ہوتا ہے ۔ وہ احساسِ کمتری سے اُگنے والے فلسفوں کے جنگلوں میں نہیں جِیا کرتے

اب دوسری طرف آئیے
مولانا فضل الرحمٰن کو سرکار سے جو کچھ سمیٹنا تھا ، سمیٹ کر باہر نکلے اور تحریکِ ناموسِ رسالت کا اعلان ہوگیا۔ ٹی وی پر اور اس کالم میں بار بارعرض کیا: جذبات کی آگ مت بھڑکائیے ، جلسہ جلوس کی ضرورت کیا ہے ؟ ناموسِ رسالت کے قانون کو کون چھیڑ سکتا ہے۔ بحث مطلوب ہے تو اٹھارویں ترمیم کی طرح پارلیمنٹ ہاؤس کے کسی بند کمرے میں کر لیجئے۔ مشاورت کا دائرہ بتدریج بڑھا کر اتفاقِ رائے پيدا کيجئے۔ بعض مقدمات عدالتیں بند کمروں میں سنا کرتی ہیں۔ یہ ویسا ہی معاملہ ہے۔ مسئلہ ہے قانون کے غلط استعمال کا۔ روکا جا سکتا ہے۔ بدنیتی سے الزام لگانے والے کے لیے سزا کا تعین ، ایک نئے قانون سے

لیڈروں اور دانشوروں پہ خدا رحم کرے۔ سب کے سب معاشرے کو ادھیڑنے پر تُلے ہیں۔ ترقی پسندوں کو اپنی دانائی اورعلماءِ کرام کو اپنے ایمان اور تقویٰ پر فخر بہت ہے ۔ غور لیکن وہ ہرگز نہ فرمائیں گے۔ اللہ کی کتاب سچ کہتی ہے : “انسان بڑا ہی ظالم اور جاہل ہے” ۔ اپنے آپ پر زعم ، اپنے فرض کی اہمیت سے بے خبر

سوچا ۔ علماءِ کرام سے پوچھوں “اللہ کے نام پر بننے والے ملک کی آپ نے کیا خدمت کی؟” یاد آیا کہ ان میں جو زیادہ موثر ہیں، وہ تو پاکستان بنانے کے مخالف تھے۔ ریاست کو وہ مانتے نہیں، دہشت گردوں، حتٰی کہ خود کش حملہ آوروں کی مذمت سے گریز

ترقی پسند فرماتے ہیں “سیکولر ازم اختیار کیا جائے”۔ کوئی انہیں تاریخ پڑھائے کہ مغرب میں ظالم چرچ حکمران تھا، جس کے خلاف بغاوت ہوئی۔ جیسا کہ قائداعظم بار بار کہتے تھے “اسلام میں پاپائیت کا وجود ہی نہیں”۔ مسلم عوام علماء کو کارِ سیاست سے الگ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ دو آدمیوں پر اتفاقِ رائے ہوا۔ اقبال اور قائداعظم

بھٹو 35فیصد ووٹ لے کر جیتے، وہ بھی بھارت اور امریکی استعمار کے خلاف نعرہ زن ہو کر۔ غریب آدمی کے جذبات جگا کر۔ اعلان کیا کہ اسلام ہمارا دین ہے ۔ سوشلزم ترک کر کے مساوات محمدی کی اصطلاح وضع کی۔ قادیانیوں کو اقلیت کیا، حج کا کوٹہ ختم کر دیا۔ قوم کو مطمئن رکھنے کے لیے عالمِ اسلام سے قریبی روابط استوار کئے۔ دہلی کی دائم مخالفت کرتے رہے ۔ ان کے وارث دوسرا ہی راگ الاپتے ہیں۔ پہلے ماسکو اور اب واشنگٹن کا گیت

اسلام آباد کے وکیلوں نے کمال کر دیاکہ قاتل پر پھول برسائے۔ وہ کیا چاہتے ہیں؟ انارکی؟ قانون کا خاتمہ؟
وزیر داخلہ کا بھی جواب نہیں کہ صبح سویرے ریمانڈ کی بجائے معاملے کو ملتوی کرتے رہے۔ کئی ایک بزرجمہر پولیس کو گالی دیتے رہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ مرحوم گورنر نے اسلام آباد پولیس کو دورے سے مطلع ہی نہ کیا تھا۔ پولیس کا قوم کو شکر گزار ہونا چاہئیے ۔ اوسطاً ہر ہفتے دو خودکش حملہ آور دارالحکومت میں داخل ہوتے ہیں۔ ڈیڑھ سو گرفتار ہوئے ۔ تحسین کی بجائے پوليس کی مذمت ؟
پولیس کو حکومت اور بارسوخ لوگوں نے برباد کیا ۔ قوانین کے تحت آزادی سے کام کرنے دیا جائے تو آدھے جرائم فوراً ختم ہو جائیں۔ یہاں مگر بھرتی میں سفارش، مناصب میں سفارش اور ایک ایک کیس میں سفارش۔ اس کے بعد شکوہ کيسا ؟

رہنما اوردانشور پہلے ہی قوم کو تقسیم کر چکے، مزید تقسیم نہ کریں۔ اسے اعتدال پر رہنے دیں جو اس کا مزاج ہے اور جس پر بقا کا انحصار۔ آئین اور قانون کی اہمیت اُجاگر کریں۔ طعنہ زنی کی بجائے دلیل دیں۔ پہلے ہی چوہدری، نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری، جناب الطاف حسین اور حضرت مولانا فضل الرحمٰن اس کے مقدر میں ہیں۔ معیشت برباد، لوٹ مار بے حد چنانچہ استعمار پہ انحصار ۔۔۔ اب اورکیا ؟

رحم کرو ، خدا کے لئے اس ملک پر رحم کرو

بشکريہ ۔ جنگ

ہم ۔ ہماری باتيں اور ہمارا عمل

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کی حفاظت کرنے والے ایلیٹ فورس کے سکواڈ میں شامل جوان ممتاز قادری نے ہلاک کر ديا

نتيجہ ۔
ہميشہ کی طرح عوام کی آپس ميں لے دے ۔ فضول بحث اور ايک دوسرے پر تہمت طرازی
سوال ہے ۔ کيا ہميں اس سے بہتر کوئی کام نہيں آتا ؟

[ميں شروع ہی ميں واضح کر دوں کے ميری سوچ کے مطابق ممتاز قادری ملک کے قانون کا مجرم بنا ہے ۔ اللہ کا مجرم بنا ۔ يا نہيں ۔ وہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ ميں دو جماعت پاس کيا کہہ سکتا ہوں ؟]

جسے ديکھو وہ قرآن شريف اور حديث سے بالا بالا اپنی مخصوص رائے رکھتا ہے جسے وہ اصلی اسلام منوانے پر تُلا بيٹھا ہے ۔ اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم سے محبت صرف يہ سمجھ ليا گياہے کہ ميلادالنبی کا جلوس نکالا جائے محفل ميلاد رچائی جائے ۔ ان ميں نعت کے عنوان سے شرک کی حديں پار کی جائيں مگر اپنی زندگی ميں صرف وہاں نبی کی پيروی کی جائے جہاں آسانی ہو يا اپنی مطلب براری ہوتی ہو ۔ اور جب توہينِ رسالت کی بات آئے تو “قانون امتناع توہينِ رسالت” کو ظالمانہ يا کالا قانون کہا جائے ۔
يا
رحمت للعالمين کی حيات طيّبہ ميں سے چند مثاليں دے کر توہين کرنے والے کی معافی کا جواز نکالا جائے

ميں ايک عام سا انسان ہوں اور ہر بات کو اس نظر سے ديکھتا ہوں جيسا کہ ميرا اپنا عمل ہے ۔ اگر کوئی ميری بے عزتی کرے تو ميں اُسے معاف کر سکتا ہوں اور يہ حقيقت ہے کہ ميں نے اپنی زندگی ميں ہميشہ ايسے لوگوں کو معاف کيا بھی بلکہ ايک بار حالات کی سازگاری کے پيشِ نظر ايک سِنيئر افسر ہوتے ہوئے ايک ورکر سے سب کے سامنے معافی مانگی ليکن ميں اپنے والدين کی توہين برداشت نہيں کر سکتا چاہے ميری جان جائے ۔ ايک بار ايک شخص نے يہ حرکت کی تھی اور وہ پہلی اور آخری بار تھی کہ لوگوں نے مجھے بپھرا ہوا ديکھا تھا ۔ ميں نے اپنے سے زيادہ جسمانی لحاظ سے طاقتور توہين کرنے والے کے دو چار ہاتھ ايسے رسيد کئے کہ وہ پريشان ہو گيا تھا ۔ اس کے بعد آج تک کسی کو جراءت نہيں ہوئی کہ وہ ميرے ماں باپ کے خلاف بولے

کيا يہ حقيقت نہيں ہے کہ کوئی شخص مُسلمان ہو ہی نہيں سکتا جب تک اُسے نبی سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم اپنی عزيز ترين چيز حتٰی کہ اپنے والدين سے بھی زيادہ عزيز نہ ہو جائيں ؟

پھر کہاں رہ جاتی ہے ہماری مسلمانی جب کوئی ملعون توہنِ رسالت کا مرتکب ہوتا ہے ؟

کيا ہمارا حال کچھ اس طرح نہيں جس طرح گارڈن کالج راولپنڈی ميں ہمارے پروفيسر جناب وی کے مل صاحب نے انگلش پوئٹری پڑھاتے ہوئے بتايا تھا “ايک جوان اپنی محبوبہ کو بتا رہا تھا کہ وہ اس سے بہت زيادہ محبت کرتا ہے يہاں تک کہ اس کيلئے اپنی جان تک قربان کر سکتا ہے ۔ اسی اثناء ميں ايک بھينسا اُن کی طرف بھاگتا ہوا آيا تو جوان نے اپنی محبوبہ جس نے سُرخ رنگ کا سکرٹ پہن رکھا تھا کو اُٹھا کر بھينسے کے سامنے کر ديا”

يہ کہنا درست ہے کہ ممتاز قادری نے سلمان تاثير کو قتل کر کے ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی ۔ اس پر بہت شور شرابا ہے ۔ ملک ميں اس سے زيادہ قانون کی خلاف ورزياں ہو رہی ہيں ۔ ان پر خاموشی ہے ۔ کيوں ؟

سلمان تاثير نے قانون امتناع توہينِ رسالت کو “کالا قانون” کہہ کر نہ صرف ملک کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی بلکہ توہينِ رسالت کا بھی مرتکب ہوا تھا

اس پر ملک کے وزيرِ اعظم سيّد يوسف رضا گيلانی نے يہ کہہ کر کہ يہ حکومت کی پاليسی نہيں ہے ايک گڑوی پانی سے اشنان کر ليا تھا ۔ توممتاز قادری کے بارے ميں بھی ايک گڑوی پانی سے اشنان کر لينے ميں کيا مانع ہے ؟

اس سے اُن کی اپنی جماعت اور حواری زد ميں آتے ہيں اور اُنہيں اپنی کرسی چھننے کا خدشہ ہے

خاموش سازش ؟

مُجرم جُرم کرتا ہے ۔ مُجرم کا تو کام ہی جُرم کرنا ہے ۔ مُجرم سازش نہيں کرتا
سازشی وہ ہيں جو جُرم کی منصوبہ بندی کرتے ہيں
يا
وہ ہيں جو جُرم ہوتے ديکھتے ہيں اور جُرم کو روکتے نہيں

طالب علمی کے زمانہ ميں ايک استاذ نے بتايا تھا کہ کہ اگر کوئی جُرم ہوتا ديکھے اور اسے نہ روکے تو وہ جُرم ميں 10 فيصد حصہ دار بن جاتا ہے
آج سوچتا ہوں کيا فلسفہ تھا اس فقرے ميں ۔ ۔ ۔

اسی سلسلہ ميں مندرجہ ذيل ربط پر کلک کر کے ايک سير حاصل مضمون پڑھيئے

A Conspiracy of Silence

قصوروار کون ۔ حکمران يا قوم يا دونوں ؟

ہمارے حکمران بشمول وزير اعظم اور بالخصوص صدر آئے دن برملا جھوٹ بولتے ہيں ۔ عوام ميں اتنا دم خم ہی نہيں کہ اس کا سدِ باب کر سکيں ۔ آج صرف ايک جھوٹ کا ذکر ہو گا جو صرف ہمارے صدر آصف علی زرداری ہی درجن سے زائد بار بر سرِ عام بول چکے ہيں ۔ وہ جھوٹ ہے “ہم نے ايک آمر پرويز مشرف کو کرسی چھوڑنے پر مجبور کيا”۔ حقيقت کھل کے سامنے آ رہی ہے آہستہ آہستہ

پہلا ثبوت
امريکا کے پچھلے صدر جارج ڈبليو بُش نے ” Decision Points ” کے نام سے ايک کتاب لکھی ہے ۔ اس کے صفحہ 217 پر لکھا ہے کہ “ميں نے اواخر 2007ء ميں پرويز مشرف سے کرسی چھوڑنے کا کہا اور اس نے وعدہ پورا کيا

دوسرا ثبوت
حاضر سروس کرنل الياس نے بتايا کہ وہ صدر کے ساتھ تعينات تھا اور صدر آصف علی زرداری نے اُسے بطور چيف سکيورٹی آفيسر ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کيا ہوا ہے ۔ کرنل الياس نے مزيد بتايا کہ اس کے علاوہ چار پانچ اور فوجی عہديدار بھی ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ يہ لوگ اُن چار فوجی عہديداروں کے علاوہ ہيں جو جنرل اشفاق پرويز کيانی نے ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ کرنل الياس نے يہ بھی انکشاف کيا کہ ان سب کے علاوہ چار ايس ايس جی کے کمانڈوز بھی ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں جنہوں نے اب ريٹائرمنٹ لے لی ہے ۔ کرنل الياس نے وضاحت کی کہ ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ حاضر سروس فوجی عہديدار صرف اتنے ہی تعينات کئے ہوئے ہيں البتہ ان کے علاوہ سويلين عہديدار ۔ ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور اور ايک پکاؤتا [Cook] صدر آصف علی زرداری نے ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ ان سب کو حکومتِ پاکستان تنخواہ ديتی ہے

سابق صدر رفيق تارڑ صاحب نے بتايا کہ ان کے ساتھ کوئی فوجی نہيں ہے ۔ قانون کے مطابق ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور ۔ ايک پکاؤتا اور ايک پوليس گارڈ سابق صدر کو ديئے جاتے ہيں

مرحوم سابق صدر فاروق لغاری صاحب کے رشتہ داروں نے بھی يہی بتايا ہے ۔ مگر بتايا گيا ہے کہ يہ سٹاف صرف پاکستان ميں مہيا کيا جاتا ہے ۔ اگر سابق صدر ملک سے باہر رہے تو اُسے سٹاف دينے کا کوئی قانون نہيں ہے

سابق آرمی چيف مرزا اسلم بيگ نے بتايا ہے کہ سابق آرمی چيف کو ملک کے اندر بھی کسی قسم کا سٹاف مہيا کرنے کا کوئی قانون موجود نہيں ہے ۔ ملک کے باہر تو سوال ہی پيدا نہيں ہوتا ۔ اُنہوں نے بتايا کہ ماضی ميں آرمی چيف کو ريٹائرمنٹ کے بعد ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور ۔ ايک بيٹ مين [Batman] اور ايک ٹيليفون ديا جاتا تھا مگر بينظير بھٹو جب دوبارہ وزير اعظم بنيں تو اُنہوں نے آرمی چيف جہانگير کرامت کو حکم ديا کہ ايسی مراعات واپس لے لی جائيں ۔ يہ حکمنامہ آج تک نافذ العمل ہے ۔ انہوں نے مزيد بتايا کہ موجودہ قوانين کے مطابق کوئی فوجی آفيسر يا جوان سابق آرمی چيف کے ساتھ تعينات نہيں کيا جا سکتا

سابق آرمی چيف عبدالوحيد کاکڑ کی پوتی نے بتايا کہ اُنہيں بھی اس قسم کی کوئی سہولت نہيں دی گئی

آخر ايسا کيوں ہے ؟

اس کا سبب صرف ايک ہے کہ قوم کی اکثريت خود بھی جھوٹ بولنا اور سننا پسند کرتے ہيں ۔ اسلئے ان ميں اتنی جراءت نہيں کہ کسی بھی جھوٹ کے خلاف آواز اُٹھا سکے

اللہ کا قانون اٹل ہے ۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ کم از کم قرآن شريف کو سچ سمجھے اور اس ميں ديئے گئے احکامات پر عمل کرے ۔ جب حشر کا سماں بندھے گا تو اس وقت کوئی مدد گار نہ ہو گا اور اپنے ہاتھ پاؤں بھی کہ جن کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کيا تھا اپنے ہی خلاف گواہی ديں گے

سورت 42 الشّورٰی ۔ آيت 30 ۔ ‏ تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ۔ اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے

سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے

سورت 53 النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

سورت 24 النّور ۔ آيت 55 ۔ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کو وہ امن امان سے بدل دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے ، اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں