Category Archives: ذمہ دارياں

روزے کا تقاضہ قسط 1 ۔ پرہيز لازم

کچھ قارئين نے فرمائش کی تھی کہ ميں اس ماہِ مبارک سے استفادہ حاصل کروں ۔ ميں ان کا مشکُور ہوں کہ انہوں نے مجھ سے اچھی بات کی توقع کی ۔ ميں نے “روضہ يا فاقہ” کے عنوان سے اس سلسلہ کا آغا کر ديا تھا البتہ معذرت خواہ ہوں کہ ذاتی مجبوريوں کے باعث مزيد لکھنے ميں تاخير ہو گئی ہے

وطن عزيز ميں عام تاءثر پايا جاتا ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھ لئے تو فرض پورا ہو گيا ۔ صورتِ حال اتنی آسان نہيں ہے ۔ ويسے تو مُسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر حال اور ہر لمحے ميں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے احکام کی تعميل کرے اور اُس کی خوشنودی کو مدِ نطر رکھے مگر روزے کے ساتھ اس کا اہتمام زيادہ اہميت اختيار کر جاتا ہے

ميں اِن شاء اللہ اپنی طرف سے يا اپنے الفاظ ميں لکھنے کی بجائے اللہ الرحمٰن الرحيم الکريم جو قادر اور مالک بھی ہے کے فرمان ہی کا ترجمہ بيان کرنے کی سعی کروں گا ۔ مطالعہ کا فہم بڑھانے اور اس کا بوجھ کم رکھنے کيلئے اسے چند اقساط ميں کچھ عنوانات کے تحت بيان کرنے کوشش کی جائے گی ۔ اللہ مجھے توفيق عطا فرمائے آمين ثم آمين

پرہيز کيجئے ۔ بچيئے

اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو۔ یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔ اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو۔ ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔ اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہو اور خدا کے عہد کو پُورا کرو۔ ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [سورت ۔6 ۔ الانعام ۔ آيت ۔152]

اور جس چیز کا تجھے عِلم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے ضرور باز پرس ہوگی۔ [سورت ۔ 17 ۔ بنی اسراءيل يا الاِسراء ۔ آيت36] ‏

اے اہل ایمان ۔ بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے [سورت 49 ۔ الحجرات ۔ آيت ۔ 12]

جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں بیشک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے وہ تم کو خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے تو اپنے آپ کو پاک صاف نہ جتاؤ جو پرہیزگار ہے وہ اس سے خوب واقف ہے [سورت ۔ 53 ۔ النم ۔ آيت 32]

کب آئے گی واپس حميّت ہماری ؟ ؟ ؟

جب عوام تحريک چلا کر اپنے لئے وطن کے نام پر زمين کا کوئی ٹکڑا حاصل کرنے کيلئے اپنے خون کا نذرانہ پيش کرتے ہيں ۔ يقينی طور پر اور ميں بطور نو دس سال کے بچے کے اس کا شاہد ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی1946ء اور 1947ء ميں ايسا ہی کيا تھا ۔ دراصل وہ 1857ء سے وقفے وقفے سے اپنے خون کے نذرانے پيش کرتے آئے تھے ۔ لاکھوں بوڑھے ۔ جوان ۔ مردوں اور عورتوں اور بچوں کے خون اور ہزاروں عورتوں کی عزتوں کی قربانی کے نتيجہ ميں اللہ نے يہ وطن ہميں بخشا تھا کيونکہ ہم نے اس کا مطلب ” لا اِلَہَ اِلاللہ ” کہا تھا

جب وطن حاصل ہو جاتا ہے تو قوميں دن رات کی جاں فشانی سے ترقی اور خوشحالی کی طرف رواں دواں ہوتی ہيں ۔ بلاشُبہ وطنِ عزيز کے پہلے چند سال ايسا ہی ہوا ۔ پھر انگريزوں کے ذہنی غلام اس نوزائدہ وطن پر حاوی ہو گئے اور اپنے ہی بھائيوں کا گوشت نوچنے لگے بلکہ اپنے وطن کے بھی بخيئے ادھڑنے لگے ۔ ہموطنوں کی کوتاہ انديشی اور آپا دھاپی کے نتيجہ ميں1971ء ميں مُلک کا ايک بڑا حصہ جاتا رہا اور اب اُس کا حال کچھ اس طرح بنا ديا ہے

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں ۔ ۔ ۔ ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کہ جلاؤں
شاہیں کا تو ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا ۔ ۔ ۔ کنجشک فرومایہ کو میں اب کس سے لڑاؤں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکّاری و عیاری و غدّاری و ہیجان ۔ ۔ ۔ اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو ۔ ۔ ۔ اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن ۔ ۔ ۔ مکاری و روباہی پہ اِتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو ۔ ۔ ۔ وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے ۔ ۔ ۔ ملتی ہوئی مُلا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور ۔ ۔ ۔ شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
کردار کا ، گفتار کا ، اعمال کا مومن ۔ ۔ ۔ قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی پنجاب کا مومن ۔ ۔ ۔ ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ہر داڑھی میں تِنکا ہے تو ہر آنکھ میں شہتیر ۔ ۔ ۔ اب مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں ۔ ۔ ۔ اب ذوقِ یقیں سے کہیں کٹتی نہیں زنجیر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر ۔ ۔ ۔ شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے ۔ ۔ ۔ تقدیرِ امم سو گئی ، طاؤس پہ آ کر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مرمر کی سِلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے ۔ ۔ ۔ رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر شخص مسلمان ہے لیکن ۔ ۔ ۔ دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے ۔ ۔ ۔ جمہور سے سلطانیءِ جمھور ورے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے ، یہاں پر جو خودی کا ۔ ۔ ۔ مر مر کے جیئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے ۔ ۔ ۔ اس بندہءِ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو ۔ ۔ ۔ اک بار میں ہم چُھٹے اس بار گراں سے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

يومِ آزادی مبارک ۔ آيئے دعا کريں

my-id-pak
آج ہمارے ملک کی عمر 64 شمسی سال ہو گئی ہے اور قمری مہينوں کےحساب سے 65 سال سے 2 ہفتے کم ہے ۔ اس موقع پر ميں 3 تحارير شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ اللہ نے توفيق دی تو آج اور کل شائع ہو جائيں گی

تمام پاکستانی بزرگوں بہنوں بھائيوں بچوں اور بچيوں کو يومِ آزادی مبارک

قارئين کی معلومات کيلئے تاريخی کُتب سے ايک مختصر ترين خاکہ رقم کر رہا ہوں

پاکستان اور بھارت میں شائع ہونے والی تاریخی کُتب کے مطابق دسمبر 1945ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے نتائج کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ کو 90 فیصد مسلمان ووٹ ملے تھے اور اس نے 30 مسلم نشستوں میں سے 30 ہی حاصل کر لی تھیں ۔ ان میں غیر مسلم علاقے [صوبے] بھی شامل تھے ۔ کانگریس نے 62 عمومی [ہندو] نشستوں میں سے 57 جیتی تھیں

مسلم لیگ کی 100فیصد کامیابی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ تھا ۔ 1946ء کے آغاز میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو یو پی کی 66 مسلم نشستوں میں سے 54 ۔ سی پی کی 14 میں سے 13 ۔ اُڑیسہ کی 4 میں سے 4 ۔ بمبئی کی 30 میں سے 30 ۔ آسام کی 34 میں سے 33 اور بہار کی 40 میں سے 34 مسلم لیگ نے حاصل کر لیں ۔ 1946ء کے انتخابات میں یو پی کے شہری علاقوں میں کانگریس کو ملنے والے مسلمان ووٹ ایک فیصد سے بھی کم تھے ۔ مسلم لیگ نے یہ انتخابات ایک ہی انتخابی نعرے پر لڑے اور وہ تھا ” پاکستان

آيئے سب ميری اس دعا ميں شامل ہو جايئے

اے نگارِ وطن تو سلامت رہے ۔ ۔ ۔ مانگ تیری ستاروں سے بھر دیں گے ہم
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
ہو سکی تیرے رُخ پہ نہ قرباں اگر ۔ ۔ ۔ اور کس کام آئے گی یہ زندگی
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
اپنے خوں سے بڑھاتے رہیں گے سدا ۔ ۔ ۔ تیرے گُل رنگ چہرے کی تابندگی
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
جب تجھے روشنی کی ضرورت پڑے ۔ ۔ ۔ اپنی محفل کے شمس و قمر دیں گے ہم
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
سبز پرچم تیرا چاند تارے تیرے ۔ ۔ ۔ تیری بزمِ نگاری کے عنوان ہیں
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
تیری گلیاں، تیرے شہر، تیرے چمن ۔ ۔ ۔ تیرے ہونٹوں کی جنبش پہ قربان ہیں
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے
جب بھی تیری نظر کا اشارہ ملا ۔ ۔ ۔ تحفَہِ نفسِ جاں پیش کر دیں گے ہم
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے

موت کے بيوپاری

پانی ميں آرسینک اور سوڈیم [Arsenic and Sodium] کی زیادتی کے باعث دل ۔ گردوں ۔ بلڈ پریشر ۔ اور جلد وغیرہ کی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔ اسلام آباد ۔ کراچی ۔ لاہور ۔ پشاور ۔ کوئٹہ ۔ راولپنڈی ۔ فیصل آباد ۔ سیالکوٹ ۔ ساہیوال ۔ ڈیرہ غازی خان ۔ بدین ۔ ٹنڈوجام اور ڈیرہ اسماعیل خان سے منرل واٹر کمپنیوں کے 77 نمونے حاصل کرکے ان کا لیبارٹری میں پاکستان اسٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے معیار کے مطابق تجزیہ کیا گيا اور مندرجہ ذيل 12 کمپنيوں کا پانی کیمیائی طور پر مضر صحت پایاگیا ہے ۔ اِن اجزاء کی زيادہ سے زيادہ مقدار يہ ہے ۔ آرسينک [Arsenic]10 پی پی بی ۔ سوڈيم [Sodium] 50 پی پی بی اور فلورائيڈ [Fluoride
]0.7 پی پی ايم

نادق واٹر[Nadiq Water] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 54 پی پی بی آرسينِک
پین پیور[Pan Pure] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 15 پی پی بی آرسينِک
آقوا ون[Aqua-One] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 پی پی بی آرسينِک
نیشن[Nation] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 40 پی پی بی آرسينِک
ہمالیہ[Hamaliya] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 پی پی بی آرسينِک
اکوا نیشنل[Aqua National] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 57 پی پی بی آرسينِک
پِنيو[Pineo] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13 پی پی بی آرسينِک

نیشن[Nation] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 68 پی پی بی سوڈيم
میکس فریش[Max Fresh] ۔ ۔ ۔ 59 پی پی بی سوڈيم
مرجان[Marjan] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 53 پی پی بی سوڈيم
وینا[Vina] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 58 پی پی بی سوڈيم
اصل پیو نا[Asal Pio Na]۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 120 پی پی بی سوڈيم

ایکٹو [Active] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1.39 پی پی ايم فلورائيڈ

بشکريہ ۔ جنگ

روزہ يا فاقہ ؟

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا اور پياسا رہنے کا نام نہیں ہے
روزہ ہر برائی سے بچنے کا نام ہے

روزہ صرف پيٹ کا نہيں ہے ۔ نہ روزہ دوپہر کا کھانا چھوڑ کر سحری اور افطاری کے اوقات دوگنا کھانے کا نام ہے
روزہ زبان ۔ کان ۔ آنکھ ۔ ہاتھ۔ پاؤں ۔ غرضيکہ جسم کے ہر عضوء کو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے بتائے ہوئے طريقہ پر عمل کا پابند کرنے کا نام ہے

کچھ لوگ اپنے روزے کو اپنی کم عِلمی کے سبب ضائع کر ديتے ہيں
ایک صاحب سنیما ہاؤس سے باہر نکلے ۔ ان سے پوچھا گيا “آپ کا روزہ نہیں ہے کیا ؟”
جواب دیا “روزے سے ہوں ۔ بس وقت گذارنے کیلئے آ گیا تھا”
آجکل سنیما ہاؤس تو لوگ کم ہی جاتے ہیں ۔ گھر میں ہی وی سی آر پر وڈیو کیسٹ یا کمپیوٹر پر سی ڈی لگا کر روزے کا وقت آسانی سے گذار لیتے ہیں

روزے کو فاقہ ميں تبديل کرنے کے عمل جن پر عام طور پر توجہ نہيں دی جاتی
نماز نہ پڑھنا يا کچھ نمازيں چھوڑ دينا
جھوٹ بولنا
کم تولنا ۔ ناقص مال بیچنا
غیبت کرنا ۔ چغلی کھانا
کسی لڑکی یا عورت کی طرف بُری نيت سے دیکھنا
لڑنا ۔ جھگڑنا ۔ کسی کے ساتھ بدتميزی يا زيادتی کرنا

سورت ۔ 23 ۔ المؤمنون ۔ آيات 1 تا 11
بے شک ایمان والے رستگار ہوگئے ‏
جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ‏
اور جو بےہودہ باتوں سے منہ موڑتے رہتے ہیں ‏
اور زکوۃ ادا کرتے ہیں ‏
اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ‏
مگر اپنی بیویوں یا (کنیزوں سے) جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انہیں ملامت نہیں ‏
اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ (خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے) نکل جانے والے ہیں ‏
اور جو امانتوں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں ‏
اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ‏
یہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں ‏
جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے

اللہ ہميں روزے کی اہميت کو سمجھنے اور اسے صرف اللہ کی خوشنودی کيلئے رکھنے کی توفيق عطا فرمائے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ کل ۔ آج اور کل

اگر آدمی ماضی پر روتا رہے
اور
مستقبل کيلئے پريشان رہے
تو
اُس کا آج بھی غارت چلا جائے گا

ماضی کو کوئی بھی تبديل نہيں کر سکتا
مستقبل کيلئے پريشان رہنے سے حال بھی برباد ہو جائے گا

درست سوچ يہ ہے کہ جو انتخاب آج کيا جائے گا
عمومی طور پر اُس کا اثر آنے والے کل پر ہو گا
چنانچہ مستقبل اچھا بنانے کيلئے آج ہی کچھ کرنا ہو گا

ماں ۔ بہن ۔ بيوی ۔ بيٹی

اس موضوع پر ميں ايک سے زيادہ بار مختلف زاويوں سے اظہارِ خيال کر چکا ہوں ۔ اب پروفيسر محمد عقيل صاحب کی تحرير “بيٹا بہتر يا بيٹی” پڑھ کر ايک اور زاويہ سے لکھنے کا خيال آيا

ہند و پاکستان رسم و رواج کی آماجگاہ ہے ۔ نہ کسی کو قوم کی بھلائی کی فکر نہ اپنے خاندان کی ليکن اگر فکر ہے تو صرف رسم و رواج کی کہ اگر فلاں رسم نہ کی گئی تو شايد طوفان آ جائے گا يا فلاں رواج کے مطابق نہ چلے تو شايد تباہ ہو جائيں گے ۔ ہندو تو ہندو رہے اُن کا تو مذہب ہی رسم و رواج کا مجموعہ ہے ۔ مسلمان بھی نام تو اللہ اور رسول کا ليتے ہيں اور عمل غير اسلامی رسم و رواج پر کرتے ہيں ۔ اسلئے بچی کی پيدائش کو کچھ مسلمان گھرانوں ميں بھی اچھا نہيں سمجھا جاتا

بيٹی ہی کسی کی بہن بنتی ہے يا ہوتی ہے اور بيٹی ہی کسی کی بيوی اور بعد ميں ماں بنتی ہے ۔ لڑکی اور عورت کے يہ 4 کردار نہ صرف ہمارے دين کی روح سے اہم رشتے ہيں بلکہ ہمارے آج کے بگڑے معاشرے کی اکثريت بھی انہيں محترم جانتی ہے ۔ پھر صرف اقليّتی واقعات جنہيں ذرائع ابلاغ [بالخصوص غيرمُلکی] ہوا ديتے ہيں اس کی بنا پر رائے قائم کرنا کيا دانشمندی ہے ؟

بيٹے يا بيٹوں کے باپ کا مغرور يا ظالم بن جانے کا خدشہ ہوتا ہے جبکہ بيٹی کے باپ کے بُرد باری اختيار کرنے کی زيادہ توقع ہوتی ہے ۔ اسی طرح عام طور پر بيٹے يا بيٹوں کی ماں کی ناک اُونچی ہوتی ہے اور پاؤں ہوا ميں اُچھل رہے ہوتے ہيں جبکہ بيٹی کی ماں سے حِلم اور متانت کی زيادہ توقع کی جا سکتی ہے

بيٹا تو گھر ميں ننگا پھر کر اور گليوں ميں دوڑ بھاگ کر پل جاتا ہے مگر بيٹی کی پرورش خوش اسلوبی سے کرنا ہوتی ہے ۔ اُسے زمانے کی ہوا کے گرم تھپيڑوں سے بھی بچانا ہوتا ہے ۔ باپ گو بچوں سے کم پيار نہيں کرتا مگر بچوں کی پرورش ماں ہی کرتی ہے اور بہت متانت ۔ صبر اور خوش اسلوبی سے کرتی ہے ۔ يہی وجہ ہے کہ ميں بچی کی ماں کو بہت محترم جانتا ہوں اور اس سے عمدہ سلوک کی توقع رکھتا ہوں ۔ ايک بار کسی خاتون نے جو اُس وقت ايک بچی کی ماں تھيں مجھ سے کچھ اس طرح کا سوال کيا “آپ ميرے متعلق کيا جانتے ہيں ؟” ميں نے جواب ميں کہہ ديا “ميں جانتا ہوں کہ آپ ايک بچی کی ماں ہيں”۔ اُنہوں نے اس کا بُرا منايا اور مجھے کھری کھری سنا ڈاليں ۔ قصور شايد اُن کا نہ تھا ۔ شايد اُن کے ماحول کا تھا

بالخصوص پانچ درياؤں کی دھرتی ميں کچھ مقولے ببہت معروف تھے

ماواں ٹھنڈياں چھاواں ۔ ۔ ۔ [ماں ۔ ايک خوشگوار سايہ]

بہن درداں والی اے ۔ ۔ ۔ [بہن درد رکھنے والی ہے]
جس پا پٹاری رکھيا ۔ ۔ ۔ [جس نے ميری حفاظت کی]
ميں تِليّر طوطا شہر دا۔ ۔ [مجھ شہر کے نازک بچے کو]

تريمت گھر دی زينت ۔ ۔ ۔ [بيوی گھر کی رونق اور سنگار]

دِھی دُکھ سانبھے ماپياں دے ۔ ۔ ۔ [بيٹی ہی والدين کا دُکھ درد بانٹتی ہے]

مگر ضرب المثل ” کوا گيا سيکھنے ہنس کی چال ۔ اپنی بھی بھول گيا” کے مطابق ہم لوگوں اپنی پرانی اچھی عادات کو تَج کر جديد راہيں اپناتے ہوئے شہر کی طرف جانے کے ارادوں سے جنگلوں کی طرف نکل گئے ہيں

موٹی سی بات يہ ہے کہ بيٹوں کو عام طور پر تعليم کے بعد اُن کے حال پر چھوڑ ديا جاتا ہے ليکن بيٹيوں کا اُن کی شادی کے بعد بھی پورا خيال رکھا جاتا ہے

ہمارے خاندان اور برادری کو شايد ايک عجوبہ سمجھا جائے کہ ہمارے ہاں تھوڑی سی استثنٰی کے علاوہ بچی کی پيدائش کو بھی اللہ کی نعمت سمجھا جاتا ہے ۔ ہماری برادری ميں اگر خوشی کی جائے تو پہلے بچے کی پيدائش پر کی جاتی تھی خواہ بيٹی ہو يا بيٹا ۔ جب سے بہت مہنگائی ہوئی ايسا بہت کم ديکھنے ميں آيا ہے ۔ طريقہ يہ ہے کہ پيدائش کے بعد 7 دن کے اندر بچی يا بچے کے سر کے بال اُترواتے ہيں اور لڑکی ہو تو ايک بکرا اور لڑکا ہو تو 2 بکرے ذبح کر کے بجائے گوشت عزيز و اقارب ميں بانٹنے کے سب کو اپنے گھر دعوتِ طعام ديتے ہيں ۔ اسے عقيقہ کہا جاتا ہے ۔ اگر مہمان زيادہ ہوں تو زيادہ بکرے ذبح کر ليتے ہيں۔ کبھی کبھار ايسا بھی ہوتا ہے کہ اگر عقيقہ کے وقت سب اکٹھے نہ ہو سکتے ہوں تو بکرا ذبح کر کے بانٹ ديا جاتا ہے اور بعد ميں خوشی کيلئے دعوت کی جاتی ہے