Category Archives: ذمہ دارياں

مرد ۔ ۔ ۔ ظُالم ہوتے ہیں ؟

بہت سوں نے سُن یا پڑھ رکھا ہو گا کہ ” ماؤں ۔ بيويوں اور لڑکيوں کے آلام و مصائب کا سبب ظالم مرد ہوتے ہيں”
يہ وقت ہے کہ مرد کے متعلق جانا جائے کہ وہ ہے کيا چيز ؟

مرد اللہ کی ايک عمدہ تخليق ہے

کيسے ؟

چھوٹی سی ہی عمر ميں وہ حالات سے مصالحت کرنا شروع کر ديتا ہے
بہنوں کيلئے اپنی چاکليٹ ۔ دوسری اشياء اور وقت کی قربانی ديتا ہے

جوان ہونے پر والدين کے چہرے پر مُسکراہٹ ديکھنے کی غرض سے اپنی محبت اور آسائش کی قربانی ديتا ہے

اپنے بيوی بچوں کی خاطر زيادہ محنت اور زيادہ وقت کام کر کے اپنا آرام قربان کرتا ہے
بيوی بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر قرض تک اُٹھاتا ہے اور پھر اس کی ادائيگی کيلئے اپنا چين قربان کرتا ہے

اسی طرح وہ اپنی جوانی بغير شکائت کئے قربان کر ديتا ہے

بے تحاشہ محنت اور کوشش کے باوجود اُسے ماں ۔ بيوی اور باس [boss] کی طرف سے سرزنش ۔ طعن و تشنيع برداشت کرنا پڑتی ہے اور پھر بھی اُنہيں شکائت ہی رہتی ہے
يہيں بس نہيں ہوتا اُس کی بيوی دوسروں کی خوشی کيلئے مصالحت کرنے لگتی ہے جس کا بوجھ خاوند يعنی مرد کو ہی اُٹھانا پڑتا ہے

مرد بھی جذبات رکھتے ہيں اور ان کے احترام کے مستحق ہيں

ہو سکے تو شدتِ دباؤ اور کھينچا تانی ميں گھِرے اس انسان کی جسے مرد کہا جاتا ہے اُس کی زندگی ميں کچھ قدر کيجئے
جب وہ شدتِ حالات کے نرغے ميں ٹُوٹ رہا ہو تو اس کی مدد کی کوشش کيجئے

(آزاد خیال ملک کے باشندے کے انگريزی ميں لکھے مضمون کا ترجمہ)

کہانی اور حقيقت ۔ ہمارا قومی کردار

بچپن میں کہانیاں بڑے شوق سے سنا کرتے تھے ۔ يہ کہانياں گو مبالغہ آميز ہوتيں ليکن اپنے اندر ايک سبق لئے ہوئے بچوں اور بڑوں کيلئے بھی تربيت کا ايک طريقہ ہوتی تھيں

ايک کہانی جو عام تھی يہ کہ ايک ملک کا بادشاہ مر گيا ۔ شورٰی نے فيصلہ کيا کہ جو شخص فلاں دن صبح سويرے سب سے پہلے شہر ميں داخل ہو گا اُسے بادشاہ بنا ديا جائے گا ۔ اس دن سب سے پہلے ايک فقير داخل ہوا سو اُسے بادشاہ بنا ديا گيا ۔ فقير کو کبھی حلوہ نصيب نہيں ہوا تھا ۔ اس نے حلوہ پکانے کا حُکم ديا اور خوب حلوہ کھايا ۔ دوسرے دن پھر حلوہ پکوايا اور خوب کھايا ۔ فقير حلوہ پکوانے اور کھانے ميں لگا رہا ۔ سلطنت کے اہلکار حلوے کا بندوبست کرنے ميں لگے رہے اور ملک تباہ ہو گيا ۔ فقير نے اپنا کشکول پکڑا اور پھر بھيک مانگنے چل پڑا

اس کہانی کا مقصد تو يہ تھا کہ فيصلے عقل سے ہونے چاہئيں اور ہر آدمی کو اجتماعی بہتری کا کام کرنا چاہيئے نہ کہ ايک شخص [بادشاہ] کی چاپلوسی
ليکن عوام فقير کو ہی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہيں
اُنہيں کوئی قصوروار نہيں کہتا جو ملک و قوم کو بھول کر حريص بادشاہ کی خوشامد ميں لگے رہے اور اپنے مناصب کا کام نہ کيا جس سے ملک تباہ ہوا اور قوم بدحال
نہ اُس بادشاہ کی رعايا کو کوئی کچھ کہتا ہے جو سوئی رہی اور تباہی کو روکنے کيلئے کچھ نہ کيا

آج پورے ملک میں امن و امان کی حالت خراب ۔ کمر توڑ مہنگائی اور قومی دولت کی لُوٹ مار ہے ۔ لاکھوں گھروں میں نہ بجلی ہے نہ پانی اور نہ ہی گیس ۔ کارخانوں کے لاکھوں مزدور اور ہُنر مند دو وقت کی روٹی اور پانی بجلی گیس کے بلوں کی ادائیگیوں کیلئے ذلت کی انتہائی گہرائیوں میں گر چکے ہیں ۔ سرکاری دفاتر ميں بغیر رشوت دیئے جائز کام بھی نہیں ہوتے ۔ نہ گھروں میں لوگ چوروں ڈاکوؤں سے محفوظ ہیں اور نہ ہی سڑکوں بازاروں میں

غریب آدمی سے ملک کی موجودہ بد تر حالت کو تبدیل کرنے کیلئے باہر نکلنے کو کہیں تو وہ کہتے ہیں ہم میں تو طاقت ہی نہیں ہے
مڈل کلاس والوں سے کہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس تو وقت ہی نہیں ہے
اور امیر کہتے ہیں کہ ہمیں باہر نکلنے کی کوئی ضرروت ہی نہیں ہے
سب شائد یہ بھول گئے ہیں کہ جب آگ بھڑک اُٹھے اور سب مل کر اسے نہ بجھائیں تو وہاں رہنے والے سب بھسم ہو جاتے ہیں

دوسری کہانی
کہتے ہیں کہ کسی گاؤں کے کسان کی حویلی کے صحن میں ایک درخت تھا جس کے نیچے وہ اپنی گائے اور بکری کو باندھا کرتا تھا ۔ اس نے ایک مرغا بھی پالا ہوا تھا ۔ ایک دن کسان کی بيوی نے کہا کہ “سردیاں آرہی ہیں ۔ کل اس درخت کو کاٹ کر لکڑیاں بنا لیں گے”۔ کسان نے کہا کہ “یہ درخت ميرے باپ کی لگائی ہوئی نشانی ہے ۔ اسے مت کاٹو”۔ لیکن کسان کی بیوی نے ضد کرتے ہوئے اسے کاٹنے کا فیصلہ سنا دیا

درخت نے جب یہ سنا تو اس نے اپنی ٹہنی پر بیٹھے ہوئے مرغے سے کہا “تم سُن رہے ہو کہ مجھے مارنے اور کاٹنے کا منصوبہ بن رہا ہے ۔ میری کسی طرح مدد کرو ۔ اگر میں نہ رہا تم کس ٹہنی پر بیٹھا کروگے ؟”
مرغے نے یہ کہہ کر منہ دوسری طرف کر لیا کہ “تم جانو اور تمہار اکام ۔ میں پوری حویلی میں بھاگتا پھروں گا”
درخت نے مرغے سے مایوس ہو کر پہلے گائے اور پھربکری کی منتیں کیں کہ “کسی طرح حویلی کے مالکوں کو سمجھاؤ کہ وہ مجھے مت کاٹیں ۔ میں تم سب کو سانس لینے کیلئے آکسیجن دیتا ہوں ۔ تپتی گرمیوں میں اس حویلی والوں کو گرم لُو سے بچاتا ہوں اور جب تمہیں زیادہ بھوک لگتی ہے تو میرے پتے تمہارے کام آتے ہیں”۔ لیکن بکری اور گائے نے بھی کہا کہ “میاں اپنی جان بچانے کا بندو بست تم خود کرو ۔ تمہارے کٹ جانے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ ہمیں تو روزانہ باہر لے جایا جاتا ہے اور تمہارے پتوں کی ہمیں اتنی ضرورت بھی نہیں ہے”

اگلی صبح کسان کی بیوی نے اس درخت کو کٹوا کر اس کی لکڑیاں بنوا لیں اور ایک کچے کوٹھے میں اس کا ڈھیر لگا دیا ۔ جب سردیاں شروع ہوئیں تو ایک رات کسان کی بیوی لکڑیاں لینے کیلئے گئی ۔ چند لمحوں بعد اس کی تیز اور خوفناک چیخوں سے ساری حویلی گونجنے لگی ۔ سب بھاگ کر گئے تو دیکھا کہ اُسے لکڑیوں میں چھپے ہوئے سانپ نے ڈس لیا تھا اور وہ اپنی ٹانگ پکڑے بُری طرح تڑپ رہی تھی ۔ فوری طور پر گاؤں کے حکیم کو بلایا گیا جس کے فوری علاج سے عورت بچ تو گئی لیکن اس پر کمزوری چھانے لگی ۔ حکیم صاحب نے کہا کہ “اسے دوائی کے ساتھ ساتھ مرغ کی گرم گرم یخنی پلائی جائے”۔

فوری طور پر مُرغے کو ذبح کیا گیا اور وقفے وقفے سے اس کی یخنی کسان کی بیوی کو پلائی جانے لگی لیکن زہر نے کمزوری سارے جسم میں پھیلا دی تھی ۔ اس پر حکیم صاحب نے کہا کہ “مریضہ کو بکرے کی یخنی پلائيں اور ساتھ گوشت بھُون کر روزانہ کھلایا جائے”۔ چنانچہ بکری کو ذبح کیا گیا ۔ جب کسان کے رشتہ داروں اور اس کے سسرال والوں تک اس کی بیوی کو سانپ کے کاٹنے کی خبر پہنچی تو ان کے پاس تیمارداری کیلئے آئے ہوئے رشتہ داروں کا جمگھٹا ہو گیا ۔ ان مہمانوں کیلئے کسان کو اپنی گائے ذبح کرنا پڑی

آج ہماری قوم کا بھی کچھ ايسا ہی حال ہے ۔ ملک اپنے ہی کرتُوتَوں کی وجہ سے تباہی کی طرف تيزی سے گامزن ہے اور جسے ديکھو وہ صرف اپنا دامن بجانے کی فکر ميں ہے ۔ اجتماعی فکر کسی کو نہيں ہے

سب بھُولے بيٹھے ہيں کہ ” يہ مُلک سلامت رہے گا تو ہم بھی سلامت رہيں گيں اور يہ مُلک ترقی کرے گا تو ہماری تکاليف دور ہوں گی”

یومِ یکجہتیءِ کشمیر

انشاء اللہ العزيز
سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟ آزادی آزادی آزادی

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا

انتباہ ۔ کوئی کراچی یا اسلام آباد میں رہتا ہے یاپشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تین قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے

رنگ لائے گا شہيدوں کا لہو اور ظُلم کی تلوار ٹوٹے گی
جموں کشمير ہو کر رہے گا آزاد اِن شاء اللہ اِن شاء اللہ

قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں

جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں
اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ پھر موت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایثار کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہلِ جموں کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہلِ جموں کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی

اہلِ جموں کشمیر صرف جموں کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں
حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں ۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ؟
بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے اِن شاء اللہ ناکامی اس کا مقدّر ہے

بھارت جموں کشمیر کے لوگوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔ بھارتی معاندانہ پروپيگنڈہ سے بھونچکا ہوئے ہموطن بھی دشمن کی بانسری بجانے لگے ہيں

یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے ؟
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا ۔ میں نے اپنے دوسرے يعنی انگريزی بلاگ پر ستمبر 2005ء میں لکھا تھاکہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت نے 5 فروری کو چھٹی قرار دیا اور اسے سرکاری طور پر منایا اور آج تک 5 فروری کو چھٹی ہوتی ہے

اہل جموں کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، جموں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ جموں کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمير کے باشندوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ جموں کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے رياست جموں کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں دلال [Middle Man] کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر جموں کشمير کے باشندوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے تین بڑے دریا راوی چناب اور جہلم بھارت کے قبضہ میں ہیں جن پر کئی ڈيم بنا کر بھارت انہيں خُشک کرنے کے در پۓ ہے

جموں کشمیر کی جد و جہد آزادی کا مختصر جائزہ لینے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

منتخب نمائندوں کو کھلی چھوٹ نہیں دی جا سکتی

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جن لوگوں کو عوام منتخب کرتے ہیں انہیں کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی کہ وہ اپنی خواہش اور مفاد کے تحت امور چلائیں انہیں قانون اور آئین کے مطابق تمام امور سرانجام دینا ہوتے ہیں اگر کوئی منتخب نمائندہ آئین کے تقاضوں کے مطابق اپنا اختیار استعمال نہیں کرتا تو وہ حق رائے دہی کے ذریعے دیئے گئے مینڈیٹ سے انحراف کرے گا ۔ آئین کے مطابق ضروری ہے کہ ہر منتخب رکن اس کے مطابق کام کرے

عدالت نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کے تمام تر دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے پاکستان کے شہریوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ تمام تر صورتحال سے آگاہ رہیں اور سچ جانیں اسلئے اعلیٰ ترین ججوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو اس میمو کے ماخذ ، اس کی ساکھ اور اس کے مقاصد کی تفصیلی تحقیقات کرے گا

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاق پاکستان نے سیکرٹری داخلہ کے ذریعے میمو کے وجود سے انکار نہیں صرف تکنیکی نقائص کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ڈی جی آئی ایس آئی کی وزیراعظم کی اجازت کے بغیر منصور اعجاز سے ملاقات پر اعتراض بھی شامل ہے
منصور اعجاز نے اپنے جواب میں حسین حقانی کے موقف سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ٹھوس ثبوت دینے کیلئے تیار ہیں کہ مائیک مولن کو جیمز جونز کے ذریعے بھیجا گیا میمو حسین حقانی نے ہی لکھا تھا
حسین حقانی نے عدالت میں دیئے گئے حلف نامے میں کہا ہے کہ میں نے 2008 ء میں امریکہ میں بطور سفیر تقرری کے بعد سے پوری قوت سے ملک کی خدمت کی ہے ۔ وزیراعظم اور حکومت کی ہدایات پر فرائض سرانجام دیئے ہیں اور پاک امریکہ تعلقات میں آنے والے بہت سے بحرانوں سے نمٹا ہوں ۔ افسوسناک امریہ ہے کہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے مخالف اور پاکستان و امریکہ کے بہتر تعلقات کے مخالفین نے ہمیشہ میرے خلاف کام کیا ہے اور بے بنیاد الزامات لگائے ہیں کہ میں مسلح افواج کو بدنام کرنا چاہتا ہوں بہت سے دیگر پاکستانیوں کی طرح میں بھی سیاست میں فوجی مداخلت کا مخالف ہوں لیکن میں نے مسلح افواج یا ان کی قیادت کیخلاف کوئی سازش نہیں کی اور نہ ہی ان کا رتبہ کم کرنے کی کوشش کی ہے مجھ پر تازہ الزام یہ لگایا گیا ہے کہ میں نے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس ایڈمرل مائیک مولن کو ایبٹ آباد میں 2 مئی کی کارروائی کے بعد میمو لکھا جس میں پاکستان کی فوجی قیادت میں تبدیلیوں کے لئے امریکہ سے مدد مانگی گئی میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے حکومت پاکستان نے ایسی کوئی ہدایت نہیں کی اور نہ ہی میں نے ایسا کوئی میمو لکھا ہے اور نہ ہی حکومت یا صدر کی طرف سے کسی کو یہ بھجوانے کیلئے کسی دوسرے شخص کو کہا ہے ۔ سفیر ہونے کے ناطے امریکی حکام سے ہر سطح پر رابطہ میری ذمہ داری تھی اور میں تمام سرکاری پیغامات تیار کرنے اور بھجوانے کی صلاحیت رکھتا ہوں ۔ میں درخواست کرتا ہوں میرے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کی جائے اور اسی مقصد کیلئے میں نے قومی مفاد میں استعفیٰ دیا ہے ۔
فاضل اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق وفاق کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی وفاق کی تعریف میں آتے ہیں اس لئے وہ ان سب کی طرف سے پیش ہورہے ہیں ۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ 14 دسمبر کو انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے ایک کورنگ لیٹر کے ساتھ بیانات داخل کرائے اسی طرح آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے 21 دسمبر کو حلف نامے بھی جمع کروائے گئے ۔ اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ میمو کا کوئی وجود نہیں کیونکہ ایک شخص منصور اعجاز جو امریکی شہری ملک سے باہر بیٹھا ہے اس نے اپنے طور پر امریکہ میں پاکستانی سفیر کو ملوث کرنے کیلئے یہ میمو تیار کیا وفاقی حکومت اور ایوان صدر پہلے ہی ان کی تردید کرچکا ہے اور مجاز اتھارٹی و پارلیمانی فورم اس کی تحقیقات کررہا ہے ۔
حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس میں کسی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اس لئے یہ درخواستیں مسترد کردی جائیں ۔ان کا موقف تھا کہ عوامی اہمیت اور بنیادی حقوق کے معاملات آپس میں ملے ہوئے ہیں اور یہ درخواستیں بدنیتی کی بنیاد پر دائر کی گئی ہیں ۔
لفظ عوامی اہمیت کے بارے میں ڈکشنری یہ کہتی ہے کہ جس معاملے میں کوئی بھی شخص شریک ہو وہ عوامی نوعیت کا معاملہ ہوتا ہے ۔ یہ معاملہ کوئی شخص یا افراد مل کر اٹھا سکتے ہیں اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ بنیادی حقوق کا نفاذ یقینی بنانے کیلئے اس میمو کے ماخذ ساکھ اور مقصد کی تحقیقات ضروری ہے یہ معاملہ عوامی اہمیت کے زمرے میں آتا ہے ۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے موقف اختیار کیا کہ پارلیمانی کمیٹی میں درخواست دینے کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا اس لئے انہوں نے 23 نومبر کو درخواست جمع کروائی ہے جبکہ کمیٹی کا پہلا اجلاس 28 نومبر کو بلایا گیا ہے ۔
عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ میمو ایک سیاسی معاملہ ہے اس لئے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی اس معاملے کی تحقیقات کیلئے موزوں ہے
جبکہ رشید اے رضوی کا موقف ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے اس لئے عدالت ہی انصاف کرسکتی ہے ۔

جہاں تک اس معاملے پر انصاف کا تعلق ہے یہ عدالتی اختیار کا امتحان ہے ہمارے ملک میں عدلیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں سیاسی امور میں ریلیف حاصل کرنے کیلئے عدالتوں سے وقتاً فوقتاً رجوع کیا گیا ان میں بے نظیر بھٹو بنام وفاق ، محمد نواز شریف بنام وفاق ، اسمبلیوں کی تحلیل اور دیگر معاملات شامل ہیں ۔
سیاسی سوال پر انصاف بنیادی طور پر اختیارات کی علیحدگی کا معاملہ ہے بہت سے امور کو سیاسی سوال کا لیبل لگا کر دبا دیا جاتا ہے ۔
حکومت کے ایک حصے کے بارے میں کوئی فیصلہ حکومت کا دوسرا حصہ نہیں کرسکتا کہ کس نے اختیار سے تجاوز کیا ہے ۔ یہ آئینی تشریح کا معاملہ ہوتا ہے اور عدالت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کی حتمی تشریح کرے ۔

دلائل کے دوران دو سوالات عدالت کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے مقصد کے تحت اس معاملے کی تحقیقات کی جائے اور دوسرا یہ کہ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کیخلاف تحقیقات ضروری ہے اس لئے اس معاملے کا عدالت کو آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے ۔
آئین کے دیپاچے میں عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کی ضمانت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام اور عدلیہ کی آزادی کا مکمل تحفظ کیاجائے گا ۔ عدلیہ آئین کے تحت دی گئی آزادی کی ضمانت پر کسی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتی کیونکہ اس سمجھوتے سے حالات خراب ہوسکتے ہیں ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عدلیہ نے اپنا اختیار استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہورہا ہے ۔
ڈاکٹر مبشر حسن بنام وفاق کیس میں عدالت نے جوڈیشل ریویو کا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے این آر او کو غیر قانونی ، غیر آئینی اور شروع سے ہی غیر موثر قرار دیا ہے اس حکم پر عملدرآمد کیلئے درخواستیں دی گئیں لیکن ہم نے آئین کے تحت جمہوری نظام یقینی بنانے کیلئے انہیں زیر التواء رکھا تاکہ کوئی انتشار پیدا نہ ہو تاہم جب بڑی کرپشن کے دھڑا دھڑ مقدمات آئے تو عدالت نے آئین کے آرٹیکلز 4,9,14 اور 25 کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کیا ہمیں خوشی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ نے بھی عدالت سے رجوع کیا جس میں رینٹل پاور منصوبے شامل ہیں جس پر ایک وزیر مخدوم سید فیصل صالح حیات نے عدالت سے رجوع کیا اسی طرح ماروی میمن نے سیلاب کے دوران دریاؤں کا رخ موڑنے سے ہونے والے نقصانات کا معاملہ اٹھایا ۔ خواجہ محمد آصف او جی ڈی سی ایل کا کیس لائے اس کے ساتھ ساتھ اسٹیل ملز ، ایل پی جی ، نیشنل پولیس فاؤنڈیشن ، این آئی سی ایل ، حج انتظامات اور آر پی پیز ، کے مقدمات زیر التواء ہیں ۔ بینک آف پنجاب کیس میں کروڑوں روپے واپس لے کر بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا یہ رقم حکومتی اہلکاروں نے لوٹی تھی
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب عدالت کرپشن کا نوٹس لے گی تو یہ آسانی سے ہضم نہیں ہوگا کیونکہ عوام کا پیسہ لوٹنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی چاہے وہ کوئی بھی ہو ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں بھارت کی سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں آنے والے کرپشن مقدمات کا حوالہ بھی دیا ۔

اس معاملے کی تحقیقات کیلئے انتہائی تجربہ کار عدالتی افسران جو تین ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز ہیں انہیں کہا گیا کہ اور یہ کام دو زاویوں سے کیا گیا کیونکہ ایک تو یہ معاملہ پاکستان کی خود مختاری ، آزادی اور سلامتی کا ہے اور تحقیقات کے دوران بہت سے شواہد پیش ہونگے جن میں فرانزک شواہد کی بنیاد پر مجرموں کا تعین کیاجائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 9,14اور 19 اے کے تحت بنیادی حقوق کا تحفظ کیاجائے ۔
حسین حقانی کی نقل وحرکت پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی صرف اتنا کہا گیا ہے کہ وہ عدالت سے اجازت کے بغیر ملک نہیں چھوڑ سکتے تاکہ اس میمو کے ماخذ ساکھ اور اثرات کی کمیشن مکمل تحقیقات کرسکے ۔

فیصلے میں دو ججوں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس اعجاز افضل نے اپنے الگ الگ نوٹ میں کہا کہ قومی تاریخ بہت سے سانحات سے بھری ہوئی ہے جس میں ۔ ۔ ۔
ملک کا دولخت ہونا اور ایک وزیراعظم اور ایک سابق وزیراعظم کا قتل شامل ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ حکومتی عہدوں پر فائز لوگ اور اس وقت کا میڈیا دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد تک سب ٹھیک ہے کہ جھوٹی رٹ لگاتا رہا سچ کو منظر عام پر لانے اور عوام تک پہنچانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی اور شہریوں کو محض افواہوں ، قیاس آرائیوں اور نیم واضح حقائق کی اندھیر نگری میں بھٹکنے دیا گیا ایک مسخ شدہ تاریخ پیش کرکے عوام میں تفریق کی بنیاد رکھی گئی ۔

آئین کے آرٹیکل 19 اے کی بدولت سابق طریقہ کار بدل چکا ہے اس دیس کے ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ عوامی اہمیت کے امور کے بارے میں معلومات حاصل کرے ا ور اس کیلئے وہ عدالتی چارہ جوئی بھی کرسکتا ہے اور اس حق میں حکومت اور پارلیمنٹ کی قانون سازی بھی حائل نہیں ہوسکتی کیونکہ ہر شہری کو یہ حق آئین نے دیا ہے ۔ فیصلے سچ سامنے لانے کی اہمیت کے حوالے سے فاضل چیف جسٹس نے قرآن کریم کی مختلف سورتوں کی آیات کے حوالے بھی شامل کئے ہیں

کِنّے کِنّے جانا بِلو دے دے گھر

عمران خان کی سونامی کا حصہ بننے کيلئے تيار نوجوانو ۔ نواز شريف کے قدم بڑھانے والے جوانو ۔ جماعتِ اسلامی کے جلسے کو رونق بخشنے والے پِير و جواں اور اس ملک پاکستان سے محبت رکھنے والے باقی جوانو اور بزرگو

السلام عليکم

اين آر او عملدآمد کيس کے فيصلے ميں عدالتِ عظمٰی نے ايک اختيار يہ بھی رکھا ہے کہ اس ملک پاکستان کی قسمت کا فيصلہ اس ميں بسنے والے 8 کروڑ بالغ عورتيں اور مرد کريں

ايسا وقت اس سے پہلے مسلمانانِ ہند پر آيا تھا تو اُنہوں نے اپنا فرض احسن طريقہ سے نبھاتے ہوئے اپنی جانوں اور مال کی پرواہ نہ کی اور ہميں يہ ملک عطا کر گئے

اب اس ملک کی حفاظت اور پرورش ہم آپ کے ہاتھ ميں ہے

يہ امتحان ہم آپ پر آيا ہے ۔ آپ اگر چاہتے ہيں کہ آئين و قانون کی حکمرانی ہو تو ميدان ميں اُتريں اور حکمرانوں پر ثابت کر ديں کہ پچھلے کئی سالوں کی لوٹ مار اور ملکی اداروں کی بگڑتی ہوئی حالت کو مزيد برداشت نہيں کيا جا سکتا

مت بھوليں کہ يورپ کے ايک ملک ميں 35 ہزار افراد نے بغير ايک ٹہنی بھی توڑے اور بغير کسی کاغذ کو بھی آگ لگائے اپنے لُٹيرے صدر کو بھاگنے پر مجبور کر ديا تھا

ايسے مواقع بار بار نہيں آيا کرتے ۔ يہ وقت نکل گيا تو پھر اپنے ہاتھوں اپنی ہی تباہی کے سوا کچھ نہ ملے گا

ہم ترقی چاہتے ہيں ؟؟؟

آج بلکہ يوں کہنا چاہيئے کہ پچھلی کئی دہائيوں سے ہم لوگ مُلک و قوم کے دن بدن رُو بتنزل ہونے کا ہر محفل ميں رونا روتے ہيں ۔ تنزل کا مُوجب کوئی سياستدانوں کو قرار ديتا ہے تو کوئی فوجی آمروں کو اور کچھ ايسے بھی ہيں جو مُلا يا مُلا کے پڑھائے ہوئے اُن 18 فيصد افراد کو قرار موردِ الزام ٹھہراتے ہيں جنہوں نے مُلک ميں خواندگی کی شرح کو 17 سے 35 فيصد بنايا ہوا ہے ۔ آخرالذکر ميں اپنے کو زيادہ ذہين سمجھنے والےکچھ ايسے افراد بھی ہيں جو مروجہ بدحالی کا سبب دين اسلام کو قرار ديتے ہيں

ہموطنوں ميں پڑھے لکھوں سميت اکثريت کا يہ حال ہے کہ انہيں مطالعہ کا شوق نہيں ۔ وہ صرف نصاب کی کتب پڑھتے ہيں اسناد حاصل کرنے کيلئے اور بعض تو نصاب کی کُتب بھی پوری نہيں پڑھتے ۔ تعليميافتہ بننے يا اچھی عملی زندگی گذارنے کيلئے نصابی کُتب کے ساتھ ساتھ تاريخ ۔ معاشرتی اور معاشی علوم کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے اور يہ عادت نمعلوم کيوں ہموطنوں کی بھاری اکثريت ميں نہيں ملتی ۔ ہماری قوم کی ريخت و ناکامی کا يہی بڑا سبب ہے

دُور کيوں جايئے ۔ پڑھے لکھے ہموطنوں کی بھاری اکثريت کو 6 دہائياں پرانی اپنے ہی مُلک کی تاريخ کا ہی عِلم نہيں تو اور کيا توقع کی جائے ۔ اسی لئے يہ لوگ شکائت کرتے ہيں کہ مُلک ميں کسی نے 64 سال سے کچھ نہيں کيا ۔ صرف معاشی پہلو ہی کو ديکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری دِگرگوں حالت ہموطنوں کی بلاجواز شاہانہ عادات کا نتيجہ ہے ۔ آج کے دور ميں کسی سرکاری دفتر ميں چلے جائيے اور صرف قلم اور کاغذ کے استعمال کا تخمينہ لگايئے ۔ پھر اس کا مقابلہ کيجئے اُن لوگوں کے طريقے سے جنہوں نے اس مُلک کو حاصل کيا اور ترقی کی راہ پر ڈالا تھا

ميں نے پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں يکم مئی 1963ء ميں ملازمت شروع کی ۔ مجھے اُس وقت کے سمال آرمز گروپ [جو 1967ء ميں ويپنز فيکٹری بنا] ميں تعينات کيا گيا ۔ سمال آرمز گروپ کے سربراہ ورکس منيجر تھے جن کے ماتحت ميرے سميت 2 اسسٹنٹ ورکس منيجر اور ايک سيکشن آفيسر ايڈمن تھے ۔ سيکشن آفيسر کے برابر عہدے کے 8 فورمين متذکرہ 2 اسسٹنٹ منيجرز کے ماتحت تھے پھر اُن کے ماتحت اسسٹنٹ فورمين ۔ چارجمين ۔ سپروائزر اور ورکمين وغيرہ تھے

ميں نے ديکھا کہ ہمارے دفاتر ميں کوئی ايسا کاغذ جس کے ايک طرف لکھا ہوا ہو اور اس کی ضرورت نہ رہی ہو تو اُسے ضائع نہيں کيا جاتا تھا بلکہ لکھائی پر صرف ايک کاٹا لگا کر اس کے دوسری طرف لکھنے کيلئے استعمال کی جاتی تھی ۔ اسی طرح جو لفافہ ڈاک ميں موصول ہو اُس پر جہاں پتہ لکھا ہوتا تھا ايک پرچی چپکا کر لفافہ دوبارہ استعمال کيا جاتا تھا ۔ کاغذوں کو نتھی کرنے کيلئے لوہے کے پِن کی بجائے کانٹے استعمال کئے جاتے تھے جو قريب ہی اُگے کيکر کے درخت سے اُتارے جاتے تھے ۔ ہماری فيکٹری ميں صرف ايک ٹائپسٹ تھا اور ايک ہی ٹائپ رائٹر اسلئے کئی خطوط نب ہولڈر يا پکی پنسل سے ہی لکھے جاتے تھے

گليوں اور سڑکوں پر لگی بتياں کوئی توڑتا نہيں تھا ۔ نہ کوئی دوسری املاک کو نقصان پہنچاتا تھا ۔ طلباء اور طالبات اپنی چھٹيوں کے دوران دشمن کے ہوائی حملے سے بچنے اور اس کے بعد پيدا ہونے والی صورتِ حال سے نپٹنے ۔ ابتدائی طبی امداد اور دوسرے فلاحی کورس کرتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ معلوماتِ عامہ کے امتحاں پاس کرتے تھے

ہماری فيکٹری ميں سيکشن آفيسر ايڈمن 50 سالہ اشرف علی صاحب تھے جو 1947ء ميں وسط بھارت سے ہجرت کر کے آئے تھے ۔ چونکہ وہاں پر وہ سرکاری سيکرٹيريئٹ کے ملازم تھے اسلئے پاکستان پہنچنے پر اُنہيں کراچی ميں سيکرٹيريئٹ ميں ملازمت دی گئی ۔ وہاں سے 1953ء ميں اُن کا تبادلہ پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں ہوا تھا ۔ ميں نے اشرف علی صاحب کو ديکھا کہ ردّی کاغذ کی نلکی بنا کر ايک چھوٹی سی پنسل کے پيچھے لگا کر اسے لمبا کيا ہوا تھا کہ لکھنے کيلئے ہاتھ ميں آ سکے ۔ مجھے کام شروع کرنے کيلئے ايک ماہ کيلئے 2 پنسليں ملی تھيں ۔ ميرے پاس لکھنے کا کام کم تھا سو ميں نے ان ميں سے ايک اشرف علی صاحب کو پيش کی تو اُنہوں نے مسکراہٹ کے ساتھ يہ کہا “بھائی ميں چند سال ميں ريٹائر ہونے والا ہوں اور اپنی عادت خراب نہيں کرنا چاہتا کہ ريٹائرمنٹ کے بعد مجھے صرف پنشن پر گذر کرنا ہے”۔

اس کے بعد اُنہوں نے جو کچھ کہا وہ دورِ حاضر کے ہموطنوں کو اگر ہوش ميں نہ لائے تو پھر وہ اسی کے مستحق ہيں جو کچھ آجکل ہو رہا ہے ۔ اور عمران خان تو کيا شايد کوئی فرشتہ بھی آ کر اس مُلک و قوم کو درست نہ کر سکے ۔ اشرف علی صاحب نے مجھے جو بتايا تھا اُس کا خلاصہ يہ ہے

“جب پاکستان بنا تو ہم سی پی سے لُٹے پُٹے کراچی پہنچے سرحد پر نام اور دوسرے کوائف درج کئے جاتے تھے سو ہم نے لکھوا ديا ۔ کچھ دن ہميں کراچی مہاجرين کيمپ ميں رکھا گيا ۔پھر جوں جوں ضرورت ہوتی آدميوں کو ان کی تعليم اور تجربہ کے مطابق چھوٹی موٹی ملازمت دے دی جاتی سو ہميں بھی سيکرٹيريئٹ ميں ملازمت مل گئی ۔ وہاں نہ کوئی کرسی تھی نہ کوئی ميز ۔ کچھ کاغذ جن کی ايک طرف کچھ لکھا تھا اور ايک پکی پنسل دے دی گئی ۔ ايک ساتھی جو پہلے سے موجود تھے اور ايک پيٹی [wooden crate] کو ميز بنائے بيٹھے تھے کہنے لگے کہ آج چھٹی کے بعد ميرے ساتھ چليں ۔ وہ چھٹی کے بعد مجھے کيماڑی لے گئے ۔ وہاں خالی پيٹياں پڑی تھيں ۔ ہم نے ايک چھوٹی اور ايک بڑی اُٹھا لی ۔ اگلے روز ہم دفتر ميں ميز لگا کر کرسی پر بيٹھے ۔ ہميں 3 ماہ تنخواہ پيسوں ميں نہيں ملی بلکہ چاول ۔ آٹا اور دال وغيرہ دے ديا جاتا تھا اور سب خوش تھے ۔ اپنا کام بڑے شوق اور انہماک سے کرتے تھے ۔ ايک دوسرے کا خيال بھی رکھتے تھے ۔ کسی کو کوئی پريشانی نہ تھی ۔ ہم پيدل ہی دفتر آتے جاتے تھے ۔ جن لوگوں کی رہائش دور تھی وہ صبح تڑکے گھر سے نکلتے تھے ۔ ہميں جو پنسل ملتی تھی اُسے ہم آخری حد تک استعمال کرتے تھے ۔ کوئی 6 ماہ بعد ہميں سياہی کا سفوف ۔ دوات ۔ نب اور ہولڈر مل گئے ۔ ليکن پکی پنسل ساتھ ملتی رہی کيونکہ نب سے کاپياں نہيں بن سکتی تھيں”۔

يہاں يہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان بننے کے بعد بھارت ميں گندم کی شديد قلت پيدا ہوئی تو مہاتما کرم داس موہن چند گاندھی نے پورے بھارت کا دورہ کيا اور خود آلو کی روٹی کھا کر عوام کو بھی آلو کی روٹی کھانے کی ترغيب دی تھی جو آج کی اُن کی ترقی کا پيش خيمہ ثابت ہوئی

ملک فيروز خان نون 1957ء ميں پاکستان کے وزير اعظم رہے ہيں ۔ اُن کا گھر ميں دفتر ايک چھوٹی سی ميز اور ايک کرسی پر مشتمل تھا جو اُنہوں نے اپنے سونے کے کمرے ہی ميں لگائی ہوئی تھی ۔ ايک دن ان کی بيوی بيگم وقارالنساء نون نے ذاتی خط لکھا اور اُسی ميز پر رکھ ديا ۔ جب وقت کے پاکستان کے وزير اعظم گھر آئے تو بيوی نے کہا يہ خط ڈاکخانے ميں ڈال آئيں
وزير اعظم نے پوچھا “يہ کاغذ کہاں سے ليا ہے ؟”
بيوی “آپ کی ميز سے”
وزير اعظم “اور يہ سياہی”
بيوی ” آپ کی ميز سے”
وزير اعظم غصے ميں” نہ يہ کاغذ تمہارے خاوند کا ہے اور نہ سياہی ۔ يہ دونوں بلکہ يہ دفتر وزيرِ اعظم پاکستان کا ہے ۔ اب يہ کمی پوری کرنا ہو گی”

کاش کہ تيرے دِل ميں اُتر جائے ميری بات

عرضِ مصنف

افتخار اجمل بھوپال کی نہائت انکساری اور خلوص سے

عرض

يہ مختصر زندگی اک نعمتِ ربّانی ہے
آيئے اس کی کچھ مناسب تعظيم کريں
اسے تھوڑا تھوڑا دوسروں ميں تقسيم کريں

دعا

اے خدا ۔ جذبہءِ اِيثار عطا کر ہم کو
جو گفتار ہے وہ کردار عطا کر ہم کو