Category Archives: خبر

اسلام آباد ایف 8 کا دھماکہ خود کُش نہیں تھا

حکومت اور اسلام آباد کی انتظامیہ منگل کی رات ڈسٹرکٹ بار کورٹ کے باہر ہونے والے دھماکہ کو خودکش حملہ قرار دے رہی ہے جبکہ عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ خیز مواد سڑک کے کنارے پڑی ہوئی ریت کے نیچے نصب کیا گیا تھا۔ ریت کا یہ ڈھیر اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کی جانب سے ضلع کچہری کی طرف جانے والی سڑک کی تعمیر کے لیے پھینکا گیا تھا۔

محمد حنیف نے، جو کہ ضلع کچہری ایک ہوٹل کے مالک ہیں، بتایا کہ وہ اپنے ہوٹل پر موجود تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا جس سے ان کے ہوٹل کے شیشے اور برتن ٹوٹ گئے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کسی خودکش حملہ آور کو نہیں دیکھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد ریت کے اس ڈھیر میں چھپایا گیا تھا۔

ایف ۔ 8 مرکز میں دھماکہ

اسلام آباد کی ضلع کچہری ایف 8 مرکز میں ہے جو ہمارے گھر سے 350 میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ آج اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی دعوت پر چیف جسٹس صاحب نے وکلاء کنوینشن سے خطاب کرنا تھا ۔ ہزاروں لوگ مرکز میں پہنچ چکے تھے جن میں زیادہ تعداد وکلاء کی تھی ۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے لوگ اور عام شہری بھی تھے ۔ رات آٹھ بجے کے بعد سیاسی جماعتوں کے پنڈال میں زور دار دھماکہ ہوا جس کی دھمک ہمار ے گھر میں بھی محسوس ہوئی ۔ چیف جسٹس صاحب کا جلوس ابھی دور تھا ۔

اس دھماکہ کے نتیجہ میں 11 افراد ہلاک اور  50 زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 20 کی حالت تشویشناک ہے ۔ مرنے والوں میں ایک خاتون اور دو بچیاں بھی شامل ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب کیلئے سیکیورٹی کا اتنا ناقص انتظام تھا جبکہ کے علاقے کا تھانہ اسی مرکز میں ہے اور پولیس اور سیکیورٹی کے بڑے افسران کے دفاتر بھی اسی مرکز میں ہیں ۔

عینی شاہد کیا کہتا ہے ؟

جہاں تک مجھے حقائق کا علم ہے تو عبدالرشید غازی نے آخری وقت تک مذاکرات کامیاب بنانے کی پوری کوشش کی۔ وہ اپنے ساتھیوں کی زندگیاں بچانا چاہتے تھے لیکن عزت کے ساتھ۔ مذاکرات کی ناکامی کی وجہ حکومت کے ساتھ ساتھ ان علماء کا رویہ بھی ہے جو آخری وقت میں چوہدری شجاعت حسین کے ہمراہ لال مسجد کے باہر موجود تھے۔ بعض علماء کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ تھا۔ چوہدری شجاعت حسین اور مولانا فضل الرحمان خلیل موبائل فون پر عبدالرشید غازی کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے اور ان کے ساتھ موجود بعض علماء آپس میں قہقہے لگا رہے تھے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ علماء کے قہقہے روکنے کیلئے چوہدری شجاعت حسین کے کچھ ساتھیوں کو ان سے باقاعدہ درخواست کرنی پڑی۔ شام چھ بجے شروع ہونے والی بات چیت رات کے پچھلے پہر میں داخل ہوئی تو ان علماء نے اسلام آباد کے بلیو ایریا سے کھانا منگوا کر کھانا شروع کردیا جبکہ چوہدری شجاعت حسین اور فضل الرحمان خلیل بسکٹوں اور پانی پر گزارا کر رہے تھے۔ ان دونوں نے عبدالرشید غازی سے پوچھا کہ کیا آپ نے کچھ کھایا ہے ؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ اگر آپ چند سو افراد کا کھانا بھجوا دیں تو ہم سمجھیں گے کہ آپ واقعی ہمارے خیر خواہ ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے فوری طور پر تین سو آدمیوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کیلئے اپنے آدمی دوڑائے۔

اس دوران عبدالرشید غازی اپنے چند مبینہ غیر ملکی ساتھیوں کو حکومت کے حوالے کرنے پر راضی ہو چکے تھے کیونکہ یہ چھوٹی چھوٹی عمروں کے طلباء تھے۔ وہ لال مسجد اور جامعہ فریدیہ بھی چھوڑنے والے تھے۔ موقع پر موجود علماء جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس کے حوالے کرانا چاہتے تھے لیکن حکومت راضی نہ تھی۔ یہ اتنا اہم مسئلہ نہ تھا۔ اصل مسئلہ لال مسجد اور محصور سیکڑوں طلباء و طالبات کی زندگیاں بچانا تھا لیکن مولانا حنیف جالندھری اور ان کے ساتھی علماء اس مسئلے پر مذاکرات کو چھوڑ کر چلے گئے۔ صرف مولانا فضل الرحمان خلیل وہاں رہ گئے۔ انہوں نے آخر میں عبدالرشید غازی کو 20 عورتیں اور مرد باہر بھیجنے پر راضی کر لیا لیکن اس دوران عبدالرشید غازی کے موبائل فون کی بیٹری ڈاؤن ہوگئی اور رابطہ منقطع ہو گیا۔ مولانا فضل الرحمان خلیل اور چوہدری صاحب رابطہ دوبارہ بحال کرنے کا راستہ نکال ہی رہے تھے کہ آپریشن شروع ہو گیا۔

لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود بھوکے پیاسے مردوں کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا اور مجبور عورتوں نے خاموشی سے موت کے منہ میں جانا قبول کر لیا۔ کتنی عورتیں اور بچیاں شہید ہوئیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا حکومت کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ عبدالرشید غازی کی شہادت سے اگلے دن حکومت نے صحافیوں کو لال مسجد کا دورہ کروایا اور بہت سا اسلحہ دکھایا جس میں راکٹ لانچر بھی موجود تھے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ عبدالرشید غازی اور ان کے ساتھیوں نے یہ راکٹ لانچر کیوں نہ چلائے ؟

اس آپریشن سے اگلے روز اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین تھری میں ایک خاتون وزیر مملکت نے ایک ڈانسنگ کلب کا افتتاح کیا۔ اس علاقے میں شراب فروخت کرنے کی دکان بھی قائم ہوچکی ہے۔ کیا ڈانسنگ کلب اور شراب خانے قائم کر کے پاکستان میں انتہاء پسندی کم ہو جائے گی ؟ سچ تو یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی دراصل لبرل اور سیکولر انتہا پسندی کا ردعمل ہے۔ جب تک مغرب پسند لبرل اور سیکولر حکمران طبقہ اپنی انتہاء پسندی ختم نہیں کرتا معاشرے میں اعتدال پسندی فروغ نہ پائے گی۔ ذرا سوچئے اگر برطانوی حکومت کی پالیسیاں وہاں کے مسلمان ڈاکٹروں کو انتہا پسند بنا سکتی ہیں تو ہمارے حکمرانوں کی انتہا پسندی ہمارے نیم پڑھے لکھے مذہبی نوجوانوں کو کدھر لیکر جائے گی ؟

تحریر ۔ حامد میر

ان کا کیا قصور ؟

ایک نیک باعمل مسلمان خاندان سے ہماری علیک سلیک ہے ۔ ان میں ایک جوان انجنیئر ہے جس کی دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں ۔ اس کی بیوی چھ ماہ کیلئے اپنے میکے گئی جو ملک سے باہر ہیں ۔ ان کی ایک ملازمہ ہیں ۔ انجنیئر صاحب نے سوچا کہ ملازمہ فارغ کیا کرے گی اس کو مدرسے میں داخل کرا دیتے ہیں ۔ لکھنا پڑھنا اور دین کا کچھ سیکھ لے گی ۔ یکم جولائی کو وہ اسے جامعہ حفصہ میں داخل کرا آیا ۔ دوسرے دن بعد دوپہر اچانک آپریشن شروع ہو گیا ۔ ملازمہ نے گھر پر ٹیلیفون کیا اور کہا “یہاں گولیاں چل رہی ہیں ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے آ کر لے جائیں”۔

انجنیئر صاحب ملازمہ کو لینے گئے تو اسے جامعہ حفصہ سے ایک کلو میٹر دور ہی روک دیا گیا ۔ واپس گھر جا کر اس نے ٹیلیفون پر جامعہ حفصہ سے رابطہ کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ بے بس ہیں جونہی گولیاں چلنی بند ہوں گی ان کی ملازمہ کو باہر نکال دیا جائے گا ۔ دوسرے دن ملازمہ چار طالبات کے ساتھ باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی اور اپنے بھائی کے گھر جا کر انجنیئر صاحب کو اپنی خیریت کا ٹیلیفون کر دیا ۔

انجیئر صاحب نے جو اپنی ملازمہ کے متعلق مدرسہ حفصہ میں ٹیلیفون کیا تھا اس کے نتیجہ میں دوسرے دن ان کے گھر کچھ لوگ سادے کپڑوں میں آئے اور انہیں گرفتار کر کے لے گئے اور وہ ابھی تک اڈیالہ جیل میں بند ہیں ۔ ان کی بیٹیاں محلہ داروں نے ان کے رشتہ داروں کے گھر پہنچادی تھیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ اسی طرح کے 80 کے قریب لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔

جو مّلّا نہیں وہ کیا کہتے ہیں ؟

جنگ آن لائین کے مطابق عبدالستار ایدھی صاحب اور بلقیس ایدھی صاحبہ نے کہا کہ لال مسجد کے سانحے میں بے دریغ طاقت کا بے جا استعمال کیا گیا ہے، اگر یہ معاملہ پہلے ہی ہمارے سپرد کردیا جاتا تو ہم بغیر خون کا ایک قطرہ بہائے یہ معاملہ حل کرسکتے تھے، لگتا تھا کہ کوئی نادیدہ قوت تصفیے کی تمام کوششیں ناکام بنا رہی تھی۔ مذاکرات سے قبل بہت بڑے آپریشن کی تیاریاں کرلی گئی تھیں اور فوج نے بڑے پیمانے پر مورچے بنا رکھے تھے۔ بلقیس ایدھی نے کہا کہ تمام تیاریاں میری سمجھ سے بالاتر تھیں۔ لال مسجد کے اندر موجود عبدالرشید غازی سمیت کسی سے براہ راست بات نہیں ہوئی ۔ ہمیں اعجاز الحق سمیت وزراء بتا رہے تھے کہ یہ پیغام آیا ہے اور یہ دھمکی دی گئی ہے ، جب بھی کسی کے موبائل فون کی گھنٹی بجتی تھی وہ برق رفتاری سے فون سننے دور فاصلے پر چلا جاتا تھا۔ سانحہ لال مسجد اسلامی تاریخ کا بدترین سیاہ باب ہے جس میں ایک طرف تو لچک کا مظاہرہ کیا گیا دوسری طرف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایدھی صاحب تو بعد میں پہنچے مگر میں نے فوج اور لال مسجد کے اندر موجود افراد سے چیخ چیخ کر اپیل کی کہ نرمی اختیار کی جائے مگر میری کسی نے بھی نہیں سنی ۔ ایک سوال کے جواب میں بلقیس ایدھی نے کہا کہ مجھے مولانا عبدالرشید دہشت گرد نہیں لگتے۔ دہشت گردوں کی تو صورت ہی علیحدہ ہوتی ہے

عبدالستار ایدھی نے کہا کہ مجھے لگتا تھا کہ مولانا عبدالرشید غازی شاید بے بس ہوں اور یرغمال ہوں مگر یہ محض ہمارا خیال ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی چیزیں پراسرار تھیں، مذاکرات ہورہے تھے اور اخبار نویسوں پر وہاں جانے پر مکمل پابندی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مذاکرات سے قبل ہی یہ فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ آپریشن کرنا ہے اور یہ سب کچھ ختم کردینا ہے اور پھروہی ہوا آپریشن ہوا سب کچھ ختم ہوگیا۔ میں نے میگا فون پر اعلان کیا تھا کہ عبدالرشید غازی اگر سرینڈر کردیں تو ایدھی فاؤنڈیشن کروڑوں روپے خرچ کرکے لال مسجد کا انتظام سنبھالے گی، مگر باہر بھی خوف کی فضا تھی اور ہر طرف مورچے تھے جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔

مذاکرات میں حکومت کو بے نقاب کرتے ہیں حامد میر

مئی 2007ء کے آخری ہفتے میں جنرل پرویز مشرف پر بھی یہ الزامات لگنے لگے کہ وہ جان بوجھ کر لال مسجد کے ذریعہ گڑ بڑ پھیلا رہے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ چوہدری شجاعت حسین کے لال مسجد والوں کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوگئے لیکن انہیں کہاگیا کہ آپ مذاکرات کو لمبا کریں۔ چوہدری صاحب سے رہا نہ گیا اور انہوں نے مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری حکومت پر عائد کردی۔ آخری ملاقات میں عبدالرشید غازی نے چوہدری صاحب سے کہا کہ آپ مخلص انسان ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ حکومت اس مسئلے کو کچھ مزید لمبا کرے گی اور مناسب وقت پر ہمیں ختم کرکے امریکا کے سامنے سرخرو ہوجائے گی۔ ایک دن عبدالرشید غازی نے یہ بھی کہا کہ اگرہم واقعی قصور وار ہیں تو کیا حکومت ہماری بجلی پانی بند نہیں کرسکتی؟ ہم پھر بھی باز نہ آئیں تو اعصاب شکن گیس پھینک کر ہم سب کو گرفتار نہیں کرسکتی؟

سات جولائی کو چوہدری شجاعت حسین نے مجھے بلایا اور کہا کہ وہ آخری مرتبہ عبدالرشید غازی کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن جو فون نمبر ان کے پاس تھے وہ سب بند ہوچکے ہیں۔ چوہدری صاحب دوبارہ رابطہ چاہتے تھے میں نے کوشش کرکے غازی سے رابطہ کیا اور انہیں چوہدری صاحب کی خواہش سے آگاہ کیا۔ غازی ہنسے اور بولے کہ چوہدری صاحب معصوم ہیں وہ نہیں جانتے کہ ہمیں مارنے کا فیصلہ ہوچکا ہے میرے اصرار پر انہوں نے چوہدری صاحب سے دوبارہ رابطہ کیا اور یوں پھر سے مذاکرات شروع ہوگئے۔ ان مذاکرات میں غازی نے بار بارکہا کہ میرے بڑے بھائی عبدالعزیز کو دھوکے سے باہر بلا کر گرفتار کرلیا گیا اور مجھے باہر بلا کر مار دیا جائے گا لہٰذا بہتر ہے کہ میں ذلت کی موت کی بجائے لڑتے ہوئے مارا جاؤں۔

آخرکار وہی ہوا اور غازی نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے لڑتے ہوئے جان دینے کو ترجیح دی۔ آخری رابطوں کے دوران میں نے غازی سے کہا کہ دونوں طرف مسلمان ہیں کوئی راستہ نکالیں کہ مسلمان ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں۔ غازی نے کہا کہ میں نے بہت کوشش کی لیکن حکومت ہمیں رسوا کرنا چاہتی ہے، یہ سارا معاملہ حکومت کا کھڑا کیا ہوا ہے، حکومت نے اس معاملے میں بہت سے سیاسی مقاصد حاصل کئے اور آخر میں ہمیں رسوا کرکے مزید کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ غازی کو یقین تھا کہ ان کی موت ہی ان کی فتح اور حکومت کی ناکامی ہوگی۔ وہ کہتے تھے کہ ہماری موت ہماری بے گناہی ثابت کریگی اور ہمارا بدلہ اس ملک کے غیرت مند مسلمان لیں گے۔

پورا مضمون یہاں کلک کر کے پڑھئے

وہ ہمیں کیوں ماریں گے؟ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ۔ ۔ ۔ فوجی تو کٹر مسلمان ہوتے ہیں

کچی عمروں میں یقینا اِن کی آنکھیں بھی خواب دیکھتی ہوں گی ۔ اِن کا دل بھی کبھی اچھے رشتوں کی آس میں دھڑکتا ہو گا ۔ اِن کا بھی عید پر نئے کپڑے سلوانے ۔ ہاتھوں میں حِنا سجانے اور چوڑیاں پہننے کو جی للچاتا ہو گا ۔ لیکن آرزوئیں،خواہشات اور تمنائیں ناکام ہو کر برقعوں کے پیچھے اس طرح جا چھپیں کہ پھر نہ چہرے رہے۔۔ نہ شناخت صرف آوازیں تھیں۔۔ جو اب تک میرے کانوں میں گونجتی ہیں اِنہی میں ایک چھوٹی بچی ۔ یہی کوئی آٹھ دس برس کی ۔ حجاب میں اس طرح ملبوس کی چہرہ کُھلا تھا ۔ گفتگو سے مکمل ناواقفیت کے باوجود مسلسل ہنسے جاتی تھی کہ شاید یہی ۔ مباحثہ ۔ اُس کی تفریح کا سبب بن گیا تھا ۔ “بیٹی آپ کا نام کیا ہے ؟” میرے سوال پر پٹ سے بولی “اسماء ۔ انکل” پیچھے کھڑی اس کی بڑی بہن نے سر پر چپت لگائی”انکل نہیں ۔ بھائی بولو ۔ “خُدا جانے اس میں ہنسنے کی کیا بات تھی کہ چھوٹے قد کے فرشتے نے اس پر بھی قہقہہ لگا کر دہرایا”جی بھائی جان”۔ “آپ کیا کرتی ہیں؟” میں نے ننھی اسماء سے پوچھا ۔ “پڑھتی ہوں”۔ “کیا پڑھتی ہو بیٹا ؟” جواب عقب میں کھڑی بہن نے دیا “حفظ کر رہی ہے بھائی”۔ “اور بھی کچھ پڑھا رہی ہیں؟” میں نے پوچھا ۔ “جی ہاں کہتی ہے بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے گی” بہن نے جو کہ یہی کچھ پندرہ سولہ برس کی مکمل حجاب میں ملبوس تھی، جواب دیا ۔ “آپ دو بہنیں ہیں؟” میں نے سوال کیا ۔ “جی ہاں بھائی” بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں لیتے ہوئے کہا “تین بھائی گاؤں میں ہیں ۔ ہم بٹہ گرام سے ہیں نا ۔ کھیتی باڑی ہے ہماری”۔

میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کی سلسلے میں موجود تھا۔۔طالبات اور عبدالرشید غازی صاحب سے گفتگو کے بعد میں نے بچیوں کو خُدا حافظ کہہ کر غازی صاحب کے ساتھ اُن کے حجرے کی طرف قدم بڑھایا تو ننھی اسماء پیچھے بھاگتی ہوئی آئی “بھائی جان ۔ آٹوگراف دے دیں”۔ ہانپ رہی تھی “میرا نام اسماء اور باجی کا نام عائشہ ہے”۔ میں نے حسبِ عادت دونوں کیلئے طویل العمری کی دُعا لکھ دی ۔ آگے بڑھا تو ایک اور فرمائش ہوئی”بھائی جان ۔ اپنا موبائل نمبر دے دیں ۔ آپ کو تنگ نہیں کروں گی”۔ نہ جانے کیوں میں نے خلافِ معمول اُس بچی کو اپنا موبائل نمبر دے دیا ۔ اُس کی آنکھیں جیسے چمک اُٹھیں ۔ اسی دوران غازی صاحب نے میرا ہاتھ کھینچا “ڈاکٹر صاحب یہ تو ایسے ہی تنگ کرتی رہے گی”۔ [واپسی پر] دروازے سے باہر قدم رکھتے وہی شیطان کی خالہ اسماء اچھل کر پھر سامنے آ گئی”بھائی جان ۔ میں آپ کوفون نہیں کروں گی ۔ وہ کارڈ باجی کے پاس ختم ہو جاتا ہے نا ۔ ایس ایم ایس کروں گی ۔ جواب دیتے رہیے گا ۔ پلیز بھائی جان”۔ اُس کی آنکھوں میں معصومیت اور انداز میں شرارت کا امتزاج تھا ۔ “اچھا بیٹا ۔ ضرور۔۔۔اللہ حافظ”۔ جاتے جاتے پلٹ کر دیکھا تو بڑی بہن بھی روشندان سے جھانک رہی تھی کہ یہی دونوں بہنوں کی کُل دُنیا تھی ۔

گزرے تین ماہ کے عرصے میں وقفے وقفے سے مجھے ایک گمنام نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوتے رہے ۔ عموماً قرآن شریف کی کسی آیت کا ترجمہ یا کوئی حدیثِ مبارکہ یا پھر کوئی دُعا ۔ رومن اُردو میں ۔ اور آخر میں بھیجنے والے کا نام ۔ “آپ کی چھوٹی بہن اسماء” یہ سچ ہے کہ ابتداء میں تو مجھے یاد ہی نہیں آیا کہ بھیجنے والی شخصیت کون ہے؟ لیکن پھر ایک روز پیغام میں یہ لکھا آیا کہ “آپ دوبارہ جامعہ کب آئیں گے؟” تو مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی چھوٹی نٹ کھٹ ۔ حجاب میں ملبوس بچی ہے ۔ جس سے میں جواب بھیجنے کا وعدہ کر آیا تھا ۔ میں نے فوراً جواب بھیجا “بہت جلد”۔ جواب آیا “شکریہ بھائی جان”

میں اپنے موبائل فون سے پیغام مٹاتا چلا گیا تھا چنانچہ چند روز قبل جب لال مسجداور جامعہ حفصہ پر فوجی کارروائی کا اعلان ہوا تو میں نے بے تابی سے اپنے فون پر اُس بچی کے بھیجے پیغامات تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بد قسمتی سے میں سب مٹا چُکا تھا ۔ اُمید تھی کہ اسماء بڑی بہن کے ساتھ نکل گئی ہو گی لیکن پھر بھی بے چینی سی تھی ۔ کوئی آیت،حدیث،دُعا بھی نہیں آ رہی تھی ۔ اس تصور کے ساتھ خود کو تسلی دی کہ ان حالات میں، جب گھر والے دور گاؤں سے آ کر دونوں کو لے گئے ہوں گے تو افراتفری میں پیغام بھیجنے کا موقع کہاں؟ جب بھی اعلان ہوتا کہ “آج رات کو عسکری کارروائی کا آغاز ہو جائے گا”۔ “فائرنگ،گولہ باری کا سلسلہ شروع”۔ “مزید طالبات نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا”۔ “ابھی اندر بہت سی خواتین اور بچے ہیں”۔ “یرغمال بنا لیا گیا ہے” وغیرہ وغیرہ تو میری نظر اپنے موبائل فون پر اس خواہش کے ساتھ چلی جاتی کہ کاش! وہ پیغام صرف ایک بار پھر آ جائے ۔ میں نے جسے کبھی محفوظ نہ کیا ۔

آخر 8 جولائی کی شب اچانک ایک مختصر ایس ایم ایس موصول ہوا “بھائی جان ۔ کارڈختم ہو گیا ہے ۔ پلیز فون کریں”۔ میں نے اگلے لمحے رابطہ کیا تو میری چھوٹی پیاری اسماء زاروقطار رو رہی تھی “بھائی جان، ڈر لگ رہا ہے ۔ گولیاں چل رہی ہیں ۔ میں مر جاؤں گی”۔ میں نے چلا کر جواب دیا “اپنی بہن سے بات کراؤ”۔ بہن نے فون سنبھال لیا “آپ دونوں فوراً باہر نکلیں ۔ معاملہ خراب ہو رہا ہے ۔ کہیں تو میں کسی سے بات کرتا ہوں کہ آپ دونوں کو حفاظت سے باہر نکالیں”۔ دھماکوں کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔ مجھے احساس ہوا کہ بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں چھپا رکھا ہے لیکن چھوٹی پھر بھی بلک رہی ہے ۔ رو رہی ہے”۔

“بھائی وہ ہمیں کیوں ماریں گے؟ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ۔ وہ بھی کلمہ گو ہیں ۔ اور پھر ہمارا جُرم ہی کیا ہے؟ آپ تو جانتے ہیں بھائی ۔ ہم نے تو صرف باجی شمیم کو سمجھا کر چھوڑ دیا تھا ۔ چینی بہنوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا بھائی ۔ یہ سب ان کی سیاست ہے ۔ ہمیں ڈرا رہے ہیں”۔ بہن پُر اعتماد لہجے میں بولی ۔ “دیکھیں ۔ حالات بُرے ہیں ۔ میں بتا رہا ہوں ۔ آپ فوراً نکل جائیں خدا کیلئے”۔ مجھے احساس ہوا کہ میں گویا اُنہیں حکم دے رہا ہوں ۔ “بھائی ۔ آپ یونہی گھبرا رہے ہیں ۔ غازی صاحب بتا رہے تھے کہ یہ ہمیں جھکانا چاہ رہے ہیں ۔ باہر کچھ بھائی پہرہ بھی دے رہے ہیں ۔ کچھ بھی نہیں ہو گا، آپ دیکھیے گا ۔ اب فوج آ گئی ہے ۔نا ! یہ بدمعاش پولیس والوں کو یہاں سے بھگا دے گی ۔ آپ کو پتہ ہے ۔ فوجی تو کٹر مسلمان ہوتے ہیں ۔ وہ ہمیں کیوں ماریں گے ۔ ہم کوئی مجرم ہیں ۔ کوئی ہندوستانی ہیں ۔ کافر ہیں ۔ کیوں ماریں گے وہ ہمیں !”۔ بہن کا لہجہ پُر اعتماد تھا اور وہ کچھ بھی سُننے کو تیار نہ تھی ۔ “ڈاکٹر بھائی مجھے تو ہنسی آ رہی ہے کہ آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں ۔ آپ کو توپتہ ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے ۔ یہ اسماء تو یونہی زیادہ ڈر گئی ہے”۔ “اور ہاں آپ کہیں ہم بہنوں کا نام نہ لیجئے گا ۔ ایجنسی والے بٹہ گرام میں ہمارے والد،والدہ اور بھائیوں کو پکڑ لیں گے ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا بھائی ۔ وہ ہمیں کبھی نہیں ماریں گے”۔

میں نے دونوں کو دُعاؤں کے ساتھ فون بند کیا اور نمبر محفوظ کر لیا ۔ اگلے روز گزرے کئی گھنٹوں سے مذاکرات کی خبریں آ رہی تھیں اور میں حقیقتاً گُزرے ایک ہفتے سے جاری اس قصے کے خاتمے کی توقع کرتا، ٹی وی پر مذاکرات کو حتمی مراحل میں داخل ہوتا دیکھ رہا تھا کہ احساس ہونے لگا کہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے چند شخصیات کو اسلام آباد فون کر کے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ معاملہ بگڑنے کو ہے تو جواباً ان خدشات کو بلا جواز قرار دیا گیا لیکن وہ دُرست ثابت ہوئے اور علماء کے وفد کی ناکامی اور چوہدری شجاعت کی پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی وہ عسکری کارروائی شروع ہو گئی جس کی قوت کے بارے میں، موقع پر موجود ایک سرکاری افسرکا بیان تھا “لگتا ہے پوری بھارتی فوج نے چھوٹے ملک بھوٹان پر چڑھائی کر دی ہے ۔ فائرنگ ۔ دھماکے ۔ گولہ باری ۔ شیلنگ ۔ جاسوس طیارے ۔ گن شپ ہیلی کاپٹرز ۔ خُدا جانے کیا کچھ! اور پھر باقاعدہ آپریشن شروع کر دینے کا اعلان ۔

اس دوران عبد الرشید غازی سے بھی ایک بار ٹی وی پر گفتگو کا موقع ملا ۔ اور پھر پتہ چلا کہ اُن کی والدہ آخری سانسیں لے رہی ہیں ۔ اور تبھی صبح صادق فون پر ایس ایم ایس موصول ہوا “پلیز کال”۔ یہ اسماء تھی ۔ میں نے فوراً رابطہ کیا تو دوسری طرف چیخیں ۔ شور شرابہ ۔ لڑکیوں کی آوازیں “ہیلو۔۔اسماء ۔ بیٹی ! ہیلو”۔ خُدا جانے وہاں کیا ہو رہا تھا ۔ “ہیلو بیٹی آواز سُن رہی ہو ؟” میں پوری قوت سے چیخ رہا تھا “بات کرو کیا ہوا ہے ؟” وہ جملہ آخری سانسوں تک میری سماعتوں میں زندہ رہے گا ۔ ایک بلک بلک کر روتی ہوئی بچی کی رُک رُک کر آتی آواز “باجی مر گئی ہے ۔ مر گئی ہے باجی”۔ اور فون منقطع ہو گیا۔

اسٹوڈیوز سے کال آ رہی تھی کہ میں صورتحال پر تبصرہ کروں لیکن میں بار بار منقطع کال ملانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔ کچھ کہنے یا سُننے کی ہمت نہ تھی ۔ کسی کمانڈو جیسی طاقت، اعجازالحق جیسی دیانت اور طارق عظیم جیسی صداقت نہ ہونے کے باعث مجھے ٹی وی پر گونجتے ہر دھماکے میں بہت سی چیخیں ۔ فائرنگ کے پیچھے بہت سی آہیں اور گولہ باری کے شور میں”بھائی جان ! یہ ہمیں کیوں ماریں گے؟” کی صدائیں سُنائی دے رہی تھیں ۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں دھواں بھر گیا ہو گا ۔ اور باہر فائرنگ ہو رہی ہو گی ۔ بہت سی بچیاں تھیں ۔ فون نہیں مل رہا تھا ۔ پھر عمارت میں آگ لگ گئی ۔ اور میں اسماء کو صرف اُس کی لا تعداد دُعاؤں کے جواب میں صرف ایک الوداعی دُعا دینا چاہتا تھا ۔ ناکام رہا ۔ فجر کی اذانیں گونجنے لگیں تو وضو کرتے ہوئے میں نے تصور کیا کہ وہ جو سیاہ لباس میں ملبوس مجھ سے خواہ مخواہ بحث کر رہی تھیں ۔ اب سفید کفن میں مزید خوبصورت لگتی ہوں گی ! جیسے پریاں۔

قحبہ خانوں کے سر پرستوں کو نوید ہو کہ اب اسلام آباد پُر سکون تو ہو چکا ہے لیکن شاید اُداس بھی ! اور یہ سوال بہت سوں کی طرح ساری عمر میرا بھی پیچھا کرے گا کہ وہ کون تھیں ؟ کہاں چلی گئیں؟

دونوں مرحوم بچیوں سے وعدے کے مطابق اُن کے فرضی نام تحریر کر رہا ہوں ۔ ڈاکڑ شاہد مسعود
پورا مضمون یہاں کلک کر کے پڑھئے