Category Archives: خبر
احتجاج کے بیسویں دن کی جھلکیاں
احتجاج کے اُنیسویں دن کی جھلکیاں
دھماکوں کی مزید تفصیل
راولپنڈی پولیس کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ دونوں دھماکوں میں تیس افراد مارے گئے ہیں۔ چشم دیدگواہوں کے مطابق حملے کا نشانے بننے والی بس جب کیمپ کے اندر داخل ہوئی تو ایک چھوٹی گاڑی بھی اس کے پیچھے اندر چلی گئی، پھر زوردار دھماکہ ہوا اور بس کو آگ لگ گئی۔ نشانہ بننے والی بس بری طرح جل چکی ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق جس وقت یہ دھماکہ ہوا تو اس وقت گاڑی میں 40 سے زائد افراد سوار تھے اور ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں قابل شناخت نہیں رہیں۔
دھماکے کے بعد جب مختلف ہسپتالوں کی ایمبولنس گاڑیاں وہاں پہنچیں تو موقع پر تعینات فوجی اہلکاروں نے انہیں کیمپ کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی اور صرف فوج کی ایمبولنس گاڑیوں کو لاشیں اُٹھانے کی اجازت دی گئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق بیالیس تابوت اوجڑی کیمپ میں بھیجے گئے ہیں اور اس واقعہ میں ہلاک ہونے والے کسی شخص کی لاش کو جی ایچ کیو نہیں بھیجا گیا۔
دوسرا دھماکہ جی ایچ کیو کے داخلی دروازے کے پاس ہوا جس میں ایک شدت پسند نے اپنی گاڑی چیک پوسٹ سے ٹکرا دی جس سے شدت پسند سمت دو افراد ہلاک ہوگئے۔
ان دھماکوں کی کوریج کے لیے جب میڈیا کے لوگ وہاں پہنچے تو حساس اداروں کے اہلکاروں نے ان سے کیمرے چھین لیے۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران راولپنڈی میں پاکستانی فوج پر پانچ خودکش حملے ہوئے ہیں جن میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ذیادہ تعداد فوجی اہلکاروں کی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تاحال ان حملوں کا سراغ نہیں لگا سکے۔
پہلا نتیجہ
دولت مشترکہ نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور قانون کی بالادستی تک اس کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر لویز آربر نے حلف نہ لینے والے ججوں کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ دولت مشترکہ نے پاکستان کی رکنیت معطل کرنے کا فیصلہ یوگنڈا میں تنظیم کے ایک اجلاس میں کیا جہاں اس تنظیم کے ترپن رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایک کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت تک تنظیم سے باہر رکھا جائے گا جب تک وہاں جمہوریت بحال اور قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو جاتی۔ دولت مشترکہ کے سیکرٹری جنرل ڈان مکنن نے کہا کہ ترپن رکنی تنظیم نے یہ فیصلہ متفقہ طور کیا۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا کہ تنظیم نے یہ فیصلہ غُصّے میں نہیں بلکہ افسوس کے ساتھ لیا ہے۔ انہووں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان جلد ہی دوبارہ تنظیم کا رکن بن جائے گا۔
دولت مشترکہ نے 12 نومبر کو لندن میں ایک اجلاس میں پاکستان کو 22 نومبر تک مہلت دی تھی کہ صدر مشرف فوجی وردی اتار دیں، ہنگامی حالت کو ختم کر کے آئین بحال کریں، عدلیہ کی آزادی یقینی بنائیں اور میڈیا پر عائد پابندیاں ختم کریں۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر لویز آربر نے کہا تھا کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کو لازماً ان ججوں کو بحال کرنا چاہئے جنہیں ایمرجنسی کے نفاذ کے وقت برطرف کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں پاکستان میں جمہوریت ایک فریب ہوگا جہاں جج مکمل طور پر حکومت کے تابع ہو جائیں گے۔ آربر نے یہ بیان اس روز دیا جب پاکستان میں پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے ایک بنچ جنرل پرویز مشرف کے بحیثیت صدر انتخاب کے خلاف آخری درخواست بھی نمٹا دی تھی۔
پاکستان کی دولت مشترکہ کی رکنیت اس سے پہلے انیس سو ننانوے میں معطل کی گئی تھی جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تھا۔ اس کے بعد سن دو ہزار چار میں پاکستان کی رکنیت بحال ہوئی تھی۔
بس میں ہی میں
یہ دنیا کیا ہے ؟ بس ایک میں ہوں اور ایک تم ہو اور تم بھی کیا ؟ باس میں ہی میں ہوں ۔
جنرل پرویز مشرف نے آج شام ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تین نومبر سے لیکر بیس نومبر تک جاری ہونے والے اپنے تمام احکامات کو تحفظ دیا ہے۔ نئے حکمنامے کے مطابق ان کے ان اقدامات کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ نئی آئینی ترمیم کو ارٹیکل 270 اے اے اے کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد آئین میں لائی گئی تبدیلیوں اور نئے قوانین کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ان ترامیم و اقدامات کو کسی عدالت میں زیر بحث نہیں لایا جا سکے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اکتوبر انیسو ننانوے کے ماوارئے آئینی اقدامات کو بھی اسی طرز پر تحفظ فراہم کیا گیا تھا جس کی بعد میں عدالتوں اور پارلیمان نے توثیق کر دی تھی۔ آئین کے مطابق اسے معطل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور ایسا کرنے والے کی سزا موت قرار دی گئی ہے۔
ترمیم کے مطابق اس مدت کے دوران تمام احکامات اور تعیناتیاں کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔ ترمیم کے ذریعے جنوری دو ہزار آٹھ میں متوقع عام انتخابات اور ججوں کے حلف کو بھی یہ آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
جنرل پرویز مشرف ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد اس بات کی اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کا یہ اقدام ماورائے آئین تھا۔
پاکستان لائرز فورم کے چیرمین اے کے ڈوگر نے اس ترمیم کی تحریر کو بے معنی الفاظ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کوئی ایسا قانون جو آئین کے خلاف ہو اس کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت کے پاس جوڈیشل پاور ہوتی ہے جس کو کبھی کوئی قانون یا آئین اس کو ختم نہیں کرسکتا۔