Category Archives: خبر

قاتل کون ؟

نشر ہونے والے بیانات

پروفیسر ڈاکٹر مصدق نے جمعرات 27 دسمبر کی شام کہا کہ موت گردن میں گولی لگنے سے ہوئی جو سانس کی نالی کو کاٹتے ہوئے نکل گئی ۔

بینظیر کے انتہائی قریبی ساتھی ڈاکٹر بابر اعوان نے جمعرات کی شام کو کہا کہ بینظیر پر نشانہ لیکر گولیاں چلائی گئیں جس کے نتیجہ میں ہلاکت ہوئی ۔

نگران وزیرِ داخلہ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل حامد نواز نے کہا کہ بینظیر کی موت بم کا ٹکڑا کنپٹی پر لگنے سے ہوئی جو کھوپڑی کو توڑتا ہوا نکل گیا ۔

جمعہ 28 دسمبر کی شام کو پریس کانفرنس میں وزارتِ داخلہ کے ترجمان ریٹائرڈ بریگیڈئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا کہ 3 گولیاں چلیں مگر بینظیر کو کوئی نہ لگی ۔ بینظیر ڈر کر ایکدم نیچے ہونے لگی تو اس کی کنپٹی گاڑی کے کھلے چھت کے لیور سے ٹکرائی جس سے اس کی موت واقع ہوئی ۔

پروفیسر ڈاکٹر مصدق نے جمعہ 28 دسمبر کی شام کہا کہ موت کنپٹی لیور سے ٹکرانے کے باعث ہوئی ۔

دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک شخص نے کہا “میں صرف چند فٹ کے فاصلہ پر تھا ۔ محترمہ پر ایک نوجوان شخص نے کلاشنکوف سے فائرنگ کی “۔

ایک اور عینی شاہد نے کہا ” محترمہ پر فارنگ پولیس کی گاڑی سےکی گئی”۔

ایک اور عینی شاہد کا کہنا ہے کہ تھوڑا دور کسی اُونچی جگہ سے محترمہ پر فائرنگ کی گئی ۔ [یعنی زمین سے نہیں کی گئی]

پیپلز پارٹی کے اسلام آباد سے مستقل اُمیدوار سیّد نیّر بخاری جن کی گاڑی بینظیر کی گاڑی کے بالکل قریب تھی نے کہا کہ بینظیر پر تین گولیاں چلائی گئیں ۔

بینظیر کے قانونی مشیر فاروق نائیک نے جمعہ کی شام کو کہا “حکومت کا مسلک جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ ایک گولی محترمہ کے سر میں اور ایک پیٹ میں لگی ۔ خون بہہ رہا تھا جب اسے ہسپتال لے کر گئے ۔ محترمہ کی گاڑی میں ناہید خان اور اور امین فہیم تھے اور انہوں نے دیکھا کیا ہوا “۔

میں نے نہیں دیکھا لیکن مجھے کچھ قابلِ اعتبار لوگوں نے بتایا ہے کہ اے آر وائی ون کے مطابق امین فہیم نے کہا “دھماکے کی آواز پر محترمہ باہر نکلیں اور ایکدم نیچے گر گئیں”۔

تجزیہ

اُوپر لکھے گئے بیانات کے علاوہ میرے علم میں کچھ مصدقہ اطلاعات ہیں ۔ بینظیر کے سر کا زخم جس سے خون بہتا رہا کسی کُند دھاتی ٹکڑے کا لگایا ہوا تھا جو سر سے اتنی قوت سے ٹکرایا کہ سطح 16 ملی میٹر اندر دھنس گئی ۔ انسان اگر اپنا سر کسی ساکن چیز سے ٹکرائے تو اس سے کھوپڑی کی ہڈی کا اتنا اندر دھنس جانا بعید از قیاس ہے ۔ چنانچہ سرکاری بیان غلط ہے ۔

خود کش بمبار اتنا اور اس طرح لدا ہوا ہوتا ہے کہ وہ صحیح نشانہ نہیں لے سکتا ۔ اسلئے گولی چلانے والا شخص کوئی اور تھا ۔

ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ ایک ٹی وی کیمرہ میں ایک پستول جس کا رُخ بینظیر کی طرف ہے سے گولیاں چلتی نظر آتی ہیں جبکہ ایک عینی شاہد نے خودکار بندوق سے گولیاں چلتی دیکھیں ۔ اسی شاہد کے مطابق پہلے گولیاں چلیں پھر دھماکہ ہوا جبکہ امین فہیم کے بیان کے مطابق بعد میں چلنے والی گولیوں سے بینظیر گر گئیں ۔

مختلف بیانات میں بظاہر تضاد لگتا ہے لیکن گولی چلانے والے دو مختلف اشخاص ہوں تو تضاد ختم ہو جاتا ہے ۔ اگر یوں کہا جائے کہ پہلے گولیاں چلیں پھر دھماکہ ہوا اس کے بعد پھر گولیاں چلیں تو سوائے حکومتی بیان کے سب بیان صحیح لگتے ہیں ۔ تعجب خیز حکومت کا یہ عمل ہے کہ اول تو فلم پوری نہیں دکھائی گئی ۔ دوسرے اس فلم کی رفتار کم [Slow motion] کر کے کیوں نہیں دکھایا گیا ؟

بینظیر کو سکیورٹی اور حادثہ کی صورت میں فوری امداد حکومت کا فرض تھا اور وعدہ بھی مگر یا تو سکیورٹی تھی نہیں یا یہ کارستانی ہے ہی سکیورٹی والوں کی ۔ بینظیر کے بھائی مرتضٰی بھٹو کا قتل قارئین کو یاد ہو گا ۔ فوری طبی امداد کا بھی کوئی بندوبست نہ تھا ۔

راولپنڈی میں حادثات سے نبٹنے کیلئے رسکیو 1122 پولیس ہے جو کہ ایک فعال ادارہ ہے ۔ اسے کام نہیں کرنے دیا گیا ۔

لیاقت باغ کی ایک تہائی حدود کے ساتھ لیاقت روڈ ہے جسے سکیورٹی پروٹوکال کے تحت خالی رکھا گیا تھا ۔ حادثہ لیاقت باغ کے گیٹ کے قریب ہوا ۔ لیاقت باغ کے گیٹ سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کا فاصلہ جوکہ لیاقت روڈ کے دوسرے سرے پر ہے ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر کے درمیان ہے ۔ حادثات کا بنیادی مرکز بھی یہی ہسپتال ہے ۔ اگر بینظیر کو اس ہسپتال لیجایا جاتا تو آدھے منٹ میں ہسپتال پہنچ جاتی اور اس کا علاج شروع ہو جاتا کیونکہ سڑک خالی تھی لیکن اسے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ۔ اسلام آباد لیجانے کی کوشش کی گئی جو کہ وہاں سے 16 کلومیٹر دور ہے ۔ پھر مری روڈ پر ٹریفک بھی بہت تھی اور جلوس بھی تھا ۔ مری روڈ پر راولپنڈی جنرل ہسپتال لیاقت باغ سے کوئی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ اس سے آگے گذرنے کے بعد یو ٹرن کر کے واپس آئے اور جنرل ہسپتال لے گئے ۔ اس طرح 35 قیمتی منٹ ضائع ہو گئے جس دوران بیشمار خون بہہ چکا تھا ۔

ان حقائق کی روشنی میں قارئین آسانی سے تعین کر سکتے ہیں کہ قاتل کون ہے ۔

جمہوریت کا قتل

اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
یہ سال جو 3 دن بعد ختم ہونے والا ہے ۔ ملک کی 60 سالہ زندگی کا بد ترین سال بن کر رہ گیا ہے ۔ ستم تو فوجی آمر ڈھاتے ہی ہیں مگر پرویز مشرف نے ظُلم میں پاکستان کے دُشمنوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔ اس سال میں ظُلم کے چیدہ چیدہ واقعات یہ ہیں

باجوڑ کے دینی مدرسہ پر میزائل یا بم مار کر 80 سے زائد طلباء اور اساتذہ شہید کئے گئے جن میں 30 طلباء کی عمریں 9 اور 15 سال کے درمیان تھیں ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
جنوبی اور پھر شمالی وزیرستان پر فوج کشی اور بمباری جس میں بوڑھوں ۔ بچوں اور عورتوں سمیت سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔
پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی معطلی
کراچی میں 12 مئی کا قتلِ عام ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
لال مسجد جامعہ حفصہ آپریشن جس میں سینکڑوں طلباء و طالبات ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر 4 سے 17 سال کی بچیاں تھیں ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔
کراچی میں بینظیر کے جلوس میں دھماکے جس میں 150 بیگناہ ہلاک ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
سوات پر فوج کشی جس میں اب تک سینکڑوں شہری اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون
ایمرجنسی کے نام پر پرویز مشرف کا دوسرا مارشل لاء
پانچ درجن سے زائد سینئر ترین جج صاحبان کو سبکدوش کر کے قید کرنا
وکلاء اور صحافیوں پر بیہیمانہ پولیس تشدد
چارسدہ کی مسجد میں بم دھماکہ جس میں 60 نمازی شہید ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔
پورے ملک میں ڈکیتیوں میں بے پناہ اضافہ

اور کل یعنی جمعرات 27 دسمبر 2007ء کو

سہ پہر کے وقت مسلم لیگ نواز کا جلوس جب شاہراہ اسلام آباد پر کرال چوک کے قریب تھا تو سڑک کے کنارے اُونچی جگہ پر کیو لیگ کےرہنما نواز کھوکر کے گھر کی چھت سے جلوس پر گولیاں چلائی گئیں جس میں 11 آدمی ہلاک اور 3 درجن زخمی ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔ پہلے خبر پھیلی کہ نواز شریف پر فائرنگ کی گئی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ نواز شریف اس جلوس میں شامل نہیں تھا ۔ اس نے راستہ بدل لیا تھا چنانہ یہ جلوس اس کے ساتھ شامل ہونے کیلئے جا رہا تھا ۔

پھر سورج غروب ہونے کے وقت یعنی 5 بج کر 5 اور 7 منٹ کے درمیان بینظیر بھٹو پر بالکل قریب سے گولیاں چلائی گئیں اور پھر زوردار دھماکہ ہوا ۔ بینظیر کو راولپنڈی جنرل ہسپتال ہسپتال لیجایا گیا جو وہاں سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جہاں ڈاکڑ پروفیسر مصدق اس کی جان بچانے میں ناکام رہے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔ سرکاری مسلک ہے کہ بینظیر خودکُش حملہ کے نتیجہ میں ہلاک ہوئیں جبکہ قُرب و جوار میں موجود لوگوں اور کچھ صحافیوں کے مطابق بینظیر گولیوں سے اور باقی 29 لوگ دھماکے کے نتیجہ میں ہلاک ہوئے ۔ اِنّا للہِ وَ اِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون ۔ 100 کے قریب زخمی ہوئے جن میں ناہید خان کی حالت تشویشناک ہے ۔

بلاشبہ میں بینظیر کا حامی کبھی نہیں رہا اور اس کے کئی خیالات کی مخالفت بھی کرتا رہا لیکن بینظیر ہمارے ملک کے دو مقبول ترین رہنماؤں میں سے ایک تھیں ۔ ظُلم ظُلم ہوتا ہے اور اللہ نے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے ۔ میں اس کی پرزور مذمت کرتا ہوں اور میری ہمدردیاں ان بچوں کے ساتھ ہیں جو ماں سے محروم ہو گئے ۔ بینظیر کا قتل بقول نواز شریف “جمہوریت کا قتل ہے ۔ عوام کی خواہشات کا قتل ہے ۔ عوام کا قتل ہے ۔ ملک کا قتل ہے “۔

جمرات 27 دسمبر کے دونوں واقعات پاکستان کے خلاف ایک گہری سازش معلوم ہوتے ہیں جسے روکنے میں موجودہ خودغرض حکومت بُری طرح ناکام رہی ہے ۔ موجودہ حکومت کی نااہلی اور غلط پالیسیوں نے اس ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ میری دعا ہے ” اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمارے گناہ معاف فرمائے ۔ ہمیں ان نااہل اور خودغرض حکمرانوں سے نجات دلائے اور ان کی جگہ مُلک و ملت کا درد رکھنے والے حکمران عطا فرمائے”۔

اسلام آباد سے پہلے

میں نے 30 اکتوبر کو جو وعدہ کیا تھا اللہ کے فضل و کرم سے اُسے پورا کرنے کیلئے قدم بڑھا رہا ہوں ۔ اللہ مجھے اس سلسلہ کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ تاخیر کی وجہ ملک کے حالات ہیں جو بہرحال سب سے اہم مسئلہ ہیں ۔ میں نہ تو صحافی ہوں نہ مصنف لیکن اللہ کی کرم نوازی دیکھئیے کہ پچھلی چار دہائیوں سے صحافی اور مصنف کہلانے والے مختلف حضرات مجھ سے مختلف موضوعات پر لکھنے کی فرمائش کرتے رہے ہیں ۔ بلاگ شروع کیا تو یہ فرمائشیں یہاں بھی شروع ہو گئیں جن میں سے کچھ پوری کر چکا ہوں اور کچھ ابھی باقی ہیں ۔ آج کی تحریر کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس کیلئے میرے پاس بلاگرز کی طرف سے چوتھی فرمائش آ چکی ہے کہ اسلام آباد کی ترقی کے مدارج کے متعلق تاریخ کے جھروکے سے لکھوں ۔ اسلام آباد کے متعلق لکھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ میرا اس شہر سے کیسے واسطہ پڑا اور یہاں پہلے کیا تھا ؟

میں 14 ۔ 15 اور 16 اگست 2007ء کو لکھ چکا ہوں کہ کس طرح ہمارا خاندان 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان پہنچا اور میں اور میری دو بڑی بہنیں [ 12 اور 15 سال] اپنے گھر والوں کے تقریباً دو ماہ بعد پہنچے ۔ سیالکوٹ میں کسی کے ہاں قیام کیا اور 1948ء کے آخر یا 1949ء کے شروع میں راولپنڈی کے جھنگی محلہ میں کرائے کے مکان میں رہنے لگے ۔ دوسال ہمیں راولپنڈی سے مانوس ہونے میں لگے ۔ 1951ء کی گرمیوں میں ہمیں جموں کی نہریں یاد آنے لگیں تو ہم راولپنڈی کے قریبی دریائے سواں پہنچے ۔ اس میں پانی گدلا تھا اور گہرائی اتنی کہ سارا جسم گیلا کرنے کیلئے ہمیں لیٹنا پڑا ۔ پھر کسی نے بتایا کہ نور پور شاہاں کے پاس پہاڑی نالہ ہے ۔ سوچا کہ پکنک منائیں گے اور شاہ عبداللطیف کی قبر پر فاتحہ بھی کہہ لیں گے ۔ نالہ تو قابلِ ذکر نہ پایا ۔ شاہ عبداللطیف کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر لوٹ رہے تھے کہ ایک شخص نے روک کر کہا “خوردہ لے لو”۔ وہ جلے ہوئے اوپلوں کی راکھ ہمیں بیچنا چاہتا تھا کہ شاہ عبداللطیف کا تبرک ہے ۔ ہم نے نہ لی تو اس نے ہمیں بہت بددعائیں دیں ۔ اس زمانہ میں شاھ عبداللطیف کی قبر پتھروں سے بنی تھی اور اردگرد پتھروں کی دو فٹ سے کم اونچی دیوار کے سوا کچھ نہ تھا ۔

پھر کسی نے بتایا کہ سیدپور میں چشمے ہیں ۔ ہمیں کشمیر کے چشمے یاد آئے اور ہم سیدپور پہنچ گئے ۔ وہاں ایک چشمے کے پانی کے آگے کوئی 6 فٹ اونچائی پر ایک پائپ لگایا گیا تھا جس میں سے پانی نل کی طرح گر رہا تھا ۔ بڑے چشمہ کی طرف جانے کی اجازت نہ تھی کیونکہ اس کا پانی پینے کیلئے راولپنڈی کو مہیا کیا جاتا تھا ۔ وہاں ایک واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی تھا ۔ سید پور گاؤں میں ایک کُمہار [خاور صاحب نہیں] نے مٹی سے ریلوے انجن اور ڈبّے اور ریلوے لائین بنائی ہوئی تھی جو قابلِ دید تھی ۔ وہاں کے لوگوں سے پوچھ کر ہم نے ایک چٹان کے پیچھے پکنک منائی اور چشمے کا پانی پیا ۔ پھر کسی نے بتایا کہ راول میں پہاڑی نالہ ہے اس میں بہت پانی ہوتا ہے ۔ وہاں پہنچے ۔ پانی سواں سے زیادہ تھا اور صاف بھی مگر پینے کے قابل نہ تھا ۔ پانی کے اندر نوکیلی چٹانیں تھیں جس سے ایک ساتھی کا پاؤں زخمی ہو گیا ۔ بہر حال ہم نے پکنک منا ہی لی ۔ اس کے بعد چھتر کا علم ہو تو وہاں پہنچے ۔ وہاں ایک پہاڑی نالہ بہہ رہا تھا جس میں پانی تیرنے کیلئے ناکافی تھا البتہ چٹانیں نہیں تھیں ۔ اس علاقہ میں لوکاٹ کے بہت پودے تھے ۔ چھتر کے لوکاٹ چھوٹے چھوٹے مگر میٹھے ہوتے تھے ۔ یہ پکنک کیلئے اچھی جگہ تھی ۔ اس کے بعد ہم شاہدرہ گاؤں گئے ۔ وہاں کافی بڑا پہاڑی نالہ تھا ۔ جس میں نہانے کی اجازت نہ تھی اور نہ وہاں پکنک منانے کیلئے کوئی مناسب جگہ تھی ۔ شاہدرہ سے کچھ دُور ایک چھوٹا سا شفاف چشمہ کا نالہ بہہ رہا تھا جو کہ پینے کے قابل تھا ۔ وہاں پکنک منانے کی بہت اچھی جگہ تھی ۔ یہ جگہ اسلام آباد کی ڈویلوپمنٹ کی نظر ہو چکی ہے ۔

چھتر اور شاہدرہ اسلام آباد کے کنارے پر ہیں ۔ اسلام آباد کا اس وقت جو آباد علاقہ ہے اس میں سیدپور ۔ نورپور اور گولڑہ کے علاوہ درجنوں چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جہاں کیکر ۔ کہُو ۔ لوکاٹ ۔ تُوت اور بٹنّکیوں کے درخت اور پھلائی اور کوکن بیروں کی جھاڑیاں تھیں ۔ بٹنکی ناشپانی کی شکل کا چھوٹا سا پھل ہے جس کا زیادہ حصہ بیج ہوتے ہیں اور گودا بہت کم ہوتا ہے ۔ کوکن بیر اس قسم کے بیر ہوتے ہیں کہ گٹھلی کے اُوپر چھلکا ۔ ان دونوں کے کھانے سے گلا پکڑا جاتا ہے ۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔

پی سی او قانونی لطیفہ

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس افتخار حسین چودھری کی سربراہی میں سہ رکنی فل بنچ نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کے درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے جسٹس ایم اے شاہد صدیقی سے سرکاری رہائشگاہ خالی کرانے پر ہونے والے مظاہروں پر قابو پانے میں ناکامی پر چیف سیکرٹری پنجاب، کیپٹل سٹی پولیس چیف اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ 5 نومبر کی رات بعض شریر عناصر ٹولٹن روڈ پر جمع ہوئے اور آدھی رات کے وقت نعرے لگائے جس سے علاقے کا سکون برباد ہوگیا۔ ان افراد نے ججوں کی گاڑیوں سمیت دیگر گاڑیوں کو روکا اور الیکٹرنک میڈیا علاقے میں ان کارروائیوں کی کوریج کرتا رہا حالانکہ میڈیا کو اس علاقہ میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔

ادھر جمعرات کو رات گئے پولیس نے جسٹس ایم اے شاہد صدیقی کی سرکاری رہائشگاہ پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والے دو خواتین وکلاء سمیت دس افراد دس افراد کو حراست میں لے کر ان کے خلاف خلاف ریس کورس تھانے میں اندیشۂ نقص امن اور پولیس کے کام میں بے جا مداخلت سمیت دیگر الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ وکلاء، طلبہ اور سول سوسائٹی کے ارکان نے ان گرفتاریوں کے خلاف پولیس سٹیشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ اس سے قبل سابق ججوں کی بیگمات، وکلاء اور سول سوسائٹی کے ارکان نے جمعرات کی دوپہر جسٹس صدیقی کی رہائشگاہ کے باہر بھی مظاہرہ کیا تھا ۔

جسٹس ایم اے شاہد صدیقی دل میں تکلیف کے باعث مقامی ہسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ وکلاء ، طلبہ اور سول سوسائٹی کے ارکان سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے کے نوٹس کے اجراء کے بعد سے جسٹس صدیقی سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ان کے گھر باہر جمع ہوتے رہے ہیں۔

ماسکو میں دہشتگردی شروع ہو گئی

ڈریئے نہیں ۔ صرف عنوان کو امریکیایا گیا ہے ۔

روس کے دارالحکومت ماسکو میں قائم کئے جانے والے پہلے مسلم اسپتال نے کام شروع کر دیا ہے۔ جدید سہولتوں کے حامل پہلے مسلم اسپتال کا افتتاح مفتیSheikh Ravil Gainutdin نے کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مسلم اسپتال بین الاقوامی برادری کے لیے مثال ہے کہ روس میں ہر شہری کو برابری کے حقوق حاصل ہیں ۔ 50 ڈاکٹرز اور نرسوں پر مشتمل اسپتال میں مسجد اور ہوٹل بھی قائم کیا گیا ہے۔ہوٹل میں حلال کھانا میسر ہوگا ۔ اسپتال کا نظام اسلامی اصولوں کے مطابق رکھا گیا ہے اور خواتین کے معائنے کے لئے اسکارف میں ملبوس خواتین ڈاکٹرز بھی متعین کی گئی ہیں

آج کی دو اہم خبریں

جیو ٹی وی زندہ ہو گیا

دبئی میڈیا سٹی کے حکام نے جیو نیوز چینل کیلئے آئی ایم سی دبئی کو فوری طور پر بحال کردیا ہے اور چینل کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ دبئی میڈیا سٹی سے جمعرات کی نصف شب کو اپنے پروگرامز کی نشریات کا آغاز کردیں۔ جیو نیوز، جسے رواں ماہ کی 16 تاریخ کو اچانک بند کردیا گیا تھا ۔ اللہ کرے اب خیو ٹی وی والے مخلص پاکستانی بن کر اسلامی اور پاکستانی ثقافت کو فروغ دیں اور قوم کو فحاشی سے باہر نکال کر قومی و ملّی خدمت کا جذبہ بیدار کریں ۔ آمین ثم آمین ۔ سب قارئین بھی یہ دعا کریں ۔


انتخابات مسترد

اے پی ڈی ایم کا اجلاس سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیرصدارت لاہور میں ہوا جس میں قاضی حسین احمد، راجہ ظفرالحق ۔ عمران خان ۔ جاوید ہاشمی ۔ جنرل (ر) حمیدگل ۔ مولانا انس نورانی، عبدالحئی بلوچ سمیت اے پی ڈی ایم میں شامل 25 جماعتوں کے 53
رہنماوٴں نے شرکت کی ۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمن یا جے یو آئی (ف) کے کسی رہنمایا نمائندے نے شرکت نہیں کی ۔

اجلاس میں (ن) لیگ کے قائد نواز شریف نے کہا کہ موجودہ حالات میں الیکشن ،سلیکشن ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم غیر آئینی نظام کا حصہ نہیں بنیں گے۔دوسری جانب جماعت اسلامی کے امیرقاضی حسین احمد نے کہا کہ وہ اے پی ڈی ایم کے تمام فیصلوں کے پابند ہیں ،تحریک انصاف کے قائدعمران خان نے کہا کہ پی سی او کے تحت الیکشن میں حصہ لینا ملک کے آئین سے غداری ہوگا ۔ الیکشن کے بائیکاٹ کے فیصلے کا اعلان مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے اے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں کیا۔

اے پی ڈی ایم کے اجلاس میں نواز شریف کی زیر قیادت مشاورت کے بعد ایک 6 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ جس میں نواز شریف ۔ قاضی حسین احمد اور عمران خان شامل ہیں ۔ کمیٹی کے ارکان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کو انتخابات کا بائیکاٹ کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے ۔

اجلاس کے بعد میاں نواز شریف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں انتخابات سلیکشن ہوں گے ۔ اس میں حصہ لینے کا مقصد مشرف حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہیں۔ ہم تمام سیاسی جماعتوں کے پاس جائیں گے تا کہ ان نام نہاد انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ انہوں نے انتخابات سے قبل آئین اور عدلیہ کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ نوازشریف نے کہا کہ ہم انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ شوق سے نہیں کر رہے بلکہ یہ فیصلہ ملک و قوم کے مفاد میں مجبور ہوکر کر رہے ہیں۔ اگر ہم انتخابات میں حصہ لیتے تو ہم جیت بھی سکتے تھے کیونکہ ہم اس سے قبل جیتتے آئے ہیں لیکن ہم کسی غیرآئینی نظام کی موجودگی میں انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اب ایمرجنسی اٹھا رہے ہیں پی سی او ختم کر رہے ہیں وہ بتائیں کہ انہوں نے یہ سب کچھ کس کیلئے کیا تھا ۔ جب تک عدلیہ کو 3 نومبر کی پوزیشن پر بحال نہیں کیا جاتا ہم ان مکروہ انتخابات کا حصہ نہیں بنیں گے۔ پرویز مشرف کو اگر پاکستان کے مفادات عزیز ہیں تو وہ عدلیہ کو بحال کریں ہماری طرف سے انہیں مثبت جواب ملے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی لگانے کا مقصد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت دیگر ججز کو گھر بھیجنا تھا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ عدالتی فیصلہ ان کے خلاف آئے گا اب وہ اپنی مرضی کی عدلیہ بنا کر اس سے اپنی مرضی کے فیصلے لے رہے ہیں جنہیں قوم ماننے کیلئے تیار نہیں‘ وہ پہلے بھی غیر آئینی تھے اور اب بھی صدارت کا حلف اٹھا کر ایک مرتبہ پھر صدارت کے عہدے پر قبضہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بہت جلد کمیٹی کے دیگر اراکین کے ساتھ مل کر بے نظیر بھٹو اور مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کروں گا اور انہیں قائل کروں گا کہ وہ ان انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ اگر حکومت نے ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے تو اے پی ڈی ایم میں شامل مولانا فضل الرحمن کے علاوہ تمام وہ لوگ جنہوں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں وہ کاغذات نامزدگی واپس لینے کی تاریخ تک اپنے کاغذات واپس لے لیں گے ۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ میں بھی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کمیٹی کے اراکین کے ساتھ ملاقات کروں گا اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کروں گا لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوا تو ہم اے پی ڈی ایم کے فیصلوں کے پابند ہیں

بانانا ریپبلِک بھی کیا ہے ؟

بانانا ریپبلک [Banana Republic] کی بہت مشہوری سُنی تھی مگر ہمارا زِیرو کمانڈو جنرل پرویز مشرف تو سب حدیں پھلانگ گیا ہے ۔ پڑھیئے رؤف کلاسرہ کی رپورٹ ۔ بشکریہ جنگ اخبار

ایک سابق سینئر بیوروکریٹ اعجاز رحیم نے نگران وفاقی کابینہ میں وفاقی وزیر صحت کے طور پر حلف اٹھایا تھا لیکن انہوں نے ابھی تک پلاننگ ڈویژن کے رکن کی اپنی پرانی حیثیت کو ترک نہیں کیا ہے۔ پلاننگ ڈویژن کے سربراہ کا رتبہ وفاقی وزیر کے برابر ہے اور یہ وفاقی سیکریٹری پلاننگ کے کنٹرول میں ہے پیر کو وفاقی وزیر نے اپنی ذمہ داریاں اس وقت وزیر مملکت کے جونیئر کے طور پر انجام دیں جب اسلام آباد میں سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کا اجلاس منعقد ہورہا تھا۔ وزیر مملکت نے اجلاس کی صدارت کی جبکہ وفاقی وزیر نے اجلاس کے شرکاء میں غور و خوض کے لئے دستاویزات تقسیم کیں۔ نئے وفاقی وزیر اپنی نچلے درجہ کی (جونیئر) پلاننگ کمیشن کی ملازمت بظاہر اس وجہ سے نہیں چھوڑنا چاہتے کہ یہ ملازمت بہت منفعت بخش ہے ان کی ماہانہ تنخواہ 4 لاکھ روپے ہے ۔

دوہری ذمہ داریوں کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بطور وزیر صحت اعجاز رحیم اربوں روپے کے سوشل سیکٹر سے متعلق منصوبے سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کے سامنے منظوری کے لئے پیش کریں گے اور پلاننگ ڈویژن کے رکن کے طور پر وہ انہی منصوبوں کا تخمینہ لگارہے ہوں گے اور سی ڈی ڈبلیو پی سی سے ان منصوبوں کی کلیئرنس کی منظوری دے رہے ہوں گے۔

دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اعجاز رحیم نے تصدیق کی کہ انہوں نے کابینہ میں شمولیت سے قبل پلاننگ ڈویژن کے رکن کی حیثیت سے استعفیٰ نہیں دیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں اپنی ملازمت سے استعفیٰ دینے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ ایک بار وزیر بننے کے بعد وہ پلاننگ ڈویژن کے رکن نہیں رہے جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ پلاننگ ڈویژن کے رکن کی حیثیت سے یا پھر وفاقی وزیر کی حیثیت سے تنخواہ لے رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ابھی تک انہوں نے دونوں ملازمتوں سے کوئی تنخواہ نہیں لی ہے تاہم انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ وہ اب بھی ممبر پلاننگ کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پلاننگ ڈویژن کے سیکریٹری غیاث الدین نے تصدیق کی کہ اعجاز رحیم نے ابھی تک پلاننگ ڈویژن کے رکن کی حیثیت سے استعفیٰ نہیں دیا ہے۔ غیاث الدین نے یہ تصدیق بھی کی کہ اعجاز رحیم پیر کو سی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس میں موجود تھے جہاں انہوں نے پلاننگ کمیشن کے رکن کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیئے۔