Category Archives: خبر

مصیبتیں تنہا نہیں آتیں

شائد آٹھویں جماعت میں محاورہ پڑھا تھا ۔ مصیبتیں تنہا نہیں آتیں ۔ جب سے پرویز مشرف کی اصلی جمہوریت آئی ہے اور بالخصوص پچھلے ایک سال میں اس محاورے کا مطلب سمجھ میں آ گیا ہے ۔ شائد کوئی سمجھے کہ میں بم دھماکوں یا دہشتگردوں کی بات کرنے لگا ہوں تو غلط ہے کیونکہ ہر بم دھماکے کے بعد پرویز مشرف اور اس کے اہلکار دہشتگردوں کو بے نقاب کرنے ۔ ان کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نبٹنے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانے کا دعوٰی کرتے ہیں ۔ اسلئے مجھے کوئی فکر نہیں کہ شائد کبھی وہ دن آ جائے جب پرویز مشرف اور اس کے اہلکاروں کے ہاتھ عوام کی گردنیں دبا دبا کر آہنی بن جائیں اور دہشتگردوں کو بے نقاب کرنے کے قابل ہو جائیں ۔ مجھے آٹے اور گھی کی بھی فکر نہیں کیونکہ جب ٹماٹر مہنگے ہوئے تھے تو ہمارے شہنشاہ نے فرمایا تھا کہ مہنگے ہیں تو نہ کھائیں ۔

مُلا کی دوڑ تو پھر بھی مسجد تک ہوتی ہے ۔ میری دوڑ ایک ماہ سے بیڈ روم ۔ باتھ روم اور ڈائیننگ روم تک ہی رہتی ہے یا پھر بازار میں موم بتیاں ڈھونڈتا پھر رہا ہوتا ہوں اور ساتھ ساتھ گاتا جاتا ہوں
میں پورے اسلام آباد میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تُجھے
موم بتی تو کہاں ہے مجھ کو آواز دے مجھ کو آواز دے

ایک ہفتہ سے میری دوڑ عام طور پر بستر یا کرسی تک ہی رہتی ہے ۔ مجھے اپاہج نہ سمجھ لیں ۔ اللہ کے فضل سے میرے نین پرین سب فرسٹ کلاس ہیں ۔ صرف قدرتی گیس کا پریشر کم ہونے کی وجہ سے گیس ہیٹر سے جُڑ کے کرسی پر بیٹھنا پڑتا ہے ۔ چپاتی توے پر پکنے کی بجائے سوکھ جاتی ہے اسلئے دو چپاتیاں چبانے کیلئے ڈائیننگ روم کی کرسی پر دو گھنٹے بیٹھنا پڑتا ہے ۔ غروبِ آفتاب سے طلوع تک کئی بار بجلی غائب ہو جاتی ہے اسلئے بیڈ روم میں بستر پر ہی دراز رہنا پڑتا ہے ۔ پانچ چھ روز قبل ایمرجنسی لائٹ خریدنے گیا ۔ ایمرجنسی لائٹ جو تین ماہ قبل 500 روپے کی تھی وہ 1200 روپے کی ہو گئی ہے لیکن اسلام آباد میں نہیں مل رہی ۔

بجلی آتی کم اور جاتی زیادہ ہے اور ایک ہفتہ سے ایک ماڈرن سٹائل اپنایا ہے کہ ہر 15 سے 25 منٹ بعد بجلی 2 سے 10 منٹ کیلئے غائب ہو جاتی ہے ۔ یہ روزانہ کے ان 30 منٹ سے کئی گھنٹوں کے متعدد بلیک آؤٹس کے علاوہ ہے جو ایک ماہ سے جاری ہیں ۔ اس پرویزی ماڈرنائیزیشن کی بدولت پانی بھی بہت کم مل رہا ہے چنانچہ اپنے مکان کے پانی کا تین ماہ کیلئے 800 روپیہ ادا کرنے کے باوجود پچھلے دو ہفتے سے روزانہ پانی کا ٹینکر خریدنا پڑ رہا ہے ۔ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کا مخفف ہے اِیسکو ۔ اسلام آباد کے لوگ کہتے ہیں اِیسکو یعنی کھِسکو ۔

اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کی بجلی کی چکا چوند کی مہربانی سے ہمارا ریفریجریٹر تین دن قبل خراب ہو گیا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اچھا مکینک مل گیا اور کل ٹھیک کر گیا کیونکہ اس کی بکنگ زیادہ تھی ۔ بجلی کی چکا چوند نے میرے کمپیوٹر کو بھی نہ بخشا اور ڈیفنڈر اور اینٹی وائرس سمیت کئی فائلیں اُڑ گئیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مُہلک قسم کی ٹروجن ہارس کوئی چار درجن فائلوں میں گھُس گئی اور میرے لئے نہ صرف کام کرنا مشکل ہو گیا بلکہ نئی اینٹی وائرس انسٹال کرنا ہی مشکل ہو گیا ۔ اللہ کا کرم ہوا کہ ایکسٹرنل ہارد ڈسک سے اینٹی وائرس انسٹال کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔

کوئی تحریر لکھ کر شائع کرنا ہو یا تبصرہ کرنا ہو یا تبصرے کا جواب لکھنا ہو تو درمیان میں بجلی غائب ہو جاتی ہے ۔ اُس وقت جو میرا حال ہوتا ہے وہ خودکُش بم حملہ میں مرنے والے سے بھی زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ تو یکدم مر کر ہر تکلیف سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور میں ہر دن کئی بار مر کے جیتا ہوں ۔ بعض اوقات جب بجلی آتی ہے تو مجھے بھول ہی جاتا ہے کہ میں کیا لکھنا چاہ رہا تھا ۔ قارئین الگ میری ریپُوٹیشن خراب کر رہے ہونگے کہ نہ ہماری دلچسپ تحاریر پر تبصرہ کرتا ہے اور نہ اپنے بلاگ پر ہمارے پُرمغز تبصروں کے جواب دیتا ہے

بد ترین آمریت کا نفاذ

پرویز مشرف کی حکومت نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم آرڈیننس [Prevention of Electronic Crime Ordinance] کے نام سے ایک متنازعہ قانون غیر اعلانیہ طور پر نافذ کر دیا ہے جس کا اطلاق 31 دسمبر 2007 ء سے ہو چکا ہے ۔ آرڈیننس کے نفاذ کا انکشاف جمعرات کو اس وقت ہوا جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نگراں وفاقی وزیر ڈاکٹر عبداللہ ریاڑ نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ’پریونشن آف ای کرائم آرڈیننس 31 دسمبر 2007ء سے نافذ العمل ہوچکا ہے۔ چند روز قبل پاکستان کے ایک مقامی اردو اخبار نے یہ خبر شائع کی تھی کہ صدر پرویز مشرف نے سائبر کرائم کے خلاف آرڈیننس جاری کردیا ہے تاہم وفاقی حکومت کے محکمہ اطلاعات یا پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس سے لاعلمی ظاہر کی تھی۔ عام طور پر صدر جب کوئی آرڈیننس جاری کرتا ہے تو وفاقی حکومت پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے میڈیا کو اس کی نقول جاری کرتی ہے ۔

اس آرڈیننس کے تحت بغیر اجازت کسی کی تصویر کھینچنا ۔ انٹرنیٹ یا موبائل فون کی مدد سے کسی کو ایسا پیغام بھیجنا جسے ناپسندیدہ ۔ غیراخلاقی یا بے ہودہ سمجھا جائے اور مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کرنا جرم ہوگا اور اس پر سات سال تک قید یا تین لاکھ روپے تک سزا سنائی جاسکتی ہے حتٰی کہ کچھ جرائم میں موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے ۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی کابینہ نے تو اس کی منظوری بھی دے دی تھی لیکن بوجوہ یہ نافذ نہیں ہوسکا تھا ۔

بالخصوص موجودہ صورت حال میں جبکہ منتخب پارلیمان موجود نہیں ایک ایسے نئے قانون کا نفاذ جو پہلے سے ہی متنازعہ ہے کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ آخر ناپسندیدہ ۔ غیر اخلاقی اور بےہودہ جیسے الفاظ کی تعریف اور تعیّن کون کرے گا؟ کیا یہ معلومات تک رسائی کے حق کو محدود کرنے کی ایک کوشش نہیں ہے ؟

نجی ٹی وی کمپنیوں پرحکومت کی باقاعدہ اجازت کے بغیر کسی بھی عمل کو لائیو کاسٹ [live cast] کرنا تو پہلے ہی پیمرا آرڈیننس کے تحت ممنوع قرار دیا جا چکا ہے تاکہ حکومتی ناکامیاں اور چیرادستیاں عوام تک نہ پہنچ سکیں ۔ مزید اس قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر میری مرضی نہ ہو اور آپ نے گزرتے ہوئے میری فوٹو لے لی تو یہ الیکٹرانک کرائم ہے ۔ پھر تو الیکٹرانک جرنلزم تو ختم ہوگئی ۔ یہ تو آزادی صحافت پر بھی ایک خطرناک وار ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کو انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے قوانین سے لیس کرنا ہے لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ افراد اور دوسرے ماہرین کہتے ہیں کہ اس قانون میں صرف انٹرنیٹ ہی نہیں بلکہ موبائل فون ۔ کیمرہ اور تصویر کشی اور پیغام رسانی کے لئے استعمال ہونے والے دوسرے برقی آلات کے استعمال کا بھی احاطہ کیا گیا ہے اور اسکے نفاذ سے فائدہ کے بجائے نقصان کا خطرہ ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عالمی قوانین پر دسترس رکھنے والے قانون دان زاہد جمیل کہتے ہیں کہ اس قانون کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے اور مجموعی طور پر ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے غیرملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال کرکے کسی کے خلاف بھی ایف آئی آر داخل کرائی جاسکتی ہے ۔ کسی بھی قانون میں جرم کی پوری طرح وضاحت کی جاتی ہے اس قانون کو اس طرح ڈیفائن کیا گیا ہے کہ یہ دوسرے ملکوں کے قوانین کے بالکل برعکس ہے ۔ زاہد جمیل کے بقول یہ ایک نئی مثال ہے۔ دنیا کے مہذب ممالک میں مثلاً امریکہ ۔ برطانیہ وغیرہ میں اس طرح کے جرائم کے لئے سزائے موت کہیں بھی نہیں ہے ۔

یہ حکمنامہ بظاہر اتنا مُہلک نظر نہیں آتا لیکن اس کا استعمال انتہائی مُہلک ہو سکتا ہے ۔ 3 نومبر 2007 سے آئین میں دئیے گئے اصولوں کی جارحانہ خلاف ورزی کرتے ہوئے جو تبدیلیاں کی گئیں ان کے مطابق صدر اور صدر کے مقرر کردہ افسران کے کسی حکم کے خلاف کوئی عدالت کوئی کسی درخواست پر غور بھی نہیں کر سکتی ۔ موجودہ حکومت نے تو پچھلے 6 سال میں کسی قانون کی پرواہ نہیں کی ۔ بغیر کسی ثبوت ۔ عدالتی چارہ جوئی یا تحقیقات کے کمسن بچوں سمیت ہزاروں پاکستانیوں کو ہلاک کیا گیا اور سینکڑوں پاکستانیوں کو اُٹھا کر غائب کر دیا گیا ۔ اب اس قانون میں تو کھُلی چھُٹی ہے کہ کسی بھی بات یا عمل کو ناپسندیدہ ۔ غیراخلاقی یا بے ہودہ قرار دیا جا سکتا ہے اور کسی بھی شخص کو پھانسنے کیلئے جھوٹا الزام لگانا اس حکمران کیلئے کیا مشکل ہے جو ملک کے آئین اور قانون کی آئے دن دھجیاں اُڑاتا رہتا ہے اور انصاف مہیا کرنے والے 60 سینئر ترین جج صاحبان کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہٹا کر پابندِ سلاسل کیا ۔ ان حالات میں کوئی شخص انصاف کیسے حاصل کرے گا ؟

یہاں کلک کر کے پڑھئے عوام کا ردِ عمل

لاہور میں دھماکہ

لاہور میں ہائی کورٹ کے باہر آج دوپہر دھماکہ ہوا جس میں کم از کم 25 اشخاص ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے ۔ ہلاک ہونے والوں میں 20 پولیس والے ہیں ۔ یہ دھماکہ اس مقام پر ہوا جہاں کچھ دیر بعد وکیلوں کی احتجاجی ریلی پہنچنے والی تھی۔ وکیل ہر جمعرات کو احتجاجی مظاہرہ اور عدالتوں کا بائیکاٹ کرتے ہیں ۔ وکیلوں کی ایک ریلی ایوان عدل سے ہائی کورٹ کی جانب روانہ ہوچکی تھی جبکہ ہائی کورٹ بار ایسوس ایشن کا اجلاس ختم ہونے کے بعد یہ اعلان ہو چکا تھا کہ وکیل ریلی کے لیے باہر نکلیں لیکن اسی دوران ایک بڑے دھماکے کی آواز سنائی دی ۔

یاری پرویز مشرف کی

امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے سیکورٹی مشیروں نےخفیہ ادارے سی آئی آے اور امریکی فوج کو پاکستان میں خفیہ آپریشن کرنے کا اختیار دینے کے معاملے پر غور شروع کر دیا ہے۔ جمعہ کے روز وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس میٹنگ میں امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی، وزیر خارجہ کانڈولیزا رائس سمیت سیکورٹی کے اعلی مشیروں نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں پاکستانی سرزمین پر سی آئی اے اور امریکی فوج کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشگردوں [غریب مسلمانوں] کے خلاف جارحانہ مگر خفیہ کارروائی کرنے پرغور کیا گیا۔

امریکی سیکورٹی مشیروں کی اس میٹنگ میں کئی مشیروں کا موقف تھا کہ اس وقت پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف انتہائی غیر مقبول ہو چکے ہیں اور انہیں امریکی فوج اور سی آئی اے کی طرف سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کاررائیوں کی کھلی چھٹی دینے پر اعتراض نہیں ہوگا۔ امریکہ کے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے نئے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی امریکی تحفظات پر زیادہ ہمدردانہ رویہ رکھیں گے۔ امریکی مشیروں کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقوں تک اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کا بہترین موقع ہے۔

اس وقت 50 امریکی فوجی پاکستانی سر زمین پرموجود ہیں اور اگر سی آئی اے کو پاکستان میں آپریشنز کی اجازت دے دی گئی تو وہ امریکی فوج کی سپیشل آپریشن کمانڈ کی مدد حاصل کر سکے گی۔

ماضی میں عمومی طور پر امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن کرنے سے باز رہا ہے اور القاعدہ کے رہنماؤں پر اکا دکا حملوں کےعلاوہ اس نے پاکستانی علاقے میں کوئی بڑی کارروائی نہیں کی ہے۔امریکی ذرائع مانتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی ایجنسی باجوڑ کے ڈمہ ڈولا میں ایمن الظہوری کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ [وہاں ایمن الظواہری نہیں تھے ۔ امریکی میزائل کا نشانہ ایک دینی مدرسہ تھا جس میں تین درجن نابالغ بچوں اور تین اساتذہ سمیت 80 لوگ شہید ہوئے تھے]

حکومت کا میں نہ مانوں

گاڑی کے سن روف کے لیور سے ٹکرا کر قاتل زخم والی بات تو زخم کی نوعیت نے ہی مسترد کر دی تھی ۔ 30 دسمبر کو آصف علی زرداری نے بتا کہ گاڑی کے سن روف کے لیور ربڑ کے ہیں ۔ ڈاکٹر مصدق اور ساتھیوں کی لکھی میڈیکل رپورٹ نامکمل ہے ۔ ریٹائرڈ برگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا تھا کہ آٹوپسی آصف زرداری نے نہیں کرنے دی جو کہ جھوٹ نکلا ۔ آٹوپسی راولپنڈی کے پولیس چیف نے نہیں کرنے دی تھی ۔ بینظیر کے قتل کی وڈیو کے متعلق ریٹائرڈ برگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ نے کہا “یہ کون ثابت کرے گا کہ یہ وڈیو بینظیر ہی کے قتل کی ہے ؟” نیچے ملاحظہ کیجئے مختلف کیمرہ مینوں کی لی ہوئی وڈیوز جن سے واضح ہے کہ بینظیر گولی لگنے کے بعد گاڑی کے اندر گر گئیں پھر دھماکہ ہوا ۔ چینل 4 کی وڈیو میں نظر آتا ہے کہ گولی چلنے کے بعد بینظیر کا دوپٹہ اور بال اُوپر کو اُچھلے اور وہ نیچے گاڑی میں گر گئی پھر دھماکہ ہوا ۔

قاتل کون ؟ ۔ ۔ ۔ مزید معلومات

میں نے کل لکھا تھا ۔ ۔ ۔

میں نے نہیں دیکھا لیکن مجھے کچھ قابلِ اعتبار لوگوں نے بتایا ہے کہ اے آر وائی ون کے مطابق امین فہیم نے کہا “دھماکے کی آواز پر محترمہ باہر نکلیں اور ایکدم نیچے گر گئیں”۔

میری بیوی نے خبر کا یہ حصہ دیکھا تھا ۔ اس نے رات گئے مجھے بتایا کہ دھماکے کی آواز نہیں بلکہ لوگوں کے نعروں کا شور سُن کر وہ سَن روف سے سر باہر نکال کر کھڑی ہو گئیں تو صحیح خبر یوں بنتی ہے ۔

امین فہیم نے کہا “شور سُن کر محترمہ سَن روف سے باہر نکلیں اور ایکدم نیچے گر گئیں”۔

میں نے مزید لکھا تھا ۔ ۔ ۔

ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ ایک ٹی وی کیمرہ میں ایک پستول جس کا رُخ بینظیر کی طرف ہے سے گولیاں چلتی نظر آتی ہیں

کل رات گئے حکومتی جھوٹ در جھوٹ سے مجبور ہو کر ڈان نیوز ٹی وی نے یہ فلم دکھا دی اور اس میں قاتل اور خودکُش بمبار دونوں نظر آتے ہیں ۔ مزید تفصیل یہاں کلک کر کے آج کا ڈان پڑھئے