Category Archives: تاریخ

جموں کشمير آزاد کيوں نہ ہوا ؟ دوسری قسط

پہلی قسط 5 فروری 2007 کو لکھی گئی

آپریشن جبرالٹر 1965 کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ ناقابل اعتماد لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے افسران کو دکھاتے اور یہ کہہ کر رقوم وصول کرتے کہ وہ جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے جہاد کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔

متذکرہ بالا جعلی جاسوسوں نے کشمیر سیل کے افسران کو باور کرایا کہ آزاد کشمیر سے مجاہدین کے جنگ بندی لائین عبور کرتے ہی جموں کشمیر کے مسلمان جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کو بالکل کُچھ خبر نہ تھی ۔ جب پاکستان کی حکومت کی مدد سے مجاہدین پہنچے تو وہاں کے مسلمانوں نے سمجھا کہ شايد پھر نومبر 1947 عیسوی کی طرح ان کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے ۔ خیال رہے کہ ہمارے ملک میں سول سروس کے افسران اور آرمی کے جنرل اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور کسی صاحبِ علم کا مشورہ لینا گوارہ نہیں کرتے ۔

جنرل اختر ملک اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھمب جوڑیاں میں موجود چند افسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی توی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور توی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمان کی طرف سے توی کے کنارے رُک جانے کا حُکم تھا اگر پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا ۔ کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک افسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر دو دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے اور ان دنوں میں محاز پر بھی کوئی پیش رفت نہ ہوئی ۔ اللہ جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔

پاکستان پولیس کے ايک سابق افسراپنی کتاب “پاکستان کا انتہاء پسندی کی طرف بہاؤ ۔ اللہ ۔ فوج اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ” ميں لکھتے ہيں ۔ جب وسط 1965 عیسوی میں پاکستانی فوج نے رَن آف کَچھ میں مختصر مگر تیز رفتار کاروائی سے بھارتی فوج کا رُخ موڑ دیا تو ایوب خان کے حوصلے بلند ہوئے ۔ بھٹو نے اپنے 12 مئی 1965 کے خط میں ایوب خان کی توجہ بھارت کو بڑھتی ہوئی مغربی فوجی امداد کی طرف دلائی اور اس موضوع کو وسعت دیتے ہوئے اُس نے سفارش کی گفت و شنید کی نسبت ایک دلیرانہ اور جُرأت مندانہ سٹینڈ کے ذریعہ فیصلہ زیادہ ممکن ہو گا ۔ اس منطق سے متأثر ہو کر ایوب خان نے عزیز احمد کے ماتحت کشمیر سَیل کو ہدائت کی کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں گڑبڑ پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا جائے جس سے محدود فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہو ۔ کشمیر سَیل نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھِیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ جموں کشمیر میں جنگ بندی لائین کا دفاع اس ڈویزن کی ذمہ داری تھی ۔ آپریشن جبرالٹر کا جو خاکہ جنرل اختر ملک نے بنا کر ایوب خان سے منظور کرایا وہ یہ تھا کہ مسلح آدمی جنگ بندی لائین سے پار مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل کئے جائیں ۔ بعد میں اچانک اِنفنٹری اور آرمرڈ کمک کے ساتھ جنوبی علاقہ میں جموں سرینگر روڈ پر واقعہ اکھنور پر ایک زور دار حملہ کیا جائے ۔ اس طرح بھارت سے کشمیر کو جانے والا واحد راستہ کٹ جائے گا اور وہاں موجود بھارتی فوج محصور ہو جائے گی ۔ اور مسئلہ کے حل کے کئی راستے نکل آئیں گے ۔ کوئی ریزرو نہ ہونے کے باعث جنرل اختر ملک نے فیصلہ کیا کہ آزاد جموں کشمیر کے شہريوں کو تربیت دیکر ایک مجاہد فورس تیار کی جائے ۔ آپریشن جبراٹر اگست 1965 کے پہلے ہفتہ میں شروع ہوا اور مجوّزہ لوگ بغیر بھارتیوں کو خبر ہوئے جنگ بندی لائین عبور کر گئے ۔ پاکستان کے حامی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اس لئے اُن کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی ۔ پھر بھی اس آپریشن نے بھارتی حکومت کو پریشان کر دیا ۔ 8 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے مارشل لاء لگانے کی تجویز دے دی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بھارت کی پریشانی سے فایدہ اُٹھاتے ہوئے اُس وقت آپریشن کے دوسرے حصے پر عمل کرکے بڑاحملہ کر دیا جاتا لیکن جنرل اختر کا خیال تھا کہ حملہ اُس وقت کیا جائے جب بھارت اپنی ریزرو فوج مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل ہونے کے راستے پر لگا دے ۔ 24 اگست کو بھارت نے حاجی پیر کے علاقہ جہاں سے آزاد جموں کشمیر کی مجاہد فورس مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھی اپنی ساری فوج لگادی ۔ یکم ستمبر کو دوپہر کے فوراً بعد اس علاقہ میں مجاہد فورس اور بھارتی فوج میں زبردست جنگ شروع ہو گئی ۔ بھارتی فوج پسپا ہونے لگی اور اکھنور کی حفاظت کرنے کے قابل نہ تھی ۔ عین اس وقت پاکستانی کمان بدلنے کا حکمنامہ صادر ہوا جس نے بھارت کو اکھنور بچانے کا موقع فراہم کر دیا ۔ بھارت نے 6 ستمبر کو اُس وقت پاکستان پر حملہ کر دیا جب پاکستانی فوج اکھنور سے تین میل دور رہ گئی تھی” ۔

ريٹائرڈ بریگیڈیئر جاوید حسین لکھتے ہيں ۔ جب سپیشل سروسز گروپ کو اعتماد میں لیا گیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان صرف اس صورت میں تعاون کریں گے کہ ردِ عمل کے طور پر بھارتی فوج کے اُن پرظُلم سے اُن کی حفاظت ممکن ہو ۔ لیکن جب اُنہیں محسوس ہوا کہ پلان بنانے والے اپنی کامیابی کا مکمل یقین رکھتے ہیں تو سپیشل سروسز گروپ نے لکھ کر بھیجا کہ یہ پلان [ آپریشن جبرالٹر] پاکستان کیلئے بے آف پِگز ثابت ہو گا ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ 1965 عیسوی میں 5 اور 6 اگست کی درمیانی رات 5000 مسلح آدمی ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ مختلف مقامات سے جنگ بندی لائین کو پار کر گئے ۔ یہ لوگ جلدی میں بھرتی اور تربیت دیئے گئے آزاد جموں کشمیر کے شہری تھے اور خال خال پاکستانی فوجی تھے ۔ یہ تھی جبرالٹر فورس ۔ شروع شروع میں جب تک معاملہ ناگہانی رہا چھاپے کامیاب رہے جس سے بھارتی فوج کی ہائی کمان میں اضطراب پیدا ہوا ۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع تھی ۔ مقبوضہ کشمیر کے دیہات میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی انتقام بے رحم اور تیز تھا جس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں نے نہ صرف جبرالٹر فورس کی مدد نہ کی بلکہ بھارتی فوج کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ پھر اچانک شکاری خود شکار ہونا شروع ہو گئے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ بھارتی فوج نے حملہ کر کے کرگِل ۔ درّہ حاجی پیر اور ٹِتھوال پر قبضہ کر کے مظفر آباد کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ۔ اس صورتِ حال کے نتیجہ میں جبرالٹر فورس مقبوضہ کشمیر میں داخلہ کے تین ہفتہ کے اندر منتشر ہو گئی اور اس میں سے چند بچنے والے بھوکے تھکے ہارے شکست خوردہ آزاد جموں کشمیر میں واپس پہنچے ۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔

جموں کشمير آزاد کيوں نہ ہوا ؟

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا

انشاء اللہ العزيز

ستم شعار سے تجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن

ہم کيا چاہتے ہيں ؟ * * * آزادی آزادی آزادی * * *

ثاقب سعود صاحب نے 23 اگست 2005 عيسوی کو ميرے انگريزی کے بلاگ حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے [پُرانا نام منافقت] پر يہ سوال کيا تھا ۔ مجھے یہ بتائیں کے اب تک کشمیر آزاد کیوں نہیں ہوا؟ آزادی حاصل کر نے کے لیے ہر طرح کی چیزیں تو میّسر ہیں۔ مثلا افراد،بیرونی امداد،اسلحہ،چھپنے کے لیے جگہ ۔ چیچنیا اور عراق والے تو ان سب کے بغیر بھی لڑ رھے ہیں۔

ميرا جواب تھا ۔ کاش ایسا ہوتا جیسا آپ نے لکھا ہے ۔ آپ نے سنا ہو گا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ۔ کچھ دن صبر کیجئے میں اس کے متعلق بھی انشاء اللہ لکھوں گا

گردشِ دوراں نے ذہن کو کچھ ايسا اُلجھائے رکھا کہ ڈيڑھ سال گذر گيا ۔ اس عرصہ ميں کئی بار لکھنا چاہا ليکن ذہن نے ساتھ نہ ديا ۔ اللہ کی کرم نوازی کہ آج مجھے توفيق بخشی ۔ ميں جموں کشمير کی تحريکِ آزادی کی تفصيل اسی بلاگ پر لکھ چکا ہوں ۔ يہاں مختصر طور پر ثاقب سعود صاحب کے سوال کا جواب دينے کی کوشش کرتا ہوں ۔

اعلانِ جہاد ۔ بھارتی فوج اور برطانوی فضائیہ کے حملے ۔

جمعہ 24 اکتوبر 1947 جب داعيانِ اسلام حج کی سعادت سے بہراور ہو رہے تھے جموں کشمیر کے مسلمان شہريوں نے جامِ شہادت نوش کرنے کا تہيّہ کر کے جہاد کا اعلان کر دیا ۔ ان لوگوں ميں زیادہ تر کے پاس پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں اور کچھ کے پاس المعروف تھری ناٹ تھری اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ مجاہدين کا مقابلہ شروع میں مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا مگر دو ہفتے کے اندر ہی بڑی تعداد میں بھارتی فوج بھی محاذ پر پہنچ گئی اور ہندوستان کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں گِلگِت ۔ بَلتِستان ۔ مُظفرآباد ۔ مِیرپور ۔ کوٹلی اور بھِمبَر آزاد کرا کے جموں میں کٹھوعہ اور کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن اللہ سُبْحَانہُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے کچھ لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے پہنچ گئے ۔ کچھ پاکستانی شہری اور فوجی چھٹیاں لے کر انفرادی طور پر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ پھر اللہ کی نُصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں جن کو برطانوی ایئر فورس کی امداد بھی حاصل تھی پسپا ہوتے گئے یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے ۔

پاکستان کے کمانڈر انچیف کی حکم عدولی

جب بھارت نے تقسيمِ ہند کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947 کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔ دراصل اس کی وفاداری بھارت کے برطانوی گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بيٹن کے ساتھ تھی ۔

بھارت کا واويلا

بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی اور يقين دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔ اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔

تصحيح ۔ نظم ۔ روزے کی برکتيں

ميں نے 2 نومبر کو محمد رفيع کی گائی ہوئی يہ نظم تحرير کی تھی اورتصحيح کی درخواست بھی کی تھی مگر کسی نے ميری مدد نہ کی ۔ دراصل آجکل لوگ پاپ موسيقی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہيں جس کی انگريزی کی طرح کوئی کَل سيدھی نہيں ۔ ميری بيٹی اپنے بھائی کو ساتھ ليکر گئی اور اسلام آباد کی دکانوں سے ايک سی ڈی ڈھونڈ لائی جس ميں يہ نظم بھی تھی ۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ مندرجہ ذيل اشعار ميں بھول گيا تھا ۔ ويسے اب 2 نونبر والی نظم ٹھيک کر دی ہے اصل مزا اُسے پڑھنے ہی ميں آئے گا

جس وقت ماں نے ديکھا بيٹے کا غم ميں حال
سمجھايا اُس کو اور کہا سُن اے ميرے لال
روزہ نہيں ہے فرض ابھی تجھ پہ غم نہ کر
دل کانپتا ہے ميرا تو آنکھوں کو نم نہ کر
لڑکا يہ بولا ماں سے نہيں مجھ سے کچھ نہاں
ميں نے سنا ہے بارہا رمضان کا بياں
قرآن اس مہينے ميں نازل ہوا ہے ماں
رمضان برکتوں کا مہينہ ہے بے گماں
جنّت ميں گھر ملے گا ہر اک روزہ دار کو
پائے گا دل ميں جلوۂِ پروردگار کو
القصہ جب رات ہوئی وہ نہ سو سکا
دل ميں تھا ايسا شوق کہ وہ جاگتا رہا
سحری کے وقت سحری کی اور روزہ رکھ ليا
خوش تھا کہ آج پورا ہوا دل کا مُدعا
سمجھايا ماں نے باپ نے لاکھوں کئے جتن
باز اپنے شوق سے مگر آيا نہ گُلبدن
ہر سمت جب پھيل گيا نُورِ آفتاب
ماں بيٹے سے يہ بولی کہ اب کھا لے تو شتاب
وہ بولا روزہ ٹوٹے گا ہو گا مجھے عذاب
ماں بولی تيرے بدلے ميں دوں گی وہاں جواب
کھانا تُو کھا لے ديکھ تو کيا ہو گيا ہے حال
بارہ بجے ہيں اور تُو بھوکا ہے ميرے لال
اس درجہ اُس کے سينے ميں روزے کا شوق تھا
ماں نے ہزاروں مِنتيں کيں کچھ نہ ہو سکا
بے تاب اپنی ماں کو ديکھا تو بول اُٹھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سوکھی زبان طاری ہوئی اُس پہ بيہُشی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہر سُو اذاں کی ہوئی اتنے ميں اک پُکار
۔ ۔ ۔ ۔
پھر بارگاہِ حق ميں جھُکے ہو کے بے قرار
فارغ ہوئے نماز سے تھے دونوں اشکبار
ماں کی زبان پر تھی صدا شور و شَين کی
اور سامنے تھی لاش رکھی نورِعين کی
دونوں تھے اپنے بيٹے کے ماتم ميں مبتلا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بولا فقير اس پہ نہ کر رنج تُو ذرا
اللہ ہے کارساز دے گا اُسے جلا
بچے کی لاش مجھ کو بھی تو اک نظر دکھا

گلوکار محمد رفيع

آدھی صدی سے زائد بيت گئی جب ميں سکول ميں پڑھتا تھا تو ماہِ رمضان ميں ريڈيو پر محمد رفيع کا گايا ہوا ايک گيت کئی بار سنايا جاتا تھا
۔ پچھلے رمضان ميں يہ گيت ميرے دماغ کی ہارڈ ڈِسک سے اَيکٹِو مَيموری ميں آگيا ۔ سو قارئين کے پيشِ خدمت ہے ۔ ہو سکتا ہے کچھ غلطی ہو گئی ہو يا کوئی مصرع رہ گيا ہو ۔ آخر پچاس سال کوئی تھوڑا عرصہ نہيں ہوتا ۔

مشہور مدتوں سے روائت ہے مومنو
رمضان کے مہينے کی برکت ہے مومنو
اِک شہر ميں تھا لڑکا کوئی سات سال کا
روزے کے رکھنے کا اُسے ارمان تھا بڑا
رمضان کا مہينہ جو آيا تو خوش ہوا
وہ اپنی ماں سے کہنے لگا کرکے التجاء
سحری کے وقت مجھ کو بھی لله جگانا تم
ميں بھی رکھوں گا روزہ مجھے بھی اُٹھانا تم
ماں کو پِسر کی بات کا نہ آيا کچھ خيال
لڑکا جو اُٹھا صبح تو اُس کو ہوا ملال
جس وقت ماں نے ديکھا بيٹے کا غم ميں حال
سمجھايا اُس کو اور کہا سُن اے ميرے لال
روزہ نہيں ہے فرض ابھی تجھ پہ غم نہ کر
دل کانپتا ہے ميرا تو آنکھوں کو نم نہ کر
لڑکا يہ بولا ماں سے نہيں مجھ سے کچھ نہاں
ميں نے سنا ہے بارہا رمضان کا بياں
قرآن اس مہينے ميں نازل ہوا ہے ماں
رمضان برکتوں کا مہينہ ہے بے گماں
جنّت ميں گھر ملے گا ہر اک روزہ دار کو
پائے گا دل ميں جلوۂِ پروردگار کو
القصہ جب رات ہوئی وہ نہ سو سکا
دل ميں تھا ايسا شوق کہ وہ جاگتا رہا
سحری کے وقت سحری کی اور روزہ رکھ ليا
خوش تھا کہ آج پورا ہوا دل کا مُدعا
سمجھايا ماں نے باپ نے لاکھوں کئے جتن
باز اپنے شوق سے مگر آيا نہ گُلبدن
ہر سمت جب پھيل گيا نُورِ آفتاب
ماں بيٹے سے يہ بولی کہ اب کھا لے تو شتاب
وہ بولا روزہ ٹوٹے گا ہو گا مجھے عذاب
ماں بولی تيرے بدلے ميں دوں گی وہاں جواب
کھانا تُو کھا لے ديکھ تو کيا ہو گيا ہے حال
بارہ بجے ہيں اور تُو بھوکا ہے ميرے لال
اس درجہ اُس کے سينے ميں روزے کا شوق تھا
ماں نے ہزاروں مِنتيں کيں کچھ نہ ہو سکا
بے تاب اپنی ماں کو ديکھا تو بول اُٹھا
جو کچھ بھی ہو آج کھانا نہ کھاؤں گا
يوں روزہ توڑ دينا گناہِ عظيم ہے
اب ميں ہوں اور ميرا خدائے رحيم ہے
اتنے وقتِ عصر ہوا پياس جو لگی
سوکھی زبان ۔ طاری ہوئی اُس پہ بے ہوشی
حرکتِ دل ميں آئی کمی بے کلی بڑھی
ہچکی سی آئی سانس بھی سينے ميں رک گئی
ماں باپ چيخ اُٹھے کہ معصوم چل بسا
مغموم ہم کو کر گيا محروم چل بسا
ہر سُو اذاں کی ہوئی اتنے ميں اک پُکار
افطار دونوں نے کيا روزہ بحالِ زار
پھر بارگاہِ حق ميں جھُکے ہو کے بے قرار
فارغ ہوئے نماز سے تھے دونوں اشکبار
ماں کی زبان پر تھی صدا شور و شَين کی
اور سامنے تھی لاش رکھی نورِعين کی
دونوں تھے اپنے بيٹے کے ماتم ميں مبتلا
اتنے ميں در سے دی کسی سائل نے يہ صدا
ميں روزہ دار ہوں جو کوئی کھانا کھلائے گا
دے گا اُسے نجات ہر اک رنج سے خدا
کانوں ميں پہنچی جس گھڑی سائل کی التجاء
گھر ميں جو کچھ پکا تھا وہ سائل کو ديديا
سائل کے بھيس ميں تھا فرشہ وہ بے گماں
غمگين اُن کو ديکھ کے پوچھا کہ اے مياں
کيوں چہرے سے تمہارے ہے اس طرح غم عياں
کہنے لگا ميں کيا کروں درد کا بياں
بيٹا ہمارا رنج و الم ہم کو دے گيا
تھا روزہ دار دل کا سکوں چھين لے گيا
بولا فقير اس پہ نہ کر رنج تُو ذرا
الله ہے کارساز دے گا اُسے جلا
بچے کی لاش مجھ کو بھی تو اک نظر دکھا
جب لاش ديکھی بچے کی سائل نے يہ کہا
ہو جا خدا کے فضل سے تو زندہ اس گھڑی
فضلِ خدا سے بچے نے پھر آنکھ کھول دی
ماں باپ نے جو ديکھا يہ منظر تو خوش ہوئے
بے ساختہ فقير کے قدموں ميں گر پڑے
بولا فقير شکر کرو فضلِ رب ہے يہ
رمضان کا مہينہ بڑا برکتوں کا ہے
غم سے نجات ملتی ہے ہر روزہ دار کو
وہ ديکھتا ہے جلوہءِ پروردگار کو

ميری انگريزی ميں بياض کے دو سال

الحَمْدُللہ ميری انگريزی ميں لکھی جانے والی بياض حقائق عموماً تلخ ہوتے ہيں جس کا پہلے نام يہ منافقت نہيں

 ہے کيا تھا نے آج 2 سال مکمل کرلئے ہيں ۔ پہلے سال ميں اِسے 4755 خواتين و حضرات نے زيارت کا شرف

بخشا تھا جبکہ دوسرے سال ميں 10954 خواتين و حضرات نے زيارت کا شرف بخشا ہے يعنی کُل 15709 ہوئے ۔

 سب کا بہت بہت شکريہ ۔

يومِ استقلال ۔ اُس گمنام بچے کے نام

يوممِ اِستقلال مُبارِکFlag-1
پاکستان پائيندہ باد
اُس گمنام مسلمان بچے کے نام جو تعمیرِ پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے بمبئی کے ایک مسلمان محلے میں سڑک پر دوڑا جا رہا تھا ٹھوکر کھا کر گرا اور خون بہتے دیکھ کر رونے لگا ۔ ایک مسلمان راہگیر نے ٹوکا “مسلمان کا بچہ ہو کر تھوڑا سا خون بہہ جانے پر رو رہا ہے “۔
دوسرے راہگیر نے کہا “بہت شرم کی بات ہے”۔
بچے نے جواب دیا “جناب چوٹ لگنے اور خون بہنے پر میں نہیں رو رہا ۔ میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ جو خون پاکستان کے لئے بہنا تھا وہ آج بیکار ہی بہہ رہا ہے”۔

جناب مطلوب الحسن سیّد اپنی کتاب ‘ہمارے قائد’ میں لکھتے ہیں جب یہ واقعہ قائد اعظم کو بتایا تو اُنہوں نے فرمایا “اب پاکستان بننے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی”

پچھلے 55 سال سے ہمارے مُلک پر بيوروکريٹ حکومت کر رہے ہيں چاہے وردی ميں ہوں يا بغير وردی اور ہم لوگ محکوم ہيں ۔ کيا پاکستان اِسی لئے بنا تھا ؟   ہم قائد اعظم کی عزّت کے دعوے تو بہت کرتے ہيں جو صرف دفتروں ميں اُن کی تصوير لگانے تک محدود ہيں ۔ لاکھوں روپيہ خرچ کر کے شاہراہ اسلام آباد کے کنارے قائد اعظم کی بيس پچيس فٹ کی شبيح آويزاں کروا کر اپنی منافقت کو اُجا گر کرتے ہيں ۔ کيا قائد اعظم نے ہميں يہی کہا تھا ؟ ملاحظہ ہو پاکستان کے گزيٹڈ آفيسروں سے چٹاگانگ ۔ مشرقی پاکستان ۔ ميں قائدِ اعظم محمد علی جناح  کے 25 مارچ 1948 کے خطاب سے اقتباس

“Ladies and Gentlemen, I want you to realize fully the deep implications of the revolutionary change that has taken place. Whatever community, caste or creed you belong to you are now the servants of Pakistan. Servants can only do their duties and discharge their responsibilities by serving. Those days have gone when the country was ruled by the bureaucracy. It is people’s Government, responsible to the people more or less on democratic lines and parliamentary practices. Under these fundamental changes I would put before you two or three points for your consideration:

You have to do your duty as servants; you are not concerned with this political or that political party; that is not your business. It is a business of politicians to fight out their case under the present constitution or the future constitution that may be ultimately framed. You, therefore, have nothing to do with this party or that party. You are civil servants. Whichever gets the majority will form the Government and your duty is to serve that Government for the time being as servants not as politicians. How will you do that? The Government in power for the time being must also realize and understand their responsibilities that you are not to be used for this party or that. I know we are saddled with old legacy, old mentality, old psychology and it haunts our footsteps, but it is up to you now to act as true servants of the people even at the risk of any Minister or Ministry trying to interfere with you in the discharge of your duties as civil servants. I hope it will not be so but even if some of you have to suffer as a victim. I hope it will not happen –I expect you to do so readily. We shall of course see that there is security for you and safeguards to you. If we find that is in anyway prejudicial to your interest we shall find ways and means of giving you that security. Of course you must be loyal to the Government that is in power.

The second point is that of your conduct and dealings with the people in various Departments, in which you may be: wipe off that past reputation; you are not rulers. You do not belong to the ruling class; you belong to the servants. Make the people feel that you are their servants and friends, maintain the highest standard of honor, integrity, justice and fair-play. If you do that, people will have confidence and trust in you and will look upon you as friends and well wishers. I do not want to condemn everything of the past, there were men who did their duties according to their lights in the service in which they were placed. As administrator they did do justice in many cases but they did not feel that justice was done to them because there was an order of superiority and they were held at a distance and they did not feel the warmth but they felt a freezing atmosphere when they had to do anything with the officials. Now that freezing atmosphere must go and you must do your best with all courtesy and kindness and try to understand the people. May be sometimes you will find that it is trying and provoking when a man goes on talking and repeating a thing over and over again, but have patience and show patience and make them feel that justice has been done to them.

Next thing that I would like to impress upon you is this: I keep or getting representations and memorials containing grievances of the people of all sorts of things. May be there is no justification, may be there is no foundation for that, may be that they are under wrong impression and may be they are misled but in all such cases I have followed one practice for many years which is this: Whether I agree with anyone or not, whether I think that he has any imaginary grievances whether I think that he does not understand but I always show patience. If you will also do the same in your dealings with an individual or any association or any organization you will ultimately stand to gain. Let not people leave you with this bearing that you hate, that you are offensive, that you have insulted or that you are rude to them. Not one per cent who comes in contact with you should be left in that state of mind. You may not be able to agree with him but do not let him go with this feeling that you are offensive or that you are discourteous. If you will follow that rule believe me you will win the respect of the people.”

 میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔ http://iabhopal.wordpress.com