Category Archives: تاریخ

مِٹا سکے تو مِٹا لے دنیا

مِٹا سکے تو مِٹا لے دنیا ۔ بنانے والا بنا ہی دے گا ۔

پیر 18 فروری 2008 کو سب نے اللہ کی قدرت کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھی ۔ پرویز مشرف اور اس کے حواریوں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود اللہ سُبحانُہُ بعددِ خلقِہِ نے آمریت مخالف قوتوں کو لا سامنے کھڑا کیا ۔

آج اللہ کے دِین اور اللہ کے بندوں کو مِٹانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں بہت ہیں اور ہر طرف سے ہیں لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں بلکہ ازل سے شیطان کے پیروکاروں کا وطیرہ ہے اور جب بھی دِیندار اللہ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر دنیا کی ظاہری چکاچوند میں گم ہونے لگے اہل شیطان نے دین کو مٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔

شاعرِ مشرق علامہ اقبال جو کہ ایک فلسفی بھی تھے نے یونہی نہیں فرمایا

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا

تاریخ متذکرہ بالا خیال کی مثبت پُشت پناہی کرتی ہے ۔ اللہ کا دین کبھی مِٹ نہیں سکتا اور اللہ کے بندے جس دن مِٹ گئے میرا یقین ہے کہ اس کے بعد جلد ہی قیامت برپا ہو جائے گی اور یومِ حساب قائم ہو جائے گا ۔

جب روس نے مشرقی یورپ میں مسلم آبادی والی ریاستوں پر قبضہ کیا تو تمام علماء کو شہید کردیا اور تمام مساجد ختم کر دی تھیں ۔ مسلمانوں کا لباس پہننا اور عربی نام رکھنا ممنوع قرار دے دیا گیا ۔ جس کے متعلق معلوم ہوتا کہ مسلمان ہے اسے قتل کر دیا جاتا یا بقیہ عمر کیلئے قید خانہ میں ڈال دیا جاتا ۔ کامل مُخبری اور سخت گیری کے نتیجہ میں روسی حکومت کے اہلکار مطمعن تھے کہ مسلمان اور اسلام دونوں ختم ہو گئے ۔

اس سلسلہ میں ایک واقعہ ماضی قریب کا ہے ۔ آج سے تین دہائیاں قبل روسی اشتراکی ممالک کا اتحاد [U,S,S,R] دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت تھی جسے توڑنے کا تمغہ آج کی بڑی طاقت ریاستہائے متحدہ امریکا [U.S.A] خود اپنے سینے پر سجاتا ہے ۔ درست کہ امریکا نے بھی اپنی سی کوشش کی لیکن بر سرِ پیکار اور در پردہ بھی مسلمان ہی تھے جنہوں نے اس برفانی ریچھ کو واپس برفوں تک ہی محدود کر دیا ۔ افغانستان میں مسلمانوں کے اعلانِ جہاد سے تو سب واقف ہیں لیکن مشرقی یورپ کی ریاستوں میں اسلام کے شیدائی یکدم کہاں سے آ گئے اس سے بہت ہی کم لوگ واقف ہیں ۔

میرے ایک دوست محمد اختر صاحب الیکٹریکل انجیئر تھے ۔ وہ 1974ء میں چیکوسلواکیا ایک خاص قسم کی تربیّت کیلئے گئے ۔ ان کے ساتھ جو واقع پیش آیا وہ اُنہی کی زبانی نقل کر رہا ہوں ۔

“مجھے اور ایک نوجوان انجنیئر کو 1974ء میں تربیت کیلئے چیکوسلوکیا کی ایک فیکٹری میں بھیجا گیا ۔ اس فیکٹری میں ہم دو ہی پاکستانی تھے اور ہمارے خیال کے مطابق صرف ہم دو ہی مسلمان تھے ۔ دوپہر کا کھانا فیکٹری ہی میں ہوتا تھا ۔ ہم دونوں کیفیٹیریا کے ایک کونے میں ایک میز پر بیٹھتے تھے ۔ کیفیٹیریا میں بہت سے مقامی نوجوان ہوتے تھے ۔ ایک ماہ سے زیادہ گذر جانے کے بعد ایک دن میرا ساتھی بیمار ہونے کی وجہ سے فیکٹری نہ جا سکا ۔ اس دن میں نے کیفیٹیریا میں ایک مقامی نوجوان کو عجیب حرکات کرتے دیکھا ۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتا ۔ پھر اچانک میری طرف دیکھتا ۔ پھر اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر اپنے سامنے کی طرف دیکھنے لگ جاتا ۔ ایسا اُس نے کئی بار کیا ۔

دوسرے دن پھر میرا ساتھی فیکٹری نہ گیا ۔ اس دن بھی کیفیٹیریا میں وہ نوجوان اُسی میز کے ساتھ بیٹھا تھا اور تین بار وہی حرکت کرنے کے بعد وہ تیزی سے میرے پاس آیا اور اشارے سے میرے پاس بیٹھنے کی اجازت مانگی ۔ میں نے مسکرا کر اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ بیٹھنے کے بعد اس نے ادھر اُدھر دیکھا اور پھر میرے کان میں کہا “لا اِلٰہَ “۔ میں سمجھا کہ پوچھ رہا ہے ” تم مسلمان ہو ؟” میں نے ہاں میں سر ہلایا تو اس نے مدھم آواز میں کہا “الحمدللہ” ۔ پھر اس نے اشاروں ہی سے پوچھا “تمہارا ساتھی بھی ۔ لا اِلٰہَ “۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا تو اس نے نفی میں سر ہلا کر مجھے اشارے سے سمجھایا کہ وہ شراب پیتا ہے ۔ اس کے بعد کے دنوں میں جب بھی کیفیٹیریا میں زیرِ تربیت لوگوں کے علاوہ کوئی نہ ہوتا تو وہ نوجوان میرے پاس آ کر بیٹھ جاتا اور مدھم آواز میں قرآن شریف کی تلاوت کرتا رہتا ۔ ایک دن اس نے مجھے پوری سورت بقرہ سنادی ۔ ایک دن میں نے اشاروں میں اس سے پوچھا کہ “اس شہر میں تم جیسے کتنے ہیں ؟” تو اس نے انگلیوں سے سمجھایا کہ 1200 ۔ میں نے پوچھا “تم کو قرآن پڑھنا کس نے سیکھایا ہے ؟” اس نے سمجھایا کہ ایک بوڑھا استاد ہے ۔ میں نے پوچھا کہ “تم کہاں قرآن شریف پڑھتے ہو ؟” تو اس نے سمجھایا کہ زیرَ زمین اور کسی کو نہیں معلوم ۔ اگر معلوم ہو جائے تو ہمیں جان سے مار دیا جائے گا ۔”

محمد اختر صاحب وفات پاچکے ہیں ۔ ذہین ۔ شریف النفس اور باعمل مسلمان تھے ۔ اُنہوں نے 1947ء میں ہندو اور سکھ طلباء کے مقابلہ میں انجنئرنگ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور وہاں سے بی ایس سی الیکٹریکل انجنیئرنگ پاس کی ۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں عمدہ مقام مرحمت فرمائے ۔

کچھ بات تنزل کی

میرے ایک نئے قاری عدنان زاہد صاحب نے فرمائش کی کہ میں 1965ء اور 1971ء کے بارے کچھ لکھوں گویا اپنے بوڑھے ہونے کا حق ادا کروں ۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران میں نے عوام ردِ عمل میں بہت فرق دیکھا لیکن اب تو دنیا ہی بدل چکی ہے ۔ اس کا صحیح اندازہ لگانے کیلئے دو پرانے ذاتی تجربے جن پر جوان نسل کو شاید یقین نہ آئے ۔

میں 1957ء میں گرمیوں کی چھٹیاں گذارنے کیلئے پلندری ۔ آزاد جموں کشمیر گیا ۔ وہاں میری واقفیت پنجاب رجمنٹ کے ایک کمپنی کمانڈر سے ہو گئی ۔ وہ پلندری کوٹلی روڈ پر کسی جگہ تعینات تھا مجھے پہاڑوں کی سیر کا شوق تھا جس کا میں نے اظہار کیا ۔ اس نے کہا کہ کسی دن ہماری کوئی جیپ پلندری سے خالی جا رہی ہوئی تو وہ مجھے اس کے پاس لیجائے گی ۔ کچھ دن بعد صبح سویرے جیپ آئی اور میں چلا گیا ۔ وہاں پہاڑوں پر پھرتے اور شکار کرتے رہے ۔ شام کو جیپ نے پلندری سے راشن لینے جانا تھا ۔ اس پر میری واپسی تھی لیکن پلندری سے لاسلکیہ [wireless] پیغام آیا کہ راوپنڈی سے راشن نہیں آیا چنانچہ جیپ نہ گئی اور مجھے وہیں خیمے میں پتھریلی زمین پر رات گذارنا پڑی ۔ دوسرے دن جیپ گئی اور میں بھی ۔ [آج یہ حال ہے کہ کمپنی کمانڈر کی گاڑیاں ان کے مہمانوں کو ملتان سے راولپنڈی اور مری تک کی سیر کراتی ہیں]

صحیح یاد نہیں 1964ء یا 1965ء کا واقعہ ہے میں ان دنوں ایک پراجیکٹ میں چیئرمین پاکستان آرڈننس فیکٹریز ۔ میجر جنرل اُمراؤ خان کے سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہا تھا ۔ ایک اجلاس میں کوئی جنرل صاحب جی ایچ کیو سے آئے ہوئے تھے ۔ اجلاس کے ختم ہونے کے بعد بھی بیٹھے رہے اور جنرل اُمراؤ خان سے گویا ہوئے “اپنے بعد ہمیں بھی اس شرف کا موقع دیجئے گا”۔ جب وہ چلے گئے تو جنرل اُمراؤ خان مجھ سے مخاطب ہوئے “دیکھا ۔ جنرل صاحب مجھ سے سِنیئر ہوتے ہوئے بھی کیا کہہ رہے تھے ؟” میں نے جواب دیا “جی ۔ مجھے سمجھ نہیں آئی”۔ تو کہنے لگے “ان بیچاروں کو کھُلی جیپوں پر سفر کرنا ہوتا ہے جن کے شاک ابزاربر نہیں ہوتے ۔ مجھے یہاں آرامدہ کار ملی ہوئی ہے ۔ اس کی طرف اشارہ کر رہے تھے”۔ [ آج ایک ایک جنرل کے پاس پانچ پانچ اعلٰی قسم کی گاڑیاں ہیں ۔ دو صاحب بہادر کے پاس ہوتی ہیں ۔ ایک میں بیگم صاحبہ گھومتی ہیں ۔ ایک میں بچے اور ایک گھٹیا والی میں نوکر ۔ اولالذکر چار گاڑیاں ایئرکنڈیشنڈ ہوتی ہیں]

جنگ 1965ء اور جنگ 1971ء کی مکمل تفصیل سے مضمون بہت طویل اور بوجھل ہو جائیگا ۔ اسلئے میں دونوں کے دوران صرف اپنی معلومات اور تجربہ کے مطابق عوام ۔ فوج اور حکومت کا کردار بہت مختصر بیان کروں گا ۔

جنگ 1965ء
اچانک 5 اور 6 ستمبر کی آدھی رات کے بعد بھارتی فوج نے واہگہ سرحد عبور کر کے لاہور کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ۔ 7 ستمبر کو سیٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں یہ حال تھا کہ صاحبِ حیثیت لوگ مختلف اطراف میں سفر پر روانہ ہونا شروع ہو گئے تھے ۔ شاید ان کی منزل اپنے آبائی شہر ۔ قصبے یا گاؤں تھے ۔ بازار سے اشیاء خوردنی غائب ہونا شروع ہو گئیں ۔ لاہور میں باٹا پور اور جلو جو واہگہ سے نزدیک تھے وہاں کے لوگوں کو پاکستانی فوج نے نکال لیا ۔ وقت بہت کم تھا اسلئے سب صرف اپنی جانیں لے کر نکلے ۔ بدقماش لوگوں نے ان کے گھر لوٹنے شروع کر دیئے ۔
ان دنوں امیر محمد خان نواب کالا باغ مغربی پاکستان کے گورنر تھے ۔8 ستمبر کوانہوں نے بڑے کارخانہ داروں اور تاجروں کو گورنر ہاؤس بلا کر صرف اتنا کہا “اپنے مال منڈیوں میں پھینک دو یا پھر اپنی خیر مناؤ”۔ 9 ستمبر کو تمام دکانیں کھُلی تھیں اور ہر چیز پہلے سے ارزاں مل رہی تھی ۔ کمال تو یہ ہے کہ ہمیشہ دودھ میں پانی ملا کر بیچنے والا بھی خالص دودھ بیچنے لگ گیا تھا ۔ باٹا پور اور جلو کے مکانوں سے جو سامان چوری ہوا تھا وہ اگلی رات کے دوران واپس پہنچ گیا ۔
حکومتی کارندے عام آدمی بن گئے یعنی انہیں ملنا آسان ہو گیا ۔ محاذ پر فوجیوں نے بھارتی یلغار کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور ان کی پیش قدمی روک دی ۔ 9 ستمبر کو لاہور شہر میں خبر پھیلی کہ فوجی محاذ پر بغیر کھائے پیئے لڑ رہے ہیں ۔ لاہوریئے پلاؤ اور مرغ قورمے کی دیگیں پکوا کر محاذ پر پہنچنے شروع ہو گئے ۔ پوری قوم ایک ہو گئی ۔ جہاں سے فوجی ٹرک گذرتے لوگ ان کی آؤ بھگت کرتے ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں کیا افسر کیا مزدور دن رات کام کرتے رہے ۔ میں سب سیکٹر کمانڈر تھا ۔ پہلے چار دن اور تین راتیں میں بالکل نہ سویا تھا ۔ اللہ جانے میں کیسے کام کرتا رہا ۔ سب کا یہی جذبہ تھا ۔ رات کو میں اپنے علاقہ کے کئی لوگوں کو زبردستی گھر بھیجتا ۔ وہ مجھ سے جھگڑتے کہ صاحب اس وقت ہمارے ملک کو ہماری ضرورت ہے ۔ ہم کام کرتے مر نہیں جائیں گے ۔ ہوائی حملہ کا سائرن بجتا تو سب اپنا کام کرتے رہتے حالانکہ کام چھوڑ کر خندقوں میں پناہ لینے کی ہدائت تھی ۔

ہمارے ملک کے صحافیوں اور شاعروں نے اپنی کی سی حُب الوطنی میں ایسی فرضی کہانیاں لکھیں اور ایسے سُلا دینے والے نغمے لکھے جنہوں نے قوم کو افسانوی دنیا میں پہنچا دیا ۔ سینے سے بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹنے ۔ سبز کُرتے والے کا بم کو ہاتھ سے پرے دھکیلنا اور گانا “جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی” اس کی مثالیں ہیں ۔

جنگ 1971ء
اس جنگ تک لوگ بدل چکے تھے ۔ فرائض کی کوئی بات نہ کرتا اور حقوق پر بہت زور تھا ۔ ورکرز کو کام کرنے کیلئے کہتے تو جواب ملتا “افسر کام کریں جن کے پاس دولت ہے ۔ ہم غریبوں کو کیوں مروانا چاہتے ہیں ۔ ہمارے بچے پیچھے بھوکے مریں گے” ۔ یہ سب اس پروپیگنڈا کا نتیجہ تھا جو پیپلز پارٹی نے الیکشن جیتنے کیلئے استعمال کیا تھا ۔ جنگ کے دوران ایک اہم دفاعی کام کے سلسلہ میں مجھے راولپنڈی سے کراچی جانا پڑا ۔ جب میں کراچی پہنچا تو کراچی کینٹ سٹیشن پر پنجاب جانے والی ٹرین خالص کراچی والے مردوں عورتوں اور بچوں سے کھچا کھچ بھری کھڑی تھی اور سارے پلیٹ فارم پر مزید سینکڑوں مرد عورتیں اور بچے اگلی ٹرین کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔ میں جب ریلوے سٹیشن سے باہر نکل کر اپنے دفتر کی گاڑی ڈھونڈ رہا تھا تو ایک صاحب نے پوچھا “صاحب ۔ آپ آ رہے ہیں یا کہ جا رہے ہیں ؟” میں نے جواب دیا “جناب ۔ میں پنجاب سے آیا ہوں”۔ اس پر وہ صاحب حیران ہو کر یہ گردان کرتے چلے گئے “کمال ہے ۔ سب جا رہے ہیں اور یہ آ رہے ہیں”۔

کراچی میں میرا قیام ٹرانزٹ کیمپ میں فوجی افسروں کے ساتھ تھا ۔ وہ پریشان تھے کہ اُنہیں سیدھا محاذ پر لڑنے کیلئے کیوں نہیں بھیجا جا رہا ۔ کسی کو کوئٹہ سے کراچی کسی کو کراچی سے کوئٹہ اور دوسرے شہروں کو اور کسی کو دوسرے شہروں سے کراچی کیوں بھیجا جا رہا ہے ؟ بریگیڈوں کے بریگیڈ مختلف شہروں کے ٹرانزٹ کیمپوں میں کیوں پڑے ہیں ؟

سرکاری اہلکاروں کا رویہ بھی کچھ اچھا نہ تھا ۔ اشیاء صرف مہنگی ہو گئی تھیں ۔ مزدوروں کو کام نہ کرنے کا بہانہ مل گیا تھا کہ ہوائی حملہ ہو جائے گا ۔ سارا سارا دن ادھر اُدھر کھڑے وقت ضائع کرتے رہتے ۔ صرف افسران اور سٹاف کے لوگ کام کرتے ۔

محرم الحرام

آج محرم الحرام کی پہلی تاریخ ہے اور ہجری سال 1429 کی ابتداء ہو رہی ہے ۔ عام طور پر اس مہینہ کو صرف 10 محرم 61 ھ کے دن میدانِ کربلا میں نواسۂ رسول حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہلِ خانہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔ متذکرہ واقع سے 37 سال قبل یکم محرم 24 ھ کو رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے قریبی ساتھی دوسرے خلیفہ راشد امیرالمؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تھا ۔

لیکن اس مہینہ کی عظمت بہت پہلے سے مقرر ہے ۔ محرم اور احرام کے معنی تقریباً ایک ہی ہیں ۔ حرام کا لاحقہ اس مہینہ کی حُرمت کو بڑھانے کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ قمری جنتری جو کہ آجکل ہجری جنتری کہلاتی ہے سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے ہزاروں سال قبل سے نافذ العمل ہے کے چار مہینوں کو احترام والے مہینے کہا گیا جن میں ایک محرم الحرام بھی ہے ۔ جب تک ماہِ رمضان میں روزے رکھنے کا حکم نہیں آیا تھا رسول اکرم سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے 10 محرم کا روزہ واجب فرمایا تھا ۔

اس مہینہ کو یہودی بھی عظمت والا مہینہ سمجھتے تھے اور 10 محرم کو روزہ رکھتے تھے کیونکہ ان کے مطابق 10 محرم کو سیْدنا موسٰی علیہ السلام اپنی قوم سمیت دریا میں سے بحاظت گذر گئے تھے اور فرعون مع اپنے پیروکاروں کے غرق ہو گیا تھا ۔

آخرِ عمر میں رسول اکرم سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو کے علم میں آیا کہ یہودی بھی 10 محرم کا روزہ رکھتے ہیں ۔ یہودیوں کے ساتھ مماثلت سے بچنے کیلئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا ” آج کے بعد ہم 10 محرم کے ساتھ ایک اور دن ملا کر دو دن کے روزے رکھا کریں گے”۔ حضور کا تو وصال ہو گیا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمٰعین 9 اور 10 یا 10 اور 11 محرم کو جس طرح انہیں سہولت ہوئی روزے رکھتے رہے ۔

ان دو دنوں یعنی 9 اور 10 یا 10 اور 11 محرم کو روزہ رکھنا بڑے ثواب کا کام ہے ۔ اگر صرف 10 محرم کا ہی روزہ رکھا جائے تو بھی ثواب ہے ۔

اسلام آباد کی منصوبہ بندی

بسلسلہ 9 دسمبر 2007ء

فیصلہ ہوا کہ راولپنڈی تحصیل کو مرکزی حکومت کا گھر بنا دیا جائے اور راولپنڈی کے ضلعی دفاتر گوجرخان منتقل کر دیئے جائیں ۔ ان دنوں ٹیکسلا تحصیل نہیں تھی اور ٹیکسلا راولپنڈی تحصیل میں شامل تھا اور واہ چھاونی بھی ۔ اس منصوبہ بندی کے تحت پرانے راولپنڈی شہر کی تعمیرِ نو کی جانا تھی ۔ انگریزوں سے تربیت یافتہ انڈین سول سروس اور ان کے پیروکار پاکستان سنٹرل سروسز [اب سی ایس ایس] کے افسران کو راولپنڈی جیسا شہر چھوڑ کر گوجرخان جانا منظور نہ تھا ۔ چنانچہ اس پر عمل درآمد پر لیت و لعل ہوتا رہا اور اس منصوبہ کے علمبردار فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے کرسی سے ہٹتے ہی اسلام آباد کو اس طرح سے سکیڑا گیا کہ مستقبل میں توسیع کا امکان بھی نہ رہا ۔

اسلام آباد کی منصوبہ بندی شہری منصوبہ بندی کی ایک مشہور یونانی کمپنی نے کی ۔تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر مربع کا ہر سیکٹر بنایا گیا ۔ ہر سیکٹر میں لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ایک انٹر کالج جس میں چھٹی سے بارہویں جماعت تک پڑھائی ہو اور ایک بڑی کمرشل مارکیٹ ۔ ہر چوتھائی سیکٹر میں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے ایک ایک پرائمری سکول ۔ ایک چھوٹی مارکیٹ ۔ ایک مسجد اور ایک چلڈرن پارک ہونا تھا ۔ مری کی طرف پہاڑیوں کے دامن میں بہت بڑا علاقہ مکمل رہائشی یونیورسٹیوں کیلئے رکھا گیا جن میں ہر قسم کی تعلیم شامل تھی ۔ اس کے علاوہ سیکٹر جی 8 میں ایک بہت بڑا تعلیمی ہسپتال بننا تھا ۔

ڈویلوپمنٹ شروع کرنے سے پہلے اسلام آباد کے تمام درخت اور جھاڑیاں کاٹ کر ان کی جڑیں بھی نکال دی گئیں ۔ جب سڑکیں بننا شروع ہو گئیں تو کسی کو خیال آیا کہ درختوں کا کیا ہو گا ۔ کسی غلامانہ ذہنیت کے لال بجھکڑ نے رائے دی کہ جنگلی توت کا بیج برطانیہ سے منگوا کر چھوٹے ہوائی جہاز سے چھڑکاؤ کر دیا جائے کیونکہ وہ بہت جلد اُگتا ہے اور تیزی سے پھیلتا ہے ۔ اس توت کو پھل نہیں لگتا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ اب اس جنگلی توت کی مہربانی سے پورے اسلام آباد کے باشندے ایک ایسی الرجی میں مبتلا ہو چکے ہیں جو انسان کو زکام اور سانس کی تکلیف میں مبتلا کرتی ہے اور بڑھ کر دمہ کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ سات آٹھ سال قبل سی ڈی اے نے جنگلی توت کے سارے درخت تلف کرنے کا ٹھیکہ دیا ۔ دو تین سال میں درخت کاٹ دیئے گئے مگر جڑیں نہ نکالی جا سکیں جس کے نتیجہ میں میں جنگلی توت کے درخت اُگ گئے ہیں ۔

ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی دور میں سوچا گیا کہ پاکستانی عوام کے بچے پڑھ کر کیا کریں گے اور یہ پارک تو زمین ضائع کرنے کے مترادف ہیں پھر اتنی ساری مساجد کیا کرنا ہیں ۔ اسلئے کئی سکولوں ۔ پارکوں اور مسجدوں کی زمینیں اپنے لوگوں کو مکان اور دکانیں بنانے کیلئے دے دی گئیں ۔ مشرقی طرز پر زیرِ تعمیر وزیر اعظم ہاؤس کو توڑ پھوڑ کر مغربی طرز کا قلعہ نما محل بنایا گیا ۔ شاہراہ قائد اعظم جو کہ ایف ۔ جی 5 سے ایف ۔ جی 17 تک بننا تھی کا نام بدل کر انگریزی نام جناح ایونیو رکھ کر اسے ایف ۔ جی 5 سے ایف ۔ جی 9 تک محدود کر دیا گیا مگر اس کی تعمیر جو ایف ۔ جی 7 تک ہو چکی تھی اس سے آگے نہ کی گئی ۔ ایف 10 میں شاہراہ قائد اعظم کی زمین قائدِ عوام کے چہیتوں میں بانٹ دی گئی ۔ اسلام آباد کی مزید ترقی روک دی گئی ۔ اسلام آباد کا بڑے ہسپتال کا منصوبہ روک دیا گیا ۔ نہ اسلام آباد کی ضلع کچہری بنی نہ دوسرے مرکزی دفاتر اور ان کو مختلف مارکیٹوں پر قبضہ کر کے ان میں بسا دیا گیا ۔ لاڑکانہ کو ترقی دینے کا منصوبہ بنا اور اس پر عمل شروع ہو گیا ۔ اس وقت تک ایف 6 سے 8 اور جی 6 سے 9 تک ڈویلوپ ہو کر بن رہے تھے ۔

اس کے علاوہ لبیا کے معمر قذافی کے نعرہ “بیت لِساکنہُ” یعنی مکان اس کا جو اس میں رہتا ہو کی نقل کرتے ہوئے جیالوں کو سرکاری زمینوں پر راتوں رات قبضہ کا اشارہ ملا جس کے نتجہ میں بہت سی سرکاری املاک انہیں کوڑیوں کے مول دے دی گئی ۔ اس کا ایک نمونہ سب سیکٹر ایف 8/1 میں ہماری رہائش گاہ سے چند قدم کے فاصلہ پر ہے جہاں بچوں کے پارک کی زمین میں سے بہتر حصہ پر پانچ پانچ مرلے کے 10 پلاٹ جیالوں کو دئیے گئے ۔ ان میں سے 7 تو جلد ہی پلاٹ بیچ کر فارغ ہو گئے اور باقی 3 نے مکان بنائے ۔ اب معلوم نہیں وہ ان میں رہ رہے ہیں یا کرائے پر دیئے ہیں یا مکان بیچ کر جا چکے ہیں ۔

جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں ایف اور جی 10 اور ایف 11 کی ڈیویلوپمنٹ شروع ہوئی ۔ ایف 9 پارک ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائینسز بننا شروع ہوا ۔

بینظیر کی حکومت آئی تو سیکٹر آئی 8 جو ریلوے سٹیشن ۔ جنرل بس سٹینڈ اور دیگر مختلف عوامی ضروریات کیلئے مختص تھا رہائشی علاقہ قرار دے کر اپنے مداحوں میں بانٹ دیا اور سیکٹر جی 8 کے وہ خالی پلاٹ جہاں مسجد ۔ پارک یا سکول بننے تھے ان میں سے کچھ پر رہائشی پلاٹ بنا کر مزید لوگوں کو خوش کیا گیا ۔ جو وڈیرے بچ گئے تھے انہیں قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین کاٹ کر پلاٹ الاٹ کر دیئے گئے ۔ سیون سٹار سٹینڈرڈ کا وزیر اعظم سیکریٹیریٹ بنایا گیا جس کے نتیجہ میں کسی سیکٹر کی ڈیویلوپمنٹ نہ ہو سکی ۔

نواز شریف کا دور آیا تو جناح ایونیو کو ایف ۔ جی 8 اور 9 کے علاقہ میں مکمل کیا گیا اور دوسری کئی سڑکیں تعمیر ہوئیں جس سے نہ صرف اسلام آباد سے دوسرے شہروں کو جانے میں سہولت ہوئی بلکہ اسلام آباد کے اندر بھی کافی سہولت ہو گئی ۔

موجودہ دور کی کارستانیاں لکھنے کیلئے بہت وقت اور جگہ چاہیئے جس کا میں اپنے آپ کو متحمل نہیں پاتا ۔ صرف تین مثالیں پیش کرتا ہوں ۔ مرگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں کے دامن میں نیشنل پارک کے علاقہ میں ایک سیکٹر پر نیوی نے بینظیر بھٹو کے زمانہ میں کالونی بنا لی ۔ اس کے بعد ایئر فورس نے ملحقہ سیکٹر میں کالونی بنا لی اور اب فوج کا جنرل ہیڈ کوارٹر اور جرنیلوں کی رہائش گاہیں بنانے کیلئے دو مزید سیکٹروں پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور ان کو پشاور ۔ راولپنڈی ۔ چکلالہ ۔ مری اور لاہور سے ملانے کیلئے سُپر ہائی ویز کی تعمیر شروع ہو چکی ہے ۔

اسلام آباد زیرو پوائنٹ پر شاہراہ کشمیر شاہراہ اسلام آباد کے اوپر سے گذرتی ہے اور شاہراہ سہروردی شاہراہ اسلام آباد کی سطح پر زیرو پوائنٹ سے شروع ہو کر آبپارہ کی طرف جاتی ہے ۔ یہاں پر انٹرسیکشن بنانا اولین منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔ اس چوک کے ایک طرف شکرپڑیاں کی پہاڑی ہے ۔ دوسری طرف نالہ ۔ کھڈ اور قبرستان ۔ تیسری طرف بلند عمارت اور چوتھی طرف زمین ہے ۔ ایک سال قبل صدر جنرل پرویز مشرف کے حکم سے شکرپڑیاں پہاڑی کی قریبی چوٹی پر کروڑوں روپے کے خرچ سے ایک مانومنٹ بنا دیا گیا ہے ۔ اب انٹر سیکشن بنایا جائے تو مانومنٹ گرانا پڑتا ہے یا پھر چوک کو پہاڑی سے دور ہٹایا جائے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ جگہ کی ہیئت کی بنا پر یہ ممکن نظر نہیں آتا ۔ اگر ممکن ہو بھی تو چوک منتقل کرنے پر وہاں ملنے والی سب سڑکیں اور پل نئے سرے سے بنانے پڑیں گے جس پر دو سے تین گنا زیادہ خرچ ہو گا ۔

دوسری مثال متذکرہ بالا سُپر ہائی ویز میں سے ایک “ساتویں ایونیو [7th Avenue]” کی ہے جو حال ہی میں مکمل ہوئی ہے ۔ اگر یہ اصل جگہ پر بنائی جاتی تو چوک کے ایک کونے پر کھڑے کلثوم پلازہ کا کچھ حصہ گرانا پڑتا کیونکہ اس پلازہ کا کچھ حصہ مجوزہ سڑک کی زمین پر بنا ہوا ہے ۔ یہ پلازہ سلیم سیف اللہ کی ملکیت ہے جو وفاقی وزیر اور صدر جنرل پرویز مشرف کا خاص آدمی ہے ۔ اسلئے اس سڑک کی جگہ بدلی گئی جس کی وجہ سے اس کی تعمیر پر ساڑھے چوبیس کروڑ کی بجائے 50 کروڑ روپے خرچ آیا ۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔

آزادی آزادی آزادی

ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن

ٹھیک آج سے 60 سال قبل جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے وطن پر بھارت کے طاقت کے بل پر ناجائز قبضہ کے خلاف اعلانِ جہاد کیا جو کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دینے کے باوجود آج تک جاری ہے ۔ انشاء اللہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ۔

کہتے ہیں ہر دم یہ جموں کشمیر کے مسلماں ۔ اے وطن تیری آزادی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے

ایک نظم

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
کرتا نہیں کیوں دوسرا اس پہ کچھ بات چیت ۔ ۔ ۔ دیکھتا ہوں میں جسے وہ چپ تیری محفل میں ہے
اے شہیدِ مُلک و ملت میں تیرے اُوپر نثار ۔ ۔ ۔ اب تیری ہمت کا چرچہ غیر کی محفل میں ہے
وقت آنے دے بتا دیں گے تجہے اے آسمان ۔ ۔ ۔ ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
کھینج کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی اُمید ۔ ۔ ۔ عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچۂ قاتل میں ہے
ہے لئے ہتھیار دشمن تاک میں بیٹھا اُدھر ۔ ۔ ۔ اور ہم تیار ہیں کھُلا سینہ لئے اپنا اِدھر
خون سے کھیلیں گے ہولی گر وطن مشکل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہاتھ جن میں ہو جنوں کٹتے نہیں تلوار سے ۔ ۔ ۔ سر جو اُٹھ جاتے ہیں وہ جھُکتے نہیں للکا ر سے
اور بھڑکے گا جو شعلہ سا ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہم جو گھر سے نکلے ہی تھے باندھ کے سر پہ کفن ۔ ۔ ۔ جان ہتھیلی پر لئے ہوئے لے چلے ہیں یہ قدم
زندگی تو اپنی مہمان موت کی محفل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
یوں کھڑا مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار ۔ ۔ ۔ کیا تمناءِ شہادت بھی کِسی کے دِل میں ہے
دل میں طوفانوں کی تولی اور نسوں میں انقلاب ۔ ۔ ۔ ہوش دشمن کے اڑا دیں گے ہمیں روکو نہ آج
دُور رہ پائے جو ہم سے دم کہاں منزل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
وہ جِسم بھی کیا جِسم ہے جس میں نہ ہو خونِ جنوں ۔ ۔ ۔ طوفانوں سے کیا لڑے جو کشتی ساحل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

نظم ۔ بسمل عظیم آبادی

میکالے کا ایک اور فیصلہ

لارڈ میکالے کی تجویز نقل کی تھی جس پر چند قارئین نے اعتراض کیا تھا ۔ بزرگ کہتے تھے “اللہ مہربان سو کُل مہربان”۔ میرا سب سے بڑا لالچ سچائی کا حصول رہا ہے اور جب کبھی مجھے مشکل پیش آئی اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے میری مدد فرمائی ۔ اسی سلسلے میں 23 مئی کو ایک خط ڈان اخبار میں شائع ہوا جو اگرچہ مختلف تحریر ہے مگر میرے مؤقف کی تائید کرتی ہے ۔ متعلقہ اقتباس ۔ ۔ ۔ Macaulay’s children

The term Macaulay’s children is used to refer to people born of Indian ancestry who adopt western culture as a lifestyle, or display attitudes influenced by colonisers. Connotation of the term shows the specific behaviour of disloyalty to one’s country and one’s heritage. The passage to which the caption refers is taken from a minute Lord Macaulay wrote on Indian education. It reads:

“It is impossible for us, with our limited means, to attempt to educate the body of the people. We must at present do our best to form a class who may be interpreters between us and the millions whom we govern; a class of persons, Indian in blood and colour, but English in taste, in opinions, in morals, and in intellect. To that class we may leave it to refine the vernacular dialects of the country, to enrich those dialects with terms of science borrowed from the western nomenclature, and to render them by degrees fit vehicles for conveying knowledge to the great mass of the population.”

Should we mug up our state of affairs right from the independence, we find we have been governed till date by the class of people trained in accordance with the desired standards set out by the Macaulay theory.

Would the system that derives strength from the Macaulay doctrine bring any change in our lives? Civil society must strive hard and support those who are eligible to lead the masses. It appears that future is not so gloomy and we can see light at the end of the tunnel in the present struggle spearheaded by the chief justice. But we need hundreds of people like him who could guide the people to shun self-interest and be brave.

نعمان صاحب کے خلاف ریفرنس

جب ایک نیا حاکم گدی پر بیٹھا تو اسے ترکیب سوجھی کہ علماء کو امورِ سلطنت میں شامل کیا جائے ۔ چنانچہ ملک بھر کے علماء کو اکٹھا کیا گیا کہ دین کی باتیں ہوں گی ۔ اجلاس کے دوران اچانک حاکم نے علماء سے پوچھا “آپ کا کیا خیال ہے کہ اللہ نے جو مجھے حکومت دی ہے میں اس کا اہل ہوں ؟”
کئی علماء نے کہا ” بالکل آپ سے بہتر اس کا اہل ہماری نظر میں کوئی نہیں” ۔
ایک معروف عالم خاموش بیٹھے رہے ۔
حاکم نے پوچھا “نعمان ۔ تمہارا کیا خیال ہے ؟”
نعمان صاحب نے کہا “تم اپنے ضمیر سے پوچھو ۔ تم چاہتے ہو کہ علماء تمہارے ہر جائز و ناجائز فعل کی حمائت کریں تاکہ عوام سمجھیں کہ تمہارا ہر فعل دین اسلام کے مطابق ہے حالانکہ تمہارے حاکم بننے پر دو اہلِ فتوٰی کا اجماع نہیں ہوا “۔

اجلاس کے بعد حاکم نے کافی نقدی دے کر اپنے ایلچی کو بھیجا کہ اگر نعمان اسے قبول کرے تو اسے قتل کر دینا اور قبول نہ کرے تو واپس آ جانا ۔
نعمان صاحب نے نقدی نہ لی ۔
پھر حاکم نے نعمان صاحب کو بلا کر کہا “آپ چیف جسٹس کا عہدہ قبول کر لیں کیونکہ ہمیں آپ کے علاوہ کوئی اس کا اہل نظر نہیں آتا “۔
نعمان صاحب نے کہا “میں اس کا اہل نہیں ہوں کیونکہ موجودہ حالات میں میرے لئے صحیح فیصلہ مشکل ہو گا “۔
حاکم نے بہت اصرار کیا اور ترغیبات بھی دیں مگر نعمان اپنے فیصلہ پر قائم رہے ۔ حاکم نے انہیں قید میں ڈال دیا اور حکم دیا کہ نعمان کو روزانہ دس کوڑے اس دن تک لگائے جائیں جب تک وہ چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہ کر لے ۔
روزانہ کوڑے لگتے رہے لیکن نعمان صاحب نے اپنا مؤقف نہ بدلا ۔ آخر ایک دن حاکم نے بلا کر کہا ” نعمان ۔ اپنے اوپر ترس کھاؤ اور چیف جسٹس کا عہدہ قبول کر لو اس سے تمہاری عزت بھی بڑھے گی اور زندگی بھی آسائش سے گذرے گی”۔
نعمان صاحب نے جواب دیا “الله آپ کا بھلا کرے لیکن میں اس عہدہ کا اہل نہیں”۔

حکمران نے غصے میں کہا “تم جھوٹ بولتے ہو”۔
تو نعمان صاحب نے کہا “آپ نے خود ہی میری تصدیق کر دی ۔ بھلا جھوٹ بولنے والے کو کوئی چیف جسٹس بناتا ہے ؟”
حاکم نے پھر نعمان صاحب کو قید میں ڈال دیا ۔ تقریباً چھ سال بعد نعمان صاحب نے قید ہی میں وفات پائی ۔

یہ شخص نعمان بن ثابت ابو حنیفہ رحمة الله عليه المعروف امام اعظم تھے جنہوں نے 767 ء میں وفات پائی اور حاکم تھے ابو جعفر منصور عباسی

بارہ سو سال سے حاکم اس کہانی کو دہراتے چلے آ رہے ہیں لیکن جابر حاکم کے سامنے نعرۂِ حق بلند کرنے والے اللہ کے بندے مر کر بھی زندہ رہتے ہیں ۔ اب تو یہ حال ہے ۔
نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کے جہاں ۔ ۔ ۔ چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے