Category Archives: تاریخ

پیپلز پارٹی کا بانی کون تھا ؟

میں نے اپنی 9 اکتوبر 2008ء کی تحریر میں برسبیلِ تذکرہ لکھ دیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی عبدالرحیم تھے ۔ اس پر مجھے ہدائت کی گئی ہے کہ میں وکی پیڈیا اردو ۔ وکی پیڈیا انگریزی اور انسائکلو پیڈیا برِیٹَینِیکا جیسے اداروں کو مطلع کروں‌ تاکہ اتنی اہم اور تاریخی غلطی درست ہوسکے کیونکہ ان سب میں ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا بانی لکھا ہے ۔

زمانہ کی رسم ہے کہ سچ وہ ہوتا ہے جو بارسُوخ شخص بولے اور میں ایک عام آدمی ہوں ۔ میرے ان بارسوخ اداروں کو کچھ لکھنے کا کوئی اثر بھی نہ ہو گا ۔ ان بارسوخ اداروں کی عظمت کا ایک ادنٰی سا نمونہ یہ ہے کہ وکی پیڈیا اُردو پر لکھا ہے “چائے اور اس کی انگریزی “ٹی” [Tea] دونوں چینی زبان کے الفاظ ہیں”۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں الفاظ چینی زبان کے نہیں ہیں ۔ چینی زبان کا لفظ “چاء” ہے جو کوریا جا کر “ٹاؤ” بنا ۔ جرمنی میں پہنچ کر ” ٹے” بنا اور پرطانیہ میں “ٹی” بن گیا ۔

مارکوپولو کو مستند مؤرخ مانا جاتا ہے ۔ اُس نے چین کے کئی سفر کئے اور بہت کچھ لکھا مگر چاء یا چائے یا ٹے یا ٹی کا کہیں ذکر نہ کیا حالانکہ چاء اُس زمانہ میں ایک عجوبہ تھی ۔

آمدن برسرِ مطلب ۔ میں نے جو لکھا ہے وہ حقیقت ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی کا نام جے اے رحیم ہے جو کمیونسٹ نظریہ رکھتے تھے ۔ ان کے ساتھ کمیونسٹ نظریات رکھنے والے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب جو کسی زمانہ میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پروفیسر تھے اور خورشید محمود قصوری کے والد محمود علی قصوری صاحب و دیگر شامل ہوئے ۔ جے اے رحیم صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو پاکستان پیپلز پارٹی کا صدر نامزد کیا [بانی نہیں] ۔

کچھ عرصہ بعد ایک دن پارٹی کے بانی جے اے رحیم صاحب نے پارٹی کا اجلاس بُلایا جس میں پارٹی کے صدر ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے پہنچنے میں بہت تاخیر کردی تو بانی جے اے رحیم صاحب نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔ اس پر اگلے روز انسپکٹر پولیس شریف بٹ جس کا نام شریف تھا مگر اول درجہ کا بدمعاش تھا نے پارٹی صدر کی ایماء پر پارٹی کے بانی جے اے رحیم کی نہ صرف بے عزتی کی بلکہ اُس بوڑھے شخص کو پارٹی اہلکاروں کے سامنے ٹھُڈے بھی مارے ۔ کچھ دن بعد جے اے رحیم صاحب نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی یا اُنہیں زبردستی نکال دیا گیا ۔ اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا سب کچھ ذوالفقار علی بھٹو صاحب بن گئے ۔

وکی پیڈیا پر کئی متنازیہ یا غلط باتیں درج ہیں ۔ یہ ویب سائیٹ جن لوگوں کے کنٹرول میں ہے وہ صرف اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں ۔ انسائیکلوپیڑیا بھی حرفِ آخر نہیں ہے ۔ ویسے بھی میں نے ساری دنیا کو درست کرنے کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا ۔ میرا مقصد ہے حقیقت لکھنا ۔ کوئی مانے یا نہ مانے وہ اپنے کردار کا ذمہ دار ہے اور میں اپنے کردار کا ۔

قوم کے سوداگر

میں شاید ساتویں جماعت میں تھا [آج سے 57 سال قبل] جب میں نے ایک کتاب بعنوان ” قوم کے سوداگر ” پڑھی تھی ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ کوئی تاریخی واقعہ تھا یا کہانی اور نہ ہی مصنف کا نام یاد ہے کیونکہ اس واقعہ یا کہانی کو میرے ذہن نے قبول نہ کیا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ کیسے ممکن ہے کہ کسی قوم کا سربراہ جو اسی قوم کا فرد ہے اپنی ہی قوم کو غیروں کے ہاتھ بیچ سکتا ہے ۔ میرا متذکرہ تصوّر آہستہ آہستہ متزلزل ہونے لگا ۔ متعلقہ واقعات کی تاریخ طوالتٍ تحریر کا باعث بنے گی اسلئے اسے کسی اگلی نشست کیلئے اُٹھا رکھتے ہیں ۔ آج صرف اُس مطلق العنان آمر کی بات جس نے ۔ قومے فروختند و جہ ارزاں فروختند ۔ کے مصداق اندر ہی اندر قوم کا سب کچھ غیروں کو نہیں بلکہ دشمنوں کو بیچ دیا ۔ میں اُن 600 سے زائد بیگناہ پاکستانیوں کی بات نہیں کر رہا جو پانچ یا چھ ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے امریکہ کو فروخت کئے گئے ۔ اور نہ اُس آگ کی جس میں ملک کا شمال مغربی سرحدی علاقہ ۔جھونک دیا گیا اور اس کے نتیجہ میں ہزاروں بیگناہ فوجی ۔ امن پسند سویلین اور پاکستان کے خیرخواہ قبائلی ہلاک ہو چکے ہیں ۔ بلکہ یہ خبر ان سب خبروں سے بھیانک ہے اور پرویز مشرف ہماری قوم کا بستر ہی گول کرنے کا بندوبست کر گیا ۔

کل اور آج کی خبریں پڑھ کر شاید کوئی قاری یہ سوچے کہ ایسا اچانک ہو گیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ آج سے سوا تین سال قبل میں نے اپنی ایک تحریر میں پیشگوئی نہیں بلکہ پرویز مشرف کے اقدام کا منطقی نتیجہ [logical or calculated result] بیان کر دیا تھا ۔ بہت پرانی ضرب المثل ہے

اب پچھتائے کیا ہوئے جب چڑیاں چُگ کئیں کھیت ۔

زیرِ نظر خبر

بھارت کی جانب سے دریائے چناب کا پانی روکے جانے کے معاملے پر اجلاس وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں اسلام آباد میں ہوا ۔ اجلاس میں انڈس واٹر کمشنر، چیئرمین واپڈا، چیئرمین ارسا اور وزارت کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے ۔ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ میں وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت نے بگلیہار ڈیم میں پانی ذخیرہ کر کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف وزی کی ہے، یہ معاملہ انڈس واٹر کمیشن کی سطح پر اٹھایا گیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈس واٹر کمشنر بگلیہار ڈیم کا دورہ بھی کریں گے ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی بند نہ کی تو ثالثی عدالت سے رجوع کرنے اور غیر جانبدار مبصرین کی تعیناتی کے آپشن موجود ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ نقصان کے ازالے کے لئے بھارت سے پانی کے بدلے میں پانی یا معاوضے کی ادائیگی کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا

مندرجہ بالا بیان کی حثیت شعیب صفدر صاحب کی تحریر کردہ فارمیلیٹی [formality] سے زیادہ کچھ نہیں ہے

اب پڑھیئے میری 27 جون 2005ء کی تحریر سے اقتباس

جو کھیل ہماری حکومت اپنے آقاؤں [امریکی حکومت] کے اشارہ پر کھیل رہی ہے اس کا ذاتی فائدہ پرویز مشرف کو اور سیاسی فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے ۔ نہ صرف جموں کشمیر کے لوگ بلکہ پاکستانی عوام بھی خسارے میں ہیں ۔ پرویز مشرف نے یک طرفہ جنگ بندی اختیار کی جس کے نتیجہ میں ۔ ۔ ۔

بھارت نے پوری جنگ بندی لائین پر جہاں دیوار بنانا آسان تھی وہاں دیوار بنا دی باقی جگہ کانٹے دار تاریں بچھا دیں یعنی جو سرحد بین الاقوامی طور پر عارضی تھی اسے مستقل سرحد بنا دیا ۔

سرحدوں سے فارغ ہو کر بھارتی فوجیوں نے آواز اٹھانے والے کشمیری مسلمانوں کا تیزی سے قتل عام شروع کر دیا اور متواتر روزانہ دس سے بیس افراد شہید کئے جارہے ہیں ۔ معصوم خواتین کی عزتیں لوٹی جا رہی ہیں اور گھروں کو جلا کر خاکستر کیا کیا جا رہا ہے ۔ کئی گاؤں کے گاؤں فصلوں سمیت جلا دیئے گئے ہیں ۔

بگلیہار ڈیم جس پر [تحریکِ آزادی کی وجہ سے] کام رُکا پڑا تھا جنگ بندی ہونے کے باعث بھارت بڑی تیزی سے تقریبا مکمل کر چکا ہے اور تین اور ڈیموں کی بھی تعمیر شروع کر دی گئی ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالی ہماری مدد فرمائے اور ایسا نہ ہو آمین مگر آثار یہی ہیں کہ جب متذکّرہ بالا ڈیم مکمل ہو جائیں گے تو کسی بھی وقت بھارت دریائے چناب کا پورا پانی بھارت کی طرف منتقل کر کے پاکستان کے لئے چناب کو خشک کر دے گا اور دریائے جہلم کا بھی کافی پانی روک لے گا ۔ اس طرح پانی کے بغیر پاکستان کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور زندہ رہنے کے لئے پاکستان کو بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے ۔ چنانچہ بغیر جنگ کے پاکستان بھارت کا غلام بن جائے گا ۔ قوم کو بیوقوف بنانے کے لئے پرویز مشرف نے منگلا ڈیم کو دس میٹر اونچا کرنے کا ملٹی بلین پراجیکٹ شروع کیا ہے ۔ چند سال بعد دریائے جہلم میں اتنا بھی پانی ہونے کی اُمید نہیں کہ ڈیم کی موجودہ اُونچائی تک جھیل بھر جائے پھر یہ اتنا روپیہ کیوں ضائع کیا جا رہا ہے ؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔ ایک ضمنی بات ۔ پہلی پلاننگ کے مطابق منگلا ڈیم کی اونچائی موجودہ اُونچائی سے دس میٹر زیادہ تجویز کی گئی تھی 1962ء میں کا م شروع ہونے سے پہلے ڈیم کی سیفٹی [safety] کو مدنظر رکھتے ہوئے اُونچائی دس میٹر کم کر دی گئی تھی ۔ اس لئے اب اُونچائی زیادہ کرنا پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ اس سلسلہ میں میں اور کئی دوسرے حضرات جن میں زیادہ تر انجنیئر ہیں اخباروں میں خط اور مضامین لکھ چکے ہیں مگر ہماری حکومت کو کسی کی پرواہ نہیں ۔

طالبان اور پاکستان آخری قسط ۔ ذرائع ابلاغ کا کردار

کسی بھی مُلک ۔ قوم یا تحریک کو صحیح خطوط پر چلانے میں ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اِس کیلئے خلوص اور بے لوث خدمت لازمی ہوتی ہے اور ذرائع ابلاغ کا غلط کردار مُلک یا قوم کو تباہی کے کھڈ کے کنارے پہنچا دیتا ہے ۔

آجکل چار ذرائع ابلاغ ہیں ۔ 1 ۔ اخبار ۔ رسالے اور کتابیں ۔ 2 ۔ ریڈیو ۔ 3 ۔ ٹی وی 4 ۔ انٹرنیٹ ۔
تحقیق بتاتی ہے کہ
صرف آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیز یعنی پہلی قسم کا 10 فیصد دماغ میں محفوظ ہوتا ہے ۔
سُنی ہوئی بات یعنی دوسری قسم کا 20 فیصد یاد رہتا ہے ۔
جو سنا جائے اور دیکھا بھی جائے یعنی تیسری قسم کا 30 فیصد یاد رہتا
چوتھی قسم یعنی انٹرنیٹ جدید اور اچھوتا ہونے کے باعث انسان اسے زیادہ انہماک سے دیکھتا۔ پڑھتا ۔ سُنتا ہے دیگر جو کچھ بھی ہو وہ چونکہ انٹر نیٹ پر موجود رہتا ہے اور بار بار دیکھا نہ جائے تو بھی دل کو تسلی ہوتی ہے کہ کسی وقت دیکھا جا سکتا ہے سو ماہرین بتاتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر لکھے گئے یا دکھائے گئے کا 50 فیصد انسان کے ذہن میں رہتا ہے ۔

ان تمام ذرائع میں سے زیادہ تر پر ایک خاص قسم کے لوگوں کا قبضہ ہے جن کو صرف دولت جمع کرنے سے غرض ہے ۔ وہ اپنا اُلو سیدھا رکھتے ہیں اور ہر طرح سے مال کماتے ہیں ۔ کسی کی جان جائے اُن کی بلا سے ۔ کوئی شہر اُجڑے اُنہیں کیا ۔ کوئی قوم تباہ ہو اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ چنانچہ مالدار اور طاقتور آج کی دنیا میں سچا ثابت کیا جاتا ہے اور سچے عام آدمی کو جھوٹا ۔

ذرائع ابلاغ دن کو رات اور اندھیرے کو اُجالا ثابت کرنے کا کمال رکھتے ہیں ۔

جارج واشنگٹن اپنے وطن کیلئے غیرمُلکی قابضوں سے لڑا اور اُسے دہشتگرد قرار دیا گیا پھر وہی جارج واشنگٹن آزاد امریکہ کا پہلا صدر بنا تو دہشتگرد قرار دینے کی وجہ بننے والے کردار ہی کے باعث ہیرو بنا دیا گیا ۔

نیلسن منڈیلا اپنے وطن اور قوم کیلئے غیرمُلکی قابضوں سے لڑا اور اُسے دہشتگرد قرار دے کر 25 سال قید میں رکھا گیا گیا ۔ پھر وہی نیلسن منڈیلا اپنے مُلک کا صدر بن گیا اور اُسے دہشتگرد قرار دینے والوں نے ہی اُسی جدوجہد کی بنا پر جس کی وجہ سے 25 سال قید کاٹی تھی نوبل کا امن انعام دیا ۔

سن 1965ء کی جنگ میں جب بھارتی فوجوں نے اچانک پاکستان پر یلغار کی تو ذرائع ابلاغ ہی تھے جنہوں نے عوام کو یقین دِلانے کی کوشش کی کہ پاکستان کے فوجی اپنے سینوں سے بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور مُلک کو بچا لیا ۔ ایک شاعر صاحب نے اس پر ایک نظم بھی داغ دی جو پی ٹی وی پر بجائی جاتی رہی ۔ یہ سب من گھڑت کہانی تھی اور فوج یا حکومت کی طرف سے نہیں پھیلائی گئی تھی ۔ ایک آدھ اخبار میں اس من گھڑت کہانی کی تردید چھپی لیکن جمہوریت کا شور کرنے والے اکثریت کی بات مانتے ہیں چاہے غلط ہو

مندرجہ بالا کے علاوہ کم از کم دو ایسے انفرادی قسم کے واقعات ۔ ایک راولپنڈی میں اور ایک اسلام آباد میں ۔ میری نظروں کے سامنے ہوئے ۔ ہر ایک کے اگلے دن اخبارات میں جو کہانیاں چھپیں اُن کا حقیقت سے رَتی بھر بھی تعلق نہ تھا

یہ بھی ذرائع ابلاغ ہی کا کرشمہ ہے کہ دوسروں کو ان کے گھر میں جا کر ہلاک کرنے والے اور دوسروں کو اُن کے گھروں سے نکال کر اُن کے گھروں پر قبضہ کرنے والے تو جمہوریت پسند اور انسان دوست کہلاتے ہیں اور مظلوموں اور محروموں کو انتہاء پسند اور دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے ۔ قبائلی علاقوں کے خلاف جو پروپیگنڈہ پچھلے چھ سات سال سے کیا جا رہا ہے اُس میں حقیقت بہت کم ہے اور غیر مُلکی پروپیگنڈہ کے تحت جھوٹ بہت زیادہ ۔

ذرائع ابلاغ کا کردار اُس زمانہ میں بھی مؤثر رہا جب صرف چند اخبار اور رسالے ہوا کرتے تھے مگر فی زمانہ پوری دنیا کے انسانوں کی اکثریت ذرائع ابلاغ کی پیروکار ہے ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ذرائع ابلاغ کی شائع کردہ معلومات کو قرآن شریف کی آیات کا درجہ دیتے ہیں اور کچھ اس سے بھی زیادہ مستند سمجھتے ہیں ۔ حقائق کو ذاتی طور پر جاننے کی بجائے اخبار ۔ ٹی وی ۔ انٹرنیٹ کی نوشت کی بنیاد پر تحقیقی مقالے لکھتے ہیں ۔ کوئی اپنے ذاتی مشاہدے کے مطابق اظہارِ خیال کرے تو اُس کو حوالہ [اخبار یا انٹرنیٹ کا] دینے کا کہا جاتا ہے ۔ کیا اخبار یا انٹرنیٹ والوں کے پاس اللہ کی وحی آتی ہے جو غلط نہیں ہو سکتی ؟

صحافی ۔ مصنف اور شاعر ذرائع ابلاغ کے مائی باپ ہوتے ہیں ۔ پاکستان بننے کے بعد جو لوگ مشہور ہوئے ان کی اکثریت افسانہ نویس ہے یعنی اُنہوں نے دلچسپ کہانی لکھنا ہوتی ہے کہ کتاب ۔ رسالہ یا اخبار زیادہ بِکے اور ان کی جیب میں بھی زیادہ مال جائے ۔
ایک صاحب اسلامی تاریخی ناول نگاری میں مشہور ہوئے اور اسلام کے نام کے غلط استعمال سے مال کمایا ۔
سن 1965ء کی جنگ کے بعد جب بھارت کے شاعر ۔ آرام ہے حرام بھارت کے نوجوانوں ۔ شمع کے پروانوں اور اُس مُلک کی سرحد کو کوئی چھُو نہیں سکتا ۔ جس مُلک کی سرحد کی نگہبان ہوں آنکھیں ۔ لکھ کر اپنی قوم میں عزم و ولولہ پیدا کر رہے تھے ۔ وطنِ عزیز کے شاعر ۔ لالہ جی جان دیو ۔ لڑنا کی جانو تُسی مُرلی بجاون والے ۔ اور میریا ڈھول سپاہیا اور میرا ساجن رنگ رنگیلا نی جرنیل نی کرنیل نی ۔ لکھ کر اور فتح کے شادیانے بجا کر قوم کو سونے کیلئے محسور کر رہے تھے

پاکستان ایک خاص نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا ۔ ایک نظریاتی مُلک کی اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے اپنے ذرائع ابلاغ کی اکثریت مُلک کے نظریہ کی عملی صورت کی مخالف ہو ؟

اس سے بھی دو قدم آگے وطنِ عزیز کے اربابِ اختیار ہیں جو اتنا سچ نہیں بولتے جتنا جھوٹ بولتے ہیں ۔ ان کی خود غرضی نے ایک ایسے مُلک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے جس کی پہلی حکومت نے بے سر و سامان ہوتے ہوئے نہ صرف بھارت سے زبردستی نکالے گئے لاکھوں لُٹے پُٹے مہاجرین کو خود کفیل ہونے میں مدد دی بلکہ ملک کو تیز رفتار ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا تھا ۔ وہ مُلک جو خوراک میں نہ صرف خود کفیل تھا بلکہ خوراک برآمد کرتا تھا آج گندم ۔ دالیں ۔ آلو ۔پیاز اور پھل درآمد کر رہا ہے ۔ آج سے 40 سال قبل ایک امریکی ڈالر 4 پاکستانی روپے میں ملتا تھا اور اچھا آٹا ایک روپے کا ساڑھے تین کلو گرام تھا ۔ آج پاکستانی روپے کی قدر اتنی کم ہوئی کہ 72 روپے میں ایک امریکی ڈالر مل رہا ہے ۔ آٹا اُس معیار کا تو دیکھنے کو ترس گئے ہیں اور جو ملتا ہے وہ 26 روپے کا ایک کلو گرام ہے ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے پیارے رسول سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی حدیث ہے کہ ایک آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ایک بات سُنے اور بغیر تصدیق کئے آگے بیان کر دے ۔
کبھی کسی نے سوچا کہ جھوٹ بولنا تمام بُرائیوں کی جڑ ہے ؟
اور میرے ہموطن جھوٹ بولنے والے کو ہوشیار [tactful] کہتے ہیں ۔ اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے ۔ آمین ۔

طالبان اور پاکستان قسط6 ۔ پاکستانی طالبان

پاکستان میں طالبان نام کی کوئی مجتمع یا جامع تحریک کا وجود نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں اسلام دُشمن طاقتوں کے زیرِ اثر معاندانہ پروپیگنڈہ نے حقائق پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔ قبائلی علاقہ میں مُختلف العقیدہ گروہ ہیں ۔ آپس کی ذاتی لڑائیاں ان کی بہت پرانی عادت ہے ماضی بعید میں اگر ان کی آپس کی لڑائی بڑھ جاتی تو حکومت مداخلت کر کے صلح صفائی کرا دیتی تھی ۔ مگر مسلکی فساد ان کے درمیان ماضی قریب کی پیداوار ہے ۔

شمالی علاقہ جات اور ملحقہ قبائلی علاقہ میں ہمیشہ سے کچھ سیّد رہتے تھے جن میں کچھ شیعہ مسلک کے تھے مگر سب لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے ۔ 1970ء کی دہائی میں اُس وقت کے حکمرانوں کو ان علاقوں میں سیاست کی سُوجھی اور انہوں نے شیعہ لوگوں کو اپنے مقصد کیلئے اُبھارا ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد پرنس کریم آغا خان کو بھی اپنے پیروکار اس غُربت زدہ علاقے میں بنانے کا خیال آیا اور اس کیلئے اُس نے اپنی دولت کا سہارا لیا ۔ ان مہربانیوں نے آخر بھائی کو بھائی کے مقابلہ پر لا کھڑا کیا ۔ پچھلے 8 سال میں حکومت نے اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی جس کے نتیجہ میں اب ایک دوسرے کا قتل روزانہ کا معمول بن گیا ہے ۔ اس فساد کا تعلق نہ تو افغان جہاد سے ہے نہ اوسامہ بن لادن سے ۔

افغانستان میں جب سوویٹ یونین کے خلاف جنگ جاری تھی تو اس میں سُنّی اور شیعہ کی تفریق کے بغیر سب حصہ لے رہے تھے ۔ لیکن نجانے کونسی پسِ پردہ قوت تھی جس نے شیطانی کردار ادا کیا اور شیعہ ۔ اہلِ سُنّت اور اہلِ حدیث کے آوازے بلند ہوئے ۔ قبائلی علاقے تو ایک طرف ۔ واہ چھاؤنی جیسے 97 فیصد تعلیم یافتہ لوگوں والے وطنِ عزیز کے سب سے مہذب شہر کی ایک معروف مسجد کے اندر نمازیوں کا ایک گروہ دوسرے پر لاٹھیاں لے کر پَل پڑا ۔ کچھ لوگوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنتے ہوئے کچھ مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر پر اذان سے فوراً پہلے درود اور نعت پڑھنا شروع کر دیا ۔ کچھ مساجد میں طاقتور لاؤڈ سپیکر لگا کر ہر ماہ میں ایک دن نعت خوانی ہونے لگی اور زیادہ تر نعتیں فلمی گانوں کا چربہ ہوتیں ۔ محلہ کےلوگوں کا آرام اور ان کے بچوں کا پڑھنا ناممکن ہو گیا ۔ کسی کو یہ خیال نہ رہا کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ظہر اور عصر کی نمازیں بغیر آواز کے پڑھنے کا کیوں حُکم دیا ہے ۔

پچھلے 7 سال میں شمالی اور قبائلی علاقہ جات میں مسلمانوں کی مزید کچھ قسمیں بنا دی گئیں ۔ حکومت کے وفادار طالبان ۔ لشکرِ اسلام ۔ انصار الاسلام ۔ وغیرہ ۔ اصلی طالبان کے پاس تو پہلے ہی اسلحہ موجود تھا ۔ دوسرے گروہوں کو جدید اسلحہ کس نے مہیا کیا کہ وہ ایک دوسرے کو ہلاک کریں ؟ جہاں تک صوبہ سرحد کے کچھ علاقوں میں شریعت نافذ کرنے کا سوال ہے اس کیلئے مولویوں کی حکومت آنے سے قبل سرحد اسمبلی میں قانون منظور کیا گیا تھا اور اس قانون کی منظوری بعد میں پرویز مشرف کی حکومت نے دی تھی مگر یہ قانون آج تک نافذ العمل نہیں ہوا ۔ سُننے میں آتا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف لڑنے والے پرویز مشرّف حکومت نے تیار کئے ۔ اسی طرح باڑہ ۔ جمرود اور تیراہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک گروہ جس میں منگل باغ بھی شامل ہے پرویز مشرّف حکومت کا تیار کردہ ہے ۔

ہموطنوں کی اکثریت نے اپنی تمام تر توجہ مُلّا کو ہدفِ تنقید بنانے پر لگا رکھی ہے ۔ ذرائع ابلاغ نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ ہر داڑھی والا مّلّا یا طالبان ہے اور شِدّت پسند یا دہشتگرد ہے ۔ ہر داڑھی والے کو طالبان یا مُلا کہنا کہاں کی دانشمندی ہے ؟ کیا سِکھ ۔ ہندو ۔ یہودی ۔ عیسائی اور دہریئے داڑھی نہیں رکھتے ؟ اور کیا چوروں اور ڈاکوؤں کی داڑھیاں نہیں ہوتیں ؟ داڑھی والا تو ایک طرف نماز اور روزے کے پابند کو بھی وطنِ عزیز میں روشن خیال لوگ تضحیک کے ساتھ مولوی یا مُلا کہہ کر پکارتے ہیں ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وطنِ عزیز میں نماز اور روزہ کا تارک بھی سینے پر ہاتھ مار کر کہتا ہے “میں مُسلمان ہوں ۔ کوئی دوسرا کون ہوتا ہے مجھے اسلام سکھانے والا ؟”

جب افغانستان میں پاکستان کی فوجی حکومت کی اعانت سے سوویٹ یونین کے خلاف جنگ جاری تھی تو اس جنگ میں شامل ہونے والوں میں افغانیوں کے ساتھ کچھ غیر ملکی بھی شامل تھے جن کا تعلق امریکہ اور برطانیہ سمیت پوری دنیا سے تھا ۔ ان میں پاکستان کے تمام صوبوں اور آزاد جموں کشمیر کے لوگ بھی تھے ۔ یہ لوگ نہ القاعدہ تھے نہ طالبان بلکہ سب انفرادی حیثیت میں شامل ہوئے تھے ۔

فی زمانہ یہ رواج بن چکا ہے کہ چوہدری کے میراثی کی طرح ہر بُرائی طالبان یا مُلّا کے نام لکھ دی جاتی ہے ۔ اور اگر کسی وجہ سے طالبان یا مُلّا کا نام لینا ناممکن ہو تو مسلمان کے نام تھوپ دی جاتی ہے ۔ افسوس کہ ہموطنوں میں حقائق کا ادراک کرنے کا حوصلہ نہیں ۔ اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ میں امریکہ نے اور امریکہ کی خوشنودی کیلئے وطنِ عزیز کے حکمرانوں نے جو قتل عام کیا ہے اس کا بدلہ لینے کیلئے وہ لوگ فوجی یا متعلقہ تنصیبات پر تو حملے کرتے ہیں لیکن شہری لوگوں پر وہ لوگ عام طور پر ہاتھ نہیں اُٹھاتے ۔ البتہ حالات کا فائدہ اُٹھا کر جرائم پیشہ لوگ کھُل کر کھیلنے لگے ہیں اور ان جرائم پیشہ میں سے جب کوئی پکڑا جاتا ہے تو وہ بیان دیتا ہے یا اُس سے بیان دلوایا جاتا ہے کہ اُس کا تعلق طالبان یا فلاں اسلامی تحریک سے ہے ۔ یعنی ایک تیر سے دو نشانے لگائے جاتے ہیں ۔ ایسے آدمیوں کو کبھی کھُلی عدالت میں بیان دینے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ اگر گڑبڑ کا خدشہ ہو یا پکڑا جانے والا مطلب کا بیان نہ دے تو جعلی پولیس مقابلہ میں اُسے ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔

بینظیر بھٹو کے قتل میں بیت اللہ محسود کے نام کی ایف آئی آر کاٹ دی گئی ۔ ثبوت کیلئے کچھ دن بعد ایک 15 سالہ لڑکا کہیں سے اُٹھا کر اسے ماسٹر مائنڈ قرار دے دیا اور بتایا گیا کہ وہ لڑکا بیت اللہ محسود کا آدمی ہے ۔ (میں نہیں کہتا کہ بیت اللہ محسود اچھا آدمی ہے)
بینظیر کے قتل کے چند گھنٹوں کے اندر موقع سے تمام ثبوت غائب کر کے ساری جگہ کی دُھلائی بھی کر دی گئی تھی
ڈاکٹروں کو بینظیر اور 22 دوسرے مرنے والوں کا باقاعدہ معائنہ کر کے صحیح رپورٹ تیار نہ کرنے دی گئی
تمام مرنے والوں کو جلد دفنانے پر زور دیا اور دفنا دیا گیا
قانون کے مطابق وقوعہ کے بعد فوری طور پر وقوعہ کے عینی شاہدوں کے بیانات قلمبند کر کے وقوعہ کے وقت سے دو ہفتے کے اندر تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کرنا ہوتی ہے ۔ رپورٹ تو کُجا کسی عینی شاہد کا آج تک بیان قلمبند نہیں کیا گیا جبکہ عینی شاہد معروف تھے ۔
بیت اللہ محسود یا اُس کے کسی معتبر ساتھی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی نہ گئی حالانکہ اُسے ملزم ٹھہرایا گیا تھا ۔
انٹرپول کی ٹیم آئی اور غریب ہموطنوں کا مال کھا کر کوئی اہم کاروائی کئے بغیر چلی گئی ۔

کیا متذکرہ سب قانونی کاروائیاں بیت اللہ محسود یا اُسکے آدمیوں نے کروائیں یا رُکوائیں ؟

کوئی انصاف پسند اگر ہے تو بتائے کہ ایک شخص کے اپنے گھر پر کوئی آ کر حملہ کرے اور اُس کے خاندان کے کئی افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوں ہلاک کر دے یا اُن کے ہاں شادی ہو رہی ہو اور سب رشتہ دار اور دوست جمع ہوں اور ان پر حملہ کر کے لوگوں کو ہلاک اور زخمی کر دے یا اُن کے بچے مدرسہ میں پڑھنے گئے ہوں اور اُنہیں میزائل مار کر ہلاک کر دیا جائے اور پھر بڑے طمطراک سے اعلان کیا جائے کہ دہشتگرد مار دیئے تو کیا مرنے والوں کے رشتہ دار اور دوست حملہ آور کو پھولوں کے ہار پہنائیں گے ؟

کیا افغانستان میں امریکا اس سے زیادہ ظُلم نہیں کر رہا اور کیا پاکستان کے قبائلی علاقہ میں امریکا اور وطنِ عزیز کے حُکمران ایسا ہی ظُلم نہیں کرتے آ رہے ؟

کمال یہ ہے کہ ہر شہری دھماکہ کو دھماکہ ہوتے ہی خُودکُش قرار دیدیا جاتا ہے ۔ پھر اُسی دن یا چند دن بعد خُودکُش حملہ آور کا سر مل جاتا ہے اور ڈی این اے ٹسٹ کا اعلان کر دیا جاتا اور دھماکہ کا تعلق طالبان یا انتہاء پسند جنگنوؤں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ۔ اس پر اکتفاء کر کے حکومت کے متعلقہ محکموں کے اہلکار اپنی ذمہ داری سے اپنے آپ کو سُبکدوش سمجھتے ہیں ۔ اگر کبھی یہ لوگ اپنے دماغوں کو صاف کر کے درست طریقہ سے تحقیق کرتے تو یقینی طور پر معلوم ہو چکا ہوتا کہ اسلام کی آڑ میں اسلام کو کون بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے

بغیر پارلیمنٹ یا حلیف جماعتوں کے سربراہوں کو اعتماد میں لئے جون کے آخری ہفتہ میں پشاور کے قریب باڑہ کے علاقہ میں جو فوجی کاروائی کی گئی اس کی افادیت کسی کی سمجھ میں نہیں آئی ۔ عام خیال یہی ہے کہ امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ باؤچر کی پاکستان آمد سے پہلے یہ کاروائی اپنی وفاداری کے ثبوت کے طور پر کی گئی کیونکہ پچھلی یعنی پرویز مشرّف حکومت کے دور میں ہمیشہ امریکا کے کسی بڑے کی پاکستان آمد سے پہلے کسی نہ کسی قبائلی علاقہ پر یلغار کی جاتی رہی ہے اور قبائلی مع بیوی بچوں کے ہلاک ہوتے رہے ہیں ۔ اس کاروائی کی اہم حقیقت یہ ہے کہ جن کے خلاف کاروائی کی گئی تھی وہ بغیر ایک گولی چلائے علاقہ خالی کر گئے تھے لیکن اپنے آقا امریکا کی ایما پر کاروائی جاری رکھی گئی ۔ نتیجہ میں قبائیلی ہلاک ہونا شروع ہوئے تو اُنہوں نے بھی ردِ عمل شروع کیا جس میں ہلاک ہونے والوں میں وطنِ عزیز کے سپاہییوں کی تعداد ہلاک ہونے والے قبائیلیوں سے زیادہ ہے ۔ دونوں طرف غریب پاکستانی مر رہے ہیں ۔ اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے ؟ جرنیل اور حکمران تو اپنے ایئرکنڈیشنڈ گھروں میں آرام فرما رہے ہیں یا پھر دوسرے ممالک کی سیر و سیاحت کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔

جون کے آخری ہفتہ میں پاکستان کے ایک سابق سفیر ایاز وزیر نے قبائلی علاقہ پر طاقت کے استعمال کی پُرزور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مقامی جرگہ سسٹم بحال کیا جائے اور مشاورت سے تنازعات حل کئے جائیں ۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ آج تک حکومت نے قبائلی علاقہ میں کوئی ترقیاتی عمل نہیں کیا ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ طالبان نام کی کوئی تحریک وزیرستان میں نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر ڈاکٹر بھی طالبان ہے انجنیئر بھی طالبان ہے میں بھی طالبان ہوں اور آپ بھی طالبان ہیں ۔

اُنہی دنوں میں خیبر ایجنسی کے پولٹیکل ایجنٹ جو کہ سرکاری ملازم ہوتا ہے نے کہا کہ جمرود کے علاقہ میں لڑائی ہو یا قبائلی اور پُرامن شہری علاقوں میں دھماکے ہیروئین کے بادشاہ کرواتے ہیں ان کا وزیرستان یا سو ات سے کوئی تعلق نہیں ۔ اُس نے مزید کہا کہ اس بدامنی سے فائدہ اُٹھا کر افغانستان میں تیار ہونے والی ہیروئین کی پاکستان کے راستے دوسرے مُلکوں کو ترسیل ممکن بنائی جاتی ہے ۔

طالبان اور پاکستان قسط5 ۔ ہیروئین کا کاروبار

میں 13 دسمبر 2005ء کو لکھ چکا ہوں کہ بیسویں صدی میں پوست کے پودے سے یورپی سائنسدانوں نے ہیروئین بنائی اور اس کے کارخانے افغانستان کے دشوار گذار پہاڑی علاقوں میں لگائے ۔ اِن کارخانوں کی معمل [laboratories] یورپی ممالک سے بن کر آئے تھے ۔ مزید یہ کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ جب افغانستان پر مُلا عمر کا حُکم چلتا تھا تو ہیروئین کی افغانستان میں پیداوار صفر ہو گئی تھی ۔

چند ماہ سے امریکا اور اُس کے حواریوں کا شور و غُوغا ہے کہ طالبان ہیروئین کا وسیع پیمانے پر کاروبار کر رہے ہیں اور اس کی کمائی سے اسلحہ خریدتے ہیں ۔ اس کی سچائی ناپنے کیلئے افغانستان میں اُس علاقہ جس پر طالبان کا کنٹرول ہے کا مطالعہ ضروری ہے ۔ طالبان کا علاقہ پورے افغانستان کے 20 فیصد سے بھی کم ہے اور اس کی چوڑائی بہت کم ہے ۔ یہ تین اطراف سے امریکا اور اُس کی اتحادی افواج کے گھیرے میں ہے ۔ چوتھی طرف وطنِ عزیز کے حکمرانوں نے امریکا کی تابعداری میں فوجی چوکیاں بنا رکھی ہیں جن پر بھاری نفری تعینات ہے ۔ امریکی سیٹیلائٹ کے علاوہ امریکا کے ہیلی کاپٹر اور بغیر پائلٹ کے ہوائی جہاز طالبان کے علاقہ پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ مزید آئے دن طالبان کے ٹھکانوں یا گھروں پر میزائل اور بم پھینکے جاتے ہیں جس سے بوڑھے ۔ جوان ۔ بچے ۔ عورتیں ۔ بچیاں ہلاک ہوتے رہتے ہیں ۔

امریکا کا دعوٰی ہے کہ امریکا سیٹیلائیٹ اور بغیر پائلٹ کے جاسوس طیاروں کی مدد سے زمین پر پڑی ٹیبل ٹینس کی گیند دیکھ لیتا ہے اور کنکریٹ کے بنکر کے اندر پڑی اشیاء بھی اُسے نظر آ جاتی ہیں ۔ عراق کے ایک گنجان آباد شہر میں ایک مکان کے اندر پڑی ہوئی وڈیو کیسٹ بھی نظر آ گئی تھی جس میں اوسامہ بن لادن نے ورڈ ٹریڈ سینٹر کو گرانے کا اقبالِ جُرم کیا ہوا تھا (وِڈیو کیسٹ والی بات امریکہ کا سفید جھوٹ تھی کیونکہ امریکہ نے طالبان کے خلاف رائے عامہ بنانا تھی) ۔ اتنی زبردست ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ طالبان کے علاقہ میں امریکا کو ہیروئین کی لیباریٹریاں نظر نہیں آتیں ؟ تا کہ وہ اُنہیں تباہ کر سکے ۔

امریکی اداروں کا ہی دعوٰی ہے کہ دنیا میں ہیروئین کی کُل پیداواری مقدار کا 70 فیصد سے زائد افغانستان میں تیار ہو رہی ہے ۔ ہیروئین کی اتنی بڑی مقدار پیدا کرنے کیلئے پوست کے کھیت تو مِیلوں میں پھیلے ہوئے ہونا چاہئیں ۔ امریکا کو اپنی اعلٰی ٹیکنالوجی کی آنکھ سے پوست کے اتنے وسیع کھیت کیوں نظر نہیں آتے ؟ جبکہ گوگل ارتھ کی مدد سے مجھے اسلام آباد میں اپنے گھر کی چھت پر بنی 6 فُٹ چوڑی اور 7 فُٹ لمبی پانی کی ٹینکی بھی صاف نظر آ جاتی ہے ۔

یہ بھی کیونکر ممکن ہے کہ امریکا افغانستان میں چاروں طرف سے دشمنوں میں گھِرے ہوئے طالبان کو پوست کی کاشت کرنے سے روک نہیں سکتا ؟ کیا پوست بونا ۔ فصل کا تیار ہونا اور کاٹنا اتنے کم وقت میں ہوتا ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا ؟ اور کیا پوست کی اتنی بڑی مقدار کی کھیت سے لیبارٹری تک نقل و حمل اُسے انرجی میں تبدیل کر کے فائبر آپٹکس کے ذریعہ کی جاتی ہے اور دوسرے سرے پر اُسے واپس پوست بنا لیا جاتا ہے کہ پوست کی اتنی بڑی مقدار کسی کو نظر ہی نہیں آتی ؟

متذکرہ بالا صورتِ حال سے تو یہ تآثر اُبھرتا ہے کہ ہیروئین کے کاروبار میں امریکی حکومت کے چہیتے ملوث ہیں اور پوست کی کاشت امریکا کے زیرِ اثر علاقہ میں ہوتی ہے اور ہیروئین بنانے کی لیبارٹریاں بھی امریکا کے زیرِ اثر علاقہ میں ہیں ۔ رہا پروپیگنڈہ کہ طالبان وسیع پیمانے پر ہیروئین بنا رہے ہیں اور اس کی کمائی سے دہشتگردی کر رہے ہیں ۔ یہ امریکا کی اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی مذموم بھیانک کوشش ہے

طالبان اور پاکستان قسط 4 ۔ جنہیں طالبان کا نام دیا گیا

امریکا جو کہ پسِ پردہ سوویٹ فوجوں کے خلاف افغان مجاہدین کی مدد کر رہا تھا کو اُس وقت پریشانی لاحق ہوئی جب اسلامی حکومت قائم کرنے کا نعرہ بلند کرنے والے افغان مجاہدین بظاہر کامیاب نظر آنے لگے ۔ اس وقت امریکا نے یکدم ہاتھ کھینچ لیا کہ کہیں مسلمانوں کی ایک اور حکومت قائم نہ ہو جائے ۔ 10 اپریل 1988ء کو ہونے والا مشہور اوجڑی کیمپ راولپنڈی کا حادثہ جس میں مسلم لیگ نواز کے لیڈر اور منیجنگ ڈائریکٹر ایئر بلیو شاہد خاقان عباسی کے والد محمد خاقان عباسی سمیت بہت سے پاکستانی شہری ہلاک ہوئے امریکہ کی مہربانی کا نتیجہ تھا کیونکہ پنٹیگون نے افغان مجاہدین کی امداد بند کرنے کا حُکمنامہ جاری کر دیا تھا مگر بغیر وار ہیڈ کے دُور مار کرنے والے راکٹ لے کر امریکا کے 2 سی130 پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو چکے تھے ۔

امریکا نے اُس وقت بھی خیبر ایجنسی کے مقام جمرود میں دو گروہوں کی لڑائی کا بہانہ بنا کر جنرل ضیاء الحق کو مجبور کیا کہ یہ راکٹ راولپنڈی ہی میں کہیں رکھ دیئے جائیں اور بتایا کہ راکٹ بغیر وار ہیڈ کے ہیں اسلئے ان سے کوئی خطرہ نہیں ۔ کوئی اور جگہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ راکٹ اوجڑی کیمپ کی متروکہ بیرکوں میں وقتی طور پر رکھ دیئے گئے ۔ پھر کسی طرح سے اس راکٹس کے انبار میں دھماکہ کیا گیا جس سے وہ راکٹ یکے بعد دیگرے ہوائیاں بن کر اِدھر اُدھر اُڑنے لگے ۔ خیال رہے کہ اوجڑی کیمپ اُس وقت کئی سال سے خالی پڑا تھا اور بیروکوں کے اندر کوئی ایسی چیز نہ تھی جو آگ لگنے یا دھماکہ کا سبب بنتی ۔ البتہ ذرائع ابلاغ میں یہ خبر آئی تھی کہ بعد ميں رات کے پچھلے پہر امریکا کا ایک ہوائی جہاز بغیر شیڈول کے پہنچا تھا جس سے کچھ اسلحہ رات کی تاریکی ہی میں اوجڑی کیمپ پہنچایا گیا تھا ۔ اُس رات کے اگلے دن ہی دس بجے کے قریب اوجڑی کیمپ میں دھماکا ہوا تھا ۔

دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی دھمک میں نے اوجڑی کیمپ سے 40 کلو میٹر دُور واہ چھاونی میں اپنے دفتر میں بیٹھے محسوس کی تھی ۔ ہلاکتیں اور دوسرا نقصان ان راکٹوں کے براہِ راست ٹکرانے سے ہوا تھا کیونکہ وار ہیڈ ساتھ لگے نہ ہونے کی وجہ سے آگ لگنے پر راکٹ صرف اُڑ سکتے تھے پھٹ نہیں سکتے تھے یا اگر راکٹ کسی شعلہ آور شئے کے پاس گرا اور علاقہ میں آگ لگ گئی ۔ ایک راکٹ سٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ہمارے گھر میں بھی گرا تھا اور برآمدے میں لگی چِخوں اور لکڑی کے چوکھٹوں کو آگ لگ گئی تھی ۔ ہمارا گھر اوجڑی کیمپ سے 2 کلو میٹر کے ہوائی فاصلہ پر تھا ۔ اُس وقت کے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کو اس سانحہ کی حقیقت کی کچھ سُدھ بُدھ ہو گئی تھی جس کے نتیجہ میں اُن کی حکومت توڑ دی گئی تھی حالانکہ یہ حکومت خود جنرل ضیاء الحق نے بنائی تھی اور محمد خان جونیجو کو بھی خود جنرل ضیاء الحق نے چُنا تھا ۔

اسی پر بس نہ ہوا بلکہ افغان مُسلم سلطنت کو بننے سے روکنے کیلئے امریکہ نے افغانیوں کے مختلف گروہوں کو آپس میں لڑانے کی منصوبہ بندی کی ۔ پہلے ڈالر سے متحارب گروہ پیدا کئے اور پھر اسلحہ اور ڈالر سے ان کی پُشت پناہی کی ۔ امریکہ کی پشت پناہی سے شروع کی گئی خانہ جنگی میں 1994ء تک افغانستان میں افغانیوں کیلئے حالات اتنے بگڑ گئے کہ لوٹ مار ۔ اغواء اور زنا روزانہ کا معمول بن گیا ۔ ایسے میں ایک بوڑھی عورت نے ایک گاؤں میں مسجد کے امام اور دینی اُستاد مُلا عمر کو اپنی بپتا سُنا کر جھنجوڑ دیا ۔ اُس نے اپنے پاس کھڑے شاگردوں کی طرف دیکھا جنہوں نے ہاں میں سر ہلایا اور مُلا عمر اپنے آٹھ دس شاگردوں کے ہمراہ بوڑھی عورت سے یہ کہتا ہوا مسجد سے نکل گیا ”مُلا عمر اُس وقت تک واپس نہیں آئے گا جب تک تمہاری جوان بیٹیوں پر ہونے والے ظُلم کا بدلا نہ لے لے“۔ یہ ایک نئے جہاد کا آغاز تھا جو صرف سولہ سترہ افغانیوں نے شروع کیا اور بڑی تیزی سے بڑھتا گیا ۔ عام لوگ لوٹ مار اور ظُلم سے تنگ آ چکے تھے ۔ وہ جوق در جوق مُلا عمر کے جھنڈے تلے جمع ہوتے گئے اور بہت کم مدت میں افغانستان کے 85 فیصد سے زائد علاقے پر مُلا عمر کی حُکمرانی ہو گئی ۔ افغانستان جہاں کسی کا مال محفوظ رہا تھا نہ کسی عورت کی عصمت وہاں اللہ کے فضل سے یہ حال ہوا کہ عورت ہو یا مرد دن ہو یا رات مُلا عمر کے زیرِ اثر افغانستان میں بلا خوف و خطر سفر کرتا تھا ۔ اس زمانہ میں اسلام آباد کے کچھ لوگ افغانستان کی سیر کر کے آئے تھے اور مُلا عمر کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے ۔

مُلا عمر کا قائم کردہ امن و امان امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھایا اور ایک بار پھر کچھ دولت پرست افغانیوں کو ڈالروں سے مالا مال کرنے کے بعد زر خرید جنگجوؤں کو شمالی افغانستان میں مُلا عمر کے خلاف لڑایا ۔ دوسری طرف مُلا عمر سے مذاکرات جاری کئے کہ جھیل کیسپین کے ارد گرد ممالک سے آنے والی معدنیات کی ترسیل کے افغانستان والے حصہ کا ٹھیکہ امریکی کمپنی کو دیا جائے ۔ امریکی کمپنی کے مقابلہ میں ارجنٹائینی کمپنی کی پیشکش زیادہ مفید ہونے کے باعث ٹھیکہ ارجنٹائنی کمپنی کو دے دیا گیا ۔ اس پر مذاکراتی ٹیم نے مُلا عمر کو بُرے نتائج کی دھمکی دی اور امریکی ٹیم کے واپس جاتے ہی امریکہ نے افغانستان پر حملہ کی منصوبہ بندی کر لی ۔ یہ جون جولائی 2001ء کا واقعہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس مذاکراتی ٹیم میں ایف بی آئی کے لوگ شامل تھے ۔

امریکہ نے باقی دُنیا کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے نیویارک کے ورڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کرنے کا منصوبہ بڑی کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچایا اور اس کا الزام نام نہاد القاعدہ پر لگا کر اُسامہ بن لادن کو القاعدہ کا سربراہ قرار دیا ۔ یہاں یہ بنا دوں کہ امریکا نے اُسامہ کا اُن 2000 کے قریب گوریلہ جنگجوؤں کا سالار بننا قبول کيا تھا جنہیں امریکہ نے تربیت دی تھی ۔ لیکن اُسامہ کے مطالبہ پر کہ امریکا عرب دنیا سے چلا جائے امریکا اوسامہ کا دشمن ہو گیا تھا اور اُسے دہشتگرد قرار دے دیا تھا ۔

امریکا نے افغانوں کی رسم کہ ان کے ہاں دُشمن بھی پناہ لے لے تو وہ اُس کے محافظ کا کردار ادا کرتے ہیں سے استفادہ کرتے ہوئے اُسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا جس پر انکار ہونا ہی تھا ۔ چنانچہ افغانستان پر امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے 7 اکتوبر 2001ء کو بھرپور حملہ کر دیا ۔ یہ دنیا کے بدترین ظُلم ۔ قتل و غارتگری کی مثال تھا جو اب تک جاری ہے ۔ امریکا بدترین دہشتگردی کرتے ہوئے اپنا دفاع کرنے والوں کو دہشتگرد قرار دیتا ہے ۔ ذرا سا غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کے نام لیواؤں کو ختم کرنے کیلئے یہ دوسرا مگر بہت بڑا اور دہشتناک کروسیڈ ہے ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی نام نہاد مسلمان حکمران صرف اپنی کُرسی بچانے کیلئے اس قتل و غارتگری میں امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں یا اُس کے خلاف آواز اُٹھانے سے ڈرتے ہیں ۔ نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کا تاریک ترین پہلو پرویز مشرف کا کردار ہے جس نے امریکا کے اس بیہیمانہ قتلِ عام میں پاکستانی قوم کی خواہش کے خلاف نہ صرف تعاون کیا بلکہ پاکستان کی سرزمین امریکا کو اس مُسلم کُش جنگ میں استعمال کرنے کی کھُلی چھُٹی دے دی ۔ اور آج تک پرویز مشرف امریکی حکومت کے ہاتھ میں کھلونا بنا ہوا ہے ۔ پاکستان کی سر زمین پر تاحال امریکی فوجی موجود ہیں ۔ پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ باؤچر نے یکم جولائی 2008ء کو اس کا اقرار کیا ۔ پرویز مشرف قوم کے سامنے متواتر جھوٹ بولتا رہا ہے ۔ اندیشہ کیا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ موجودہ حکمران آصف زرداری بھی امریکا کے ہاتھ میں کھیل رہا ہے ۔

طالبان اور پاکستان قسط 3 ۔ افغان جہاد

ظاہر شاہ یورپ کی سیر پر تھا جب 17 جولائی 1973ء کو محمد داؤد خان نے اس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور افغانستان کو جمہوریہ قرار دے کر خود صدر بن گیا ۔ دو تین سال بعد داؤد خان نے نئے آئین کا اعلان کیا جس میں عورتوں کے حقوق بھی شامل تھے ۔ لباس میں اُس نے یورپ کی تقلید بھی شروع کی ۔ تاثر یہی تھا کہ داؤد خان روس نواز ہے لیکن 1977ء کے آخر یا 1978ء کے شروع میں داؤد خان نے اپنے غیرمُلکی دورے کے دوران ایک تقریر میں اسلامی سلطنت کا ذکر کر کے دنیا کو حیران کر دیا ۔ میں اُن دنوں لیبیا میں تھا ۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا تھا “اب اس کی خیریت نہیں”۔ پسِ منظر اُس وقت کے افغانستان میں حالات تھے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ سوویٹ یونین ہو یا امریکہ جب بھی انہیں کوئی اپنے ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا وہ کم ہی زندہ بچا ۔

روس افغانستان میں متواتر درپردہ کاروائیاں کرتا آ رہا تھا اور 1965ء میں زیرِ زمین ایک افغان کمیونسٹ پارٹی تشکیل دی تھی جن کے بنیادی ارکان میں ببرک کارمل بھی شامل تھا ۔ اس پارٹی نے ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ اُلٹنے میں داؤد خان کی مدد کی تھی ۔
جولائی 1973ء میں محمد داؤد کے افغانستان کا حکمران بن جانے پر ببر کامل پر واضح ہوا کہ محمد داؤد کیمیونسٹ ایجنڈے پر نہیں چلے گا تو اُس نے محمد داؤد کے خلاف کاروائی کیلئے زیرِ زمین جنگجو اکٹھے کرنا شروع کر دیئے ۔ چنانچہ 1975ء میں ببرک کارمل کے جنگجوؤں نے (جنہیں اسلامی کا نام دیا گیا تھا) محمد داؤد کی حکومت ختم کرنے کی کوشش کی مگر یہ سازش کامیاب نہ ہوئی

محمد داؤد خان کے مُلک میں واپس آنے کے کچھ عرصہ بعد 1978ء میں کمیونسٹ پارٹی جو خفیہ طور پر پرورش پا چکی تھی اور زرخرید افغان فوجیوں کی خاصی تعداد اپنے ساتھ ملا چکی تھی نے شب خون مار کر حکومت پر قبضہ کر لیا ۔ داؤد خان اور اس کے بہت سے ساتھی مارے گئے ۔ تریکی کو صدر اور کارمل کو وزیرِاعظم بنا دیا گیا ۔ بے شمار افغانوں کو گرفتار کر کے اذیتیں دی گئیں ۔ افغانستان کا جھنڈا بدل دیا گیا ۔ تریکی نے سویٹ یونین کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا ۔

خیال رہے کہ جون 2008ء میں افغانستان میں اتفاقیہ طور پر دو اجتمائی قبریں ملی ہیں جن میں سے ایک میں 16 اور دوسری میں 12 انسان دفن کئے گئے تھے ۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لاشیں محمد داؤد خان ۔ اُس کے رشتہ داروں اور ساتھیوں کی ہیں ۔

سویٹ یونین نے سمجھا کہ ان کا مدعا پورا ہو گیا لیکن وہ افغانوں کو سمجھ نہ سکے تھے ۔ اُن کی اس یلغار اور بیہیمانہ قتل و غارت نے افغان گوریلا جنگ کو جنم دیا جو جون 1978ء میں شروع ہوئی اور پہلی بار افغانوں نے اپنی جدوجہد آزادی میں شامل لوگوں کو مجاہدین کا نام دیا ۔ یہ جنگ افغانستان پر قابض ہر غیر مُلکی استبداد کے خلاف تھی ۔ دسمبر 1979ء میں سوویٹ یونین کی باقاعدہ فوج افغانستان میں داخل ہو گئی اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری شروع کی ۔ حکمران پر حکمران قتل ہوتے رہے ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مجاہدین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور حملوں میں بھی شدت آتی گئی ۔ ہوتے ہوتے پورا افغانستان میدانِ کارزار بن گیا ۔ اور سوویٹ فوجوں کو بھاری نقصان پہنچتا رہا ۔

جب افغان مجاہدین سوویٹ یونین اور اس کی کٹھ پُتلی حکومت کے خلاف خاصی کامیابی حاصل کرنے لگ گئے تو باوجود اس کے کہ مجاہدین کے شروع کے حملوں ہی میں امریکی سفیر بھی مارا گیا تھا اپنے دیرینہ حریف سوویٹ یونین کو نیچا دکھانے اور وسط ایشیا کے معدنی وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے امریکا نے پاکستان کی فوجی حکومت کے ذریعہ افغانوں کو اسلحہ فراہم کیا اور جہاد کے نام پر مختلف ممالک سے 2000 کے قریب لوگ بھرتی کر کے اُنہیں گوریلا جنگ کی تربیت دے کر افغانستان بھجوایا ۔ ان لوگوں ميں چونکہ زيادہ تر عرب تھے سو انہوں نے اُسامہ بِن لادن کو اپنا کمانڈر بنا ليا

آخر کار سوویٹ یونین کو شکست ہوئی اور فروری 1989ء تک سوویٹ فوجیں افغانستان سے نکل گئیں ۔ کہا جاتا ہے افغانستان کی اس جنگ میں 50000 سے زائد سوویٹ فوجی مارے گئے ۔