Category Archives: تاریخ

دہشتگرد حکمران

چیف آف سٹاف اسرائیل آرمڈ فورسز تو 1953ء میں ہی ایک بدنام زمانہ دہشت گرد موشے دیان بن گیا تھا مگر صیہونی دہشت گرد تنظیمیں [ارگون ۔ لیہی ۔ ہیروت ۔ لیکوڈ وغیرہ] اسرائیل میں 1977ء تک حکومت میں نہ آسکیں اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدّد ہوتا رہا ۔ 1977ء میں ارگون کے لیڈر مناخم بیگن نے وزیراعظم بنتے ہی غزہ اور باقی علاقے میں جن پر 1967ء میں قبضہ کیا گیا تھا زمینی حقائق کو بدلنے کے لئے تیزی سے یہودی بستیاں بسانی شروع کر دیں تا کہ کوئی ان سے علاقہ خالی نہ کرا سکے ۔ ان صیہونی تنظیموں کا پروگرام ایک بہت بڑی صیہونی ریاست بنانے کا ہے جس کا ذکر میں اس سے قبل کر چکا ہوں ۔ یہ نقشہ تھیوڈور ہرستل جس نے صیہونی ریاست کی تجویز 1896ء میں پیش کی تھی نے ہی تجویز کیا تھا اور یہی نقشہ 1947ء میں دوبارہ ربی فشمّن نے پیش کیا تھا ۔

اسرائیل نے 1982ء میں لبنان پر بہت بڑا حملہ کر کے اس کے بہت سے علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔ ان حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون دہشت گرد ہے ۔ فلسطینی مسلمان یا اسرائیلی صیہونی ؟

چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں ۔
موشے دیان جو 1953ء سے 1957ء عیسوی تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔
مناخم بیگن جو 1977ء سے 1983ء تک اسرائیل کا وزیراعظم رہا ۔
یتزہاک شمیر جو 1983ء سے 1984ء تک اور پھر 1986ء سے 1992ء تک وزیراعظم رہا ۔
ایرئل شیرون جو 2001ء سے 2006ء تک وزیراعظم رہا ۔ دہشتگردی پر اُس کی مذمت کرنے کی بجائے اُسے نوبل امن انعام دیا گیا ۔

مسلمان تو ایک طرف عرب عیسائیوں اور عرب یہودییوں کو جو کہ فلسطین کے باشندے ہیں ان کو اسرائیل میں وہ مقام حاصل نہیں ہےجو باہر سے آئے ہوئے صیہونی یہودیوں کو حاصل ہے ۔ اس کا ایک ثبوت یہودی صحافی شمیر ہے جو اسرائیل ہی میں رہتا ہے ۔ دیگر جس لڑکی لیلی خالد نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو اُجاگر کرنے کے لئے دنیا میں سب سے پہلا ہوائی جہاز ہائی جیک کیا تھا وہ عیسائی تھی ۔ فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرانے کے لئے لڑنے والے گوریلوں کے تین لیڈر جارج حبش ۔ وادی حدّاد اور جارج حواتمے عیسائی تھے ۔ اتفاق دیکھئے کہ حنّان اشراوی ۔ حنّا سینی اور عفیف صفیہ جنہوں نے اوسلو معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا وہ بھی عیسائی ہی ہیں ۔ موجودہ صورت حال نقشہ ۔ 6 میں دکھائی گئی ہے ۔

Map # 6. “Israeli constructed roads” should be read as “Roads under control of Israel”.

بیس میٹر اونچی دیوار کیسے ٹوٹی

مصری فوج کے ایک طبقہ پر 1967ء کی شکست نے گہرا اثر چھوڑا تھا ۔ انوارالسادات کے صدر بنتے ہی انہو ں نے اپنا صحراۓ سینائی
کا علاقہ اسرائیل سے واپس لینے کی تجاویز دینا شروع کر دیں ۔ اس وقت تک اسرائیل نے بلڈوزروں کی مدد سے نہر سویز کے کنارے کنارے 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنادی تھی ۔ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ ریت کا ڈھیرلگایا جاۓ تو ریت سِرک کر زمین کے ساتھ 40 درجے کے لگ بھگ زاویہ بناتی ہے ۔ اس طرح ریت کی 2 میٹراونچی دیوار کے لئے بنیاد یا قاعدہ ساڑھے پانچ میٹر چوڑا بنتا ہے جبکہ اوپر سے چوڑائی صفر ہو ۔ اگر 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنائی جاۓ جس کی اوپر چوڑائی صرف 5 میٹر رکھی جائے تو زمین پر اس کی چوڑائی 60 میٹر یا 197 فٹ ہو گی ۔ اتنی چوڑی دیوار کو توڑنا ناممکن سمجھ کر ہی اسرائیل نے یہ دیوار بنائی ہو گی ۔

مصری فوج نمونے کے طور پر دریاۓ نیل کے کنارے ایک ریت کی دیوار بنا کر اسے توڑنے کی مشقیں کرنے لگی ۔ ان کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ ہر قسم کے بم اور میزائل ریت کی دیوار میں شگاف ڈالنے میں ناکام رہے ۔ ہوتا یوں تھا کہ میزائل ریت کے اندر پھٹتا مگر دیوار کو خاص نقصان نہ ہوتا ۔ ریت کو اگر کسی جگہ سے بھی ہٹائیں تو اس کے اوپر اور داہنے بائیں والی ریت اس کی جگہ لے لیتی ہے

مصری فوج کا ایک میجر جو کہ مکینکل انجنیئر تھا ریت کی دیوار گرانے کے ناکام تجربے دیکھتا رہا تھا ۔ ایک دن ڈویژن کمانڈر نے اس معاملہ پر غور کے لئے تمام آفیسرز کا اجلاس طلب کیا ۔ اس میجر نے تجویز دی کہ ریت کی دیوار آتشیں اسلحہ کی بجاۓ پانی سے گرائی جا سکتی ہے مگر کمانڈر جو کہ جرنیل تھا نے اس میجر کی حوصلہ افزائی نہ کی ۔ وہ میجر دُھن کا پکّا تھا اُس نے کہیں سے ایک پانی پھینکنے والا پمپ لے کر ایک کشتی پر نصب کیا اور ریت کی ایک چھوٹی سی دیوار بنا کر دریا نیل کا پانی اس پمپ سے نوزل [nozzle] کی مدد سے ریت کی دیوار پر ایک ہی جگہ پھینکتا رہا ۔ تھوڑی دیر میں ریت کی دیوار میں شگاف بن گیا ۔ اُس نے اپنے کمانڈر کو بتایا مگر کمانڈر نے پھر بھی حوصلہ افزائی نہ کی

کچھ عرصہ بعد صدر انورالسادات اس علاقہ کے دورہ پر آیا تو اس میجر نے اس کے سامنے تجربہ کرنا چاہا مگر کمانڈر نے ٹال دیا ۔ بعد میں کسی طرح اس میجر کی انوارالسادات سے ملاقات ہو گئی اور میجر نے اس سے اپنے تجربہ کا ذکر کیا ۔ انوراسادات نے میجر سے کہا کہ خفیہ طور پر تجربہ کرتا رہے اور پھر حساب لگا کر بتاۓ کہ 20 میٹر اونچی دیوار میں شگاف ڈالنا ممکن بھی ہے یا نہیں ۔ میجر دلیر ہو گیا اور مصر میں موجود سب سے بڑا پمپ حاصل کر کے ریت کی بڑی دیوار بنا کر تجربہ کیا جو کامیاب رہا ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس سے بڑے پمپ چاہئیں تھے جو صرف خاص طور پر آرڈر دے کر یورپ کی کسی بڑی کمپنی سے بنواۓ جا سکتے تھے اور راز فاش ہونے کا خطرہ بھی تھا ۔ بہر کیف کسی طرح بہت بڑے پمپ بنوا کر درآمد کر لئے گئے ۔ پھر مضبوط کشتیاں بنائی گئیں 6 کشتیوں پر چھ چھ پمپ نصب کر کے مناسب وقت کا انتظار کیا جانے لگا

ماہ رمضان 1973ء میں یہ کاروائی کی گئی کہ ایک رات گولوں کی برمار کے دوران یہ کشتیاں نہر سویز میں اتار دی گئیں اور 20 میٹر اونچی دیوار کے تین مقامات کا رُخ کر کے تین کشتیوں کے پمپ چلا دیئے گئے ۔ چھ کشتیوں کے پمپ باری باری چلاۓ گئے اور چند گھنٹوں میں بیس میٹر اونچی دیوار میں تین جگہوں پر کافی چوڑے شگاف بن گئے ۔ پھر فوراً پُل بنا کر مصری فوج ہلکے ٹینکوں سمیت صحراۓ سینائی میں داخل ہو گئی اور ریت کی دیوار کے دوسری طرف موجود ساری اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ تو جناب یہ تھا پانی کا کمال اور مکینیکل انجنیئرنگ کے علم کمال ۔

اِن شَاء اللہ الْعَزِيز

اہلیانِ جموں کشمیر کی پُکار
ستم شعار سے تجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟
آزادی آزادی آزادی

کل 5 فروری کو ۔ اِن شَاء اللہ اہلیانِ جموں کشمیر کے ہمدرد اہلِ پاکستان “یومِ یکجہتیءِ جموں کشمیر” منائیں گے
یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ میں پہلے اس سلسلہ میں کئی بار لکھ چکا ہوں ۔
۔ جموں کشمیر آزاد کیوں نہ ہوا ؟ کلک کر کے پڑھیئے ۔ پہلی قسط ۔ دوسری قسط اور تیسری قسط

یومِ یکجہتی جموں کشمیر کیوں منایا جاتا ہے ؟
یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ میں نے 11 ستمبر 2005ء کو اپنے دوسرے بلاگ [حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے] میں لکھا تھا کہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989 میں کیوں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988 میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990 کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔

اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947 میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں مِڈل مَین کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے ۔
قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”۔ جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں۔ اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہل کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہل کشمیر صرف کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ۔ بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔

صیہونیوں کا توسیعی پروگرام پر عملدرآمد

اسرائیل نے 1955ء میں غزہ اور اردن کی شہری آبادیوں پر چھاپہ مار حملے شروع کر دیئے ۔ جس سے فلسطینی مسلمان تو مرتے رہے مگر اسرائیل کو خاص فائدہ نہ ہوا ۔ 1956ء میں برطانیہ ۔ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر بھرپور حملہ کر دیا جس میں مصر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان مشترکہ فوجوں نے سینائی ۔ غزہ اور مصر کی شمالی بندرگاہ پورٹ سعید پر قبضہ کر کے نہر سویز کا کنٹرول سنبھال لیا جو حملے کی بنیادی وجہ تھی ۔ روس کی دھمکی پر اقوام متحدہ بیچ میں آ گئی اور جنگ بندی کے بعد سارا علاقہ خالی کرنا پڑا ۔

اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے پالنہاروں کی پشت پناہی سے 5 جون 1967 کو مصر ۔ اردن اور شام پر حملہ کر دیا اور غزہ ۔صحرائے سینائی ۔ مشرقی بیت المقدّس ۔گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اُردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا [دیکھئے نقشہ ۔ 5] ۔ اس جنگ میں امریکہ کی مدد سے مصر ۔ اردن اور شام کے راڈار جیم کر دیئے گئے اور اسرائیلی ہوائی جہازوں نے مصر کے ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا ۔ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد 242 کے ذریعہ اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقہ خالی کرنے کو کہا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر ۔ شام ۔ لبنان اور اُردن کی طرف دھکیل دیا گیا ۔

جب مذاکراتی اور سیاسی ذرائع سے اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا تو مصر اور شام نے 1973ء میں رمضان کے مہینہ میں اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ مصری فوج نہر سویز کے کنارے اسرائیل کی بنائی ہوئی بیس میٹر اونچی ریت کی دیوار میں شگاف ڈال کر سینائی میں داخل ہو گئی اور دیوار کے پار موجود اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ مصر نے اسرائیلی ایئر فورس کے دو سو کے قریب ہوائی جہاز سام مزائیلوں سے مار گرائے ۔ اسرائیل کے گھر گھر میں رونا پڑ چکا تھا ۔ ان کے چھ ہزار فوجی اور دوسو پائلٹ ہلاک ہو چکے تھے اور مصری فوج صحرائے سینائی عبور کر کے اسرائیل کی سرحد کے قریب پہنچ گئی تھی ۔

اگر امریکہ پس پردہ اسرائیل کی بھر پور امداد نہ کرتا تو فلسطین کامسئلہ حل ہو چکا تھا ۔ امریکہ بظاہر جنگ میں حصہ نہیں لے رہا تھا مگر اس کا طیارہ بردار بحری جہاز سینائی کے شمالی سمندر میں ہر طرح سے لیس موجود تھا اس کے راڈاروں اور ہوائی جہازوں نے اسرائیل کے دفاع کے علاوہ مصر میں پورٹ سعید کے پاس ہزاروں اسرائیلی کمانڈو اتارنے میں بھی رہنمائی اور مدد کی ۔ اسرائیلی کمانڈوز نے پورٹ سعید کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن جاری رہا ۔ وہاں مصری فوج موجود نہ تھی کیونکہ اسے جغرافیائی لحاظ سے کوئی خطرہ نہ تھا ۔ اپنے دور حکومت میں جمال عبدالناصر نے ہر جوان کے لئے 3 سال کی فوجی تربیت لازمی کی تھی جو اس وقت کام آئی ۔ پورٹ سعید کے شہریوں نے اسرائیلی کمانڈوز کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا ۔ سعودی عرب کے بادشاہ فیصل نے تیل کا ہتھار موثّر طور پر استعمال کیا ۔ پھر امریکہ ۔ روس اور اقوام متحدہ نے زور ڈال کر جنگ بندی کرا دی ۔

برطانیہ کی بندر بانٹ اور صیہونیوں کی دہشت گردی

فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے کے بعد 1947ء میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔ اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے ۔ یو این او نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کےساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اِسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔ 29 نومبر 1947ء کو یو این جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی ۔ 10ممبر غیر حاضر رہے ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور صیہونیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اسرائیل تین ٹکروں میں تھا جیسا کہ نقشہ ۔ 3 میں دکھایا گیا ہے ۔

صیہونیوں نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا جس میں 91 آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ ان میں برطانوی فوجی ۔ فلسطینی مسلمان ۔ عیسائی اور چند یہودی شامل تھے ۔ یہ دنیا میں پہلی باقاعدہ دہشت گردی تھی ۔ برطانوی حکومت پہلے ہی مزید یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے امریکی دباؤ سے پریشان تھی برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے برطانیہ کے اندر حکومت پر فلسطین سے فوجیں نکالنے کا دباؤ پڑنے لگا ۔ چنانچہ برطانیہ نے اعلان کر دیا کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت 15 مئی 1948ء کو ختم کر دے گا ۔
صیہونیوں نے جن کے لیڈر معروف دہشت گرد تھے فلسطینیوں پر حملے اور ان کا قتل تو پہلے ہی شروع کر دیا تھا لیکن 1948ء میں اچانک فلسطین کے مسلمانوں پر بڑے پیمانہ پر عسکری کمانڈو حملے کر کے یہودیوں نے بیت المقدّس کے مغربی حصہ اور کچھ دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یہ سلسلہ جاری رہا ۔ امریکہ صیہونیوں کی پشت پناہ پر تھا اور ان کو مالی اور فوجی امداد مہیا کر رہا تھا ۔ اس طرح روس یورپ اور بالخصوص امریکہ کی مدد سے یہودیوں نے بغیر کسی کی پرواہ کئے اپنی 2000سال پرانی آرزو ” یہودی ریاست اِسرائیل” کا 14 مئی 1948ء کو 4 بجے بعد دوپہر اعلان کر دیا اور مسلم عربوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کر کے اِسرائیلی ریاست بنا لی جو نقشہ ۔ 4 میں دکھائی گئی ہے ۔ یہ دراصل صیہونی ریاست تھی کیونکہ کئی یہودی مذہبی پیشواؤں نے اس کی مخالفت کی ۔ اگلے دن برطانیہ کے بقیہ فوجی بھی اپنی چھاؤنیاں صیہونیوں کے حوالے کر کے چلے گئے ۔ اس کے بعد مار دھاڑ روز کا معمول بن گیا ۔ صیہونی مسلحہ دستے مسلمان عربوں کی املاک پر قبضہ کرتے چلے گئے کیونکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے تربیت یافتہ کمانڈو تھے اور انہيں امریکہ اور برطانیہ کی امداد بھی حاصل تھی ۔ یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں کے نام بدلتے رہے کیونکہ وہ یورپ میں بھی دہشت گردی کرتی رہیں اور دہشت گرد قرار دی جاتی رہیں ۔ مشہور نام یہ ہیں ۔ ہاگانہ ۔ اوردے ونگیٹ ۔ ارگون ۔ لیہی ۔ لیکوڈ ۔ ہیروت ۔ مالیدت ۔

چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں ۔
موشے دیان جو 1953ء سے 1957ء عیسوی تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا
مناخم بیگن جو 1977ء سے 1983ء تک اسرائیل کا وزیراعظم رہا ۔
یتزہاک شمیر جو 1983ء سے 1984ء تک اور پھر 1986ء سے 1992ء تک وزیراعظم رہا ۔
ایرئل شیرون جو 2001ء سے 2006ء تک وزیراعظم رہا ۔

موشے دیان کو دہشت گرد ہونے کے باوجود برطانوی فوج میں کسی خاص کام کے لئے کچھ عرصہ کے لئے بھرتی کیا گیا تھا ۔ وہ برطانوی فوج کی ملازمت چھوڑ کر پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور اس کا کمانڈر بن گیا ۔ عربوں کی املاک پر قبضہ کرنے کے لئے جو حملے کئے جاتے رہے ان کا کمانڈر موشے دیان ہی تھا ۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے نہ صرف وہ علاقے زبردستی قبضہ میں لئے جو یو این او یہودیوں کو دینا چاہتی تھی بلکہ ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا جو یو این او کے مطابق فلسطینیوں کے تھے ۔ قبضہ کے دوران جو فلسطینی مسلمان نظر آتا اسے قتل کر دیا جاتا ۔ مناخم بیگن اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جس نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑایا تھا ۔ صابرہ اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کرنے کا حُکم دینے والا ایریئل شیرون ہی تھا جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا

کیا قائداعظم دھوکہ باز تھے ؟

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہماری قوم کو انحطاط کے اس درجہ پر پہنچانے میں ہمارے مُلک کے ذرائع ابلاغ کا بڑا ہاتھ ہے ۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اپنے آپ کو مفکّر اور تاریخ دان سمجھنے والے کچھ پاکستانی جو مُلکی ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے ہیں اپنی کج فہمی کی گندگی صاف شفاف کرداروں پر اُگلتے رہتے ہیں ۔ ان قوم دُشمنوں سے نبٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر پاکستانی مستند تاریخ کا خود مطالعہ کرے ۔ اس سلسلہ میں قائدِ اعظم اور علامہ اقبال پر اُچھالی گئی گندگی کی حقائق پر مبنی وضاحت معروف محقق اور تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے اس مضمون میں ملتی ہے ۔

میرے بزرگ اور فاضل دوست جناب حقانی صاحب نے اپنے جمعرات کے حرف تمنا میں بعض ایسے سوال اٹھا دیئے ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے ورنہ میں نے تو بحث سمیٹ دی تھی کیونکہ اول تو فلسطین میں بہتے ہوئے مسلمانوں کے خون اور دوم ہندوستانی رویئے نے مجھ
پر اداسی طاری کرر کھی ہے۔ ان کے جمعرات والے دو حصوں پرمشتمل کالم کے بعض فقرے پڑھ کر مجھے احساس ہونے لگاہے کہ اب یہ بحث ایک اندھی گلی میں داخل ہوگئی ہے اس لئے اسے آگے بڑھانا لاحاصل ہے۔

برادر بزرگ حقانی صاحب فرماتے ہیں ”میرا موقف یہ ہے کہ قائداعظم اور اقبال اس سے بہت پہلے مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہوچکے تھے“۔ یہاں ذکر ہو رہا تھا 1946ء کے کابینہ مشن پلان کا اس لئے حقانی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات کابینہ پلان سے بہت پہلے مطالبہ ٴ پاکستان سے دستبردار ہوچکے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ان کا یہ فقرہ پڑھ کر چکرا گیا کیونکہ علامہ اقبال 1938ء میں وفات پا گئے تھے اور اس سے قبل انہوں نے قائداعظم کے نام خطوط میں نہ صرف مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے جواز اور مطالبے پر زور دیا تھا بلکہ اس مطالبے کے لئے لاہوراور مارچ کا ماہ بھی تجویز کر دیا تھا جہاں ان کے انتقال کے بعد مارچ 1940ء میں قرارداد پاس کی گئی۔ اس دور میں پاکستان سے مراد وہ پاکستان تھا جس کا تصور چودھری رحمت علی نے پیش کیا تھا اور علامہ اقبال بوجوہ اس سے مطمئن نہیں تھے۔ اس کی تفصیل ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ”زندہ رود“ میں موجود ہے۔ البتہ جب کیمبرج کے طلبہ نے علامہ اقبال کی توجہ لفظ پاکستان کی جانب مبذول کروائی تو انہوں نے ان سے کہا کہ وہ اسے لکھ کر ان کے کمرے میں چھوڑ جائیں، وہ اس پر غور کریں گے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب علامہ گول میز کانفرنس کے لئے لندن میں موجود تھے۔ علامہ اقبال کے خطوط بنام جناح گواہ ہیں کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے لئے آزاد وطن کے داعی تھے او رانہوں نے قائداعظم پر اس مطالبے کے لئے دلائل اور منطق کے ذریعے زور دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات خطبہ الٰہ آباد کے کئی برس بعد کی ہے۔ اس ضمن میں میرے پاس خاصا مواد ہے لیکن کالم اس کی تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ مختصر یہ کہ علامہ اقبال موت تک مسلمانوں کے لئے علیحدہ اور آزاد وطن کے حق میں تھے اور وہ کبھی اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئے۔

اب رہا معاملہ قائداعظم کا۔ میرے مہربان دوست حقانی صاحب کی تحقیق ہے کہ قائداعظم کابینہ مشن پلان سے بہت پہلے مطالبہ ٴ پاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ قائداعظم نے کبھی مطالبہ پاکستان کیا ہی نہیں؟ کیونکہ مسلم لیگ نے سرکاری طور پر علیحدہ وطن کا مطالبہ قرار داد لاہور کے ذریعے مارچ 1940ء میں کیا۔ 1940ء سے لے کر قیام پاکستان تک قائداعظم اور مسلم لیگ بار بار کہتے رہے کہ پاکستان کا حصول ہماری حتمی منزل ہے۔ کابینہ مشن پلان کی آمد سے قبل 46-1945ء میں انتخابات ہوئے۔ یہ انتخابات پاکستان کے نام پر اور نعرے پر لڑے گئے اور مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی میں تمام مسلمان نشستیں جیت کر ثابت کر دیا کہ مسلمانانِ ہند پاکستان چاہتے ہیں اور مسلم لیگ ان کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ کابینہ مشن مارچ 1946ء میں ہندوستان آیا۔ اس کے بعد اپریل 1946ء میں اسمبلیوں کے لئے منتخب ہونے والے مسلم لیگی اراکین کا کنونشن دہلی میں ہوا جس میں اراکین اسمبلی نے حصول پاکستان کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا حلف اٹھایا۔

اگر قائداعظم کابینہ مشن سے پہلے پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہوچکے تھے تو
کیا 46-1945ء کے پاکستان کے منشورپر انتخابات اور مسلم لیگی اراکین اسمبلیوں کا حلف سب ڈرامہ تھا؟
کیا قائداعظم قوم کو دھوکہ دے رہے تھے کہ وہ خود تواس مطالبے سے دستبردار ہوچکے تھے لیکن قوم کو اس جنگ میں جھونک رہے تھے؟

یہ وہ الزام ہے جو قائداعظم کے بدترین دشمن بھی ان پر نہیں لگاتے۔ گزشتہ ساٹھ برسوں میں ہندو اسکالرز اور کانگریسی ذہن کے مؤرخ یہ ضرور پراپیگنڈہ کرتے رہے ہیں کہ دراصل پاکستان کانگریسیی ہٹ دھرمی سے بنا یا انگریزوں کی دین تھا اور اس پراپیگنڈے کا مقصد نہ صرف پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے بلکہ مسلمانوں کی قربانیوں اور قائداعظم کے قائدانہ کردار کی نفی کرنا بھی ہے۔ یہ ایک عجیب منطق بلکہ متضاد دلیل ہے کہ قائداعظم تقسیم ہند اور پاکستان کے حق میں نہیں تھے اور پاکستان کانگریس نے بنایا لیکن اس سے قائد اعظم کی عظمتِ کردار کو گرہن نہیں لگتا ۔ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ پاکستان مسلمانان ہند کی قربانیوں کا صلہ تھا اور قائداعظم پاکستان کے بانی ہیں اور یہی ان کی عظیم قیادت کو خراج تحسین ہے۔ قائداعظم سے بانی ٴ پاکستان ہونے کا اعزاز چھین کر یہ اصرار کیا جائے کہ اس سے ان کی کردار کشی نہیں ہوتی تو پھرا ور کردار کشی کیا ہوتی ہے؟

برادر بزرگ حقانی صاحب کے کالم میں سیروائی اور خالد بن سعید کی کتابوں کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ سیروائی کی کتاب کا اردوترجمہ میں نے اٹھارہ برس قبل کیا تھا جسے جنگ پبلشرز نے چھاپا۔ خالد بن سعید کی کتاب تقریباً نصف صدی پہلے شائع ہوئی تھی اور میں اسے کئی بار دیکھ چکا ہوں۔ اس کے بعد اس موضوع پر خاصی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ خالد بن سعید کا تھیسِس [thesis] یا نچوڑ یہی ہے کہ قائداعظم کبھی بھی مطالبہ پاکستان سے دستبردار نہیں ہوئے اور انہوں نے کابینہ مشن پلان بھی اسی لئے قبول کیا کہ اس کے ذریعے انہیں پاکستان مل رہا تھا۔ کتاب کے آخری حصے میں نتائج اخذ کرتے ہوئے خالد بن سعید نے قائداعظم کے سیاسی کردار کی تعریف کرتے ہوئے کانگریسی پراپیگنڈہ کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے۔

”جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہندوؤں کے رویئے کے سبب معرض وجود میں آیا وہ مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔ ہندو مسلمانوں کے خلاف [Hostile] تھے تو مسلمان ہندوؤں کے خلاف تھے۔ دوئم یہ کہ یہ حضرات مطالبہ پاکستان کو اپنے تاریخی تناظر میں نہیں دیکھتے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر طویل عرصہ حکومت کی تھی اور انہیں ایسا جمہوری نظام قبول نہیں تھا جو انہیں اقتدار سے محروم کر دے۔ پاکستان کے مطالبے سے بہت قبل جناح نے انہی خطوط پر سوچنا شروع کر دیا تھا”

اختصار کا دامن پکڑتے ہوئے ایک ابہام کا ازالہ ضروری ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ اس جدوجہد میں ہندوستان کے مسلمان بھی ایک پارٹی تھے۔ بلاشبہ انہوں نے حصول پاکستان کے لئے تاریخی قربانیاں دیں۔ براہ کرم یہ بات ذہن میں ر کھیں کہ 46-1945ء میں مسلم لیگ کی کونسل 475 اراکین پر مشتمل تھی جس میں ہندوستان کے تمام صوبوں کے منتخب اراکین شامل تھے۔ اس کونسل اور ورکنگ کمیٹی نے جب جون 1946ء میں کابینہ مشن پلان قبول کرنے کی قرارداد پاس کی تو واضح طور پر یہ کہا کہ ہم اسے پاکستان کے حصول کی جانب اہم قدم کے طور پر قبول کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 5,6 جون کو قائداعظم نے اسی کونسل کے سامنے یہ کہا کہ مجھے کابینہ مشن پلان میں پاکستان نظر آرہا ہے۔ میں قرارداد اور قائداعظم کی تقریر کے فقرے گزشتہ کالموں میں کوٹ کر چکا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ کونسل کے اراکین جو ہندوستان کے مسلمانوں کے بہترین نمائندے تھے اور جن میں منتخب اراکین اسمبلیاں بھی شامل تھے قوم کودھوکہ دے رہے تھے اور قائداعظم یہ کہہ کر کہ مجھے کابینہ مشن پلان میں پاکستان کی بنیادیں نظر آتی ہیں ، مسلمانوں سے جھوٹ بول رہے تھے کیونکہ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ قائداعظم مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہو چکے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قوم سے ڈرامہ کررہے تھے؟ خدانخواستہ…!!

تاریخی پس منظر کے مطابق کابینہ مشن پلان کے ضمن میں مسلم لیگ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم نے 22مئی 1946ء کو کہا ”بنگال، آسام، پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان، پاکستان زونز ہیں اور ان پر مشتمل ایک آزاد [Sovereign] ریاست بنائی جائے
اورپاکستان کے قیام کی ضمانت دی جائے۔ ایک آزاد خودمختار ملک پاکستان کا قیام ہی ہندوستان کے آئینی مسئلے کا حل ہے“۔ 5 جون کو مسلم لیگ کونسل کے سامنے تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ ”مسلمان پاکستان حاصل کئے بغیر چین نہیں لیں گے۔ دراصل پاکستان کی بنیاد کابینہ پلان میں موجود ہے“ [تالیاں] مزید کہا ”دنیا کی کوئی طاقت ہمیں پاکستان سے محروم نہیں کر سکتی“۔

حرف تمنا میں قائداعظم کے 29 جولائی کے بیان کو معنی خیز قرار دیا گیا جس میں قائداعظم نے کہاکہ ہم نے پاکستان کی مکمل خود مختار ریاست کو ہندوستان کی جلد آزادی پر قربان کر دیا۔ اس ابہام کو رفع کرنے کے لئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مسلم لیگ نے کابینہ مشن پلان کے تحت مرکزی حکومت کو دفاع، خارجہ اور مواصلات دے کر گروپنگ کے اصول کو قبول کر لیا تھا کیونکہ ان گروپس میں مسلمان اکثریتی صوبے شامل تھے جن کی اپنی دستور ساز اسمبلی ہونی تھی اور جو دستور سازی کے بعد گروپ سے باہر نکلنے کا اختیار رکھتے تھے۔ قائداعظم کی حکمت عملی یہ تھی جس کی وضاحت ان کی تقاریر میں بار بار ملتی ہے کہ ایسا مرکز جس کے پاس ٹیکس لگانے، فنانس اور آمدنی کے اختیارات نہ ہوں وہ بے بس ہوتا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ پلان ناقابل عمل ہے اور انہوں نے اس پلان کو اس لئے قبول کرلیا تھا کہ اس طرح وہ اپنے مقصد میں آئینی اور پُرامن انداز میں کامیاب ہوجائیں گے۔ وہ کس طرح کامیاب ہوں گے اس کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا کہ پہلے قدم کے طورپر گروپس معرض وجود میں آئیں گے اور دوسرے مرحلے میں ان گروپوں سے مسلم اکثریتی صوبے باہر نکل کر [optout] پاکستان حاصل کریں گے۔ اس میں کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن پاکستان بنگال او ر پنجاب کی تقسیم سے بچ جائے گا۔

ابہام یہ ہے کہ ہمارے محترم دانشور صرف پہلے مرحلے تک محدود رہتے ہیں اور اسی حوالے سے قائد کی تقریر کے چند فقرے کوٹ کرتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں کہ قائد کے مطابق دوسرا مرحلہ مسلمان اکثریتی صوبوں کا اس اسکیم سے باہر نکل کر پاکستان قائم کرنا بھی تھا جن پر قائداعظم نے روشنی ڈالی تو مسلم لیگ کونسل کے 475 مسلمان زعماء نے اس کی تائید کی اور جب نہرو کو احساس ہوا کہ وہ گروپنگ اسکیم کے تحت پاکستان کو پورا بنگال اور پنجاب دے رہا ہے تواس نے کابینہ مشن پلان کو مسترد کردیا۔

موضوع تفصیلی بحث کا متقاضی ہے لیکن میں نے نہایت مختصر انداز میں وضاحت کر دی ہے۔ کئی باتوں کا جواب نہیں دے سکا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ کس نقطہ نظر کو قبول کرتے ہیں۔

برطانیہ کی بلا ۔ عربوں کے سر

برطانیہ کی عیّاری
لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا اِس خیال سے کہ کہیں روس میں اُن کے قتلِ عام کی وجہ سے یہودی برطانیہ کا رُخ نہ کر لیں ۔ برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور پھر کمال عیّاری سے متذکّرہ بالا ڈیکلیریشن منظور کرائی ۔ مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میکماہون نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کر دیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے عیّاری برتتے ہوۓ ایک خفیہ معاہدہ سائیکس پِیکاٹ کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ اِنتظام کے تحت تقسیم کر لیا [دیکھئے نقشہ ۔ 2] ۔ چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوۓ انگریزوں نے جنگِ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ لیگ آف نیشنز نے [جیسے آجکل یو این او کرتی ہے] 25 اپریل 1920ء کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔ برطانیہ نے مزید عیّاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی

یہودیوں کی بھاری تعداد میں نقل مکانی
یورپ سے مزید یہودی آنے کے باعث 1918ء میں فلسطین ميں ان کی تعداد 67000 کے قریب تھی ۔ برطانوی مردم شماری کے مطابق [جو کہ عربوں کے حق میں نہیں ہو سکتی تھی] 1922ء میں یہودیوں کی تعداد 11 فیصد تک پہنچ گئی تھی ۔ یعنی 667500 مسلمان تھے اور 82500 یہودی تھے ۔ 1930ء تک برطانوی سرپرستی میں مزید 300000 سے زائد یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچائے گئے جس سے عربوں میں بے چینی پیدا ہوئی ۔ اگست 1929ء میں یہودیوں اور فلسطینی مسلمانوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں 125کے قریب فلسطینی اور تقریباً اتنے ہی یہودی مارے گئے ان جھڑپوں کی اِبتداء صیہونیوں نے کی تھی لیکن برطانوی پولیس نے صیہونیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی ۔ برطانیہ کے رائل کمشن جس کا سربراہ لارڈ پیل تھا نے 1937ء میں تجویز دی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے تیسرا حصہ یہودیوں کو دے دیا جاۓ جبکہ کہ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی اِ ملاک نہ ہونے کے برابر تھی ۔ فلسطینی اس کے خلاف دو سال تک احتجاج کرتے رہے ۔ وہ چاہتے تھے کہ تقسیم نہ کی جائے اور صرف اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس پر برطانیہ سے مزید فوج منگوا کر فلسطینیوں کے احتجاج کو سختی سے کُچل دیا گیا ۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور فلسطین کا معاملہ پسِ منظر چلا گیا مگر صیہونیوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ یورپ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی جاری رکھی