Category Archives: تاریخ

حال ۔ ماضی کے آئینے میں

حال

صدرآصف زرداری نے چکوال میں اپنی تیسری تقریر میں کھُل کر اس “سازش” کی نشاندہی کی جس کے بارے میں وہ نوڈیرو اور فیصل آباد کی تقریروں میں بات کررہے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ “ہمیں قلم اورسنگینوں سے نہیں ماراجاسکتا ”
اور واضح کیا کہ” ذوالفقار علی بھٹو کو قلم کے ذریعے لکھے جانے والے عدالتی فیصلے کے ساتھ قتل کیا گیا تھا ۔ اب ایسا نہیں ہوگا”
مزید آصف زرداری نے اپنی تقاریر میں کہا کہ وہ اپنے خُسر اور پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے مِشن کو آگے بڑھانے کی خاطر جان بھی دینے کو تیار ہیں
صدر آصف زرداری ہر تقریر میں کہتے ہیں کہ جمہوریت کی علمبرداری اور اس کی حفاظت کو زندگی کا مشن بنالیا ہے اور اس مشن کے ساتھ ذوالفقارعلی بھٹو کے مشن کا حوالہ بھی دیتے ہیں

ماضی

بینظیر بھٹو نوازشریف کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرچکی تھیں جس کے 36 نکات کا خلاصہ جمہوریت اور ملک میں دیانت دار اور صالح حکمرانی کو فروغ دینا تھا ۔ اس کے بعد سابق صدر جنرل پرویزمشرف اور بینظیربھٹو کے درمیان معاہدہ طے پایا ۔ اس معاہدے کا صرف یہ مقصد تھا کہ جنرل مشرف کو بدستور صدر برقرار رکھاجائے بینظیربھٹو وزیراعظم بن جائیں اور اُن کے شوہر آصف زرداری کے خلاف تمام مقدمات ختم کردیئے جائیں مگر ان کے راستے میں آئین کی دفعات 63,62 حائل تھیں جن کے تحت کوئی بددیانت اور غیر صالح کردار والا شخص نہ اسمبلی میں جاسکتا ہے نہ ہی وزیر ، وزیراعظم یا صدر بن سکتاہے ۔ اس رکاوٹ کو دُورکرنے کے لئے معاہدہ این آراو کی شکل میں سامنے آیا

بینظیر بھٹو نے اپنے وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اس کے نظام حکومت میں شریک کار ہونے کے لئے جو این آر او معاہدہ کیا اس نے میاں نوازشریف کے ساتھ کئے جانے والے میثاق جمہوریت کو اندھیروں میں دھکیل دیا

آصف زرداری کے والد حاکم علی زرداری صاحب نیشنل عوامی پارٹی [اب اے این پی] کے نائب صدر تھے ۔ نیشنل عوامی پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس نیشنل عوامی پارٹی اوراس کے عہدیداروں کو غداری کا مرتکب قراردے کر اے این پی پر پابندی لگادی تھی اور ولی خان سمیت اس پارٹی کے عہدیداروں پر سندھ کے شہر حیدرآباد میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا تھا ۔ غداری کے اس جُرم میں ان لوگوں کو موت کی سزادی جا سکتی تھی ۔ یہ مقدمہ 5 جولائی 1977ء کو ابھی زیر سماعت تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا ور حیدرآباد کیس ختم کرکے ولی خان اور دوسرے عہدیداروں کو رہا کردیا

ولی خان اور آصف زرداری کے والد حاکم علی زرداری صاحب سمیت دوسرے ساتھیوں نے ضیاء الحق کے متذکرہ بالا اقدام کی بھرپور حمائت کی اورپھر مارشل لاء کا مکمل ساتھ بھی دیا

اکتوبر 1958ء میں جب جنرل ایوب خان نے منتخب وزیراعظم فیروز خان نون کی حکومت برطرف کرکے آئین منسوخ کردیا اور تمام اسمبلیاں توڑ کر مارشل لاء نافذ کردیا تو ایک اپنی منشا کی کابینہ بنائی جس کے وزراء میں فوجی جرنیلوں کے بعد سب سے نمایاں نام ذوالفقار علی بھٹو کا تھا جو پہلے مرکزی وزیر برائے قدرتی وسائل بنے پھر وزیر خارجہ اور ایوب خان کی سرکاری کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے

ایوب خان کی حکومت کا تختہ جنرل یحییٰ خان نے اُلٹا اور ایوب خان کا آئین اور اسمبلیاں ختم کرکے نیا مارشل لاء نافذ کردیا اورخودچیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا تو ذوالفقار علی بھٹو اس کی کابینہ میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بنے رہے

جب یحیٰ خان کی حکومت ختم ہوئی تو ذوالفقارعلی بھٹو خود چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے اور مارشل لاء کے تحت ایک پی سی او بھی نافذ کیا اوراس کے ذریعے ڈیڑھ برس تک اپنے مارشل لاء کا قانون چلایا

بعد میں 1973ء کا آئین نافذ کیا مگر 1971ء سے 5 جولائی1977ء کو اُن کی حکومت ختم ہونے تک 6 سالوں میں پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیئے جو کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں

بشکریہ ۔ روزنامہ اوصاف

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ لَڑَو گے ؟ مَرَو گے ؟

سیاستدان عجیب چیز ہوتے ہیں مگر ہمارے مُلک کے سیاستدانوں کا تو جواب ہی نہیں اور اُن سے بڑھ کر اُن کے پیروکار لاجواب ہیں ۔ ہمارے مُلک کا سب سے بڑا سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو کہا جاتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ایک جلسہ عام سے خطاب کیا ۔ اپنے فنِ تقریر کو بروئے کار لاتے ہوئے حاضرینِ جلسہ کے جذبات کو خُوب اُبھارا ۔ آخر میں تقریر اس مکالمہ پر ختم ہوئی

بھٹو صاحب ۔ “لڑو گے ؟”
حاضرین پورے جوش کے ساتھ ۔ “ہاں”

بھٹو صاحب ۔ “مرو گے ؟”
حاضرین پورے جوش کے ساتھ ۔ “ہاں”

بھٹو صاحب “جاؤ مرو ” کہتے ہوئے چلے گئے اور حاضرین جئے بھٹو کے نعرے لگانے لگے

احمق یا اصل روپ میں

پیپلز پارٹی کے رہنما لاف باز ہیں یا دہشتگرد ؟

صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا [سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے خاوند] نے رتوڈیرو میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا “جس وقت بی بی کو شہید کیا گیا اس وقت ہم نے پاکستان توڑنے کا ارادہ کرلیا تھا اور شہید بے نظیر بھٹو کے آبائی گھر ”نوڈیرو ہاوٴس “ سے پاکستان کے خلاف نکل ہی رہے تھے کہ ہمارے قائد آصف علی زرداری نے ‘پاکستان کھپے’ کا نعرہ لگاکر ہمارے تمام راستے بند کر دیئے”

وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے مزید کہا “اِس سے قبل جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار کیا جا رہا تھا تو اس وقت بھی ہم نے پاکستان کا ایک ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے کا پروگرام بنالیا تھا لیکن سندھ کے ممتاز علی بھٹو نے ہمیں منع کر دیا تھا”

قائداعظم کے خلاف پروپیگنڈہ اور حقیقت

قائداعظم سے ملاقات میں جنرل اکبر نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن باکس لانے کو کہا۔ قائداعظم نے جیب سے چابی نکالی اور باکس کو کھول کر مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی ۔ انہوں نے اسے اس مقام سے کھولا جہاں نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا “جرنل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں”
میں [جنرل اکبر] نے عرض کیا کہ “آپ ایک حُکم جاری کریں اور افسروں کو متنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے”۔
قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ “کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حُکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا؟”
” سٹینو کو بلایا گیا ۔ قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا اس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں [جنرل اکبر] نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا جس پر میری ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہے“

دانشوروں کا ایک منظم گروہ گزشتہ چند برسوں سے دن رات یہ ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے کہ قائداعظم سیکولر ذہن کے مالک تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے تھے۔ یہ حضرات قائداعظم کی 11 اگست1947ء والی تقریر کو اپنا سیکولر ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ انہیں قائداعظم کی دیگر ہزاروں تقاریر میں کوئی ایسا مواد نہیں ملتا جسے وہ اپنی پراپیگنڈہ مہم کا ہر اول دستہ بنا سکیں۔ قائداعظم نے تقسیم ہند سے قبل تقریباً 101بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اٹھائی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد چودہ بار یہ واضح کیا کہ پاکستان کے نظام، آئین اور ملکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔ انہوں نے لاتعداد بار کہا کہ قرآن ہمارا راہنما ہے اور ہمیں قرآن ہی سے راہنمائی کی روشنی حاصل کرنی چاہئے۔ ان سینکڑوں اعلانات اور وعدوں کے باوجود سیکولر حضرات اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ذہن کے دریچے کسی اختلافی بات پر کھولنے کے لئے تیار نہیں

اللہ جانتا ہے کہ میرا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں، میری سوچ کا محور و مرکز صرف پاکستان ہے اور میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے نظام کا فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے جنہوں نے پاکستان کے قیام کا فیصلہ کیا تھا اس لئے اگر مجھے قائداعظم کی تقریروں سے کہیں بھی سیکولرازم (لادینیت) کی بو آتی تو میں اسے نہ ہی صرف تسلیم کرتا بلکہ کھُلے ذہن سے اس کا اظہار کرتا کیونکہ میرے نزدیک قائداعظم سے عقیدت اور فکری دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ بابائے قوم کے فرمودات کو کھُلے ذہن اور تعصب سے پاک دل کے ساتھ پڑھا جائے

11اگست کو دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد قائداعظم کی تقریر فی البدیہہ تھی اور اس میں انہوں نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کو برابری کے درجے کا وعدہ کیا اور مذہبی آزادی کا پیغام دیا وہ دراصل میثاق مدینہ کی روح کے مطابق ہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے مذہبی اقلیتوں سے کیا تھا اور انہیں برابر کے شہری حقوق دیئے تھے۔ جو حضرات پاکستان کی پہلی کابینہ میں چودھری ظفر اللہ خان اور جوگندر ناتھ منڈل (ہندو) کو وزارتیں دینے پر اعتراض کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ میثاق مدینہ کا مطالعہ کریں جس کا ترجمہ رفیق ڈوگر کی کتاب ”الامین“ جلد دوم میں موجود ہے

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ قائداعظم ہرگز کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی وہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے اور نہ ہی تھیو کریسی کا تصور اسلام میں موجود ہے ۔ ان کا تصور پاکستان ایک ماڈرن جمہوری ریاست کا تھا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہو یعنی جس میں نہ ہی صرف غیر اسلامی قوانین اور رسومات کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس کے آئین،قانون اور ڈھانچے کی بنیاد بھی اسلامی اصولوں کی روح کی عکاسی کرے۔ کامن سینس کی بات ہے کہ جس ملک کی بہت بڑی اکثریت مسلمان ہو وہاں غیر اسلامی قوانین بن ہی نہیں سکتے۔ اسلام کی عین روح کے مطابق قائداعظم مذہبی فرقہ واریت اور مذہبی تشدد کے خلاف تھے اور وہ تحمل، برداشت [Tolerance] اور سماجی یگانگت پر زور دیتے تھے چنانچہ موجودہ مذہبی منافرت، فرقہ واریت اور مذہبی تشدد [Militancy] اس تصور پاکستان کی نفی کرتا ہے جو قائداعظم نے پیش کیا تھا اور جس کی حمایت مسلمانان ہندو پاکستان نے کی تھی۔ یہ سب کچھ ہماری اپنی حکومتوں کی بے بصیرت پالیسیوں اور حکمرانوں کی فکری گمراہی کا نتیجہ ہے جس کے ڈانڈے تحریک پاکستان سے ملانا بہت بڑی بے انصافی ہے۔ جمہوری نظام کے علاوہ قائداعظم پاکستان میں اسلام کی روح کے مطابق قانون کی حکمرانی، انصاف، انسانی مساوات اور سماجی و معاشی عدل چاہتے تھے اور اگر وہ زندہ رہتے تو ایسا ہی ہوتا لیکن اگر موجودہ پاکستان میں ان اصولوں کے نفاذ کی امید بھی نظر نہیں آتی تو کیا یہ تصورِ پاکستان کا قصور ہے؟ تصورِ پاکستان تو ایک آئیڈیل ہے جسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ابھی مزید جدوجہد کی ضرورت ہے اسی لئے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ منزل کا شعور زندہ رہنا چاہئے، یہ آرزو باقی رہے تو کبھی نہ کبھی منزل بھی مل جاتی ہے۔ قائداعظم قانون کی حکمرانی، معاشی عدل اور انسانی مساوات کے ساتھ ساتھ جاگیرداری نظام کا بھی خاتمہ چاہتے تھے ۔ وہ ہر قسم کی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے جبکہ آج کا پاکستان جاگیرداروں، رؤسا اور جرنیلوں کی جاگیر بن چکا ہے جن کی کرپشن کی کہانیاں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے آج کے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، معاشی عدل ا ور انسانی مساوات کے تصور کو پامال کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود عوام کی سردمہری کا یہ حال ہے کہ وہ بار بار انہی سیاستدانوں کو ووٹ دے کر اقتدار کے شیش محل میں بٹھا دیتے ہیں جنہوں نے قومی خزانے لوٹے اور عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے اور عوام کی جمہوریت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر بار فوجی حکومت کو خوشی سے قبول کرلیتے ہیں اور جرنیلوں کو نجات دہندہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس صورتحال نے ہر طرف مایوسی کے اندھیرے پھیلا دیئے ہیں اور نوجوان نسلوں کو قیام پاکستان کے حوالے سے غیر یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس فضا میں قائداعظم کے تصورِ پاکستان کی شمع جلائے رکھنا ضروری ہے تاکہ نوجوان نسلوں کے سامنے ایک آئیڈیل موجود رہے اور وہ قائداعظم مخالف لابی کے پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں

سیکولر حضرات مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا پرچار کرتے ہیں اور یہ بھو ل جاتے ہیں کہ ریاست اور چرچ کی علیحدگی کاتصور بنیادی طور پر عیسائیت کا تصور ہے کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں بقول اقبال

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ان کا یہ الزام کہ موجودہ فرقہ واریت اور دہشت گردی سیاست کو مذہب سے ملانے کا نتیجہ ہے سراسر بے بنیاد اور سطحیت کا شاہکار ہے کیونکہ اسلام بذات خود فرقہ واریت، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا۔ دراصل یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں کی بے بصیرت پالیسیوں اور عالمی قوتوں کی چالوں کا کیا دھرا ہے جس میں پاکستانی عوام پھنس کر رہ گئے ہیں۔
ایک ریسرچ سکالر کے بقول قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل تقریباً 101بار یہ اعلان کیا کہ نئی مملکت کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار کی جائیں گی

یوں تو ان [قائداعظم] کی سینکڑوں تقریریں اس حقیقت کی غمازی کرتی ہیں لیکن آپ کو اس کی ایک چھوٹی سی جھلک دکھانے کے لئے میں قائداعظم کے خط بنام پیر مانکی شریف آف صوبہ سرحد سے چند سطریں پیش کر رہا ہوں کیونکہ اس خط کا ذکر قائداعظم کی تقاریر اور اکثر کتابوں میں نہیں ملتا اور نہ ہی لوگ عام طور پراس سے آگاہ ہیں۔ یاد ر ہے کہ صوبہ سرحد میں خان عبد الغفار خان [اسفند یار ولی کے دادااور عبدالولی خان کے والد] بے پناہ سیاسی اثر رکھتے تھے اور انہیں کانگرس کے ایک ستون کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کا صحیح معنوں میں توڑ پیر آف مانکی شریف تھے جن کی مسلم لیگ کے لئے حمایت سیاسی پانسہ پلٹ سکتی تھی۔ 1945ء میں پیر صاحب نے مسلم لیگ کو جوائن کرنے سے قبل قائداعظم سے تصور پاکستان کے حوالے سے وضاحت چاہی تو قائداعظم نے پیر صاحب کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کبھی شریعت کے منافی قوانین نہیں بنائے گی اور نہ ہی پاکستان کے مسلمان غیر اسلامی قوانین کی اجازت دیں گے۔ [بحوالہ دستور ساز اسمبلی کارروائی 9مارچ 1949ء جلد: V نمبر3صفحہ نمبر46]

آج یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد نوزائیدہ مملکت کو مسائل کے کوہ ہمالیہ کاسامنا تھا جن میں خاص طور پر لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری، خالی خزانہ، وسائل کا فُقدان اور نئی مملکت کے لئے انتظامی ڈھانچے اور مرکزی حکومت کا قیام قابل ذکر ہیں۔ دوسری طرف خود قائداعظم کی صحت دن بدن گر رہی تھی اور کئی دہائیوں کی مسلسل محنت نے انہیں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیا تھا چنانچہ قیام پاکستان کے ایک برس بعد وہ ستمبر 1948ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ قائداعظم زندہ رہتے تو کس طرح اپنے وعدے شرمندہ تعبیر کرتے اور کس طرح نئی مملکت کی تعمیر کرتے اس کا اندازہ ان کے دستور ساز اسمبلی 14اگست 1947ء کے خطاب سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رول ماڈل قرار دیا اور جنوری 1948ء کے امریکی عوام کے نام پیغام سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا دستور جمہوری طرز کا ہوگا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس ارادے کی ایک معمولی سی جھلک پاکستان کے پہلے سپہ سالار جنرل محمد اکبر خان [انگروٹ] کی کتاب ”میری آخری منزل“ کے صفحہ نمبر 281 میں ملتی ہے جو بہت سے لوگوں کے لئے اچنبھے کا باعث ہوگی۔ جنرل محمد اکبر [آرمی پی 71نمبر1] کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ 25جون 1948ء سے تین دن کے لئے علیل قائداعظم کے زیارت میں مہمان رہے۔ قائداعظم سے ملاقات میں جنرل اکبر نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن باکس لانے کو کہا۔ ”قائداعظم نے جیب سے چابی نکالی اور باکس کو کھول کر مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی، انہوں نے اسے اس مقام سے کھولا جہاں نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جرنل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ لہٰذا میں نے عرض کیا کہ آپ ایک حکم جاری کریں اور افسروں کو متنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا… سٹینو کو بلایا گیا۔ قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا اس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا جس پر میری ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہے“۔

قائداعظم کانفیڈریشن باکس ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے اور اس باکس میں قرآن مجید کا نسخہ بھی شامل تھا۔ جنرل اکبر کی عینی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم قرآن مجید پڑھتے اور ضروری مقامات پر نشانیاں بھی رکھتے تھے۔ اسی طرح 15اگست 1947ء کوپاکستان کا جھنڈا لہرانے کے لئے قائداعظم کا مولانا شبیر عثمانی کو کہنا بھی ایک واضح اشارہ ہے۔ اس لئے اگر انہیں موقعہ ملتا تو وہ یقینا اسلامی اصولوں کے نفاذ کے لئے اقدامات کرتے اور تصور پاکستان کو حقیقت کا جامہ پہناتے لیکن بدقسمتی سے موت کے بے رحم ہاتھوں نے قائد کو ہم سے چھین لیا اور تکمیل پاکستان کی جدوجہد ادھوری رہ گئی اور پھر ملک پر جاگیردار اور جرنیل چھا گئے جنہوں نے پاکستان کو پاکستان نہ بننے دیا اب ہمیں مِل جُل کر پاکستان کو پاکستان بنانا ہے اور قائداعظم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔

تحریر : ڈاکٹر صفدر محمود

”ایمان، اتحاد اور نظم“ کی حقیقت کے متعلق یہاں کلک کر کے پڑھیئے

دریائے سندھ ۔ تعصب اور حقیقت

میری تحریر “دریائے سندھ ۔ کچھ حقائق” پر ایک دو تبصرہ نگاروں نے تحریر کے مندرجات سے قطع نظر کرتے ہوئے مجھ پر تعصب کا سرنامہ [label] چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مجھے اس غلط کوشش کا رنج نہیں مگر دُکھ اس بات کا ہے کہ ہماری جوان نسل جس نے مستبل میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنا ہے وہ اپنی تاریخ کے علم اور حقائق کے ادراک سے محروم ہے ۔ میں وہیں جواب لکھ چکا تھا مگر خیال آیا کہ بات تاریخ اور حقائق کی ہے اسلئے سرِ ورق لکھی جائے تاکہ ایک طرف جو قارئين کسی وجہ سے اس بارے میں علم نہیں رکھتے اُن تک بات پہنچے اور دوسری طرف باعِلم لوگوں کی نظر سے یہ تحریر گذرے تو وہ میرے عِلم میں اضافہ کا باعث بنیں

بات پاکستان میں بہنے والے دریاؤں کے پانی کی ہو رہی تھی لیکن سوال پانی کے ذخیروں کا بنا دیا گیا ۔ جب دریاؤں میں پانی ہی نہیں ہو گا تو ذخیرہ کرنے کیلئے جھیل بنا کر کیا کریں گے ؟ جہاں تک پانی کے ذخیروں کی بات ہے پہلا پانی کا ذخیرہ واسک میں ایوب خان کے دور سے قبل بنا دوسرا منگلا میں ایوب خان کے دور میں اور تیسرا تربیلہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ۔ پہلے ذخیرہ کی منصوبہ بندی ایوب خان کے دور سے قبل ہوئی تھی دوسرے اور تیسرے ذخیروں کی منصوبہ بندی ایوب خان کے دور میں ہوئی تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان انجنیئرنگ کانگریس کی مخالفت کے باوجود ذخیرہ کالا باغ کی بجائے تربیلہ میں بنایا جس کے نتیجہ میں دس ارب روپيہ زیادہ بعد کی مرمتوں پر خرچ ہوا ۔ تربیلا کے بعد آج تک کوئی ذخیرہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی

دس بارہ سال قبل تک پاکستان میں موجود پانی کے ذخیرہ کیلئے بنائی گئی یہ تین جھیلیں نہ صرف بھری رہتی تھیں بلکہ فالتو پانی دریاؤں میں چھوڑنا پڑتا تھا ۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ حال ہے کہ سال میں دو بار منگلا اور تربیلہ کی جھیلیں تقریباً خالی ہو جاتی ہیں جس کے نتیجہ میں بجلی کا بحران ملک کو گھیرے ہوئے ہے

کراچی کا کچھ حصہ پاکستان بننے سے قبل بھی سطح سمندر سے نیچا تھا ۔ عبداللہ غازی کے مزار اور بارہ دری سے سمندر کی طرف ایک ڈیڑھ کلو میٹر اندر پتھر کا بند نمعلوم کس زمانہ سے بنا ہوا تھا پھر بھی مد ہوتا تو سمندر کا پانی کسی جگہ سے میٹروپول ہوٹل سے ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے تک پہنچ جاتا تھا ۔ جب جزر ہوتا تو پانی واپس چلا جاتا جس کی وجہ سے میٹروپول ہوٹل اور کلفٹن کے درمیان کچھ حصہ میں ایک دلدل ہوا کرتی تھی جس میں سے مردہ مچھلیوں کی بدبُو آیا کرتی تھی ۔ بعد میں ایک کافی اُونچا اور پہلے بند سے آگے سمندر کے اندر بند بنا کر زمین کی طرف بھرائی کی گئی ۔ جس جگہ آجکل فن لینڈ ہے یہ سمندر تھا ۔ بند باندھ کر اسے فن لینڈ بنایا گیا

میں سُنی سنائی باتیں نہیں لکھ رہا یہ سب کچھ میں نے خود دیکھا ہوا ہے ۔ نہ کراچی میرے لئے اجنبی ہے اور نہ میں کراچی کیلئے

میری تحریر میں سمندر کی سطح بلند ہونے کا حوالہ بھی تھا جس کا مذاق اُڑانے اور اسے بھی میرے تعصب کا نتیجہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ۔ ایک منٹ بعد کیا ہونے والا ہے صرف اللہ ہی جانتا ہے تو میں کیسے بتا سکتا ہوں ؟ ایسے اندیشے اور پیشگوئیاں سائنسدان کرتے رہتے ہیں اور آج دورِ حاضر کے لوگ من و عن تسلیم کرتے ہیں لیکن میں نے نقل کیا تو تعصب بن گیا

سمندر کا پانی سندھ ڈیلٹا المعروف کیٹی بندر میں داخل ہونے کی بڑی وجہ سطح سمندر کی بلندی ہے اور یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔ درست کہ پچھلے پانچ دس سالوں سے سندھ میں بہت کم پانی بہہ رہا ہے اور اس کی وجوہات میں نے متذکرہ بالا تحریر میں لکھی ہیں

تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تو کراچی کے علاوہ ہالینڈ کا ساحلی شہر راٹرڈیم بھی سطح سمندر سے نیچے ہے ۔ آج ہالینڈ کے ساحل سمندر پر بنے بند کو ٹوڑ دیا جائے تو راٹرڈیم سمندری پانی میں ڈوب جائے گا ۔ کراچی کے ساحلِ سمندر کے کنارے جو ڈیم بنایا گیا ہے اُسے گرا دیا جائے تو سمندر کا پانی میٹرو پول ہوٹل اور سینٹرل ہوٹل تک پہنچ جائے گا اور دوسری طرف آدھا ڈی ایچ اے سمندری پانی میں ڈوب جائے گا

دریائے سندھ ۔ کچھ حقائق

پچھلے دنوں “آؤ سنواریں پاکستان” پر ایک تحریر پڑھی جس کی سطور سے لکھنے والے کے درد کا احساس ہوا ۔ لیکن یہ درد صرف اُن کا ہی نہیں قومی معاملات پر نظر رکھنے والے ہر پاکستانی کا ہے ۔ اس کے بعد آوازِ دوست پر ایک نظریہ پڑھا جو کسی حد تک درست ہے ۔ ایک انجنیئر ہونے کے ناطے میں اس میں اتنا اضافہ کروں گا کہ ہمیں بڑے بڑے ڈیم بنانے کی بجائے مناسب غیر آباد جگہوں پر چھوٹے کئی ڈیم بنانے چاہئیں تاکہ سیلابی پانی کو روک کر سارا سال تھوڑا پانی چھوڑا جائے ۔ ان جگہوں پر چھوٹے بجلی گھر بھی بنائے جائیں ۔ اس کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں دریاؤں اور نہروں پر مناسب فاصلہ پر صرف بجلی گھر بنائے جائیں یعنی پانی پیچھے سے آئے اور ٹربائن میں سے گذرتا ہوا آگے نکل جائے ۔ اس کے علاوہ ہمارے رہنما اب ہیرا پھیری چھوڑ دیں اور جو کوئی پانی چوری کرے اُس کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے

عرصہ سے ہم سیاسی نعرے سنتے آ رہے ہیں جن کے زیرِ اثر عوام گمراہ ہوتے رہتے ہیں ۔ بدقسمتی سے عوام کو گمراہ کرنے والے ہی عوام کے ہردل عزیز رہنما ہیں ۔ سیاسی نعرہ بازی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میں موجودہ صورتِ حال کے اصل اسباب مختصر طور پر بیان کروں گا لیکن ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے جس نے مجھے دریاؤں اور نہروں میں پانی کے معاملہ کا تفصیلی مطالعہ کرنے پر مجبور کیا

مجھے پہلی بار جھٹکا اس وقت لگا تھا جب پورے پاکستان سے دو درجن سے زائد سنیئر افسران کی ایک جماعت نظامت کے مطالعہ کیلئے پاکستان کے دورے پر تھی اور جنوری 1975ء میں روہڑی بیراج پہنچی ۔ ہمارے ساتھ کمشنر کی سطح کے افسر بھی تھے ۔ دورے کی باقاعدہ اطلاع ایک ماہ پہلے دی جا چکی تھی مگر متعلقہ کوئی افسر موقع پر یا دفتر میں موجود نہ تھا۔ روہڑی بیراج کے ایکسین کے دفتر سے اس کے کسی کلرک نے ٹیلیفون کیا تو کچھ دیر بعد ایک نوجوان انجنیئر صاحب آئے ۔ وہ ہی ایکسین تھے ۔ نظامت کا حال تو واضح ہو گیا تھا ۔ ایک ساتھی نے ٹیکنیکل سوال پوچھ لیا “What is the maximum flood level here?” ايکسین نے جواب دیا “Flood تو آتا ہی نہیں ۔ سب پانی پنجاب پی جاتا ہے”۔ Maximum flood level کا مطلب ہوتا ہے کہ اس جگہ سارے سال کے دوران پانی کی زیادہ سے زیادہ سطح کیا ہوتی ہے ؟ اس کا تعلق طغیانی [flood] سے نہیں ہوتا ۔ سوال پوچھنے والا ڈپٹی کمشنر اس علاقے میں رہ چکا تھا اسلئے ٹیکنیکل معلومات اس بیراج کی رکھتا تھا ۔ وہ کچھ طیش میں آ گیا ۔ کمشنر صاحب بانپ گئے اور اشارے سے اسے روک دیا ۔ بہرحال ایکسین کے جواب سے دو باتیں واضح ہو گئی تھیں

ایک ۔ ايکسین صاحب جو کہ سینیئر انجنیئر ہوتے ہیں تعلیمی لحاظ سے پیدل ہی تھے
دو ۔ سندھ میں بسنے والوں کے ذہنوں میں وقت کے سیاستدانوں نے زہر بھر دیا تھا

یہ مسئلہ گھمبیر ہے اور بہت اُلجھا ہوا ہے ۔ ساتھ ہی یہ ایک سال یا ایک سیاسی دور میں پیدا نہیں ہوا ۔ بلکہ اس کے ذمہ داران تین چار طاقتور ملکی رہنما ہیں

ایک ۔ 10 فیصد کا ایوب خان ذمہ دار ہے جس نے سندھ تاس معاہدہ کیا جس کے نتیجہ میں آبپاشی نظام قائم کرنے کیلئے پیسہ ملا مگر غلطی یہ کی کہ اس میں مستقبل کیلئے بھارت کو پوری طرح نہ باندھا

دو ۔ 20 فیصد حصے کے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے بھارت کی مُخبری کرتے ہوئے بھارت کے خلاف بھارت کے اندر کام کرنے والی بھارتی قوتوں کی اطلاع بھارت کو دی جس کے نتیجہ میں ان کا صفایا کرنے کے بعد بھارت کو فراغت ملی اور اس نے پاکستان کا گلا دبانا شروع کیا یعنی بھارت نے دریائے راوی اور پھر دریائے جہلم پر ڈیم بنایا

تین ۔ 10 فیصد کے ذمہ دار بارسوخ زمیندار ہیں جو پانی چوری کرتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تعداد صوبہ سندھ میں بسنے والے وڈیروں اور بارسوخ پيروں کی ہے

چار ۔ 60 فیصد کا پرویز مشرف ذمہ دار ہے جس نے اپنی گدی قائم رکھنے کی کوشش میں امریکا کی خوشنودی کیلئے بھارت کے ساتھ یک طرفہ دوستانہ اقدامات کرنے کے علاوہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر میں آزادی کی جد و جہد کرنے والوں میں نفاق کا بیج بو کر ان کا اتحاد توڑ دیا چنانچہ اس تمام صورتِ حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان جانے والے دو بڑے دریاؤں چناب اور جہلم پر چھ ڈیم تعمیر کر لئے جو اس سے قبل ممکن نہ تھا

یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے کہ سندھ تاس معاہدہ کے بعد دریائے سند ھ کے بڑے معاون تین دریا راوی چناب اور جہلم ہیں جب ہمارے اپنے حکمرانوں کی مہربانیوں سے بھارت نے ان تینوں دریاؤں پر بند باندھ کر ان کا زیادہ تر پانی روک لیا تو دریائے سندھ بے یار و مددگار ہو کر لاغر ہو گیا ہے

حکمرانوں کی ان ملک دشمن کاروائیوں کے ساتھ ساتھ ہماری قوم کی بے راہ روی کے نتیجہ میں شاید اللہ بھی ہم سے ناراض ہے کہ سالہا سال سے ملک میں بارشیں بہت کم ہو رہی ہیں اور پہاڑوں پر سالانہ برف باری کی مقدار بھی بہت کم ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں دریائے سندھ میں اپنے پانی کا بہاؤ کم ہو چکا ہے

اگر بھوک اور افلاس کا شکار ہو کر بلک بلک کر مرنا نہیں چاہتے تو اب ایک ہی حل ہے کہ جموں کشمیر کے لوگوں کی آزادی کی جد و جہد کو کامیاب کرایا جائے جس کے آثار بہت کم نظر آتے ہیں کیونکہ مرکز میں حکومتی پارٹیاں پی پی پی اور ایم کیو ایم مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنے پیدائشی انسانی حق آزادی کیلئے لڑنے والوں کو دہشتگرد قرار دیتی ہیں اور جو تھوڑا سا حصہ وہیں کے باشندوں نے 1947ء میں آزاد کرایا تھا اُس پر قبضہ جمانے اور لوٹ مار کرنے میں پیش پیش نطر آتی ہیں ۔ اللہ ہی ہے کہ ہم پر کسی وجہ سے رحم کھائے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلا دے جس کے آثار فی الحال نظر نہیں آتے

سمندر پاس دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی فرسودگی کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔ جدیدیت کی ایک سوغات global warming بھی ہے جس کے نتیجہ میں ساری دنیا کے برفانی پہاڑ اور گلیشیئر پچھلی ایک دہائی سے بن کم رہے ہیں اور پگھلتے زیادہ ہیں ۔ چنانچہ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے ۔ اس طرح بھی سمندر کا نمکین پانی ڈیلتا کے اندر گھس رہا ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے پندرہ بیس سال میں کراچی ۔ ہالینڈ ۔ برطانیہ ۔ انڈونیشیا اور بہت سے جزیرے سمندر میں ڈوب جائیں گے

حقوقِ نسواں کے عَلَمبردار

آج جو مُلک ہمیں عورتوں کے حقوق کا درس دیتا ہے اور غاصب قرار دیتا ہے یہ سب اس لئے ہے کہ ہماری قوم کو کتابیں پڑھنے کا شوق و ذوق نہیں ہے کُجا کہ تاریخ کی کُتب پڑھیں ۔ اگر پڑھتے ہیں تو افسانے اور دوسری من گھڑت کہانیاں ۔ بایں ہمہ اکثر کا حافظہ بھی اتنا کمزور ہے کہ کل کی بات بھول جاتے ہیں تجربہ کے بعد معطون کئے شخص کو ہی دوبارہ منتخب کر کے پھر سے ظُلم کی گردان کرنا شیوا بن چکا ہے

آج سے صرف 9 دہائیاں قبل امریکا میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہ تھا ۔ عورتوں کو مقامی کونسل میں ووٹ ڈالنے کا حق 26 اگست 1920ء کو دیا گیا ۔ اس سے قبل عورتوں کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے اور احتجاج کی صورت میں اُنہیں قید و بند اور تشدد برداشت کرنا پڑتا تھا ۔ پلے کارڈ اُٹھا کر خاموش احتجاج کرنے والی عورتوں کو بھی گرفتار کر کے اُن پر تشدد کیا جاتا تھا اور رات گذرنے کے بعد وہ برائے نام ہی زندہ ہوتی تھیں
ایک بار عورتوں نے سڑک کے کنارے پیدل چلنے والے راستہ پر کھڑے ہو کر خاموش احتجاج کیا 33 عورتوں کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے پيدل چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ۔ پھر جیل کے سربراہ کی اشیرباد سے 40 گارڈز آہنی مُکوں کے ساتھ ان معصوم عورتوں پر ٹوٹ پڑے اور اُنہیں ادھ مُوا کر دیا
لُوسی برنز نامی ایک عورت کی پٹائی کے بعد لہو لہان لُوسی برنز کے ہاتھوں کو زنجیر سے باندھ کر اُسے قیدخانے کی سلاخوں کے ساتھ لٹکا دیا گیا جہاں وہ ساری رات لٹکی مُشکل سے سانس لیتی رہی
ڈورا لِیوس نامی عورت کو اندھیری کوٹھری میں لیجا کر اس طرح پھینکا گیا کہ اسکا سر لوہے کی چارپائی سے زور سے ٹکرایا اور وہ بے سُدھ ہو کر گِر پڑی ۔ اسی کال کوٹھری میں موجود ایلائس کوسو سمجھی کہ ڈورا لِیوس مر گئی ہے اور اُسے دل کا دورہ پڑ گیا
اپنے جائز حقوق کیلئے خاموش احتجاج کرنے والی عورتوں کو گرفتار کر کے جو کچھ حوالات میں اُن سے کیا جاتا تھا اُس میں کھینچنا ۔ گھسیٹنا ۔ پِیٹنا ۔ گلا دبانا ۔ بھِینچنا ۔ چُٹکیاں لینا ۔ مروڑنا اور ٹھُڈے مارنا شامل ہے
ایک گھناؤنا واقعہ 15 نومبر 1917ء کو وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کرنے کے نتیجہ میں ہوا تھا جس میں احتجاج کرنے والی عورتوں کو قید کے دوران کئی ہفتے پینے کو گندھا پانی اور کیڑے پڑا ہوا کھانا دیا جاتا رہا ۔ اور جب ان میں سے ایک ایلائس پال نے ایسا کھانے پینے سے انکار کر دیا تو اُسے کرسی کے ساتھ باندھ کر ایک نالی اس کے حلق سے نیچے اُتاری گئی اور اس میں مائع خوراک ڈالی جاتی حتٰی کہ وہ قے کر دیتی ۔ ایسا اس کے ساتھ ہفتوں کیا جاتا رہا

جائیداد کے معاملہ میں اب تک زیادہ تر فرنگی ممالک میں رائج ہے کہ اگر والدین بغیر اولاد کے حق میں وصیت کئے مر جائیں تو اس جائیداد میں سے اولاد کو کچھ نہیں ملتا ۔ جہاں تک وصیت کا تعلق ہے اس میں جائیداد کا مالک جسے چاہے جتنا دے اور جسے چاہے نہ دے

ہم لوگ جو فرنگی کے ذہنی غلام بن چکے ہیں نہیں جانتے کہ اس اسلام نے ، جسے ہم 14 صدیاں پرانا ہونے کی وجہ سے قابلِ عمل نہیں سمجھتے ، عورت کو مکمل حقوقِ زندگی دیئے ۔ اس کی پرورش ہر لحاظ سے مرد کی ذمہ داری ٹھہرائی اور اُسے باپ کی جائیداد میں اور خاوند کی جائیداد میں بھی حصہ کا حق دیا ۔ بیوی کی کمائی پر خاوند کو کوئی حق نہ دیا مگر خاوند پر بیوی کا نان و نفقہ واجب قرار دیا ۔ اولاد پر ماں کی خدمت اور بھائی پر بہن کی پرورش لازم قرار دی

اسلام سے پہلے چھُٹی کا کوئی تصوّر ہی نہ تھا ۔ امیرالمؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کفار سے جنگیں زور پر تھیں تو ان تک ایک عورت کی طرف سے اطلاع پہنچی کہ کئی ماہ سے اُس نے اپنے خاوند کی شکل نہیں دیکھی ۔ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عورتوں کی مجلس [meeting] کی جائے اور اُن سے پوچھا جائے کہ وہ مردوں کے بغیر کتنا عرصہ رہ سکتی ہیں ۔ اس کے بعد عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا کہ چاہے کوئی مرد جہاد پر ہو 3 ماہ سے زیادہ اپنے گھر سے باہر نہیں رہے گا

میں جانتا ہوں کہ میرے دو تین محترم قارئین بغیر حوالہ کے میری تحریر کو ماننے کیلئے تیا ر نہیں ہوتے ۔ بلکہ اس کی مخالفت شدّ و مد کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اور میں اُن کی اس حرکت پر صرف مسکرا دیتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جن کے حوالے دیئے جاتے ہیں وہ بھی میری طرح ہی گوشت پوست کے بنے ہوتے ہیں ۔ پھر عصرِ حاضر میں تو سند صرف فرنگی کی مانی جاتی ہے اور اُس کے بعد ٹی وی یا اخبار کی ۔ چاہے وہ کالے کو سفید کہیں یا سفید کو کالا اسے مان لیا جاتا ہے ۔ بہر کیف اس مضمون کے اول حصہ کی کچھ تائید “امریکی یادیں” میں اور یہاں کلِک کر کے مل سکتی ہے اور آخری حصہ کیلئے قرآن شریف سے رجوع کرنا ضروری ہے