Category Archives: تاریخ

تحريک آزادی جموں کشمير ۔ تاريخی پس منظر اور آغاز

تاريخی پس منظر
پرانی کہانیوں کے مطابق جموں کشمیر اشوک موریہ کے زیر انتظام بھی رہا ۔ اشوک موریہ کا دور حکومت 273 قبل مسیح سے 232 قبل مسیح تک تھا ۔ اس کے بعد 2 قبل مسیح تک 234 سال کا کچھ پتا نہیں پھر کشان 2 قبل مسیح سے 7 عیسوی تک حکمران رہا ۔ اس کے بعد کرکوٹا کا عہد آیا ۔ انہیں 855 عیسوی میں اوتپلاس نے نکال دیا ۔ ان کے بعد تنترین ۔ یسکارا اور گپتا 1003ء تک ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہے ۔ پھر لوہارا 1346ء تک جموں کشمیر میں رہے ۔ یہ صحیح طرح معلوم نہیں کہ ان سب کے زیر اثر کتنا علاقہ تھا

سال 1346ء میں شمس الدین التمش (یا تتمش) نے جموں کشمیر کو فتح کیا اور یہاں مسلم ریاست کی بنیاد رکھی ۔ اس سلطنت میں گلگت ۔ بلتستان اور لدّاخ بھی شامل تھے ۔ 1586ء میں شہنشاہ مغلیہ جلال الدین اکبر نے جموں کشمیر کو سلطنت مغلیہ میں شامل کر لیا ۔ اس وقت جموں کشمیر کے 80 فیصد کے لگ بھگ لوگ مسلمان تھے ۔ سال 1757ء میں احمد شاہ درّانی نے جموں کشمیر کو فتح کر کے افغانستان میں شامل کر لیا ۔ مگر مرکز سے دور ہونے کی وجہ سےجموں کشمیر میں آہستہ آہستہ انتظامی ڈھانچہ کمزور پڑ گیا چنانچہ پونے پانچ سو سال مسلمانوں کی حکومت رہنے کے بعد 1819ء میں رنجیت سنگھ نے جموں کشمیر کو فتح کر کے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا

جموں کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی

حکوت بنانے کے بعد سکھ حکمرانوں نے مسلمانوں پر ناجائز ٹیکس لگائے جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر میں آزادی کی پہلی تحریک نے جنم لیا ۔ یہ تحریک 1832ء میں شروع ہوئی اور سکھ حکومت کے جبر و استبداد کے باوجود 1846ء تک جاری رہی جب انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر ان کی سلطنت پر قبضہ کر لیا ۔ انگریزوں نے باقی علاقہ تو اپنے پاس رکھا مگر جموں کشمیر کو 75 لاکھ یعنی ساڑھے سات ملین نانک شاہی سکوں کے عوض اپنے خاص خیرخواہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ بیچ دیا اور اسے جموں کشمیر کا خودمختار مہاراجہ بھی تسلیم کر لیا ۔ اس فیصلہ کے خلاف مسلمانوں نے آزادی کی دوسری تحریک شروع کی جس کو کُچلنے کے لئے گلاب سنگھ نے انگریزوں سے مدد مانگی اور اس تحریک کو سختی سے دبا دیا گیا

لدّاخ نہ تو سکھوں کی حکومت میں شامل تھا اور نہ انگریزوں نے اس پر قبضہ کیا ۔ گلاب سنگھ نے لشکر کشی کر کے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ۔ 1857ء میں گلاب سنگھ کے مرنے کے بعد رنبیرسنگھ نے 1885ء تک حکومت کی ۔ اس کے بعد پرتاب سنگھ 1925ء تک حکمران رہا اور ہری سنگھ 1949 تک ۔

ڈوگرہ مہاراجوں کا دور جابرانہ اور ظالمانہ تھا ۔ مسلمانوں کو نہ تحریر و تقریر کی آزادی تھی نہ دِینی اور سماجی سرگرمیوں کی ۔ مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے تو اِنتہا کر دی ۔ لاؤڈ سپیکر پر اذان اور جمعہ اور عیدین کے خطبہ پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ اس پر پوری ریاست میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ بزرگوں نے جوان قیادت کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ۔ اتفاق رائے کے ساتھ جموں سے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان (ہمارے خاندان سے) ۔ شیخ حمید اللہ وغیرہ اور کشمیر سے شیخ محمد عبداللہ ۔ یوسف شاہ (موجودہ میر واعظ عمر فارو‍ق کے دادا) ۔ غلام نبی گُلکار وغیرہ کو چنا گیا ۔ 26 جون 1931ء کو سرینگر کی مسجد شاہ ہمدان میں جموں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا جس میں پچاس ہزار مسلمانوں نے شرکت کی ۔ جب لیڈر حضرات آپس میں مشورہ کر رہے تھے تو ایک شخص جسے کوئی نہیں پہچانتا تھا نے اچانک سٹیج پر چڑھ کر بڑی ولولہ انگیز تقریر شروع‏ کر دی ۔اور آخر میں کہا “مسلمانوں اِشتہاروں اور جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا اُٹھو اور مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو” ۔ اس شخص کا نام عبدالقدیر تھا وہ امروہہ کا رہنے والا تھا جو یوپی ہندوستان میں واقع ہے اور ایک انگریز سیاح کے ساتھ سرینگر آیا ہوا تھا ۔ اُسے گرفتار کر لیا گیا

عبدالقدیر کے خلاف مقدمہ کی سماعت 13 جولائی 1931 کو سرینگر سینٹرل جیل میں ہو رہی تھی ۔ مسلمانوں کو خیال ہوا کہ باہر سے آیا ہوا ہمارا مسلمان بھائی ہماری وجہ سے گرفتار ہوا ہے ۔ 7000 کے قریب مسلمان جیل کے باہر جمع ہوگئے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں مقدمہ کی کاروائی دیکھنے دی جائے ۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی اجازت نہ دی جس پر تکرار ہو گئی اور ہندو آفیسر نے بغیر وارننگ کے پولیس کو گولی چلانے کا حکم دے دیا ۔ 22 مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ شہید ہونے والے ایک شخص نے یہ آخری الفاظ شیخ عبداللہ سے کہے “ہم نے اپنا کام کر دیا اب آپ اپنا کام کریں”۔ اسی شام جموں کے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان ۔ مولوی عبدالرحیم اور شیخ یعقوب علی اور کشمیر کے شیخ محمد عبداللہ اور خواجہ غلام نبی گُلکار کو گرفتار کر لیا گیا

اس پر غلامی کا طوق جھٹک دینے کے لئے جموں سے ایک زور دار تحریک اُٹھی اور جموں کشمیر کے شہروں ۔ قصبوں اور دیہات میں پھیل گئی ۔ اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے ۔ پھر 1932ء میں پہلی سیاسی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس تشکیل دی گئی ۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ یہ تحریک پورے جوش و خروش سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں مہاراجہ ہری سنگھ جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور ہوا اور 1934ء میں دستور ساز اسمبلی بنا دی گئی ۔ گو یہ مکمل جمہوریت نہ تھی پھر بھی مسلمانوں کے کچھ حقوق بحال ہوئے ۔ 1934ء 1938ء 1939ء اور شروع 1947ء میں اس اسمبلی کے پورے جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے جن میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس 80 فیصد یا زائد نشستیں لے کر جیتی

سکھوں کی باتيں

محمد رياض شاہد صاحب نے سوہنا پاکستان کے عنوان کے تحت سکھوں کے متعلق لکھا تھا ۔ اُن کی تحرير پڑھتے پڑھتے مجھے کچھ پرانے واقعات ياد آئے ۔ ميں نے وعدہ کيا تھا لکھنے کا ۔ الحمدللہ آج وعدہ پورا ہونے جا رہا ہے

آدھی صدی قبل جب ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں زيرِ تعليم تھا ميں لاہور سے راولپنڈی روانہ ہونے کے کيلئے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے اڈا پر پہنچا جو اُن دنوں ريلوے سٹيشن کے سامنے ہوتا تھا ۔ ميں نے پہلے سے نشست محفوظ کروائی ہوئی تھی مگر وہاں پہنچ کر مجھے کہا گيا “ذرا رُک جائيں”۔ بس چلنے کا وقت ہو گيا ۔ ميں نے دبے الفاظ ميں احتجاج کيا ۔ بس کے اندر سے آواز آئی “کيا بات ہے ؟” کنڈکٹر نے کہا ايک سواری ہے جس نے پہلے سے ٹکٹ ليا ہوا ہے”۔ پھر آواز آئی “کون ہے ؟” مجھے کنڈکٹر نے سامنے کيا ۔ ميں نے ديکھا کہ پوری بس سکھ عورتوں اور مردوں سے بھری ہے ۔ ايک بزرگ سکھ نے اپنے سے بڑے بزرگ سکھ سے کہا “کوئی گل نئيں جے اک سفر وچ تريمت نال وچھوڑا ہوے”۔ وہ صاحب اپنی بيوی کے ساتھ بيٹھے تھے ۔ مطلب تھا کہ اپنی بيوی کو پيچھے عورتوں ميں بھيج ديں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے پھر کسی اور بزرگ نے اُن کی محبت پر جملہ کسا مگر کوئی اثر نہ ہوا ۔ چند منٹ چہ مے گوئياں ہوئيں پھر ايک عورت نے کہا “کوئی گل نيئں اپنا وير اے “۔ پھر اپنے ساتھ والی عورت کو پيچھے بھيجتے ہوئے کہا ” آ وير ايتھے بہہ جا ۔ ساری واٹ کھلا تے نئيں رہنا”۔ ميں خاموش کھڑا رہا ۔ پھر بس ميں کافی ہلچل ہوئی ۔ ايک جوان نے اُٹھ کر کسی کو اِدھر سے اُدھر کسی کو اُدھر سے اِدھر کيا سوائے اُس بزرگ ترين جوڑے کے سب عورتوں کو اکٹھا کر کے آگے ايک نشست ايک مرد کے ساتھ خالی کرا دی جہاں ميں بيٹھ گيا ۔ وہ سفر بڑا ہی اچھا کٹا سارا راستہ لطيفے سنتے وقت کا پتہ ہی نہ چلا ۔ اُس زمانہ ميں لاہور سے اسلام آباد بس 7 گھنٹے ميں پہنچتی تھی

ميں پاکستان آرڈننس فيکٹری ميں اسسٹنٹ ورکس منيجر تھا اور واہ چھاؤنی ميں اپنی بہن بہنوئی کے ساتھ رہتا تھا ۔ 1964ء ميں سکھ ياتری پنجہ صاحب حسن ابدال آئے ۔ حسن ابدال کے ايک تاجر جو کسی زمانہ ميرے والد صاحب کے ملازم تھے سے رابطہ کيا کہ ہميں اس دوران پنجہ صاحب کی زيارت کا موقع مل جائے اُس نے ہم تينوں کيلئے اجازت نامہ حاصل کر ليا ۔ ہم پوليس کے ڈی ايس پی کی مدد سے پنجہ صاحب ميں داخل ہوئے تو اندر بہت اچھا گھريلو ماحول اور ميلے کا سا سماں پايا ۔ اندر داخل ہوتے ہی ہمارا تعارف سکھوں کے سربراہ سے کرايا گيا ۔ ميرے بہنوئی نے بتايا کہ ياتريوں کی موجودگی ميں آنے کا مقصد ان کے رسم و رواج سے واقف ہونا تھا ۔ اُس نے پہلے وہاں قريب موجود ايک خاندان سے ہمارا تعارف کرايا اور پھر ان سے کہا “کون جوان ان مہمانوں کو اچھی طرح سب کچھ دکھائے گا ؟” اُن ميں سے ايک راضی ہو گيا اور ہميں پوری قلعہ نما عمارت کے اندر پھرايا اور تمام سرگرميوں کی تفصيل بھی بتائی۔ آخر ميں ہمارے ساتھ اپنے پورے خاندان کی تصوير کچھوائی

ميں سرکاری کام سے 1966ء اور 1967ء ميں ڈوسل ڈورف جرمنی ميں تھا ۔ ميرے ساتھ ہمارے ادارے کے 3 اور انجنيئر بھی تھے ۔ ايک شام ميں اور ايک ساتھی انجيئر ڈوسل ڈارف کے مصروف علاقہ ميں جا رہے تھے کہ تين سکھ آتے ہوئے دکھائی ديئے ۔ ميرا ساتھی سُست رفتار تھا اور پيچھے رہ گيا تھا دوسرے ميں نے جرمنوں کی طرح کپڑے پہنے ہوئے تھے جبکہ ميرے ساتھی نے انگريزی سوٹ اور ٹائی پہن رکھی تھی اور رنگ بھی سانولا تھا ۔ سکھوں نے ميرے ساتھی کو روک کر پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو ۔ اس نے پاکستان بتايا تو کہنے لگے کونسے شہر سے ؟ اس نے راولپنڈی بتايا تو اُنہوں نے اُسے گلے لگا ليا اور بولے “فير تے تُسی اپنے بھرا ہوئے”۔ بڑے خوش اُس سے پھر ملنے کا وعدہ لے کر چلے گئے ۔ وہ لوگ راولپنڈی سے 1947ء ميں جالندھر جا چکے تھے

سکھ اور ہندو ميں واضح فرق يہ ہے کہ سکھ ايک رب کو مانتے ہيں ۔ نہ تو بتوں کی پوجا کرتے ہيں اور نہ کسی ديوی ديوتا کو مانتے ہيں ۔ چند گورو ہيں جنہيں وہ اپنا رہبر سمجھتے ہيں ۔ گورو کا مطلب اُستاد يا رہبر ہوتا ہے ۔ اپنے مُردے جلاتے نہيں دفن کرتے ہيں ۔ ہمارے نبی سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کی عزت کرتے ہيں ۔ ميں نے بچپن ميں سکھوں ميں ايک عجيب بات ديکھی کہ اپنے علاقہ ميں رہنے والے يا اپنے سکول ميں پڑھنے والے مسلمانوں کو بھائی کہہ ليں گے مگر ہندو کو نہيں

پاکستان بننے سے پہلے سکول ميں ميری جماعت ميں کُل 16 بچے تھے ۔ جن ميں 10 لڑکے اور 6 لڑکياں ۔ 4 لڑکے اور ايک لڑکی مسلمان ۔ ايک لڑکا سکھ ۔ 5 لڑکے ہندو تھے ۔ لڑکيوں ميں ايک سکھ ۔ ايک عيسائی اور 3 ہندو ۔ سکھ لڑکی کی مسلمان لڑکی کے ساتھ دوستی تھی اور سکھ لڑکے کی ہم 4 مسلمان لڑکوں کے ساتھ ۔ سکھ لڑکا صاف کہا کرتا تھا “يہ مٹی کے بتوں کو پوجنے والے کسی کے دوست نہيں”

سکھوں کو برہمنوں نے بيوقوف بنا کر 1947ء ميں مسلمانوں کا قتلِ عام کروايا تھا اس ڈر سے کہ سکھ اعتقاد کے لحاظ سے مسلمانوں کے قريب ہيں ۔ اگر مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تو پورا پنجاب نہيں تو کم از کم امرتسر چندی گڑھ پاکستان ميں چلا جائے گا اور ساتھ جموں کشمير بھی ۔ بعد ميں سکھوں کو سمجھ آ گئی تھی اور اُنہوں نے پاکستان يا مسلمان دُشمنی چھوڑ دی تھی ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ بينظير بھٹو کے دورِ حکومت ميں سکھ تحريکِ آزادی کے متعلق جو معلومات پاکستان کے خُفيہ والوں کے پاس تھيں وہ بھارت دوستی کی خاطر بھارت کو پہنچا دی گئيں جس کے نتيجہ ميں بھارتی حکومت نے سکھوں کا قتلِ عام کيا اور خالصہ تحريک کا زور ٹوٹ گيا جس کے نتيجہ ميں بھارت نے يکسُو ہو کر پوری قوت کے ساتھ تحريک آزادی جموں کشمير کو کُچلنا شروع کيا

جانتے ہيں يہ کيا ہے ؟

عصرِ حاضر ميں معلومات بہت زيادہ ہو گئی ہيں مگر ماہرين کہتے ہيں کہ تاريخ کمزور ہے ۔ صرف 5 سے زيادہ اور 6 سے کم دہائياں پرانی بات تو سب کو معلوم ہونا چاہيئے

نيچے تصوير ديکھ کر بتايئے کہ ہوائی جہاز پر کيا لادا جا رہا ہے ؟

چلئے کچھ اشارہ ديتا ہوں کہ يہ 1956ء کا واقعہ ہے ۔ آيا کچھ سمجھ ميں ؟
*
*
*
جواب نيچے ہے
*
*
*
يہ 5 ميگا بائٹ [5MB] کی ہارڈ ڈسک ڈرائيو ہے آئی بی ايم کے پہلے سُپر کمپيوٹر 305 رامَک کی جس کا اجراء ستمبر 1956ء ميں کيا گيا تھا ۔ اس ہارڈ ڈسک ڈرائيو کا وزن 1000 کلو گرام سے زيادہ تھا

حيران ہونے کی ضرورت نہيں ۔ 1980ء ميں ہمارے ادارے ميں آئی بی ايم کا مين فريم کمپيوٹر تھا اُس کی ہارڈ ڈِسک ڈرائيو 50 ميگابائيٹ کی تھی ۔ جب ميں نے اپنے دفتر کيلئے 1987ء ميں 20 ميگا بائٹ ہارڈ ڈِسک ڈرائيو والا پی سی خريدا تو لوگ اُسے ديکھنے کيلئے آتے تھے اور حيران ہوتے تھے ۔ اس وقت ميں 250 جی بی والے کمپيوٹر پر کام کر رہا ہوں ۔ آجکل 8 جی بی کی يو ايس بی فليش ڈرائيو عام ملتی ہے اور آئی فون 32 جی بی والا ملتا ہے

خونخوار رشوت خور کون ؟

آج کے اخبارات ميں مندرجہ ذيل خبر سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کونسا حکمران ہے جو رشوت نہ ملے تو بندے مروا ديتا ہے

فرانس میں کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے جج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ پاکستان کو اگوسٹا آبدوزوں کی فروخت کے سودے میں رشوت دی گئی تھی ۔گزشتہ سال فرانس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 1995ء میں پاکستان کو آگوسٹا آبدوزوں کی فروخت کے سودے میں غیر قانونی طور پر کمیشن دیا گیا تھا اور 2002ء میں کراچی کے ایک ہوٹل کے باہر فرانسیسی انجینئروں پر خود کش بم حملہ پاکستان اور فرانس کے اعلیٰ حکام کے درمیان کمیشن کی ادائیگی پر اختلافات کے بعد کیا گیا تھا ۔ پیرس کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے وکیل صفائی اولیور مورس نے کہا کہ جج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ آبدوزوں کے سودے میں رشوت دی گئی تھی ۔ کراچی بم دھماکے کی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ آبدوزوں کی خریداری میں رشوت کی 8کروڑ ڈالر سے زائد رقم مبینہ طور پرپاکستانی سیاستدانوں اور فوجی افسروں کو اداکی گئی

ہماری تاريخ کمزور ہے

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم میں شہریوں کو معلومات تک رسائی دینے کے باوجود یہ رسائی عملی طور پر حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ مثلاً جب یہ دعویٰ داغا گیا کہ قائد اعظم نے9 اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلا کر قومی ترانہ لکھنے کے لئے کہا تو مجاورین قائد اعظم کا فرض بنتا تھا کہ وہ اس بہتان کی تحقیق کرتے اور ریکارڈ کھنگال کر اس کی تصدیق یا تردید کرتے۔ آپ پوچھیں گے کہ مجاورین قائداعظم کون ہیں؟ میں قائد اعظم کے مجاور ان اداروں کوکہتا ہوں جو قائد اعظم کے نام پرغریب قوم کے ”تنگ دست“ خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ کہنے کو قائد اعظم اکادمی بھی موجود ہے جہاں معروف سکالرز بیٹھے ہوئے ہیں ۔ قائد اعظم پیپرز سیل بھی قائم ہے جہاں ملازمت پیشہ حضرات کسی جذبے سے تہی دامن محض نوکری اور تنخواہ کے لئے بیٹھے عیش کررہے ہیں۔ ان کے پاس سرکاری ریکارڈ بھی موجود ہے اور قائد اعظم کے کاغذات بھی۔ لاہور میں نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن میں بھی عاشقان قائد اعظم خطابت کے گل کھلاتے رہتے ہیں۔ تحقیق قدرے مشکل اور صبر آزما کام ہے اس میں وقت بھی لگتا ہے اور پیسہ بھی اس لئے میرے نزدیک یہ ان اداروں کا کام تھا کہ وہ اس موضوع پر تحقیق کرتے اور وضاحت کرتے کیونکہ یہ بالکل ایک انہونی بات تھی جس نے طالبعلموں اور نوجوانوں کو قائد اعظم کے حوالے سے گمراہ کرکے رکھ دیا

پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے مجھے فون کیا اور غصے سے کہا ”اگر قائداعظم کو جگن ناتھ آزاد سے ہی قومی ترانہ لکھوانا تھا تو پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی؟“ میں نے اسے پیار سے سمجھایا کہ آزاد پاکستان کا شہری تھا اس سے ترانہ لکھوانا کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مجھے یہ ساری کہانی فرضی اور خیالی پلاؤ لگتی ہے کیونکہ جگن ناتھ آزاد نے خودکبھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔ یہ شوشہ اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے اور ہمارے نام نہاد سیکولر حضرات نے چھوڑا ہے۔ہاں مجھے یاد آیا جگن ناتھ آزاد پاکستان اکثر آتا رہا۔ ڈاکٹر انور سدید اور محترم رفیع الدین ہاشمی سے کئی بار ملا ان بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس نے کبھی بھی قائد اعظم سے ملاقات یا قومی ترانہ لکھوانے کا ذکر نہیں کیا اگر جگن ناتھ آزاد کو یہ اعزاز حاصل ہوتا تو وہ اس کا ہر بار ذکر کرتا بلکہ بقول شخصے اچھل اچھل کر ذکرکرتا۔ ان دعویداروں کے مطابق جسے یہ اعزاز حاصل تھا اس نے تو کبھی اس کا ذکر نہیں کیا لیکن اس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے اور ہمارے دو تین لکھاریوں نے یہ ہوائی اڑا دی جس کی کسی ریکارڈ یا قائد اعظم کے سٹاف سے تصدیق نہیں ہوتی

میں جن دنوں حقائق جاننے کے لئے مضطرب تھا اور شواہد اکٹھے کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کررہا تھا تو مجھے بعض دلچسپ تجربات ہوئے۔ مثلاً مجھے ریڈیو پروگراموں کی تفصیلات پڑھنے کے لئے اگست 1947ء کے اخبارات ڈھونڈھنے میں خاصی ”کھجل خواری“ہوئی تب مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستان کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے کن مصائب کا شکار ہیں۔ 1964۔65 میں جب میں مسلم لیگ کے دور حکومت 1947۔54 پر ریسرچ کررہا تھا تو پاکستان ٹائمز کی لائبریری میں اخبار کامکمل ریکارڈ موجود تھا جہاں میں نے ان سات برسوں کا ایک ایک اخبار پڑھا۔ پنجاب پبلک لائبریری میں اردو اخبارات کے علاوہ مشرقی پاکستان کے اخبارات کا ریکارڈ بھی موجود تھا۔ آج یہ سارا ریکارڈ ضائع ہوچکا ہم کس قدر علم دوست قوم ہیں؟؟

سچ کی تلاش کے اس سفر میں بعض مقامات پر عزت نفس بھی مجروح ہوئی اور ”جھڑکیاں“ بھی کھانی پڑیں لیکن میں نے قائد اعظم کی خاطر سب کچھ برداشت کیا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ میں ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز اور ریکارڈ دیکھناچاہتا تھا۔ ایک عزیزی نے کہا تم سیکرٹری انفارمیشن رہے ہو تمہارے لئے یہ کام مشکل نہیں ہوگا۔ میں مسکرایا اور عرض کیا کہ یہ قوم بڑی کرسی پرست ہے ریٹائرڈ لوگوں کو ردی کی ٹوکری کا حصہ سمجھتی ہے۔ ایک بار پھرمیرے تجربے کی تصدیق ہوگئی جب میں نے ریڈیو پاکستان کے نو وارد ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کرنے کے لئے متعدد کوششیں کیں اور انہوں نے مجھے گھاس ڈالنا مناسب نہ سمجھا

مروت، اخلاق اور بزرگوں کا ادب والدین اور سکول کی تربیت کی دین ہوتا ہے نہ کہ عہددوں اور کرسی کی عطا، مدت ہوئی انور محمود مشرف کے سیکرٹری انفارمیشن تھے وہ میرے جونیئر رفیق کار اور چھوٹا بھائی ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ میں مشرف کے دور میں زیر عتاب اوایس ڈی تھا چنانچہ انور صاحب نے میرا فون سننے سے انکار کردیا۔ بہرحال میں ریڈیو پاکستان(پی بی سی)کے کنٹرولر ہوم سروس علی منشا صاحب کا ممنون ہوں جنہوں نے آرکائیوز اور تاریخی ریکارڈ کے حوالے سے میری مدد کی اور علیحدہ سے ایک تصدیقی بیان بھی بھجوایا کہ جگن ناتھ آزاد کا قومی ترانہ ریڈیو پاکستان سے ہرگز نشر نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ میری تحقیق کا دائرہ 1949تک محدود تھا کیونکہ اس کے بعد تو کمیٹی بنی اور بالآخر 1954میں حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا قومی ترانہ پاکستان کا ترانہ بن گیا

دوران سفر بات یہاں آکر رک گئی کہ کس طرح قائد اعظم کے اے ڈی سی جناب عطا ربانی سے رابطہ کرکے یہ پوچھا جائے کہ کیا کبھی جگن ناتھ آزاد قائد اعظم سے ملے تھے کیونکہ اس سطح پر ملاقاتیں بہرحال اے ڈی سی کے ذریعہ ہی ہوتی ہیں۔ میں نے کہیں سے محترم عطاربانی صاحب کے صاحبزادے سینیٹر رضا ربانی کا سیل نمبر لیا ۔کئی کوششوں کے بعد ان تک پہنچا۔ اپنا تعارف کرایا اور التجا کی کہ قومی خدمت کے حوالے سے اور ریکارڈ کی تصحیح کے لئے مجھے یہ بات اپنے والد گرامی سے پوچھ دیں یا مجھے ان کا رابطہ عطا فرمادیں۔ انہوں نے مجھے جھڑک دیا اور میں نے قائد اعظم کی خاطر وہ جھڑک بھی برداشت کرلی۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے نظامی صاحب کے ذریعے محترم عطا ربانی صاحب سابق اے ڈی سی ٹُو قائد اعظم تک رسائی حاصل ہوئی اور میں نے ان سے براہ راست بات کرکے اپنی تسلی و تشفی کی کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائد اعظم سے ملے اور نہ کبھی قائد اعظم کی زبان سے ان کا ذکر سنا

اس کے باوجود اگر ہمارے مہربان نہ مانیں اور اپنی ضد پہ قائم رہیں تو اسے ضد ہی کہا جاسکتا ہے اور ضد کا علاج تو لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا

بشکريہ ۔ جنگ

امريکا 71 سال قبل اور ہم

نيچے امريکا کے صرف 71 سال قبل کے

دور کی تصاوير ديکھنے کے بعد سوچيئے کہ ہميں کس عمل کی ضرورت ہے

ہم سجھتے ہيں کہ ہميں بُرا دور مِلا ہے اور مختلف قسم کی شکايات کرتے رہتے ہيں ۔ پٹرول مہنگا ہے ۔ بے روزگاری ہے ۔ يہ نہيں ہے وہ نہيں ہے ۔ ہم دورِ حاضر سے نالاں ہيں ۔ مہنگائی بے انصافی اور سب سے بڑھ کر بے حسی زوروں پر ہے

کيا يہ سب حالات ہمارے ہی پيدا کردہ نہيں ہيں ؟
ہمارا 71 سال قبل 71 سال قبل کے امريکا جيسا حال تو نہ تھا بلکہ 40 سال قبل بھی ہمارا ايسا حال نہ تھا

امريکا 71 سال ميں بلنديوں پر پہنچ گيا اور ساری دنيا پر قبضہ جمانا شروع کر ديا مگر ہم نے پچھلے 40 سال میں اپنا يہ حشر کر ليا ہے جسے ہم خود ہی کوس بھی رہے ہيں

ہم بجائے خود اُوپر چڑھنے کے دوسرے ہموطن کو نيچے گِرا کر سمجھتے ہيں کہ ہم اُونچے ہو گئے ہيں ۔ يہ تنزل ہے ترقی نہيں

ہميں باہمی گريبان پکڑنا اور باہمی تفگ بازی چھوڑ کر محنت سے صرف اپنے کی بجائے اپنی آنے والی نسلوں يعنی اپنی قوم اور اپنے مُلک پاکستان کيلئے خلوصِ نيت سے محنت کرنا ہو گی

ورنہ اگر ہمارے لچھن يوں ہی رہے تو ہم پر آج سے بھی زيادہ بُرا وقت آ سکتا ہے

ہر حال ميں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہيئے اور ديانتداری سے محنت کرنا چاہيئے ۔ يہی ترقی کی مشعلِ راہ ہے

امريکا خود اپنا دُشمن ہے

یہ سوال اب زبان زد عام ہے کہ اگر پاکستان نیوی کی طرف سے بین الاقوامی سمندری حدود میں کسی تجارتی یا امدادی بحری جہاز پر غلطی سے حملہ کردیا جاتا اور حملے میں دو تین مغربی باشندے مارے جاتے تو امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پاکستان کا کیا حشر کرتے؟

بدھ کی شب سینیٹر چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے پاکستان میں چین کے سفیر مسٹر لو لاؤ ہوئی کے اعزاز میں الوداعی عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں سفارت کاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ پاکستانی سیاستدان اور صحافی مغربی سفارتکاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُن سے پوچھ رہے تھے کہ ” 31مئی کو فریڈم فلوٹیلا نامی بحری جہاز پر حملہ کرنے والے فوجیوں کا تعلق اسرائیل کی بجائے پاکستان ، ایران یا ترکی کے ساتھ ہوتا تو کیا مغربی ممالک کی حکومتیں صرف ہلکے پھلکے مذمتی بیانات تک محدود رہتیں یا اقوام متحدہ کے ذریعہ ذمہ دار ملک پر حملے کی تیاری مکمل کرچکی ہوتیں؟”

اس عشائیے میں موجود فلسطین کے سفیر جناب ابو شناب بار بار مجھے کہہ رہے تھے کہ میں مغربی سفارت کاروں کو وہ آنکھوں دیکھے واقعات بتاؤں جب اسرائیلی نیوی نے غزہ کے ساحل پر فلسطینی مچھیروں کی کشتیوں پر بمباری کی۔ فلسطینی سفیر کے ا صرار پر میں نے کئی سفارت کاروں کو بتایا کہ پچھلے سال جنوری میں جب اسرائیل نے غزہ پر حملے کئے تو میں مصر کے راستے سے غزہ میں داخل %D