Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

اللہ کا دیا تحفہ

ہمارا ملک پاکستان بلا شُبہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا دیا ایک تحفہ ہے ۔ اس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ برف پوش پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ ۔ چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفح ۔ زرخیز میدان اور صحرا ۔ جھیلیں ۔ دریا ۔ نہریں اور سمندر سب کچھ موجود ہے ۔ ہر قسم کے پھل ۔ ہر قسم کی سبزیاں ۔ ہر قسم کا اناج کیا نہیں دیا اللہ نے ہم کو ۔ صرف محنت ہمیں کرنا ہے اور اس کے جنّت نظیر مناظر کو بھرپور بنانا ہےChilasHandrap Ghizer ValleyHunza and Nager Valley
Apples - Hunza ValleyHunza Ulter1, Ultar2 as seen from a height of 4000 metersKaghan ValleyLaspur Upper ChitralNaran547169_343282605741138_413812059_nimage002image004image009KimariRestaurant Do Darya Karachi

ایک مرد کے سنہری الفاظ

اگر آپ دنیا کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو جوانی میں کیجئے ۔ شادی کے بعد ٹی وی چینل بھی تبدیل نہیں کر سکیں گے

بیوی کو سُننا کسی ویب سائٹ کے قواعد و ضوابط پڑھنے کی طرح ہے ۔ سمجھ کچھ نہیں آتا لیکن پھر بھی آپ مان لیتے ہیں

دنیا میں صرف شطرنج ایک ایسا کھیل ہے جو خاوند کی حیثیت کو واضح کرتا ہے
بیچارہ بادشاہ ایک وقت صرف ایک قدم چل سکتا ہے جبکہ ملکہ عالیہ جو چاہیں کر سکتی ہیں

سب مرد بہادر ہوتے ہیں ۔ ڈراؤنی فلموں سے نہیں ڈرتے مگر بیوی کی 4 مِسڈ کالز سے ۔ ۔ ۔

ماں

ماں وہ ہستی ہے کہ اس کے متعلق کتنا بھی لکھا جائے پھر بھی کچھ کمی رہ جاتی ہے ۔ میری والدہ 36 سال قبل چار پانچ دن علیل رہنے کے بعد 29 جون کو اس دارِ فانی سے رُخصت ہوئی تھیں ۔ میں نے اُن کی یاد میں ”میری امّی میری جنت“ اور ”ماں کے نام“ لکھے تھے جو اِن عنوانات پر یکے بعد دیگرے کلِک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں
ماں کے متعلق کچھ دوسرے لوگوں کے خیالات
ایک
جنت نظیر ہے میری ماں
رحمت کی تصویر ہے میری ماں
میں ایک خواب ہوں زندگی کا
جس کی تعبیر ہے میری ماں
زندگی کے خطرناک راستوں میں
مشعلِ راہ ہے میری ماں
میرے ہر غم ۔ ہر درد میں
ایک نیا جوش ۔ ولولہ ہے مری ماں
میری ہر ناکامی وابستہ مجھ سے ہے
میری جیت و کامیابی کا راز ہے میری ماں
چھپا لیتی ہے زخم کو وہ مرہم کی طرح
میرے ہر درد ہر غم کی دوا ہے میری ماں
دنیا میں نہیں کوئی نعم البدل اس کا
ممتا میں ہے مکمل ۔ فقط میری ماں
دو
میری پیاری ماں تیری دید چاہیئے
تیرے آنچل سے ٹھنڈی ہوا چاہیئے
لوری گا گا کے مجھ کو سلاتی تھی تُو
مسکرا کر سویرے جگاتی ہے تُو
مجھ کو اس کے سوا اور کیا چاہیئے
تیری ممتا کے سائے میں پھُولُوں پھَلُوں
تمام عمر تیری انگلی پکڑ کر بڑھتا چلوں
تیری خدمت سے دنیا میں عظمت میری
تین
اک مدّت تک جاگتی رہی ماں تابش
میں نے ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
چار
پھولوں کی خوشبو ۔ بہاروں کی برسات ماں ہی تَو ہے
مہک رہی ہے جس سے میری کائنات ماں ہی تَو ہے
سچی ہیں جس کی محبتیں سچی ہیں جس کی چاہتیں
سچے ہیں جس کے پیار کے جذبات ۔ ماں ہی تَو ہے
پانچ
موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں
زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں
کب ضرورت ہو میری بچے کو ۔ اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں
بھوک سے مجبور ہو کر مہماں کے سامنے
مانگتے ہیں بچے جب روٹی تو شرماتی ہے ماں
جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسوؤں کے ساز پر بچے کو بہلاتی ہے ماں
لوٹ کر واپس سفر سے جب بھی گھر آتے ہیں ہم
ڈال کر بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں
ایسا لگتا ہے جیسے آگئے فردوس میں
کھینچ کر بانہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں
دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب کبھی
ریت پر مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں
شکر ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دئے جاتی ہے ماں

رائے کا اختیار

کسی کو آپ کے متعلق رائے قائم کرنے کا اختیار نہیں
کیونکہ در حقیقت کوئی نہیں جانتا کہ آپ کِن حالات سے گذرے ہیں
اُنہوں نے آپ کے متعلق قِصے سُنے ہوں گے
لیکن
وہ اُس احساس کو نہیں پہنچ سکتے جو آپ کے دِل نے محسوس کیا

”بھائیجان کا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ اور سیاست

سیاست آجکل نہ صرف اَوڑھنا بچھونا بلکہ کھانا پینا بھی بن چُکی ہے ۔ لیکن سیاست کی بات بعد میں ۔ پہلے بات ”بھائیجان کا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ کی
ہم نے آٹھویں جماعت (1950ء تا 1951ء) میں محاورے پڑھے تھے ۔ ایک محاوہ تھا ” اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم “۔ آٹھویں جماعت ہی میں رسالہ تعلیم و تربیت میں ایک کارٹون دیکھا تھا کہ میز پر حلوے کی بھری پلیٹ پڑی ہے ۔ بچہ کہتا ہے ” امّی اگر یہ حلوہ میرا ہے تو اتنا کم اور اگر بھائیجان کا ہے تو اِتنا زیادہ“۔

کارٹون کو تو ہم نے مذاق سمجھ کر اِدھر اُدھر کر دیا تھا لیکن محاورہ نہ ہمارے دل میں گھُس سکا تھا نہ دماغ میں بیٹھا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ” اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم “ ہو
خیر ۔ وقت گذرتا گیا ۔ ہم لڑکے سے جوان بنے ۔ تعلیم سے فارغ ہو کر عملی زندگی میں کود گئے ۔ نان و نفقہ کی فِکر نے بہت کچھ بھُلا دیا مگر نہ یہ کارٹون بھُولا اور نہ محاورے نے ہماری جان چھوڑی ۔ عملی زندگی کے چند سالوں نے ہمارا دل صاف کرنا شروع کیا اور دماغ بھی محاورے کیلئے دوستانہ ہونے لگا ۔ بال بچے دار بننے تک ہمیں کارٹون اور محاوہ دونوں کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگی
آج ہم بڑے طمطراق سے کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ہی عقل و فہم اور باریک بینی کا عمدہ نمونہ ہیں

اب آتے ہیں سیاست کی طرف ۔ میں سیاست کا مطلب بتانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ بڑے بڑے سمجھدار اور بڑے بڑے اپنے آپ کو دیانتدار کہنے والے سیاستدانوں پر آپ زیادہ نہیں بس تھوڑا سا غور فرماتے جایئے

میں گیارہویں یا بارہویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ والد صاحب کے ساتھ کسی عزیزکے ہاں گیا ۔ وہاں کسی خاندانی مسئلہ پر بات شروع ہو گئی ۔ اچانک ایک فقرے نے مجھے چَونکا دیا ”بھائی جی ۔ وہ بڑا سیاستدان ہے“۔

اُس زمانہ میں بزرگوں کی باتوں میں چھوٹے نہیں بولا کرتے تھے ۔ اسلئے خاموش رہا ۔ کچھ عرصہ بعد اُن بزرگ کے گھر جانا ہوا جنہوں نے یہ فقرہ کہا تھا ۔ عرض کی ”فلاں دن آپ نے کہا تھا ۔ وہ بڑا سیاستدان ہے ۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟“
مُسکرا کر بولے ”فی الحال تم اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دو“۔

ہم ٹھہرے پیدائشی تابعدار ۔ خاموش ہو گئے ۔ لیکن اپنے دماغ میں ایک کِیڑا ہے جو اُس وقت تک کاٹتا رہتا ہے جب تک اُسے سوال کا جواب نہ مل جائے ۔ سال گزرتے گئے ۔ ہم انجنیئر بن گئے ۔ لاہور سے کامیاب ہونے کی سَنَد لے کر پَلٹے تو والد صاحب نے کہا ”فلاں تمیں یاد کر رہے تھے ۔ جا کر اپنی کامیابی کا بتا کر دعائیں لے آؤ“۔
ہم نے جا کر اپنے انجنیئر بننے کا بتایا ۔ شاباش کے بعد دعائیں سمیٹیں ۔ خاطر مدارات بھی کرائی ۔ مگر ہمارے دماغ کے کیڑے کو چین نہ آیا ۔ سو عرض کی ” آپ نے اتنے سال قبل فرمایا تھا کہ ”فلاں بڑا سیاستدان ہے ۔ اب عملی زندگی میں داخل ہونے والا ہوں ۔ مہربانی کر کے اس کا مطلب بتا دیجئے“۔
بزرگ نے مُسکرا کر میری طرف دیکھا اور گویا ہوئے ” اِس کا مطلب ہے کہ وہ اتنا ہوشیار ہے کہ پکڑائی نہیں دیتا “۔
میں نے وضاحت چاہی ”اچھائی میں “۔
فرمایا ” ہر لحاظ سے“۔

تو جناب ۔ آپ سیاستدانوں کی ہوشیاریوں اور ہیرا پھیریوں پر پریشان کیوں ہوتے ہیں کہ وہ پکڑے کیوں نہیں جاتے ؟
اگر وہ پکڑے جائیں تو پھر وہ سیاستدان تو نہ ہوئے

اب آپ کہیں گے کہ میں نے آپ کا وقت ” اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم “ اور ”بھائیجان کا تو ۔ ۔ ۔ ۔“ پر کیوں ضائع کیا

محترمات و محترمان ۔ ٹھنڈے دِل سے غور فرمایئے
کیا ایسا نہیں ہوتا کہ جب کسی سیاستدان کو موقع ملتا ہے تو خوب ہاتھ رنگتا ہے لیکن جب اپوزیشن میں ہوتا ہے تو دیانتدار بن کر حکمرانوں کے خلاف سڑکوں اور چوراہوں پر اُدھم مچاتا ہے
اِسے کہتے ہیں ”اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم“۔

اب پانامہ لِیکس کو دیکھ لیں
وزیرِ اعظم کے بچوں کے حوالے سے استعفٰے مانگنے والوں کی اپنی جماعتوں کے سربراہوں کی آف شوئر کمپنیاں ہیں جنہیں وہ اپنا حق سمجھتے ہیں
اِسے کہتے ہیں ”اگر یہ حلوہ میرے لئے ہے تو اِتنا کم اور بھائیجان کیلئے ہے تو اِتنا زیادہ“۔

یہ مت خیال کیجئے کہ ایسا صرف ہمارے مُلک پاکستان میں ہوتا ہے ۔ ساری دُنیا کے تمام جمہوری مُلکوں میں یہی کچھ ہوتا ہے ۔ جمہوریت کتابوں میں تو لکھی ہے ”عوام کی حکمرانی ۔ عوام کے ذریعہ ۔ عوام کیلئے ۔ Government of the people, by the people, for the people“۔ مگر عملی طور پر وہی ہے جو آپ اور میں دیکھ رہے ہیں یعنی مالداروں کی حکمرانی ۔ عوام پر ۔ عوام کی مدد سے
امریکہ کی انسان دوستی کا بڑا ڈھنڈورا پِیٹا جاتا ہے ۔ پچھلی کم از کم 5 دہائیوں میں کوئی ایک صدر یا وزیر امریکہ کا بتا دیجئے جو عوام میں سے تھا ۔ سب ہی ایک سے ایک بڑھ کے دولتمند ہو گا اور عوام کو لُوٹے بغیر دولت اکٹھی نہیں ہو سکتی
امریکی حکمرانوں نے دولت اکٹھی کرنے کے اپنے ذرائع بڑھانے کی خاطر وسطی ایشاء کے تیل پیدا کرنے والے مُلکوں پر قبضہ کیا جس کیلئے عوام سے اکٹھا کیا ہوا ٹیکس کا پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اور عوام کو عین جمہوری طریقے سے بیوقوف بنایا جا رہا ہے کہ سب کچھ عوام کی حفاظت کیلئے کیا جا رہا ہے