Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

انسان کے 30 پٹھوں کی ورزش

ہمارے ہاتھ کے ایک مربع اِنچ میں 9 فٹ خون کی نالیاں ۔ اعصاب کے 9000 سِرے ۔ 600 درد محسوس کرنے والے ۔ 36 تپش محسوس کرنے والے اور 75 دباؤ محسوس کرنے والے ہیں
ہمارے جسم میں 600 سے زائد پَٹھے ہیں

جب ہم مُسکراتے ہیں تو کم از کم 30 پٹھوں کی ورزش ہو جاتی ہے
پس (اے انسانو اور جِنو) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟

کیا پوچھیں گے ؟

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ نہیں پوچھیں گے کہ
” کتنا بچا کر جمع کیا تھا ؟ “
” کیا خواب دیکھے تھے ؟ “
” تمہارے منصوبے کیا تھے ؟ “
” تم کیا کہتے رہے تھے ؟“

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ پوچھیں گے کہ
” تمہارا دوسروں سے سلوک کیسا تھا ؟ “
” کیا تم نے حقدار کو اُس کا حق پہنچایا ؟ “
” کیا لوگ تمہاری زبان سے محفوظ تھے ؟ “
” کیا پڑوسی تم سے خوش تھے ؟“

آدمی کا کردار اور اللہ کی نعمت

سورت 17 ۔ بنی اسراءیل (یا الاِسرآء) ۔ آیت 36 ۔ اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پُرس ہوگی ‏

ہر صحتمند آدمی کا جسم روزانہ خُون کے ایک کھرب (100000000000) سُرخ خُلیئے پیدا کرتا ہے جب ہم کسی چیز کو چھُوتے ہیں تو 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پیغام دماغ کو جاتا ہے
پس (اے انسانو اور جِنو) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟

کیا یاد کرا دیا

یکم جون 2017ء کو جوائنٹ اِنوَسٹی گیشن ٹیم کو اپنا بیان قلمبند کرانے کے بعد حسین نواز نے میڈیا کے سامنے ایک ایسی بات کہہ دی جو اُس کی پاکستان کی تاریخ سے واقفیت کا مظہر تھی ۔ حسین نواز نے کہا تھا ”حسین شہید سہروردی صاحب کے بعد یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہوتا آ رہا ہے

میں نے 24 نومبر 2011ء کو ”بھولے بسرے واقعات ۔ پہلا سوال“عنوان کے تحت ایک تحریر لکھی تھی اُس میں سے ایک مختصر اقتباس نقل کر رہا ہوں

آپ کا پہلا سوال
جہاں تک ميرا عِلم اور ياد داشت کام کرتی ہے پاکستان بننے کے فوری بعد مشرقی پاکستان ميں کسی مطالبے نے جنم نہيں ليا تھا ۔ اگر ايسا ہوتا تو حسين شہيد سہروردی صاحب جو خالص بنگالی تھے پاکستان کا پہلا آئين منظور ہونے کے بعد ستمبر 1956ء ميں پاکستان کے وزيرِ اعظم نہ بنتے
خيال رہے کہ حسين شہيد سہروردی صاحب اُس عوامی ليگ کے صدر تھے جس ميں شيخ مجيب الرحمٰن بھی تھا
بنگاليوں کا دُشمن دراصل بنگالی بيوروکريٹ سکندر مرزا تھا جو غلام محمد کا منظورِ نظر ہونے کی وجہ سے بیوروکریٹ سے حکمران بن بیٹھا تھا
حسين شہيد سہروردی صاحب نے مشرقی پاکستان (جو کراچی کے سيٹھوں کے زيرِ اثر تھا) کو اس کا مالی حق دينے کی کوشش کی جسے روکنے کے لئے سکندر مرزا (جو اُس وقت صدر تھا) نے حسين شہيد سہروردی صاحب پر اِتنا زیادہ دباؤ ڈالا کہ اس ڈر سے کہ اُنہيں برخاست ہی نہ کر ديا جائے حسين شہيد سہروردی صاحب اکتوبر 1957ء ميں مستعفی ہو گئے تھے

يہ تھا وہ وقت جب مشرقی پاکستان ميں نفرت کی بنياد رکھی گئی

اس سے قبل محمد علی بوگرہ صاحب جو بنگالی تھے 1953ء ميں وزيرِ اعظم بنے تھے اور انہيں بھی سکندر مرزا نے 1955ء ميں برخواست کيا تھا
محمد علی بوگرہ صاحب سے قبل 1953ء ميں خواجہ ناظم الدين صاحب کی کابينہ کو اور 1954ء ميں پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی کو غلام محمد نے برخواست کر کے پاکستان کی تباہی کی بنياد رکھی تھی

مشرقی پاکستان ميں بنگالی بھائيوں کے دُشمن وہی تھے جو مغربی پاکستان ميں پنجابيوں ۔ سندھيوں ۔ پٹھانوں اور بلوچوں کے دشمن رہے ہيں يعنی بيوروکريٹ خواہ وہ سادہ لباس ميں ہوں يا وردی ميں

انسانی حِس اور دماغ

انسان کی چھونے کی حِس دنیا کی حساس ترین چیز سے زیادہ حساس ہے
انسان کا دماغ دنیا کے سب سے زیادہ پیچیدہ اور طاقتور کمپیوٹر سے زیادہ پیچیدہ ہے انسان کے دماغ میں ایک کھرب (100000000000) اعصاب کے خُلیئے ہیں
پس (اے انسانو اور جِنو) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟

آواز جو دُنیا میں ہر وقت گونجتی ہے

کیا آپ ایسی آواز جانتے ہیں جو خواہ گرمی ہو سردی ہو بارش ہو طوفان ہو دُنیا میں ہر وقت گونجتی رہتی ہے ۔ اور اِسے سُن کر کئی لوگ متحرک ہو جاتے ہیں ۔ یہ عمل ایک ہفتہ یا ایک مہینہ نہیں سارا سال جاری رہتا ہے

جناب یہ اذان کی آواز ہے فرض کریں کہ انڈونیشیا دنیا کے ایک سِرے پر ہے ۔ جب انڈونیشیا میں فجر کی اذان ہوتی ہے تو سورج انڈونیشیا سے مشرق کی طرف ڈیڑھ گھنٹہ پیچھے ہوتا ہے ۔ سورج کے آگے آگے اذان سفر کرتی ہوئی ملیشیا ۔ بنگلہ دیش ۔ بھارت ۔ پاکستان ۔ افغانستان ۔ ایران ۔ کویت ۔ سعودی عرب ۔ مصر ۔ لیبیا ۔ تیونس ۔ مراکش پہنچتی ہے ۔ جب مراکش میں فجر کی اذان ہوتی ہے تو انڈونیشیا میں ظہر کی اذان ہو چکی ہوتی ہے

مراکش سے چلتی ہوئی فجر کی اذان جب نیویارک پہنچتی ہے تو انڈونیشیا میں عصر کی اذان ہو رہی ہوتی ہے اور انڈونیشیا کے مغرب کے کئی ممالک مں ظہر کی اذان ہو رہی ہوتی ہے ۔ جب فجر کی اذان کیلیفورنیا پہنچتی ہے تو انڈونیشیا میں مغرب کی اذان ہو چکی ہوتی ہے اور انڈونیشیا اور کیلیفورنیا کے درمیان کچھ ممالک میں عصر اور کچھ میں ظہر کی اذان ہو رہی ہوتی ہے

اس سے پہلے کہ فجر کی اذان ہوائی پہنچے انڈونیشیا میں عشاء کی اذان کے بعد نماز پڑھ کر لوگ سونے کی تیاری میں ہوتے ہیں اور دنیا کے کچھ ممالک میں مغرب کچھ میں عصر اور کچھ میں ظہر کی اذان ہو رہی ہوتی ہے

ہوائی سے آسٹریلیا ۔ جاپان ۔ فلیپائین سے ہوتے ہوئے اذان انڈونیشیا پہنچتی ہے تو اگلی صبح کی اذان شروع ہو جاتی ہے

اسی طرح پانچوں وقت کی اذانیں دُنیا کے گرد 24 گھنٹے گھومتی رہتی ہیں ۔ اور ہر لمحے میں کُرّہ ارض پر درجنوں اذانیں گونج رہی ہوتی ہیں

سُبحان اللہ و بحمدہ

رمضان کریم

اللہ الرحمٰن الرحيم میرے سمیت سب کو اپنی خوشنودی کے مطابق رمضان المبارک کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے جو صرف نماز اور تلاوت نہیں بلکہ دراصل غُصہ سے بچنے ۔حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت ڈالنے کی سالانہ مَشَق ہے
اللہ ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے احتساب کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں نیک عمل ۔ حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت سے نوازے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم ۔ سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيات 183 تا 185
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ ۔ چند روز ہیں گنتی کے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دِنوں سے اور جن کو طاقت نہیں ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو ۔ ‏ مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اسکے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیئے اور دِنوں سے اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم احسان مانو