Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

قابلِ رحم ہے وہ قوم

خلیل جِبران سے متاءثر ہو کر my-id-pak
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو رسومات کی پابند ہو اور دین سے بیگانہ
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو کپڑا غیر مُلکی پہنے اور کھانے غیر مُلکی کھائے
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو دوسروں پر الزامات لگانے والے کو ہیرو جانے
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کا سیاستدان چالاک اور آرٹ لوگوں کے تضحیکی کارٹون بنانا ہو
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے راہنما تاریخ سے بے بہرہ ہوں
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو گروہوں میں بٹی ہو
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو اپنی تاریخ بھول جاتی ہو اور قصے کہانیاں یاد رکھتی ہو

پیغمبر اور رشتہ دار

سورت 33 الاحزاب ۔ آیت 6 ۔
پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں اور رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بنسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدار ۔ (ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو یہ حکم (الٰہی) میں لکھا ہے

لاہور شہر تاریخی تناظر میں

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو پاکستان کا دِل بھی کہا جاتا ہے ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لاہور کا فاصلہ براستہ موٹر وے 382 کلو میٹر اور براستہ شاہراہ شیر شاہ سُوری 367 کلو میٹر ہے ۔ شاہراہ شیر شاہ سُوری جس کی لمبائی 2500 کلو میٹر سے متجاوز ہے 6 دہائیوں سے زائد قبل ہندوستان کے ایک مسلمان حُکمران شیر شاہ سُوری نے بنوائی تھی ۔ لاہور کی ایک جھلک
قدیم لاہور کے دروازے جن میں سے کچھ اب موجود نہیں
اکبری دروازہبھاٹی دروازہدہلی دروازہروشنائی دروازہشاہ عالمی دروازہشیراں والا دروازہلاہوری دروازہمستی دروازہموچی دروازہموری دروازہٹکسالی دروازہیکی دروازہ
بادشاہی مسجد جسے مُغلیہ خاندان کے بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے 1672ء سے 1674ء لگ بھگ 3 سال کی مدت میں تعمیر کروایا ۔ یہ مسجد 1986ء تک دنیا کی سب سے بڑی مسجد تھی ۔ پہلی تصویر کے پیش منظر میں مینارِ پاکستان ہے جو 1940ء میں اس مقام پر منظور کی جانے والی قرار دادِ پاکستان کی یاد میں پاکستان بننے کے بعد تعمیر کیا گیا
Minar i Pakistan and Badshahi MasjidBadshahi Masjid 1Badshahi Masjid 2

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.

.
زیب النساء المعروف دائی انگا کا مقبرہ جو مُغلیہ شہنشاہ شہاب الدین محمد خُرّم جو شاہجہاں مشہور ہوئے کے گھر میں دائی تھیں اور مغلیہ شاہی خاندان میں اس کی بہت عزت تھی
Dai Anga
مسجد وزیر خان جو دہلی دروازے کے پہلو میں ہے 1634ء سے 1641ء کے درمیان مغل بادشاہ شاہجہان نے تعمیر کروائی
Masjid Wazir Khan
شالامار باغ جسے شالیمار باغ بھی کہتے ہیں 1937ء سے 1941ء تک 4 سالوں میں تیار ہوا ۔ اس کی تعمیر کی نگرانی مغل بادشاہ شاہجہاں کے مصاحب میں سے ایک نے خلیل اللہ خان نے کی ۔ اس کی بناوٹ کا ڈیزائن انجنیئر علی مردان خان نے تیار کیا تھا
Shalimar
لاہور کے 2 پرانی طرز کے مکان
An Old House in Lahore
Gawalmandi Lahore
بالخصوص خواتین کیلئے ایک پرانا شاپِنگ سینٹر جو آج بھی مقبول ہے
13049995
Anarkali bazar
DSC00622
Lahore - Anarkali Market - 003
55a810abdd43b
218447xcitefun-lahore-anarkali-bazaar-2-small1
men-in-anarkali
بازار کا ایک بہت پرانا حصہ
Old-Anarkali-Lahore-Bomb-Blast
قدیم رہائسی علاقہ جو آج بھی موجود ہے
Ancient Buildings
لاہور کی جدید تعمیرات
میٹرو بس
Metro Bus Lahore 1.phpMetro-Bus-Lahore 2
مینارِ پاکستان انٹر چینج
Minar-i-Pakistan Interchange
کچھ دیگر انٹر چینج

DCIM100MEDIA

DCIM100MEDIA

Lahore-Ring-Road-10

۔ ہماری ثقافت کیا ہے ؟What is our Culture?

آخر ہماری ثقافت ہے کیا ؟ اور کہیں ہے بھی کہ نہیں ؟ یہ ثقافت یا کلچر ہوتی کیا بلا ہے ؟
چھ دہائیاں قبل جب میں انٹرمیڈیٹ میں پڑھتا تھا تو میرا ثقافت کے ساتھ پہلا تعارف کچھ اِس طرح ہوا
اپنے ایک ہم جماعت کے گھر گیا وہ نہ ملا ۔ دوسرے دن اُس نے آ کر معذرت کی اور بتایا کہ ”رشیّن کلچرل ٹروپے)Russian Cultural Troupe)نے پرفارمینس(Performance) دینا تھی ۔ میں دیکھنے چلا گیا“۔ میں نے پوچھا کہ ”پھر کیا دیکھا ؟“ کہنے لگا “اہُوں کلچر کیا تھا نیم عریاں طوائفوں کا ناچ تھا “۔

اب اپنے ملک کے چند تجربات جو روز مرّا کا معمول بن چکے ہیں
ميرے دفتر کے 3 پڑھے لکھے ساتھی آفيسروں نے چھٹی کے دن سير کا پروگرام بنايا اور مجھے بھی مدعُو کيا ۔ صبح 8 بجے ايک صاحب کے گھر پہنچ کر وہاں سے روانگی مقرر ہوئی ۔ وہ تينوں قريب قريب رہتے تھے ۔ ميرا گھر اُن سے 40 کلوميٹر دور تھا ۔ ميں مقررہ مقام پر 5 منٹ کم 8 بجے پہنچ گيا تو موصوف سوئے ہوئے تھے ۔ دوسرے دونوں کے گھر گيا تو اُنہيں بھی سويا پايا ۔ مجھے ايک گھنٹہ انتظار کرانے کے بعد اُنہوں نے 9 بجے سير کا پروگرام منسوخ کر ديا اور ميں اپنا سا مُنہ لے کر 3 گھنٹے ضائع اور 80 کلوميٹر کا سفر کر کے واپس گھر پہنچ گیا

کچھ سال قبل ميں لاہور گيا ہوا تھا اور قيام گلبرگ ميں تھا ۔ رات کو بستر پر دراز ہوا تو اُونچی آواز ميں ڈھما ڈھا موسيقی ساتھ بے تحاشہ شور ۔ سونا تو کُجا دماغ پھَٹنے لگا ۔ اِنتہائی کَرب ميں رات گذری ۔ صبح اپنے مَيزبان سے ذِکر کيا تو بيزاری سے بولے ”ہماری قوم پاگل ہو گئی ہے ۔ يہ بسنت منانے کا نيا انداز ہے“۔
محلہ میں کوئی شیرخوار بچہ ۔ عمر رسیدہ یا مریض پریشان ہوتا ہے تو اُن کی بلا سے

آدھی رات کو سڑک پر کار سے سکرِیچیں(Screeches) ماری جا تی ہیں ۔ اُن کی بلا سے کہ سڑک کے ارد گرد گھروں میں رہنے والے بِلبلا کر نیند سے اُٹھ جائیں ۔ ہمارے گھر کے پيچھے والی سڑک پر رات گيارہ بارہ بجے کے درمیان کسی کی ترقی يافتہ اولاد روزانہ اپنی اِسی مہارت کا مظاہرہ کرتی تھی ۔ اللہ نے ہم پر بڑا کرم کيا کہ وہ خاندان يہاں سے کُوچ کر گيا

ایک جگہ بھِیڑ اور شور و غُوغا سے متوجہ ہوۓ پتہ چلا کہ کوئی گاڑی ایک دس بارہ سالہ بچّے کو ٹکر مار کر چلی گئی ہے ۔ بچہ زخمی ہے ۔ کوئی حکومت کو کوس رہا ہے کوئی گاڑی والے کو اور کوئی نظام کو مگر بچّے کو اُٹھا کر ہسپتال لیجانے کے لئے کوئی تیار نہیں ۔ يہ کام اللہ تعالٰی نے شاید مجھ سے اور ميرے جيسے ايک اور غير ترقی يافتہ (؟) سے لينا تھا

اسلام آباد میں جناح سُپر مارکیٹ کار پارک کر کے چلا ہی تھا کہ ایک خوش پوش جوان نےمیری کار کے پیچھے اپنی کار پارک کی اور چل دیا ۔ ان سے مؤدبانہ عرض کیا ”جناب آپ نے میری گاڑی بلاک (block) کر دی ہے ۔ پارکنگ میں بہت جگہ ہے وہاں پارک کر دیجئے“۔ وہ صاحب بغیر توجہ دیئے چل ديئے ۔ ساتھ چلتے ہوئے مزید دو بار اپنی درخواست دہرائی مگر اُن پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ آخر اُن کا بازو پکڑ کر کھینچا اور غُصہ دار آواز میں کہا “گاڑی ہٹائیے اپنی وہاں سے”۔ تو وہ صاحب اپنی ساتھی (جو شاید بیوی تھی) کو وہیں ٹھہرنے کا کہہ کر مُڑے اور اپنی کار ہٹائی

پھَل لینے گیا ۔ دُکاندار سے کہا ”بھائی داغدار نہ دینا بڑی مہربانی ہو گی“ ۔ دُکاندار بولا ”جناب ہماری ایسی عادت نہیں“ ۔ اس نے بڑی احتیاط سے چُن چُن کے شاپنگ بیگ میں ڈال کر پھَل تول دیا ۔ گھر آ کر دیکھا تو 10 فيصد داغدار تھے ۔ دراصل اُس نے صحیح کہا تھا ”ہماری ایسی عادت نہیں“ یعنی اچھا دینے کی

3 دہائیاں قبل جب میں جنرل منیجر (گریڈ 20) تھا ہسپتال میں دوائی لینے کے لئے ڈسپنسری کے سامنے قطار میں کھڑا تھا چپڑاسی سے آفسر تک سب ایک ہی قطار میں کھڑے تھے ۔ ایک صاحب (گریڈ 19) آئے اور سیدھے کھِڑکی پر جا کر چِلّائے ”اوئے ۔ یہ دوائیاں دو“۔ ڈسپنسر نے سب سے پہلے اسے دوائیاں دے دیں

ایک آفیسر کسی غیر ملک کا دورہ کر کے آئے ۔ میں نے پوچھا کیسا ملک ہے ؟ بولے ” کچھ نہ پوچھیئے ۔ وہاں تو روٹی لینے کے لئے لوگوں کی قطار لگی ہوتی ہے“ ۔ کہہ تو وہ صحیح رہے تھے مگر غلط پرائے میں ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہاں بس پر چڑھنے کے لئے بھی قطار لگتی ہے ۔ ہسپتال میں دوائی لینے کے لئے بھی ۔ کیونکہ وہ لوگ ایک دوسرے کے حق کا احترام کرتے تھے

والدین اور اساتذہ نے ہمیں تربیت دی کہ جب کسی سے ملاقات ہو جان پہچان نہ بھی ہو تو سلام کرو ۔ کبھی کسی کو سلام کیا اور اس نے بہت اچھا برتاؤ کیا اور کبھی صاحب بہادر ہميں حقير جان کر اکڑ گئے

اسلام آباد ميں کار پر جا رہا تھا ۔ ايک چوک پر ميں داہنی لين (lane) ميں تھا جو داہنی طرف مُڑنے يا سيدھا جانے کيلئے تھی ۔ ايک لين ميرے بائيں جانب تھی جو بائيں طرف مُڑنے يا سيدھا جانے کيلئے تھی ۔ بتی سبز ہونے پر چل پڑے ۔ ميں چوک يا چوراہا يا چورنگی ميں داخل ہوا ہی چاہتا تھا کہ ايک کار ميری بائيں جانب سے بڑی تيزی سے میری کار کا اگلا بَمپَر بھی چیرتے ہوئے ميرے سامنے سے گُذر کر داہنی طرف کو گئی

بازار میں آپ روزانہ دیکھتے ہیں کہ بلا توقف نقلی چیز اصل کے بھاؤ بیچی جا رہی ہے

ہم ہیں تو مسلمان مگر ہم نے ناچ گانا ۔ ڈھول ڈھمکّا اور نیو اِیئر نائٹ اپنا لی ہے ۔ بسنت پر پتنگ بازی کے نام پر راتوں کو ہُلڑبازی ۔ اُونچی آواز میں موسیقی ۔ شراب نوشی ۔ طوائفوں کا ناچ غرضیکہ ہر قسم کی بد تمیزی جس میں لڑکیاں يا عورتيں بھی لڑکوں کے شانہ بشانہ ہوتی ہیں

کیا یہی ہے ہماری ثقافت یا کلچر ؟
کیا پاکستان اِنہی کاموں کے لئے حاصل کيا گيا تھا ؟
کیا یہی ترقی کی نشانیاں ہیں ؟
نہیں بالکل بھی نہیں ۔
اللہ ہمیں صحیح راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما ۔ آمین
ثقافت کی حقیقت جاننے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

اِنسانی عمل

ہم انسان ہیں
ہم ٹُوٹ پھُوٹ کا شکار ہوتے ہیں
لیکن اپنی زندگی دُکھ درد کے حوالے کرنا انسانیت کا تقاضہ نہیں
صبح سویرے اُٹھیئے
اللہ کے آگے جھُکنے کے بعد اپنی مرضی سے اپنی زندگی سوارنے میں لگ جایئے

سیاستدان اور ذہین لڑکی

ہوائی سفر کے دوران ایک سیاستدان اور ایک کم سِن لڑکی ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ۔ پرواز شروع ہوئی تو سیاستدان لڑکی سے مخاطب ہوا ”بات چیت سے آسانی سے کٹ جاتا ہے ۔ کیا خیال ہے ؟“
لڑکی جس نے پڑھنے کیلئے کتاب کھولی ہی تھی بولی ”آپ کس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں ؟“
سیاستدان نے مُسکراتے ہوئے کہا ”کوئی خاص نہیں ۔ گلوبل وارمِنگ یا تیز برائڈ بینڈ یا مہاجرین کا مسئلہ ۔ کیا خیال ہے ؟“
لڑکی بولی ”ٹھیک ہے ۔ آپ کو اِن میں دِلچسپی ہے لیکن پہلے میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں ۔ کیا وجہ ہے کہ ہرن ۔ گائے اور گھوڑا سب گھاس کھاتے ہیں لیکن اُن کے فُضلے بالکل مُختلِف ہوتے ہیں ؟“
سیاستدان کم سِن لڑکی کے سوال پر حیران ہوتے ہوئے بولا ” میں کچھ نہیں کہہ سکتا“۔
لڑکی بولی ” معمولی سی چیز تو آپ جانتے نہیں ۔ آپ اتنے بڑے بین الاقوامی معاملات پر کیا بات کریں گے جنہوں نے بڑے بڑے مفکّروں کو پریشان کر رکھا ہے“۔
اور لڑکی اپنی کتاب کی طرف متوجہ ہو گئی

محبت ؟

محبت صرف وہ نہیں ہوتی جو لڑکے اور لڑکی کے درمیان ہو
محبت دوستوں میں بھی ہوتی ہے جو لڑکے لڑکی کی محبت سے بہتر ہوتی ہے
سچّی محبت نہ صرف حاصل کرنا مُشکل ہے
بلکہ اسے چھوڑنا بھی بہت مُشکل ہے
اور
بھُلانا ناممکن ہوتا ہے