Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

سوچنے کی بات

ایک فقیر ایک پھل والے کے پاس گیا اور کہا ” اللہ کے نام پر کچھ دے دو“۔
پھل والے نے فقیر کو گھورا اور پھر ایک گلا سڑا آم اُٹھا فقیر کی جھولی میں ڈال دیا
فقیر کچھ دیر وہیں کھڑا کچھ سوچتا رہا اور پھر 20 روپے نکال کر پھل والے کو دیئے اور کہا ”20 روپے کے آم دے دو“۔
دکاندار نے 2 بہترین آم اُٹھائے اور لفافے میں ڈال کر فقیر کو دے دیئے
فقیر نے ایک ہاتھ میں گلا سڑا آم لیا اور دوسرے ہاتھ میں بہتریں آموں والا لفافہ اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا ”دیکھ اللہ تُجھے کیا دیا اور مجھے کیا دیا “۔

رسول اکرم سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہِ و سلّم کا ارساد ہے ” تُم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنی پسندیدہ چیز اللہ کے راستے میں قربان نہ کرے“۔

سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہم لوگ اللہ کے نام پر اپنی پہترین چیز دیتے ہیں ؟

ازل سے پاکستان دُشمنی

برطانوی حکومت کی طرف سے لارڈ مؤنٹ بَیٹَن (Lord Mount Batten) برِّ صغیر ہندوستان کے وائسرائے (Viceroy) تھے ۔ کانگریس کے ہِندو رہنما جواہر لال نہرو لارڈ مؤنٹ بَیٹَن کی بیوی لیڈی اَیڈوِنا مؤنٹ بَیٹَن (Lady Edwina Mountbatten) سے گہری دوستی ہو گئی تھی ۔ اس دوستی اور ہندوستان پر قابض برطانوی حکمرانوں کی مُسلم بیزار طبعیت کے باعث1947ء میں تقسیمِ ہند کے وقت طے شدہ اصولوں کے خلاف ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا جس سے مسلمانانِ ہِند کی حق تَلفی ہوئی ۔ یہاں پر کلِک کر کے حقائق کی تفصیل پڑھیئے

ایک ہندو دانشور کا مضمون ”تقسیم کے وقت تاریخی حقائق” سے اقتباس کہ پنجاب کے مذہب کی بنیاد تھےپر تیار کردہ نقشہ کو کیسے تبدیل کیا گیا تھا ؟ پورا مضمون یہاں کلِک کر کے پڑھیئے
پنجاب میں ایک لاکھ سے زیادہ آبادی والے 7 شہر تھے ۔ لاہور 630000 ۔ امرتسر 390000 ۔ راولپنڈی ۔ ملتان ۔ سیالکوٹ ۔ لدھیانہ ۔اور جالندھر میں سے ہر ایک ک آبادی ایک اور 2 لاکھ کے درمیان تھی ۔ اِن میں سے جالندھر کے سوا باقی سب شہروں میں مسلمان بھاری اکثریت میں تھے ۔ اگر مسلمان کہلانے والے سب لوگوں کو شمار کیا جائے تو جالندھر میں مسلمان بھاری اکثریت میں تھے
مجموعی طور پر پنجاب میں ریاستوں کو بھی ملا کر مسلمان آبادی 53 فیصد تھی ۔ ہندو 30 فیصد ۔ سکھ 14اعشاریہ 6 فیصد ۔ عیسائی ایک اعشاریہ 4 فیصد ۔ باقی ایک فیصد punjab-religions-19411
پنجاب کو 5 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا تھا
1 ۔ مغربی حصہ (سبز اور گہرا سبز) جس میں مسلمان آبادی 80 فیصد یا زیادہ تھی
2 ۔ درمیانی مغربی حصہ (سیاہی مائل سبز) جس میں مسلمان آبادی 60 فیصد یا زیادہ تھی اور سکھ بڑی اقلیت تھے
3 ۔ درمیانی مشرقی حصہ (نیلا اور گہرا بڑاؤن) جس میں کسی مذہب ک واضح اکثریت نہیں تھی ۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں 1947ء میں سب سے زیادہ قتلِ عام ہوا
4 ۔ جنوب مشرقی حصہ (براؤن اور سُرخی مائل براؤن) ۔ یہ اُوپر کے نمبر 3 کے نیچے کا علاقہ ہے جس کا بڑا حصہ اب ہریانہ کہلاتا ہے ۔ یہ ہندو اکثریتی علاقہ تھا مگر فرق معمولی تھا ۔ آبادی ہنوؤں اور مسلمانوں پر مشتمل تھی ۔ سکھ نہ ہونے کے برابر تھے ۔ دہلی اس علاقے میں شامل ہے کیونکہ اس علاقے کے لوگوں کی ثقافت پنجاب کے قریبی علاقہ سے ملتی تھی
5 ۔ نمبر 3 کے شمال میں علاقہ (روشن سُرخ اور براؤنش سُرخ) جو اب ہماچل پردیش کہلاتا ہے ۔ اس میں ہندو بھاری اکثریت میں تھے جیسے نمبر 1 میں مسلمان تھے

برطانوی حکومت کے نامزد باؤنڈری کمیشن (Boundry Commission) نے تقسیم کے فیصلہ جسے ریڈ کلِف ایوارڈ (Redcliff Award) کہا جاتا ہے کا اعلان 17 اگست 1947ء یعنی آزادی کے اعلان کے 3 دن بعد کیا اور متفقہ اصولوں کو کُلی طور پر نظر انداز greater-punjab-religions-today کرتے ہوئے ریڈ کلِف نے پنجاب کا بڑا مسلم اکثریتی علاقہ بھارت میں شامل کر دیا ۔ دیکھیئے نقشہ
1 ۔ مٖغربی پنجاب کا جو پاکستان میں شامل کیا گیا وہ سبز دکھایا گیا ہے اور
2 ۔ مشرقی پنجاب جو بھارت میں شامل کیا گیا ۔ وہ سبز کے علاوہ باقی سارا ہے
مُصنّف جو کہ ہندو دانشور جواہر لال ہے لکھتا ہے ”میری نظر میں یہ ہندوؤں کی بہت بڑی طرفداری ہے ۔ کوئی ہندُو یا سِکھ علاقہ پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا جبکہ مُسلم اکثریت والے کئی علاقے بھارت میں شامل کر دیئے گئے

پاکستان کیوں بنا ؟

فی زمانہ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اِس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی ۔ اب مُستنَد تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟
برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زيرِ استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات
ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير پر فوج کشی کی گئی تھی
انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پَرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا
حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔

کيبنٹ مشن کے سيکرٹری (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ” مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟”
قائد اعظم نے کہا ”بالکل ۔ آپ درست سمجھے“۔
مگر جیسا کہ اُوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنیف (INDIA WINS FREEDOM) کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا مؤقف مضبوط تھا
کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔
کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں

یومِ استقلال مبارک

تمام ہموطنوں کو (دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں) یومِ استقلال مبارک my-id-pak
اللہ ہمیں آزادی کے صحیح معنی سمجھنے اور اپنے مُلک کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
یہ وطن ہمارے بزرگوں نے استقلال کے ساتھ محنت کرتے ہوئےحاصل کیا تھا کہ مسلمان اسلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے مِل جُل کر اپنی حالت بہتر بنائیں ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں البتہ پاکستانی نہیں بنے ۔ کوئی سندھی ہے کوئی پنجابی کوئی بلوچ کوئی پختون کوئی سرائیکی کوئی پاکستان میں پیدا ہو کر مہاجر ۔ کوئی سردار کوئی مَلک کوئی خان کوئی وڈیرہ کوئی پِیر ۔ اس کے علاوہ مزید بے شمار ذاتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں
قائداعظم 1942ء میں الہ آباد میں تھے تو وکلاء کے ایک وفد کی ملاقات کے دوران ایک وکیل نے پوچھا ”پاکستان کا دستور کیسا ہوگا اور کیا آپ پاکستان کا دستور بنائیں گے ؟“
قائداعظم نے جواب میں فرمایا ”پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو برس پہلے بن گیا تھا“۔

پانسے سب اُلٹ گئے دُشمن کی چال کے
مُدتوں کے بعد پھر اُڑے پرچم ہلال کے
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اِس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
برسوں کے بعد پھر اُڑے پرچم ہلال کے
اِس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دیکھو کہیں اُجڑے نہ ہمارا یہ باغیچہ
اِس کو لہو سے اپنے شہیدوں نے ہے سینچا
اِس کو بچانا جان مصیبت میں ڈال کے
اِس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دنیا کی سیاست کے عجب رنگ ہیں نیارے
چلنا ہے مگر تم کو تو قرآں کے سہارے
ہر اِک قدم اُٹھانا ۔ ذرا دیکھ بھال کے
اِس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
تُم راحت و آرام کے جھُولے میں نہ جھُولو
کانٹوں پہ ہے چلنا میرے ہنستے ہوئے پھُولو
لینا ابھی کشمیر ہے ۔ یہ بات نہ بھُولو
کشمیر پہ لہرانا ہے جھنڈا اُچھال کے
اِس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اِس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
اِس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے

میں جو بھی ہوں

my-id-pakہم لوگوں کی عادت بن چکی ہے کہ کبھی دوسرے کے کپڑوں پر تنقید
”یہ کون سے فیشن کے کپڑے پہنے ہیں “۔
کبھی کسی کے بالوں پر اعتراض
کبھی کسی کے بولنے پر ”بہت بولتا ہے“۔ یا ”نامعلوم کیا بولتا رہتا ہے“۔
کسی کو کہتے ہیں ” تم بات کیوں نہیں کرتے ؟ کیا بات کرنے سے تمہارے پیسے خرچ ہوتے ہیں ؟“
کبھی کسی کے کھانے پینے پر نقطہ بازی

یہ نہیں سوچتے کہ جیسے وہ اپنی مرضی سے سب کچھ کرتے ہیں ۔ ویسے ہی دوسرے کو بھی اپنی پسند پر چلنے کا حق ہے
کسی نے سچ کہا ہے
مجھے تُم سے کچھ بھی نہ چاہیئے
مجھے میرے حال پر چھوڑ دو

>

فیصلہ کا اختیار

کسی کو آپ کے متعلق فیصلہ دینے کا اختیار نہیں my-id-pak
کیونکہ حقیقت میں کوئی نہیں جانتا
کہ آپ کن حالات سے گذرے ہیں
اُنہوں نے آپ کے متعلق چہ می گوئیاں سُنی ہوں گی
لیکن اُنہوں نے وہ محسوس نہیں کیا ہو گا جو آپ کے دِل پر گذری
یہی اصول دوسروں پر فیصلہ دینے سے پہلے مدِ نظر رکھنا چاہیئے

پاکستان کیا ہے ؟

پاکستان کے قومی ترانہ کی دھُن دنیا کی 3 بہترین دھُنوں میں سےہے my-id-pak
دنیا کی دوسری سب سے اُونچی چوٹی K 2 اور نویں بلند ترین پہاڑ (نانگا پربت) پاکستان میں ہیں
دنیا میں سب سے چھوٹی عمر میں Certified Microsoft Expert ایک پاکستان لڑکی عارفہ کریم ہے
پاکستان ایک ایسا مُلک ہے جہاں 60 مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں
دنیا کا سب سے بڑا earth-filled dam (تربیلہ) پاکستان میں ہے
ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان دنیا کا سب سے وسیع ایمبولنس نیٹ ورک چلا رہی ہے
پچھلے 6 سالوں میں پاکستان میں خواندگی کی شرح میں 250 فیصد اضافہ ہوا ہے
انجنیئروں اور سائنسدانوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے
پاکستان میں دنیا کا چوتھا سب سے بڑا broad band internet ہے
BRICS نے پاکستان کو ایسے 11 ممالک میں شمار کیا ہے جو اکیسویں صدی میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں
قراقرم ہائی وے انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی بلند ترین سڑک ہے جو پاکستان اور چین کو ملاتی ہے
پاکستان کی کھیوڑہ میں نمک کی کان دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان ہے
پاکستان دنیا میں چاول کی بہترین قسم (باسمتی) دریافت کرنے اور اُگانے والا واحد مُلک ہے
پاکستان میں اُگنے والی کپاس دنیا کی دوسری سب سے اچھی کپاس ہے ۔ سب سے اچھی کپاس مصر میں ہوتی ہے
پاکستان میں دنیا کے دو بہترین آم (چونسہ اور انور رٹول) اُگائے جاتے ہیں
دنیا میں بننے والے کُل فٹ بالوں کا 50 فیصد پاکستان میں بنتے ہیں
پاکستان کی بندرگاہ گوادر دنیا کی سب سے بڑی گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے
پاکستان دنیا کی سب سے پرانی تہذیب (موہنجو ڈرو) والا ملک ہے
دنیا ک بلند ترین پولو گراؤنڈ شاندر پاکستان میں ہے جس کی بلندی 3700 میٹر (12139 فٹ) ہے
دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام پاکستان میں ہے
پاکستان 1994ء میں 4 بین الاقوامی کھیلوں (کرکٹ ۔ ہاکی ۔ سکواش ۔ سنُوکر) کے ورلڈ کپ میچ ایک ہی وقت میں کروا کر دنیا کا پہلا ایسا مُلک بنا
پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کا شمار دنیا کی بہترین ٹیکنالوجیز میں ہوتا ہے
دنیا کے بہترین جیٹ فائٹرز میں سے ایک پاکستان میں بنتا ہے
دنیا میں سب سے زیادہ جراحی کے آلات بنانے اور برآمد کرنے والے ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے
ایئر کموڈور محمد محمود عالم نے 1965ء ک جنگ میں ایک منٹ سے کم وقت میں بھارت کی ہوائی فوج کے 5 لڑاکا طیارے مار گرائے جن میں 4 پہلے 30 سیکنڈ میں گرائے ۔ اس ریکارڈ کو آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا
پاکستان کی ہوائی فوج کا شمار دنیا کی بہترین تربیت یافتہ ہوائی افواج میں ہوتا ہے
پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوجی طاقت ہے
پاکستان پہلا اور صرف ایک اسلامی ملک ہے جس نے نیوکلیئر بم بنایا