Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

باہمی اختلاف ۔ میڈیکل سائنس کی نظر میں

میں نے قرآن شریف کی ایک آیت نقل کی تھی ۔ اس سلسلہ میں امریکہ میں ایک مایہ ناز پاکستانی نژاد (Neurologist) وھاج الدین احمد نے میری توجہ اپنی اس تحریر کی طرف مبزول کرائی

جب اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور دوسری مخلوق سے (سوال سمجھنے اور جواب دینے یعنی اپنی یادداشت سے) مقابلہ کرایا تو حضرت آدم علیہ االسلام جِیتے ۔ یہ چیز ہے جو صرف انسان کو عطا کی گئی ہے ۔ یہی تمام ذہانت کی بنیاد ہے اور یہی ڈاروِن صاحب کی تھِیُوری میں اب تک جواب طلب ہے ۔ حال ہی میں میں نے دماغ کی evaluation کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔ آخر میں نیُورالوجِسٹ جو ہوا

تمام آدم سے نیچے والی مخلوق ایسی بات کرنے سے معذور ہیں تمام experiment قوت گویائی کے متعلق یہی بتاتے ہیں کہ یہ “یکدم’ اس مخلوق – یعنی آدم میں پیدا ہو گئی یقین جانئے اس سائنس نے اس تھیوری کو صحیح اور مکمل ثابت کرنے میں ایڑی چوتی کا زور لگایا ہے مگر یہ مندرجہ بالا اور چند دوسری باتیں اس خلاء کو پر نہیں کر سکیں
یہی قوت گویائی ہماری افضل المخلوقات ہونے کی وجہ ہے اور یہی وجہ ہماری اللہ تعالٰے کے سامنے جوابدہی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے

آپ کے پاس 3 روپے ہوں گے ؟

کوٹھی کے خوبصورت لان میں سردی کی ایک دوپہر میں اور علی بھائی (مشہور اداکار محمد علی) بیٹھے گفتگو کر رہے تھے ۔ چپڑاسی نے علی بھائی سے آ کر کہا ”باہر کوئی آدمی آپ سے ملنے آیا ہے ۔ یہ اس کا چوتھا چکر ہے“۔
علی بھائی نے اسے بلوا لیا ۔ کاروباری سا آدمی تھا ۔ لباس صاف سُتھرا مگر چہرے پر پریشانی جھلَک رہی تھی ۔ شیو بڑھی ہوئی ۔ سُرخ آنکھیں اور بال قدرے سفید لیکن پریشان ۔ وہ سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گیا تو علی بھائی نے کہا ” جی فرمایئے“۔
”فرمانے کے قابل کہاں ہوں صاحب جی ۔ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں“۔ اس آدمی نے بڑی گھمبیر آواز میں کہا اور میری طرف دیکھا جیسے وہ علی بھائی سے کچھ تنہائی میں کہنا چاہتا تھا
علی بھائی نے اس سے کہا ” آپ ان کی فکر نہ کیجئے جو کہنا ہے کہیئے“۔
اس آدمی نے کہا ”چَوبُرجی میں میری برف فیکٹری ہے علی صاحب“۔
” جی“۔
” لیکن کاروباری حماقتوں کے سبب وہ اب میرے ہاتھ سے جا رہی ہے“۔
” کیوں ؟ کیسے جا رہی ہے“۔ علی بھائی نے تفصیل جاننے کے لئے پوچھا
وہ آدمی بولا ” ایک آدمی سے میں نے 70ہزار روپے قرض لئے تھے لیکن میں لوٹا نہیں سکا ۔ میں نے کچھ پیسے سنبھال کر رکھے تھے لیکن چور لے گئے ۔ اب وہ آدمی اس فیکٹری کی قرقی لے کر آ رہا ہے“۔
یہ کہہ کر وہ آدمی رونے لگا اور علی بھائی اسے غور سے دیکھتے رہے اور اس سے کہنے لگے ” آپ کا برف خانہ میانی صاحب والی سڑک سے ملحقہ تو نہیں؟“
وہ آدمی بولا ” جی جی وہی ۔ ۔ ۔ علی بھائی میں صاحب اولاد ہوں اگر یہ فیکٹری چلی گئی تو میرا گھر برباد ہو جائے گا ۔ میں مجبور ہو کر آپ کے پاس آیا ہوں“۔
”فرمایئے میں کیا کر سکتا ہوں ؟“
” میرے پاس 20 ہزار ہیں ۔ 50 ہزار آپ مجھے اُدھار دے دیں میں آپ کو قسطوں میں لوٹا دوں گا“۔
علی بھائی نے مُسکرا کر اس آدمی کو دیکھا۔ سگریٹ سُلگائی اور مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگے ”روبی بھائی ۔ یہ آسمان بھی بڑا ڈرامہ باز ہے ۔
کیسے کیسے ڈرامے دکھاتا ہے ۔ شطرنج کی چالیں چلتا ہے ۔ کبھی مات کبھی جیت“۔
یہ بات کہی اور اُٹھ کر اندر چلے گئے ۔ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں نوٹوں کا ایک بنڈل تھا ۔ کرسی پر بیٹھ گئے
اور اس آدمی سے کہنے لگے ”پہلے تو آپ کی داڑھی ہوتی تھی“۔
وہ آدمی حیران رہ گیا اور چونک کر کہنے لگا ” جی ۔ یہ بہت پرانی بات ہے“۔
”جی میں پرانی بات ہی کر رہا ہوں“۔ علی بھائی نے کہا اور اچانک کہیں کھو گئے ۔ سگریٹ کا دھُواں چھوڑ کر فضا میں کچھ تلاش کرتے رہے ۔ پھر اس آدمی سے کہنے لگے ” آپ کے پاس 3 روپے ٹوٹے ہوئے ہیں ؟ “
” جی جی ہیں“۔
اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے اور ان میں سے 3 روپے نکال کر علی بھائی کی طرف بڑھا دیئے
علی بھائی نے وہ پکڑ لئے اور نوٹوں کا بنڈل اُٹھا کر اس آدمی کی طرف بڑھایا ”یہ 50 ہزار روپے ہیں ۔ لے جایئے“۔
اس آدمی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور نوٹ پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے
اس آدمی نے جذبات کی گرفت سے نکل کر پوچھا ” علی بھائی مگر یہ 3 روپے آپ نے کس لئے ۔ ۔ ۔ ؟“
علی بھائی نے اس کی بات کاٹ کر کہا ”یہ میں نے آپ سے اپنے 3 دن کی مزدوری لی ہے“۔
”مزدوری ۔ ۔ ۔ مجھ سے ؟ میں آپ کی بات نہیں سمجھا “ اس آدمی نے یہ بات پوچھی تو ایک حیرت اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی
علی بھائی نے مُسکرا کر جواب دیا ” 1952ء میں جب میں لاہور آیا تھا تو میں نے آپ کے برف خانے میں برف کی سلیں اُٹھا کر قبرستان لے جانے کی مزدوری کی تھی“۔
یہ جواب میرے اور اس آدمی کے لئے دنیا کا سب سے بڑا انکشاف تھا
علی بھائی نے مزید بات آگے بڑھائی ” مگر آپ نے جب مجھے کام سے نکالا تو میرے 3 دن کی مزدوری رکھ لی تھی ۔ وہ آج میں نے وصول کر لی ہے“۔
علی بھائی نے مُسکرا کر وہ 3 روپے جیب میں ڈال لئے
” آپ یہ 50 ہزار لے جائیں ۔ جب آپ سہولت محسوس کریں دے دیجئے گا “۔
علی بھائی نے یہ بات کہہ کر مزے سے سگریٹ پینے لگے ۔ میں اور وہ آدمی کرسیوں پر یوں بیٹھے تھے جیسے ہم زندہ آدمی نہ ہوں بلکہ فرعون کے عہد کی 2 حنوط شدہ مَمِیاں کرسی پر رکھی ہوں
احمد عقیل روبی صاحب کا تحریر کردہ واقعہ تو ختم ہوا

کیا آپ کو سمجھ آئی کہ کروڑ پتی محمد علی کیلئے 3 روپے کی کیا اہمیت تھی کہ لے لئے ؟
یہ محمد علی کی معاملہ فہمی ہے ۔ محمد علی نے سوچا ہو گا ” اچھا بھلا چلتا کار و بار تباہ ہونے کی وجہ شاید ایک غریب مزدور کی 3 دِن کی مزدوری نہ دینا ہو “۔
محمد علی نے اپنی مزدوری وصول کر لی تا کہ اُس شخص کی سختی ختم ہو

بشکریہ ۔ مصطفٰے ملک صاحب ” گھریلو باغبانی والے“۔

کہاں چلے گئے وہ بلاگر ؟

جی ہاں ۔ صرف پانچ سات سال پہلے جو جوان بلاگ لکھا کرتے تھے میں اُن کی بات کر رہا ہوں
کیا زمانہ تھا اور کتنا بھائی چارہ تھا آپس میں
ہر ایک دوسرے کی مدد کے لئے تیار رہتا تھا
اِدھر میں نے مدد مانگی ۔ اُدھر مدد حاضر

حالانکہ سب جانتے تھے کہ میرا بڑا بیٹا زکریا کمپوٹر ہارڈ ویئر ۔ سافٹ ویئر اور بلاگنگ کا ماہر ہے
پہلا اردو بلاگز ایگریگیٹر (اُردو سیّارہ) ۔ اُردو محفل ۔ وغیرہ زکریا ہی نے بنائے تھے

میری مدد جن جوانوں نے کی اِن میں سے مندرجہ ذیل بغیر مدد مانگے ہی مدد کی پیشکش کرتے رہتے تھے
حارث بن خُرم
قدیر احمد جنجوعہ
جہانزیب اشرف
پرویز اُردو دان
حیدرآبادی

میں پچھلے چار سالوں میں تین بار مدد کی درخواست کر چکا ہوں لیکن مدد تو کُجا کسی نے حَوصلہ افزائی بھی نہ کی

آخری بار میں نے تین دِن قبل تمام قارئین سے مدد کی درخواست کی تھی
اِن تین دنوں میں 58 قارئین نے میری درخواست کو دیکھا لیکن میں مدد کی اِنتظار ہی میں رہا
آخر میرے چھوٹے بیٹے فوزی نے مسئلہ حل کر دیا

مدد کی فوری ضرورت ہے

تمام محترمات اور تمام محترمان
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته

آپ سب سے درخوست ہے کہ کمپیوٹر کے سلسلے میں میری فوری طور پر مدد کریں

میرے laptop کی سکرین میں ایک تبدیلی آ گئی ہے اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اسے کیسے درست کروں
میں کچھ سال قبل ایسی ہی صورتِ حال سے دو چار ہوا تھا تو میں اُسے درست کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن اب مجھے یاد نہیں آ رہا کہ میں اُس وقت اِسے کیسے درست کیا تھا

1 ۔ top tool bar غائب ہو گیا ہے
2 ۔ نیچے تصویر دیکھیئے ۔ سکرین کے نِچلے حصے میں icon کھینچ کر لاتا ہوں تو واپس اُوپر بھاگ جاتا ہے

.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
3 ۔ سب documents اور browser بھی اس طرح کھلتے ہیں ۔ دیکھیئے نیچے دوسری تصویر

گوادر کی ہیرو (ایک تاریخی حقیقت)

آج کون کون جانتا ہے کہ پاکستان کیلئے لازوال محبت و ایثار کا جذبہ رکھنے والی ایک عظیم خاتون نے اپنی مدِمقابل 4 عالمی طاقتوں سے ایک قانونی جنگ لڑ کر 15 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مُشتمل گوادر جیسا اہم ترین ساحلی علاقہ پاکستان میں ضَم کروایا تھا ؟

آج ہر کوئی گوادر پورٹ کا کرَیڈِٹ تو لینا چاہتا ہے مگر اس عظیم مُحسن پاکستان کا نام کوئی نہیں جانتا جس نے دنیا کے 4 طاقتور اسٹیک ہولڈرز ۔ برطانوی پارلیمنٹ ۔ امریکی سی آئی اے ۔ ایران اور عمان سے چَومُکھی جنگ لڑ کر کھویا ہوا گوادر واپس پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا
مطالعہ پاکستان سے چِڑنے والے لوگ پاکستان کے خلاف پیش گوئیاں کرنیوالے نام نہاد دانشوروں کو صرف اسی لئے تقویّت دیتے ہیں کہ تعمیر پاکستان کو اپنا ایمان بنا کر اَنمِٹ نقُوش چھوڑ جانے والی تحریکِ پاکستان کی ان بے مثال ہَستیوں سے نئی نسل کہیں متاءثر نہ ہونے لگے ۔ یہ وہ خوفناک مطالعہ پاکستان ہے جس سے کچھ لوگوں کو پسینے آجاتے ہیں

بلوچی میں ”گوات“ کے معنی کھُلی یا تازہ ہوا اور ”دَر“ کے معنی دروازہ ہیں ۔ علاقہ گوات دَر جو گوادر کے نام سے مشہور ہوا 1956ء تک عالمی استعمار کے قبضہ میں تھا ۔ خان آف قلات مِیر نصِیر نُوری بلوچ نے 1783ء میں گوادر عمان کے حاکم کو سونپ دیا تھا ۔ جب خان آف قلات فوت ہو گیا تو اُس کے ورثاء نے گوادر کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا جس کے بعد زور آزمائی شروع ہوئی ۔ برطانیہ صلح جوئی کے بہانے شامل ہوا اور براجمان ہو گیا ۔ لگ بھگ سوا سو سال گوادر برطانیہ کے قبضہ میں رہا

قیام پاکستان کے بعد اُس وقت کے خان آف قلات نے جب اپنی جاگیر پاکستان میں ضَم کر دی تو پاکستان نے گوادر کا معاملہ اٹھایا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ امریکی سی آئی اے کی اِیماء پر شاہ ایران نے اسے چاہ بہار کے ساتھ ملانے کی تدبیر بنانا شروع کر دی اور امریکہ کے صدر نکسن برطانیہ پر دباؤ ڈالنے لگے کہ گوادر شاہ ایران کے حوالے کر دیا جائے

1956ء میں ملک فیروز خان نون نے وزارت خارجہ سنبھالی تو گوادر واگزار کرانے کا عہد کیا ۔ باریک بینی سے تمام  تاریخی حقائق و کاغذات کا جائزہ لیکر یہ مشن ایک تعلیم یافتہ باوقار خاتون کو سونپ دیاجنہوں نے برطانیہ میں پاکستان کی لابِنگ شروع کی اور مضبُوط دلائل کے ساتھ معاملہ برطانوی حکومت کے سامنے رکھا کہ ”قلات خاندان کی جاگیر اب پاکستان کی ملکیت تھی لہٰذا جاگیر کے اس حصے کی وراثت پر بھی اب پاکستان کا حق تسلیم ہونا چاہیئے نیز یہ کہ پاکستان وہ تمام جاگیریں منسوخ کر چکا ہے جو معاوضے کی بنیاد پر حکومت برطانیہ نے بانٹیں تھیں مزید یہ کہ اگر ہم اپنے قانون سے گوادر کی جاگیر منسوخ کرکے فوج کشی سے واگزار کرا لیں تو کامن ویلتھ کا رُکن ہونے کی وجہ سے برطانیہ پاکستان پر حملہ نہیں کر سکتا“۔

محترمہ نے دو سال پر محیط یہ جنگ تلوار کی بجائے محض قلم ۔ دلائل اور گفت و شُنِید سے جِیتی ۔ عمان کے سلطان سعید بن تیمور نے حامی تو بھر لی مگر سودے بازی کا عندیہ دیا ۔ ملک فیروز خان نون جب وزیراعظم بنے تو ان کے چھ ماہ کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد عمان نے تین ملین ڈالر کے عوض گوادر کا قبضہ پاکستان کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ۔ ملک صاحب اپنی سوانح ”چشم دِید“ میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں ” جہاں مُلک کی حفاظت اور وقار کا مسئلہ درپیش ہو وہاں قیمت نہیں دیکھی جاتی ۔ ویسے بھی یہ رقم گوادر کی آمدنی سے محض چند سال میں پوری ہو جائے گی“۔ یوں دو سال کی بھر پُور عقلی جنگ کے بعد 8 ستمبر 1958ء کو گوادر کا 2400 مربع میل یا 15 لاکھ ایکٹر سے زائد رقبہ پاکستان کی ملکیت میں شامل ہو گیا

گوادر فتح کرنیوالی ملک و قوم کی یہ محسن پاکستان کے ساتویں وزیراعظم ملک فیروخان نون کی بیوی محترمہ وقارالنساء نون ہیں جن کی اس عظیم کاوش کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی اور انہیں قوم سے متعارف نہ کرانا ایک بے حسی کے سوا کچھ نہیں ۔ محترمہ نے تحریک پاکستان کو اُجاگر کرنے کیلئے خواتین کے کئی دَستے مرتب کئے اور سِول نافرمانی کی تحریک میں انگریز کی خضر حیات کابینہ کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور جلُوس منَظم کرنے کی پاداش میں تین بار گرفتار بھی ہوئیں۔

قیام پاکستان کے بعد انہوں نے لْٹے پٹے مہاجرین کی دیکھ بھال کیلئے بہبودِ خواتین کی اوّلِین تنظِیم اَپوا کی بانی اراکین میں بھی آپ شامل تھیں ۔ وقارالنساء گرلز کالج راولپنڈی اور وقارالنساء اسکول ڈھاکہ کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی ۔ ہلال احمر کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں ۔ پاکستان کی محبت میں ان کا جذبہ بڑھاپے میں بھی سرد نہ پڑا ۔ ضیاء الحق کے دَور میں بطَور وزیر ، سیاحت کے فروغ کیلئے دنیا بھر کو پاکستان کی طرف بخوبی راغب کیا ۔ برطانیہ میں مقیم ان کی بے اولاد بہن کی جائیداد جب انہیں منتقل ہوئی تو اس فنڈ سے انہوں نے ”وکی نون ایجوکیشن فاؤنڈیشن“ قائم کیا جو آج بھی سماجی خدمات کا چراغ جلائے ہوئے ہے ۔ محترمہ کی وصِیّت کے مطابق اس فنڈ کا ایک حصہ ان نادار مگر ذہین طلباء کو آکسفورڈ جیسے اداروں سے تعلیم دلوانے پر خرچ ہوتا ہے جو واپس آکر اس مملکتِ خدا داد پاکستان کی خدمت کرنے پر راضی ہوں

محترمہ وقارالنساء نون طویل علالت کے بعد 16 جنوری سن 2000ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ۔ ایک عمرہ کرنے کے بعد انہوں نے وصیت کی تھی کہ مجھے غیر سمجھ کے چھوڑ نہ دینا بلکہ میری تدفین بھی ایک کلمہ گو مسلمان کی طرح انجام دینا۔ محترمہ کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی ۔ ان کی اولاد وہ پاکستانی ہیں جو حُب الوطنی میں ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے ہیں ۔ محترمہ کو گوادر حاصل کرنے پر 1959ء میں پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز ”نشان امتیاز“ عطا کیا گیا تھا مگر ان کا اصل انعام وہ عزت و احترام ہے جو ہم بطور قوم انہیں دے سکتے ہیں

جولائی کا الٹرا ساؤنڈ اور اگست کا بلیک باکس

اَن گِنت حُرّیَت پسندوں نے محکُوم قوموں کے لئے آزادی کی سیاسی جدوجہد کے اصول وضع کئے ۔ یہ آزادی محض غیرملکی حکمرانوں کو بے دَخَل کرنے کا نَصبُ العَین نہیں تھی۔ آزادی کی اس لڑائی کا حتمی نَصبُ العَین یہ تھا کہ اس زمین کے رہنے والے اپنی معاشی ۔ سماجی اور سیاسی صلاحیتوں کو برُوئے کار لاتے ہوئے انسانی ترقی کی دوڑ میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے ۔ دنیا کے ابھرتے ہوئے امکانات میں اپنا پورا پورا حق حاصل کر سکیں گے

اِسی اصول کے تحت آزادی محمد علی جناح اور اُن کے ساتھیوں نے آزادی کی جد و جہد کی ۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم شمالی یورپ کے جزیرے برطانیہ سے آنے والوں کو رُخصت کر کے مقامی طاقتور گروہوں کے غلام ہو جائیں جو نسل ۔ عقیدے اور بندوق کے بَل پر ہمارا اِستحصال کریں

جاننا چاہیئے کہ 25 جولائی 2018ء کی تصویر بدستور دھُندلی ہے ۔ اہلِ حُکم کا تھُوک ہمارے مقَدّس پرچم پر جم گیا ہے ۔ ہماری زمیں پَر زَور آور کے قدموں کے نشان صاف دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ہمیں عِلم سے محروم کر کے تعصب اور نفرت میں اُلجھا دیا گیا ہے ۔ ہمارے قابل صد احترام آباؤاجداد کی سَتّر بَرس پر محیط قربانیوں سے ایک مرحلہ طے ہو گیا ہے ۔ اب ہماری کشمکش کسی ایک فرد یا منصب دار سے منسوب نہیں ہے ۔ ماضی میں ہم نے اپنے خوابوں کو فرد واحد کی ذات سے وابستہ کر رکھا تھا ۔ اب یہ کشمکش زیادہ اصولی اور ادارہ جاتی شکل اختیار گئی ہے ۔ ہمارے کچھ سیاسی رہنما آجکل اداروں کے احترام پر زور دے رہے ہیں ۔ ان کی رائے یقیناً وزن سے خالی نہیں ہو گی لیکن ان کی سوچ میں داخلی تضاد کی طرف اشارہ کئے بغیر بھی چارہ نہیں

ہمارے یہ مہربان عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن ووٹ کی بالادستی کا اعلان کرنے سے گریزاں ہیں ۔ اگر انہیں ووٹ مانگتے ہوئے ایسے خدشات اور وسوسے لاحق ہیں تو کل جب یہ رہنما ووٹ سے تشکیل پانے والے اداروں میں رونق افروز ہوں گے تو ان کے دست و بازو پہلے سے قطع ہو چکے ہوں گے ۔ زمانے کا انقلاب دیکھیئے ۔ جو مہربان سیاسی قوتوں کے مابین مفاہمت کو مک مکا قرار دیتے تھے اب سقوط جمہوریت کے دستاویزی شواہد پر شاداں و مسرور ہیں ۔ تاریخ کے یہ چیمبرلین اگر جولائی کے الٹرا ساؤنڈ سے خوف زدہ ہیں تو اگست کے بلیک باکس کا سامنا کیسے کریں گے ؟
وجاہت مسعود کی تحریر سے اقتباس

ووٹ کسے دیا جائے ؟ شرعی فتوٰی

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع بن محمد ياسین عثمانی دیوبندی (25 جنوری 1897ء تا 06اکتوبر 1976ء) صاحب کا ووٹ کے بارے میں تاریخی فتوی
جس اُمیدوار کو آپ ووٹ دیتے ہیں شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریئے عِلم و عمل اور دیانتداری کی رُو سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے ۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں
1 ۔ آپ کا ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا بُرے اقدمات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی ۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے
2 ۔ اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہوجائے اسکا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے ۔ ثواب و عذاب بھی محدود ۔ قومی و مُلکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی اس کا ادنٰی نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے ۔ اس لئے اس کا ثواب یا عذاب بھی بڑا ہے
3 ۔ سچی شہادت کا چھپانا اَز رُوئے قرآن حرام ہے اس لئے اگر آپ کے حلقے میں صحیح نظریہ کا حامل کوئی دیانتدار اُمیدوار کھڑا ہے تو اس کو ووٹ نہ دینا گناہ کبیرہ ہے
4 ۔ جو اُمیدوار نظامِ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہِ کبیرہ ہے
5 ۔ ووٹ کو پَیسوں کے عِوَض بیچ دینا بدترین قسم کی رِشوت ہے اور چند ٹَکوں کی خاطر اِسلام اور مُلک سے بغاوت ہے ۔ دوسروں کی دُنیا سنوارنے کے لئے اپنا دِین قُربان کر دینا چاہے کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو کوئی دانشمندی نہیں ہو سکتی

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسروں کی دنیا کے لئے اپنا دین کھو بیٹھے
(جواھر الفقہ ۔ جلد نمبر 2 ۔ صفحہ 300 و 301 ۔ مکتبہ دارالعلوم ۔ کراچی)