Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

اج آکھاں وارث شاہ نوں

اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچون بول     

تے اج کتابے عشق دا  کوئی اگلا ورقہ پھول       

اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین 

اج لکھاں دھیآں رودیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن  

اٹھ  دردمنداں دیا  دردیا  تک اپنا دیس پنجاب   

اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب    

کسے نے پنجاں پانیاں وچ اج دتی زہر  رلا           

تے اوہناں پانیاں نوں دتا دھرت نوں لا          

جتھے وجدی پھوک پیار دی او ونجلی گئی گواچ     

رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے اوس دی جاچ       

دھرتی تے لہو وسیا  تے قبراں پیّئاں چون               

 پریت دیاں شہزادیاں اج وچ مزاراں رون            

اج تے  سبے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور     

اج کتھوں لیآئیے  لب کے وارث شاہ اک ہور       

کہا ” کوچ کرو” اور کوچ کر گئے

حسن اتفاق ۔ ایک غزل بہت معروف ہوئی وہ لکھنے والے کی مشہور غزلوں میں سے آخری بن گئی اور گانے والے کی مشہور غزلوں میں سے بھی  آخری ثابت ہوئی ۔ ابن انشاء کی لکھی اور استاد امانت علی کی گائی ہوئی ۔

انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو

اس شہر میں جی کو لگانا کیا

وحشی کوسکوں سے کیا مطلب

جوگی کا ڈگر میں ٹھکانہ کیا

اس دل کے دریدہ دامن میں

دیکھو توسہی سوچو تو سہی

جس جھولی میں سو چھید ہوۓ

اس جھولی کو پھیلانا کیا

شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا

زنجیر پڑی دروازے میں

کیوں دیر گئے گھر آۓ ہو

سجنی سے کرو گے بہانہ کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں

کیوں بن میں نہ جا بسرا ہم کریں

دیوانوں کی سی نہ بات کرے

تو  اور  کرے  دیوانہ  کیا

عیدالاضحٰے مبارک ۔ کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر

سب مسلمان بہنوں اور بھائیوں جہاں کہیں بھی ہوں عیدالاضحٰے مبارک
ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک ۔ اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار يہ کہنا چاہیئے
البتہ عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر يہ ورد رکھنا چاہیئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَهَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَهُ
لَهُ الّمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلهَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلهَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیراً والحمدُللہِ کثیِراً و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا
اللّھم صلی علٰی سیّدنا محمد و علٰی آل سیّدنا محمد و علٰی اصحاب سیّدنا محمد و علٰی ازواج سیّدنا محمد و سلمو تسلیماً کثیراً کثیرا

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے
جنہوں نے حج ادا کیا ہے الله کریم اُن کا حج قبول فرمائے
جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کرنا ہے ۔ اللہ عِزّ و جَل اُن کی قربانی قبول فرمائے
اللہ کریم ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے اور امن کا گہوارہ بنا دے ۔ آمین ثم آمین

محبت کی کنجی

گھر میں پیار و محبت کی فضا زندگی کی بنیاد ہے

اپنے عزیزوں سے اختلاف کی صورت میں

صرف حال کے معاملہ پر ہی نظر رکھیئے

ماضی کی رنجشوں کو بیچ میں نہ لائیے

یاد رکھیئے کہ بہترین تعلقات وہ ہوتے ہیں

جن میں آپس میں ایک دوسرے سے محبت

ایک دوسرے کی ضرورت سے بڑھ جائے

حشر نشر

علامہ اقبال کے شعروں کے ساتھ بہت لوگوں نے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور بعض اوقات اس پسندیدگی نے حشر نشر کی صورت اختیار کی ۔ بہت پرانی بات ہے راولپنڈی میں راجہ بازار کے فوارہ چوک (جہاں کبھی فوارہ بنا دیا جاتا ہے اور کبھی توڑ دیا جاتا ہے) لیاقت روڈ پر چلیں تو بائیں طرف ایک ہوٹل ہوتا تھا “علی بابا ہوٹل ۔ آنہ روٹی دال مفت” اس ہوٹل کی دیوار پر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے ٹوٹل پر

تو شاہین ہے کر بسیرا علی بابا کے ہوٹل پر

اسی زمانہ میں ایک رسالے میں کارٹون شائع ہوا جس میں لکھا تھا

 خودی کو کر بلند اتنا کہ جا پہنچے پہاڑی پر

خدا بندے سے پھر پوچھے دس پترا اترسیں کس طراں 

مسلمانوں کی تاریخ بڑی کمزور ہے ؟ ؟ ؟

مسلم ہائی سکول میں ہمارے ایک استاد سبغت اللہ قریشی صاحب ایم اے انگلش اور ایم اے سوشل سائنسز تھے ۔ انہوں نے نویں اور دسویں جماعت میں ہمیں تاریخ اور جغرافیہ پڑھایا تھا ۔ نظم وضبط کے بہت پابند اور کلاس میں بہت سنجیدہ رہتے تھے ۔ جس دن تاریخ کی کلاس ہوتی پڑھانا شروع کرنے سے پہلے کہتے ” مسلمانوں کی تاریخ بڑی کمزور ہے” ۔ کسی لڑکے کو پوچھنے کی ہمت نہ پڑی کہ ایسا کیوں کہتے ہیں ۔

میٹرک کے نتیجہ کے بعد ہم سکالر شپ حاصل کرنے والے چند لڑکے سکول گئے ۔ سب اساتذہ سے ملے اور مبارکیں وصول کیں ۔ ماسٹر قریشی صاحب نے ہمیں سینے سے لگا لگا کر مبارک باد دی ۔ ایک لڑکے نے ہمت کر کے پوچھا ” ماسٹر صاحب ۔ مسلمانوں کی تاریخ تو بہت اچھی ہے ۔ آپ یہ کیا کہا کرتے تھے”۔ استاد صاحب نے ہنس کر کہا ” نہیں بیٹا یہ بات نہیں جو آپ سمجھے ۔ یہ بات آپ کو بڑے ہو کر خود ہی سمجھ آ جاۓ گی” ۔

مجھے 60 سال قبل جب بات سمجھ میں آئی تو بہت دیر ہو چکی تھی محترم استاد ایک سال قبل 1964 میں اس فانی دنیا کو الوداع کہہ چکے تھے ۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ ۔ بات صحیح ہے کہ نہ تو ہم لوگ تاریخ پڑھنے میں دلچسی لیتے ہیں نہ گذری باتیں یاد رکھ کر ان سے کوئی سبق حاصل کرتے ہیں ۔ ہماری پسماندگی کی چند بڑی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے ۔          

کیا خوشی صرف امیروں کی میراث ہے ؟ ؟  ؟

ضروری نہیں کہ خوش ترین شخص کے پاس ہر نعمت یا ہر آسائش ہو 

خوشی کا راز یہ ہے کہ انسان اپنی دسترس میں آنے والی چیز سے بھرپور فائدہ اٹھاۓ

اور اللہ کا شکر ادا کرے کیونکہ اگر وہ بھی نہ ملتا تو کیا کرتا