Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

عِلم کی ناپُختگی

پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ ۔ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق
عقل بے ربطیء افکار سے مشرق میں غلام

کلام ۔ علامہ محمد اقبال

اگر ہم مسلمان ہیں

سورة 2 البَقَرَة آیت 42 ۔ وَلَا تَلۡبِسُوا الۡحَـقَّ بِالۡبَاطِلِ وَتَكۡتُمُوا الۡحَـقَّ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ

باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو

سورة 5 المَائدة آیت 8 ۔ ييٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوَّا امِيۡنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ‌ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَ لَّا تَعۡدِلُوۡا‌ ؕ اِعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ ط اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ‏

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ۔ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنَو ۔ کسی گروہ کی دُشمنی تم کو اتنا مُشتعَل نہ کر دے کہ اِنصاف سے پھِر جاؤ ۔ عدل کرو ۔ یہ خدا تَرسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو ۔ جو کچھ تُم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے

حُکمرانوں کے لئے

تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں
انسان کی ہر قوّت سرگرم تقاضہ ہے
اس ذرّے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم
یہ ذرّہ نہیں ۔ شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی
یہ ہستی دانا ہے ۔ بینا ہے ۔ توانا ہے

گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا
ناز بھی کر تو باندازہء رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوس شوکت دلدائی کر

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ
فروغ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
کلام ۔ علامہ محمد اقبال

غلطی کا ازالہ

میں قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ 15 نومبر 2018ء کو شائع کردہ میری تحریر ”انجنیئر اور انجن“ کا بہت اہم پہلو نامعلوم کیسے تحریر میں شامل نہ ہوا جس سے میری تحریر کی بنیاد ہی کمزور رہ گئی تھی
قرآن شریف کی متعلقہ آیت اب شامل کر کے اپنی 15 نومبر 2018ء کی تحریر دوبارہ شائع کر رہا ہوں

مجھے 1990ء کی دہائی میں انجنیئرنگ یونیورسٹی کے طلباء کو خطاب کرنے کا کام سونپا گیا تھا ۔ میری اُس تقریر سے اقتباس پیشِ خدمت ہے

زمانہءِ حال سائنس اور انجنیئرنگ کا دَور ہے ۔ اس اعلٰی تعلیمی دَور میں ایک غلط فہمی عام پائی جاتی ہے کہ لفظ انجنیئر کو انجن سے اخذ کیا گیا ہے جبکہ حقیقت میں لفظ انجنیئر اور ingenious (تیز فہم ۔ ذہین) کا مادہ یا مصدر (root) لاطینی (Latin) زبان کا لفظ ingenerare ہے جس کے معنی تخلیق کرنے کے ہیں (to create)

Encyclopedia Britanica کے مطابق
Engineering is the professional art of applying science to the optimum conversion of sources of nature to benefit man
Encyclopedia of Science and Technology کے مطابق
Engineering, most simply is the art of directing the great resources of power in nature for the use and convenience of man

یہ بیانات تجربہ کار صاحبانِ دانش و فراست کے ہیں ۔ اِن میں اہم موضوع قدرتی وسائل اور اِنسان کی منفعت ہیں
قدرتی وسائل اور قابلیت یا طاقت کا خالق کون ہے ؟ اور انسان کی منفعت کے کاموں کا حُکم کس نے دیا ؟
الله نے جو مالک و خالقِ حقیقی ہے اور کُل کائنات کا خالق و مالک بھی
پہلی بار 1785ء میں ایک فرانسیسی معروف سائنسدان Antoine Laurent Lavoisier نے کہا اور سب سائنسدان متفق ہیں کہ اِنسان مادہ کی نہ تو تخلیق کر سکتا ہے اور نہ مادہ کو فنا کر سکتا ہے البتہ مادہ کو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل کر سکتے ہیں

Matter can never be created nor destroyed. It can only be transformed from one form to another

مگر یہ حقیقت الله تعالٰی نے 14 صدیاں قبل قرآن شریف میں بتا دی تھی ۔

ملاحظہ ہو سُوۡرَة 59 الحَشر آیة 24
هُوَ اللّٰهُ الۡخَـالِـقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ‌ لَـهُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏
وہی اللّٰه (تمام مخلوقات کا) خالق۔ ایجاد واختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا اس کے سب اچھے سے اچھے نام ہیں۔ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے

He is Allah, the Creator, the Creator of all things, the Bestower of forms. To Him belong the Best Names. All that is in the heavens and the earth glorify Him. And He is the All-Mighty, the All-Wise.

میرے مطالعہ کے مطابق اِس سے قبل بھی الله کے پیغمبر اِسی قسم کی بات کرتے رہے ۔ کچھ صدیاں قبل ایک فلسفی نے بھی یہ دعوٰی کیا تھا کہ ایسی بات تو عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے قبل بھی کہی گئی تھی ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ علمِ سائنس نیا نہیں ہے بلکہ اوائلِ اِنسانیت سے موجود ہے

سائنس یا انجنیئرنگ اور اِسلام میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سائنس کے اصولوں میں تجربہ اور مشاہدہ کے ساتھ ترمیم ہوتی رہتی ہے جبکہ قرآن شریف الله کا کلام ہونے کی وجہ سے ابَد یعنی جب تک دُنیا ہے اٹَل ہے

انجنیئر بننے کا فیصلہ کرتے وقت طالب علم کو ذہین اور تخلیقی بننے کی خواہش رکھنا چاہیئے تاکہ وہ اپنے علم اور ذہن کو اِنسانیت کے مفاد میں استعمال کرے

قائد اعظم ناکام سیاستدان تھے ؟ ؟ ؟

جمعہ بتاریخ 16 نومبر 2016ء میں ٹی وی پر وزیر اعظم پاکستان کی پریس کانفرنس دیکھ رہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا

وہ لیڈر ہی نہیں جو یو ٹرن لینا نہیں جانتا ۔ اُس سے بڑا بے وقوف لیڈر نہیں ہوسکتا ۔ نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لے کر تاریخی شکست کھائی ۔ نواز شریف نے عدالت میں یوٹرن نہیں لیا ۔ جھوٹ بولا۔

میرے منہ سے نکلا

اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیْمِ
اَستٌغَفَرالُلُه آلُعظّيَم ۆاتٌۆبْ اِلَيهِ

پھر یہ دعا پڑھی

اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظَلَّتْ، وَرَبَّ الأَرَضِينَ وَمَا أَقَلَّتْ، وَرَبَّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَضَلَّتْ، كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّ خَلْقِكَ كُلِّهِمْ جَمِيعًا أَنْ يَفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَوْ أَنْ يَبْغِيَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ

الحمدلله ہم مسلمان ہیں ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لئے قرآن شریف پر مکمل یقین کرنا اور اس میں لکھے الله سُبحانُه؛ و تعالٰی کے ہر فرمان پر عمل کرنے کی کوشش کرنا لازم ہے ۔ قرآن الحکیم میں کئی آیت ایسی نہیں جس سے ہمیں ارادہ یا بیان بدلنے کے حق میں اشارہ مِلتا ہو

حقیقت یہ ہے کہ ہم الله کے فرمان کو بھُول چکے ہیں اور اپنے دُنیاوی لالچ کا پیٹ بھرنے کے لئے نِت نئے بہانے تلاش کرتے ہیں
موجودہ حالات قوم کی بے راہ رَوی کا نتیجہ ہیں جس کی نسبت سب کی توجہ میں قرآن شریف کی صرف 2 آیات کی طرف مبزول کرانا چاہتا ہوں ۔ یہ میرے ہموطنوں کے لئے ایک واضح پیغام ہیں

(1) سورت 13 الرعد آیت 11 ۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ
اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے
(2) سورت 53 النّجم آیت 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

انجنیئر اور انجن ؟

مجھے 1990ء کی دہائی میں انجنیئرنگ یونیورسٹی طلباء کو خطاب کرنے کا کام سونپا گیا تھا ۔ میری اُس تقریر سے اقتباس

زمانہءِ حال سائنس اور انجنیئرنگ کا دور ہے ۔ اس اعلٰی تعلیمی دور میں ایک غلط فہمی عام پائی جاتی ہے کہ لفظ انجنیئر کو انجن سے اخذ کیا گیا ہے جبکہ حقیقت میں لفظ انجنیئر اور ingenious (تیز فہم ۔ ذہین) کا مادہ یا مصدر (root) لاطینی (Latin) زبان کا لفظ ingenerare ہے جس کے معنی تخلیق کرنے کے ہیں (to create)
Encyclopedia Britanica کے مطابق
Engineering is the professional art of applying science to the optimum conversion of sources of nature to benefit man
Encyclopedia of Science and Technology کے مطابق
Engineering, most simply is the art of directing the great resources of power in nature for the use and convenience of man
یہ بیانات تجربہ کار صاحبانِ دانش و فراست کے ہیں ۔ ان میں اہم موضوع قدرتی وسائل اور انسان کی منفعت ہیں
قدرتی وسائل اور قابلیت یا طاقت کا خالق کون ہے ؟ اور انسان کی منفعت کے کاموں کا حُکم کس نے دیا ؟
الله نے جو مالک و خالقِ حقیقی ہے اور کُل کائنات کا خالق و مالک بھی
پہلی بار 1785ء میں ایک فرانسیسی معروف سائنسدان Antoine Laurent Lavoisier نے کہا اور سب سائنسدان متفق ہیں کہ انسان مادہ کی نہ تو تخلیق کر سکتا ہے اور نہ مادہ کو فنا کر سکتا ہے البتہ مادہ کو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل کر سکتے ہیں
Matter can never be created nor destroyed. It can only be transformed from one form to another
مگر یہ حقیقت الله تعالٰی نے 14 صدیاں قبل قرآن شریف میں بتا دی تھی ۔ میرے مطالعہ کے مطابق اس سے قبل بھی الله کے پیغمبر اسی قسم کی بات کرتے رہے ۔ کچھ صدیاں قبل ایک فلسفی نے بھی یہ دعوٰی کیا تھا کہ ایسی بات تو عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے قبل بھی کہی گئی تھی ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ علمِ سائنس نیا نہیں ہے بلکہ اوائلِ انسانیت سے موجود ہے

سائنس یا انجنیئرنگ اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سائنس کے اصولوں میں تجربہ اور مشاہدہ کے ساتھ ترمیم ہوتی رہتی ہے جبکہ قرآن شریف الله کا کلام ہونے کی وجہ سے ابد یعنی جب تک دُنیا ہے اٹَل ہے
انجنیئر بننے کا فیصلہ کرتے وقت طالب علم کو ذہین اور تخلیقی بننے کی خواہش رکھنا چاہیئے تاکہ وہ اپنے علم اور ذہن کو انسانیت کے مفاد میں استعمال کرے