اپنے بلاگ پر میری 23 اکتوبر 2005ء کی تحریر
سورۃ 25 الفرقان آیۃ 67 ۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ۔ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے
اپنے بلاگ پر میری 23 اکتوبر 2005ء کی تحریر
سورۃ 25 الفرقان آیۃ 67 ۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ۔ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے
اپنے بلاگ پر میری 16 اکتوبر 2005ء کی تحریر سے
سورۃ 2 البقرۃ آیۃ 42 ۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو
اپنے بلاگ پر میری 19 اکتوبر 2005ء کی تحریر سے
سورۃ 61 الصف آیۃ 2 اور 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہر ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں
سورۃ 17 بنی اسرآءیل آیۃ 35
پیمانے سے دو تو پورا بھر کے دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو ۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی بہتر ہے
اپنے بلاگ پر میری 16 اکتوبر 2005ء کی تحریر
سورۃ 4 النّسآء آیۃ 58 ۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔ اللہ تم کو نہائت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے
سورۃ 4 النّسآء آیۃ 135 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نَفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔
سب مُسلمانوں کو رمضان کريم مبارک
اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو اور مجھے بھی اپنی خوشنودی کے مطابق رمضان المبارک کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے
روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے ۔ اللہ ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے احتساب کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت سے نوازے
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم
سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيات 183 تا 185
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
چند روز ہیں گنتی کے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دِنوں سے اور جن کو طاقت ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو
مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اسکے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دِنوں سے اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم احسان مانو
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے رمضان کی فضيلت سورت ۔ 97 ۔ القدر ميں بيان فرمائی ہے
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے
شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حُکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اُترتے ہیں
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے
میاں محمد بخش میر پور ریاست جموں کشمیر میں 1246ھ بمطابق 1830ء پیدا ہوئے ۔ انہیں رومیءِ کشمیر کہا جاتا ہے ۔ ان کی زیادہ تر شاعری پنجابی میں ہے لیکن فارسی اور اُردو میں بھی ہے ۔ اشعار کا مجموعہ ”سفر العشق“ جو ”سیف الملوک“ کے نام سے معروف ہوئی انہی کی لکھی ہوئی ہے
سیف الملوک شروع اِس دعا سے ہوتی ہے
رحمت دا مینہ پا خدایا باغ سُکا کر ہریا
بوٹا آس اُمید میری دا کردے میوہ بھریا
مٹھا میوہ بخش اجیہا قدرت دی گھت شِیری
جو کھاوے روگ اس دا جاوے دُور ہووے دلگیری
سدا بہار دئیں اس باغے۔کدے خزاں نہ آوے
ہووَن فیض ہزاراں تائیں ہر بھُکھا پھل کھاوے
نعمت اپنی وی کجھ مینوں بخش شناساں پاواں
ہمت دے دِلے نوں میرے، تیرا شکر بجا لیاواں
یہ نظم میں نے آٹھویں جماعت میں اُردو کی کتاب ”مرقع ادب“ میں پڑھی تھی
کیا خطا میری تھی ظالم تُو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر ہی تک شاخ پہ چھوڑا مجھے
جانتا گر اِس ہَنسی کے دردناک انجام کو
میں ہوا کے گُگُدانے سے نہ ہَنستا نام کو
شاخ نے آغوش میں کِس لُطف سے پالا مجھے
تُو نے مَلنے کے لئے بِستر پہ لا ڈالا مجھے
میری خُوشبُو سے بسائے گا بچھونا رات بھر
صبح ہو گی تو مُجھ کو پھینک دے گا خاک پر
پَتیاں اُڑتی پھِریں گی ۔ مُنتشِر ہو جائیں گی
رَفتہ رَفتہ خاک میں مِل جائیں گی کھو جائیں گی
تُو نے میری جان لی دَم بھَر کی زِینت کے لئے
کی جَفا مُجھ پر فقط تھوڑی سی فرحت کے لئے
دیکھ میرے رنگ کی حالت بدل جانے کو ہے
پَتی پَتی ہو چلی بے آب ۔ مر جانے کو ہے
پیڑ کے دو سبز پتے رنگ میرا اِن میں لال
جس کی رونق تھا میں بے رونق وہ ڈالی ہو گئی
حَیف ہے بچے سے ماں کی گود خالی ہو گئی
تِتلیاں بے چین ہوں گی جب مجھے نہ پائیں گی
غَم سے بھَنورے روئیں گے اور بُلبلیں چِلائیں گی
دُودھ شبنم نے پلایا تھا ملا وہ خاک میں
کیا خبر تھی یہ کہ ہے بے رحم گُلچیں تاک میں
مہر کہتا ہے کہ میری کِرنوں کی محنت گئی
ماہ کو غم ہے کہ میری دی ہوئی سب رنگت گئی
دیدہ حَیراں ہے کیاری۔ باغباں کے دِل میں داغ
شاخ کہتی ہے کہ ہے ہے گُل ہوا میرا چراغ
میں بھی فانی تُو بھی فانی سب ہیں فانی دہر میں
اِک قیامت ہے مگر مرگِ جوانی دہر میں
شوق کیا کہتے ہیں تُو سُن لے سمجھ لے مان لے
دِل کِسی کا توڑنا اچھا نہیں ۔ تُو جان لے