Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

رمضان کریم

سب مُسلمانوں کو رمضان کريم مبارک
اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو اور مجھے بھی اپنی خوشنودی کے مطابق رمضان المبارک کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے
روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے ۔ اللہ ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے احتساب کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت سے نوازے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم
سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيات 183 تا 185
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
چند روز ہیں گنتی کے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دِنوں سے اور جن کو طاقت ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو
‏ مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اسکے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دِنوں سے اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم احسان مانو

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے رمضان کی فضيلت سورت ۔ 97 ۔ القدر ميں بيان فرمائی ہے
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے
شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حُکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اُترتے ہیں
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے

رحمت دا مینہ پا خدایا

میاں محمد بخش میر پور ریاست جموں کشمیر میں 1246ھ بمطابق 1830ء پیدا ہوئے ۔ انہیں رومیءِ کشمیر کہا جاتا ہے ۔ ان کی زیادہ تر شاعری پنجابی میں ہے لیکن فارسی اور اُردو میں بھی ہے ۔ اشعار کا مجموعہ ”سفر العشق“ جو ”سیف الملوک“ کے نام سے معروف ہوئی انہی کی لکھی ہوئی ہے
سیف الملوک شروع اِس دعا سے ہوتی ہے

رحمت دا مینہ پا خدایا باغ سُکا کر ہریا
بوٹا آس اُمید میری دا کردے میوہ بھریا
مٹھا میوہ بخش اجیہا قدرت دی گھت شِیری
جو کھاوے روگ اس دا جاوے دُور ہووے دلگیری
سدا بہار دئیں اس باغے۔کدے خزاں نہ آوے
ہووَن فیض ہزاراں تائیں ہر بھُکھا پھل کھاوے
نعمت اپنی وی کجھ مینوں بخش شناساں پاواں
ہمت دے دِلے نوں میرے، تیرا شکر بجا لیاواں

پھول کی فریاد

یہ نظم میں نے آٹھویں جماعت میں اُردو کی کتاب ”مرقع ادب“ میں پڑھی تھی

کیا خطا میری تھی ظالم تُو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر ہی تک شاخ پہ چھوڑا مجھے
جانتا گر  اِس ہَنسی کے دردناک انجام کو

میں ہوا کے گُگُدانے سے نہ ہَنستا نام کو

شاخ نے آغوش میں کِس لُطف سے پالا مجھے

تُو نے مَلنے کے لئے بِستر پہ لا ڈالا مجھے

میری خُوشبُو سے  بسائے گا بچھونا رات بھر

صبح ہو گی تو مُجھ کو پھینک دے گا خاک پر

پَتیاں اُڑتی پھِریں گی ۔ مُنتشِر ہو جائیں گی

رَفتہ رَفتہ خاک میں مِل جائیں گی کھو جائیں گی

تُو نے میری جان لی دَم بھَر کی زِینت کے لئے

کی جَفا مُجھ پر فقط تھوڑی سی فرحت کے لئے

دیکھ میرے رنگ کی حالت بدل جانے کو ہے

پَتی پَتی ہو چلی  بے آب ۔ مر جانے کو ہے

پیڑ کے دو سبز پتے رنگ میرا اِن میں لال

جس کی رونق تھا میں بے رونق وہ ڈالی ہو گئی

حَیف ہے بچے سے ماں کی گود خالی ہو گئی

تِتلیاں بے چین ہوں گی جب مجھے نہ پائیں گی

غَم سے بھَنورے روئیں گے اور بُلبلیں چِلائیں گی

دُودھ شبنم نے پلایا تھا ملا وہ خاک میں

کیا خبر تھی یہ کہ ہے بے رحم گُلچیں تاک میں

مہر  کہتا ہے کہ میری کِرنوں کی محنت گئی

ماہ کو غم ہے کہ میری دی ہوئی سب رنگت گئی

دیدہ حَیراں ہے کیاری۔ باغباں کے دِل میں داغ

شاخ کہتی ہے کہ ہے ہے گُل ہوا میرا چراغ

میں بھی فانی تُو بھی فانی سب ہیں فانی دہر میں

اِک قیامت ہے مگر مرگِ جوانی دہر میں

شوق کیا کہتے ہیں تُو سُن لے سمجھ لے مان لے

دِل کِسی کا توڑنا اچھا نہیں ۔ تُو جان لے

پیار ؟

آدمی اپنے پیاروں سے(یعنی بیوی بچوں سے)
”گزشتہ رات مجھے احساس ہوا کہ دنیا میں وہ بھی ہیں جنہیں حقیقتاً میری ضرورت ہے“۔

اُس کے پیاروں میں سے ایک حیرانگی سے بولا “ اچھا ؟ وہ کون ہیں ؟“
آدمی ” مچھر“۔

چھوٹی چوٹی باتیں ۔ خوبصورتی

دساور میں کسی کے توجہ دلانے پر میں نے ایک بہت خوبصورت چہرہ دیکھا لیکن ابھی لمحہ بھی نہیں گذرا تھا کہ مجھے وہ چہرہ بدصورت لگنے لگا ۔ وجہ ؟

خوبصورتی کی کمی کو اخلاق پورا کر سکتا ہے
لیکن
اخلاق کی کمی کو خوبصورتی پورا نہیں کر سکتی

اخلاق کی خوبصورتی مؤثر اور پائیدار ہوتی ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ گفتار یا عمل ؟

کل کو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ

تم نے کیا خواب دیکھے تھے ؟
تم کیا سوچتے تھے ؟
تمہارے منصوبے کیا تھے ؟
تم نے کتنا بچا کر جمع کیا ؟
تم کیا پرچار کرتے رہے ؟

بلکہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ پوچھے گا کہ
تم نے قرآن پر کتنا عمل کیا ؟
تم نے حقدار کو اُس کا حق پہنچایا ؟
تمہارا دوسروں سے سلوک کیسا تھا ؟

Having sat for many years across many tables from many of the ‘folks’ the US tortured in the global ‘war on terror,’ men like Murat Kurnaz and Mohammed al-Qatani, and having heard first-hand their stories of being beaten, hung from ceilings, sexually assaulted, exposed to extreme temperatures, deprived of sleep, and subjected to numerous other brutal acts, my colleagues and I at the Center for Constitutional Rights can assure you: the important thing about the torture report is not just what we learn from it — it is what we do about it.

مکمل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Preventing Torture