Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

دعوے اور عمل ؟ ؟ ؟

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہ کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرَر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

طبعیت میں نرمی

بہت سے میاں بیوی ذرا سی لچک یا نرمی نہ دکھانے کی وجہ سے اپنا بُرا حال بنا لیتے ہیں ہمیں اپنے ساتھی کو اپنی توسیع نہیں سمجھنا چاہیئے ۔ اُس کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے اور اپنی پسند یا ناپسند ہوتی ہے ۔ ہمایں باہمی حقوق کو تسلیم کرنا چاہیئے جب تک کہ اس کا دین پر بُرا اثر نہ پڑے ۔ انفرادی معاملات میں اپنی اکڑ قائم رکھےا اور ساتھی کا لحاط نہ رکھے سے گھر کا ماحول بہت کشیدہ اور ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے

درگزر کرنا

خوشگوار زندگی کا اہم جُزو یہ ہے کہ ازواج ایک دوسرے کی بات کو درگزر کریں ۔ بُغزنہ رکھیں ۔ ناقد نہ بنیں
باہمی تعلقات اور اکٹھے رہنے کے دوران بعض اوقات ایسا موقع آ جاتا ہے جب آدمی کوئی ایس بات یا حرکت کر بیٹھتا ہے جو اُس کے ساتھی کےلئے تکلیف دہ ہو ۔ اس کو پکڑ کر نہیں بیٹھ جانا چاہیئے اور نہ دوسرے کو قصور وار ٹھہرانا چاہیئے بلکہ اے بھُلا دینا چاہیئے
یہ اُسی صورت ممکن ہے کہ ہم غرور میں آ کر دوسرے معافی مانگنے کا نہ کہیں اور خود ہمیں معاف کر دینے میں بُخل نہیں کرنا چاہیئے
رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم صحابہ کرام رضی الله عنہم سے پوچھا ” کیا تم چاہتے ہو کہ الله تمہیں معاف کر دے ؟“
اُنہوں نے کہا ” ضرور یا رسول الله“۔
حضور صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا ” پھر ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو“۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ الله ہمیں معاف کر دے تو ہمیں دوسروں کو معاف کرنا سیکھنا چاہیئے

اگر ہم اپنے ساتھ سے ذکر کرتے رہیں کہ کتنی بار اُس نے ہمیں شرمندہ کیا ہے یا تکلیف دی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے معاف یا درگزر نہیں کیا
جو بات ماضی میں ہوئی اُسے ماضی ہی میں رہنے دینا چاہیئے اور اُس کی یاد نہیں کرنا چاہیئے ۔ یہ طریقہ نہ چھوڑنے والا خود ہی کم مائیگی یا کمینگی کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس کا ذہن آزاد نہیں ہو پاتا

ازدواجی زندگی

شادی کا سب سے اہم وصف باہمی اعتبار یا یقین ہے جو شادی کے بندھن کو مضبوط بناتا ہے
اسلام دوسرے مذاہب کیطرح ہفتہ وار عبادت سے منسلک مذہب نہیں ہے ۔ اسلام لائحہءِ حیات ہے جو ہر انسانی عمل پر محیط ہے
باہمی اظہارِ خیال ازواج میں ہم آہنگی پیرا کرتا ہے اور یقین باہمی محبت میں اہم کردار ادا کرتا ہے
رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم کی حدیث ہے ”اگر خاوند اپنی بیوی کے منہ میں ایک نوالہ بھی ڈالتا ہے تو اس کا اجر اُسے ملتا ہے اور الله اُن میں محبت بڑھا دیتا ہے
اگر میاں بیوی صرف الله کی خوشنودی کے لئے آپس میں پیار کرتے ہیں تو ہم اپنا ایمان بڑھا رہے ہوتے ہیں

فخر اور تکبّر

اپنے اِسی بلاگ پر میری 23 اکتوبر 2005ء کی تحریر سے

سورۃ 31 لقمان آیت 18 اور 19
اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر
نہ زمین میں اکڑ کر چل
اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا
اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ
سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے

عیدالفطر مبارک ۔ کُلُ عام انتم بخیر

میں اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے آپ کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو عيد مبارک
الله کریم آپ سب کو کامِل ایمان کے ساتھ دائمی عمدہ صحت ۔ مُسرتوں اور خوشحالی سے نوازے ۔ آمين ثم آمين
اُنہیں نہ بھولیئے جنہیں الله نے آپ کے مقابلہ میں کم نوازہ ہے ۔ ایسے لوگ دراصل آپ کی زیادہ توجہ کے حقدار ہیں

رمضان کا مبارک مہینہ بخیر و عافیت گزر گیا ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی سب کے روزے اور عبادتيں قبول فرمائے
عیدالفطر کی نماز سے قبل اور بہتر ہے کے رمضان المبارک کے اختتام سے پہلے فطرانہ ادا کر دیا جائے ۔ کمانے والے کو اپنا اور اپنے زیرِ کفالت جتنے افراد ہیں مع گھریلو ملازمین کے سب کا فطرانہ دینا چاہیئے
عید کے دن فجر کی نماز سے مغرب کی نماز تک یہ ورد جاری رکھیئے ۔ نماز کیلئے جاتے ہوئے اور واپسی پر بلند آواز میں پڑھنا بہتر ہے
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْا الله وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
ا اللهُ اکبر کبِیرہ والحمدُللهِکثیِرہ و سُبحَان اللهُ بکرۃً و أصِیلا

آیئے سب انکساری ۔ رغبت اور سچے دِل سے دعا کریں
اے مالک و خالق و قادر و کریم و رحمٰن و رحیم و سمیع الدعا
رمضان المبارک میں ہوئی ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگذر فرما اور ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرما
اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ہموطنوں کو آپس کا نفاق ختم کر کے ایک قوم بننے کی توفیق عطا فرما
ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھ
جدِ امجد سیّدنا ابراھیم علیه السّلام کی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ ہمارے مُلک کو امن کا گہوارہ بنا دے اور سب کے رزقِ حلال میں کُشائش عطا فرما
ہمیں ۔ ہمارے حکمرانوں اور دوسرے رہنماؤں کو سیدھی راہ پر چلا
ہمارے ملک کو صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے
آمین ثم آمین یا رب العالمین

وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارۡزُقۡ اَهۡلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡهُمۡ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ؕ قَالَ وَمَنۡ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِيۡلًا ثُمَّ اَضۡطَرُّهٗۤ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ‌ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ ۔ (سُوۡرَةُ البَقَرَة ۔ آیة 126)
اور یہ کہ ابراہیمؑ نے دعا کی: “اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلو ں کا رزق دے” جواب میں اس کے رب نے فرمایا ”اور جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تومیں اُسے بھی دوں گا مگر آخرکار اُسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے“۔

الوداع الوداع یا شہرالرمضان

تیرے آنے سے دل خوش ہوا تھا
سب کا ذوقِ عبادت بڑھا تھا
مسجدوں میں بہار آ گئی تھی
جوق در جوق آتے تھے نمازی
بزمِ افطار سجتی تھی کیسی
خُوب سحری کو رونق تھی ہوتی
الوداع الوداع یا شہرالرمضان
نیکیاں کچھ ہم نہ کر سکے ہیں
آہ آسیاں میں ہی دن کٹے ہیں
ہائے ۔ غفلت میں تُجھ کو گزارا
الوداع الوداع یا شہرالرمضان
واسطہ تُجھ کو آخری نبی کا
روزِ حشر ہم کو بھُول نہ جانا
روزِ محشر تُم ہمیں بخشوانا
الوداع الوداع یا شہرالرمضان

عید کے بعد
سب سامان ہو جائے سُونا سُونا
ہو جائے گا کم نمازوں کا جذبہ
جب گزر جائیں گے ماہ گیارہ
تیری آمد کا پھر شور ہوں گا
کیا ہے میری زندگی کا بھروسہ
الوداع الوداع یا شہرالرمضان