Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

دین اسلام اور ہمارے اطوار

دین کا مطلب ہے مسلک یعنی راستہ ۔ طریقہ ۔ دستور یا آئین ۔ دین اسلام زندگی گذارنے کا ایک مکمل راستہ ۔ طریقہ ۔ دستور یا آئین ہے ۔ قرآن اور حدیث میں ہر کام کے بنیادی اصول موجود ہیں ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت میں ہمارا ہر فعل (گھر یا بازار یا دفتر یا مسجد یا سفر میں کوئی جگہ بھی ہو) دین کے مطابق ہونا چاہیئے مگر ہم لوگوں نے سب کے الگ الگ طریقے اور راستے خود سے بنا لئے ہیں ۔ پھر جب ہمیں ناکامی ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری دین پر ڈال دیتے ہیں ۔
قرآن شریف کا ادب یہ ہے کہ ہم اسے اچھی طرح سمجھیں اور اس پر صحیح طرح عمل کریں لیکن ہم لوگ قرآن شریف کا ادب اس طرح کرتے ہیں کہ اسے چُومتے ہیں آنکھوں سے لگاتے ہیں اور مخمل میں لپیٹ کر اونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں ۔ کیا قرآن شریف یا حدیث میں اس قسم کی کوئی ہدائت ہے ؟ ادب تو ہمیں تمام نافع علوم کا کرنا چاہیئے اور ایسی کتابوں کو سنبھال کر رکھنا چاہیئے نمائش کے لئے نہیں علم سیکھنے کے لئے ۔ میں نے تو ساری عمر تاریخ جغرافیہ سائنس ریاضی کی کتابوں کا بھی احترام کیا ۔
ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہت کم ہیں جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی کم جو دین پر عمل کرنے کی کوشش کر تے ہیں ؟ ہم لوگوں نے قرآن و حدیث سے مبرّا (بعض مخالف) اصول خود سے وضع کر لئے ہوئے ہیں اور اُن پر عمل کر کے جنّت کے خواہاں ہیں ۔ کتنی خام خیالی ہے یہ !
* ہم کلمہ پڑھتے ہیں “اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے پیامبر ہیں” لیکن اللہ اور اُس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا پسند نہیں کرتے
* ہم اللہ کی بجائے اللہ کے بنائے ہوئے فانی انسانوں سے ڈرتے ہیں
* ہم دعویٰ تو کرتے ہیں کہ مُسلم بُت شکن ہیں مگر اپنے گھروں میں مُورتیوں سے سجاوٹ کرتے ہیں
* ننانوے نام تو ہم اللہ کی صِفات کے گِنتے ہیں لیکن اپنی حاجات حاصل کرنے فانی انسانوں اور مُردوں کے پاس جاتے ہیں
* کچھ ایسے بھی ہیں جو 1400 سال سے زائد پرانے دین کو آج کی ترقّی یافتہ دنیا میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں ۔
ہماری بے عملی کا نتیجہ ہے کہ آج غیر مُسلم نہ صرف مسلمانوں کو پاؤں نیچے روند رہے ہیں بلکہ کھُلم کھُلا توہینِ رسالت کرنے لگے ہیں فانی انسان کے بنائے ہوئے سائنس کے کسی فارمولے کو (جو قابلِ تغیّر ہیں) رَد کرنے کے لئے ہمیں سالہا سال محنت کرنا پڑتی ہے لیکن اللہ کے بنائے ہوئے دین کو رَد کرنے کے لئے ہمیں اِتنی عُجلت ہوتی ہے کہ اسے سمجھنے کی کوشش تو کُجا ۔ صحیح طرح سے پڑھتے بھی نہیں ۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر عربی نہ بھی آتی ہو پھر بھی قرآن شریف کی عربی میں تلاوت ثواب کا کام ہے اور روزانہ تلاوت برکت کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہی نہیں تجربہ بھی ہے کہ اگر عربی میں بھی تلاوت باقاعدہ جاری رکھی جائے تو مطلب سمجھنے میں ممد ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن کیا قرآن شریف صرف پڑھنے کے لئے ہے عمل کرنے کے لئے نہیں ؟
جو بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ویسے تو ہم قرآن شریف کو سمجھنا برطرف کبھی کھول کر پڑھیں بھی نہیں اور نہ اس میں لکھے کے مطابق عمل کریں مگر کسی کے مرنے پر یا محفل رچانے کے لئے فرفر ایک دو پارے پڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ فرض پورا ہو گیا ۔
اللہ ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

نیا پاکستان بمقابلہ پرانا پاکستان

جون 2018ء سے پہلے کا یعنی پرانا پاکستان
بمقابلہ عمران خان کا نیا پاکستان

پرانا پاکستان
یہ میرا پاکستان ہے ۔ یہ تیرا پاکستان ہے
اس پر دل قربان ۔ اِس پہ جان بھی قربان ہے

نیا پاکستان
یہ نہ میرا پاکستان ہے ۔ نہ تیرا پاکستان ہے
یہ اسکا پاکستان ہے جو وزیر اعظم پاکستان ہے

پرانا پاکستان
یہ وطن ہمارا ہے اسے ہم نے سنوارا ہے
اس کا ہر اک ذرّہ ہمیں جان سے پیارا ہے

نیا پاکستان
یہ وطن ہمارا ہے جسے ہم نے بگاڑا ہے
اسکا ہرذرّہ اب آئی ایم ایف سےاُدھارا ہے

پرانا پاکستان
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے

نیا پاکستان
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب مجھ سے ہے
اس کی زمین کا ہر ذرہ آفتاب مجھ سے ہے
(مجھ یعنی وزیر اعظم)

یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989 میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988 میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990 کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔
اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947 میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں مِڈل مَین کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے ۔
قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”۔ جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں۔ اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہل کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہل کشمیر صرف کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ۔ بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔

ثقافت اور کامیابی

ثقافت کا غوغا تو بہت لوگ کرتے ہیں لیکن ان کی اکثریت نہیں جانتی کہ ثقافت ہوتا کیا ہے اور نہ کسی کو معلوم ہے کہ ہماری قدیم تو بہت دُور کی بات ہے ایک صدی قبل کیا ثقافت تھی ۔ کہتے ہیں ۔ ۔ ۔
1 ۔ خوائص یا خصوصیات جو کسی شخص میں اس فکر یا تاسف سے پیدا ہوتی ہے کہ بہترین سلوک ۔ علم و ادب ۔ ہُنر ۔ فَن ۔ محققانہ سعی کیا ہیں
2 ۔ وہ جو علم و ادب اور سلوک میں بہترین ہے
3 ۔ ایک قوم یا دور کے تمدن ۔ تہذیب یا شائستگی کی شکل
4 ۔ دماغ کی تعلیم و تربیت کے ذریعہ ترقی ۔ نشو و نما ۔ تکمیل یا اصلاح
5 ۔ کسی گروہ کا ساختہ رہن سہن کا طریقہ جو نسل در نسل چلا ہو
6 ۔ طور طریقہ اور عقائد جو کسی نظریاتی گروہ یا صحبت کی نمایاں صفت ہو
ثقافتی لحاظ سے ساری دنیا کا حال ابتر ہے ۔ جھوٹ ۔ فریب ۔ مکاری ۔ خودغرضی ثقافت بن چکی ہے ۔ خودغرضی میں کوئی جتنا زیادہ دوسرے کو ۔ یا جتنے زیادہ لوگوں کو بیوقوف بنا لے وہ اتنا ہی زیادہ ذہین اور ہوشیار سمجھا جاتا ہے ۔ جدید ثقافت یہ ہے کہ جھوٹ بولتے جاؤ بولتے جاؤ ۔ اگر کوئی 10 فیصد کو بھی مان لے تو بھی پَو بارہ یعنی 100 فیصد فائدہ ہی فائدہ ۔
ہماری موجودہ ثقافت کیا ہے ؟ یہ ایک مُشکل سوال ہے ۔ متذکرہ بالا ثقافت کی 6 صفات میں سے پہلی 5 صفات تو ہمارے ہموطنوں کی اکثریت کے قریب سے بھی نہیں گذریں ۔ البتہ چھٹی تعریف پر ہماری قوم کو پَرکھا جا سکتا ہے یعنی ہمارے ہموطنوں کی اکثریت کے نمایاں طور طریقے اور عقائد کیا ہیں ؟
وہ وعدہ کر لینا جسے ایفاء کرنے کا ارادہ نہ ہو ۔ جھوٹ ۔ غیبت ۔ بہتان تراشی ۔ رشوت دینا یا لینا ۔ خودغرضی کو اپنا حق قرار دینا ۔ اللہ کی بجائے اللہ کی مخلوق یا بے جان (افسر ۔ وڈیرہ ۔ پیر۔ قبر ۔ تعویز دھاگہ) سے رجوع کرنا۔ وغیرہ ۔ ہموطنوں کی اکثریت کے یہ اطوار ہیں جن کو ثقافت کی چھٹی تعریف کے زمرے میں لکھا جا سکتا ہے ۔ اِن خوائص کے مالک لوگوں کی ظاہرہ طور پر ملازمت میں ترقی یا تجارت میں زیادہ مال کمانے کو دیکھ کر لوگ اِن خوائص کو اپناتے چلے گئے اور غیر ارادی طور پر ناقابلِ اعتبار قوم بن گئےہیں ۔
پچھلی چند دہائیوں پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ثقافت شاید ناچ گانے اور بے حیائی کا نام ہے ۔ اس میں پتگ بازی اور ہندوآنہ رسوم کو بھی ہموطنوں نے شامل کر لیا ہے ۔ شادیاں ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں ہوتی ہیں ۔ شریف گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکوں کا قابلِ اعتراض بلکہ فحش گانوں کی دھنوں پر ناچنا شادیوں کا جزوِ لاینفک بن چکا ہے جو کہ کھُلے عام ہوتا ہے ۔
کچھ ایسے بھی ہموطن ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اُن کی ثقافت ناچ گانے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔ انتہاء یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنی ساری عمر سیدھی راہ کی تبلیغ میں گذار گئے کبھی ناچ گانے کے قریب نہ گئے اُن کی قبروں پر باقاعدہ ناچ گانے کا اہتمام کیا جانا بھی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے ۔ اگر اُن نیک لوگوں کی روحیں یہ منظر دیکھ پائیں تو تڑپ تڑپ کر رہ جائیں ۔
اور بہت سے عوامل ہیں جو لکھتے ہوئے بھی مجھے شرم محسوس ہوتی ہے ۔ ان حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ بے حیائی ہماری ثقافت بن چکی ہے ۔ کل کا مؤرخ لکھے گا کہ مسلمان ہونے کے ناطے اپنا ملک حاصل کرنے والے چند ہی دہائیوں کے بعد ہوٹلوں ۔ گھروں اور بازاروں میں اپنے ہی دین کی دھجیاں اُڑاتے رہے اور اتنے کمزور ہو گئے کہ جو چاہتا اُن پر چڑھ دوڑتا ۔
بلا شُبہ ۔ ہموطنوں میں شریف لوگ بھی موجود ہیں جن کی اکثریت ایک جرمن پادری کے قول پر پورا اُترتی ہے جسے ہٹلر کے نازی فوجیوں نے جنگِ عظیم دوم کے دوران قید کر لیا تھا ۔ یہ پادری لکھتا ہے ۔ ۔ ۔
نازی پہلے کمیونسٹوں کو پکڑنے آئے تو میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں کمیونسٹ نہ تھا ۔ پھر وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے تو میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں یہودی نہ تھا ۔ پھر وہ عیسائی کیتھولکس کو گرفتار کرنے آئے تو بھی میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں پروٹسٹنٹ تھا ۔ پھر وہ مجھے پکڑنے آئے ۔ مگر اس وقت تک کوئی بولنے والا ہی باقی نہ بچا تھا ۔

آٹھ اہم عمل

احترام [Respect] ۔ دوسروں سے وہی سلوک کرنا جس کی خود توقع رکھتے ہوں

قدر دانی [Appreciation] ۔ زندگی میں جو بھی اچھی چیز ملے اس کیلئے احسان مند ہونا

مسرت [Happiness] ۔ زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہونا یعنی بشاش چہرہ

درگذر [Forgiveness] ۔ ہر موقع پر غصہ پر قابو رکھنا

حصہ دار ہونا [Sharing] ۔ دینے کی خوشی بغیر وصولی کی توقع کے

دیانت [Honesty] ۔ ہر وقت سچ بولنا

سالمیت [Integrity] ۔ خواہ کچھ بھی ہو خالص طور پر صحیح عمل کرنا

ہمدردی [Compassion] ۔ دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے اس کی تکلیف کو کم کرنا

کیا قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے ؟

دانشوروں کا ایک منظم گروہ گزشتہ 2 دہائیوں سے یہ ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے کہ قائداعظم سیکولر ذہن کے مالک تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ حضرات قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو اپنا سیکولر ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ قائداعظم کی دیگر سینکڑوں تقاریر جو شاید انہوں نے پڑھی نہیں میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کی بنیاد اسلام کو ہی بتایا گیا ہے ۔ متذکرہ تقریر دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد دستور ساز اسمبلی سے قائداعظم کا پہلا خطاب تھا ۔ یہ تقریر نہ تو لکھی ہوئی تھی اور نہ تیار کردہ بلکہ فی البدیہہ تھی۔ اس تقریر کے آخر میں قائد اعظم نے کہا تھا
”ہمیں اسی لگن کے ساتھ کام کا آغاز کرنا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ اکثریت اور اقلیت کی حصہ داری ، ہندو طبقہ اور مسلم طبقہ کیونکہ مسلمانوں میں بھی پٹھان پنجابی شیعہ سُنّی وغیرہ اور ہندوؤں میں برہمن وشنواس کھتری اور بنگالی مدراسی وغیرہ ختم ہو جائیں گے ۔ درحقیقت اگر آپ مجھ سے پوچھیں، یہ ہندوستان کی آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی اگر یہ نہ ہوتا تو ہم بہت پہلے آزاد ہو گئے ہوتے ۔ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم کو خاص کر 400 ملین نفوس کو محکومیت میں نہیں رکھ سکتی ۔ نہ کوئی قوم آپ کو زیر کر سکتی تھی اور نہ مغلوب رکھ سکتی تھی سوائے متذکرہ گروہ بندی کے ۔ اسلئے ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیئے ۔ آپ آزاد ہیں ۔ آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے ۔ آپ اپنی مساجد میں جانے کیلئے آزاد ہیں یا پاکستان کی اس ریاست میں کسی بھی دوسری عبادت کی جگہ ۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا مسلک سے ہو اس کا ریاست کے کاروبار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے“۔ (پوری تقریر کا متن اِن شاء الله چند دن بعد)
بتایئے اس میں سے سیکولر کیسے اَخذ کیا گیا ؟
قائد اعظم نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کو برابری کے درجے کا وعدہ کیا اور مذہبی آزادی کا پیغام دیا وہ دراصل اسلامی تعلیمات کا ہی ایک جزو ہے
قائداعظم نے تقسیم ہند سے قبل لگ بھگ 100 بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اُٹھائی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد 4 بار یہ واضح کیا کہ پاکستان کے نظام، آئین اور مُلکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔ اُنہوں نے لاتعداد بار کہا کہ قرآن ہمارا راہنما ہے اور ہمیں قرآن ہی سے راہنمائی کی روشنی حاصل کرنی چاہیئے۔ ان سینکڑوں اعلانات اور وعدوں کے باوجود سیکولر حضرات اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ذہن کے دریچے کسی اختلافی بات پر کھولنے کے لئے تیار نہیں
جنرل اکبر کے مطابق قائداعظم سے ملاقات میں اُس (جنرل اکبر) نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن بکس لانے کو کہا۔ قائداعظم نے بکس کو کھول کر چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی ۔ انہوں نے اسے کھولا اور فرمایا ”جنرل یہ قرآن مجید ہے ۔ اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے عرض کیا کہ ”آپ ایک حُکم جاری کریں اور افسروں کو مُتنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے“۔ قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ ”کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حُکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا ؟“
پھر سٹینو کو بُلایا گیا اور قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا جس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حُکم جاری کر دیا کہ جس پر میری (جنرل اکبر کی) ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہا

بقیہ قائد اعظم اور قرآن

یہ 25 دسمبر 2019ء کو شروع کئے گئے مضمون کا بقیہ حصہ ہے
غور کیجئے جنرل اکبر سے گفتگو کے دوران ”بکس منگوانا اوراس سے قرآن مجید نکالنا“ کا مطلب ہے قائداعظمؒ قرآن مجید اپنے ساتھ رکھتے تھے اور پھر ”فوراً نشان زدہ صفحہ نکالنے“ کا مطلب ہے وہ قرآن حکیم پڑھتے، غور کرتے اور نشانیاں بھی رکھتے تھے ۔ یہی باتیں عبدالرشید بٹلر نے بھی بتائیں

جہاں تک شراب پر پابندی کا تعلق ہے قائداعظمؒ نے 7 جولائی1944ء کو ہی راولپنڈی کی ایک تقریب میں ایک سوال کے جواب میں اعلان کردیا تھا کہ پاکستان میں شراب پر یقیناً پابندی ہوگی (بحوالہ قائداعظمؒ کے شب و روز ۔ از ۔ خورشید احمد خان مطبوعہ مقتدرہ قومی زبان ۔ اسلام آباد ۔ صفحہ 10 )۔

یہی وہ بات ہے جس سے روشن خیال بِدکتے اور پریشان ہو کر سیکولرزم کا پرچار کرنے لگتے ہیں ۔ قائداعظمؒ ایک سچے اور کھرے انسان تھے ۔ وہ وہی کہتے جوخلوص نیت سے محسوس کرتے اور جس پر یقین رکھتے تھے

19 اگست 1941ء کو ایک interviewمیں قائداعظم ؒ نے کہا ”میں جب انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کے باہمی رابطہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے ۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کا یہ تصور محدود نہیں ہے ۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ماہر دینیات البتہ میں نے قرآن مجید اوراسلامی قوانین کامطالعہ کیاہے ۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق زندگی کے ہر پہلو کااحاطہ کیا گیا ہے ۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآن حکیم کی تعلیمات سے باہرہو“ (گفتار ِ قائداعظمؒ ۔ از ۔ احمد سعید صفحہ 261)۔

قائداعظمؒ نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات اور قرآن حکیم پر غور کا ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا اور اگر وہ قرآن مجید کا مطالعہ اور اس پر غور کرنے کے عادی نہ ہوتے تو کبھی ایسی بات نہ کرتے ۔ 12جون 1938ءکو انہوں نےجو کہا اسے وہ مرتے دم تک مختلف انداز سے دہراتے رہے ۔ ان کے الفاظ پر غور کیجئے ”مسلمانوں کے لئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان کے پاس تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے ۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی ۔ تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کا سیاسی پروگرام بھی موجود ہے ۔ میرا اسی قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے ۔ (ہفت روزہ انقلاب 12 جون 1938ء بحوالہ احمد سعید صفحہ 216)۔

قرآن فہمی کا فیض ہوتا ہے روشن باطن ۔ جوابدہی کاخوف اور زندہ ضمیر ۔ قائداعظمؒ نے ایک بار اپنے باطن کو تھوڑا سا آشکارہ کیا ۔ ان الفاظ میں اس کی جھلک دیکھئے اور قائداعظم محمد علی جناح کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”مسلمانو ۔ میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا ۔ دولت ۔ شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لُطف اٹھائے ۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سربلند دیکھوں ۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میراخدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی ۔ تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا ۔ میں آپ سے داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں ۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل ۔ میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا ۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم ۔ اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے ۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے (انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939 بحوالہ احمد سعید صفحہ 233)

قائداعظمؒ کے الفاظ کو غور سے پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ روشن باطن ۔ زندہ ضمیر ۔ اسلام اورمسلمانوں سے محبت اور خوفِ الٰہی قرآ ن فہمی ہی کا اعجاز تھا اور مسلمانان ہند و پاکستان کتنے خوش قسمت تھے جنہیں ایسا رہنما ملا ۔ اسی لئے تو علامہ اقبالؒ جیسا عظیم مسلمان فلسفی ۔ مفسر قرآن اور زندہ کلام کاشاعر قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر مانتا تھا