Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

مٹی کا انسان

گا میرے مَن وا گاتا جا رے ۔ جانا ہے ہم کا دُور
ٹھُمک ٹھُمک ناہیں چل رے بَیَلّ وا اپنی ڈگریا ہے دُور
دُکھ سُکھ ساتھی ہیں جیون کے ۔ نہ گھبراؤ پیارے
آج نہیں تو کل جاگیں گے ۔ سوئے بھاگ ہمارے
جھُوٹے ناتے ہیں اِس جَگ کے سوچ ارے ناداں
جانا ہوگا تَوڑ کے اِک دن دنیا کے دَستُور
رہ جائے گا پِنجرہ خالی مٹی کے انسان
مالک پہ تُو چھوڑ دے ڈَوری جو اُس کو منظُور

بڑائی کِس میں ہے؟

بڑائی اِس میں ہے کہ
آپ نے کِتنے لوگوں کو اپنے گھر میں خوش آمدَید کہا۔ نہ کہ آپ کا گھر کِتنا بڑا ہے۔
آپ نے کِتنے لوگوں کو سواری مہیّا کی۔ نہ کہ آپ کے پاس کِتنی اچھی سواری ہے
آپ کِتنی دولت دوسروں پر خرچ کرتے ہیں۔ نہ کہ آپ کے پاس کِتنی دولت ہے
آپ کو کِتنے لوگ دوست جانتے ہیں۔ نہ کہ کِتنوں کو آپ دوست سمجھتے ہیں
آپ سب سے کِتنا اچھا سلوک کرتے ہیں۔ نہ کہ کِتنے عالِیشان محلہ میں رہتے ہیں
آپ نے کِتنا سچ بولا اور کِتنے وعدے پورے کئے۔ نہ کہ آپ نےکِتنے لوگوں کو بُرے ناموں سے پُکارا

دنیا اور آخرت ۔ دونوں ہی جنّت

اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے دُکھ بھُلا دیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یاد رکھیں
اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے نقصان بھلا دیں اور جو فائدے پائے ان سب کو یاد رکھیں
اگر ہم لوگوں میں عیب ڈھونڈنا چھوڑ دیں اور ان میں خُوبیاں تلاش کر کے یاد رکھیں
کتنی آرام دہ ۔ خوش کُن اور اطمینان بخش یہ دنیا بن جائے اس معمولی کوشش سے اور الله کی مہربانی سے آخرت میں بھی جنّت مل جائے

دعا

آیئے سب مِل کر اپنے خالق و مالک کے سامنے عاجزی اور صدق دِل سے دعا کریں
آہ جاتی ہے فلک پر ۔ رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
اے دعا عرض کرنا عرشِ الہی تھام کے
اے خدا پھیر دے اب رُخ گردشِ ایام کے
ڈھُونڈتے ہیں اب مداوا سَوزشِ غم کے لئے
کر رہے ہیں زخمِ دل فریاد مرہم کے لئے
صُلح تھی جن سے وہ اب بر سرِ پیکار ہیں
وقت اور تقدیر دونوں ۔ درپئے آزار ہیں
اے مددگارِ غریباں ۔ اے پناہِ بے کساں
اے نصیرِ عاجزاں ۔ اے مایہءِ بے مائیگاں
رحم کر ۔ تُو اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا
خلق کے راندے ہوئے دنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں اب در پہ تیرے ۔ ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں ۔ بدکار ہیں ۔ ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی اُمت میں ہیں
حَق پرَستوں کی اگر ۔ کی تو نے دِلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بُت کہ مُسلم کا خدا کوئی نہیں