Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

بُہتان اور  دُشنام طرازی کرنے والے کے پرستار زیادہ کیوں ہیں ؟

میری عمر 80 سال ہو چکی ہے ۔ میرے بچپن اور نوجوانی میں بزرگ جس سے ناراض ہوتے تو ” بے ھدائتا “ یا ” بے مُرشدا “ کہتے

اِن دونوں کا مطلب ایک ہی ہے کیونکہ مُرشد ہمیشہ ھدایت دیتا ہے

جِسے یہ کہا جاتا وہ بالغ ہویا نابالغ  پریشان ہوتا اور کوشش کرتا کہ آئیندہ ایسی غلطی نہ کرے

اُس زمانہ میں گندی گالی صرف لَچر لوگ دیتے تھے اور بُہتان تراشی بھی بہت کم تھی
پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ گُزرا ” بے ھدائتا “ یا ” بے مُرشدا “ سُننے کو نہیں ملا البتہ گالیوں اور  بُہتان تراشیوں کی بُہتات ہو گئی ہے

اس کا سبب ہم سے 2 دہائیاں بعد تقریباً سب سکولوں اور کئی گھروں میں تربیت کا فُقدان ہے

ایک زمانہ تھا کہ ایک گلی ایک محلہ میں رہنے والے ایک دوسرے کو اپنے سگے بزرگ ۔ بہن ۔ بھائی ۔ بیٹی یا بیٹے کی طرح سمجھتے تھے

جب انتخابات ہوتے تو لگ بھگ 70 فیصد لوگ ووٹ ڈالنے جاتے تھے  

فی زمانہ یہ حال ہے کہ ایک ہی گلی میں ایک ہی دیوار کے دو اطراف رہنے والے ایک دوسرے کی شکلوں سے بھی واقف نہیں

یعنی ہر کوئی اپنے حال میں مَست ہے

مزید زیادہ تر لوگ ووٹ ڈالنے جانے کی نسبت گھر پر پڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ووٹ ڈالنے زیادہ تر وہ جاتے ہیں جو سَنسی خیز باتوں سے متاءثر ہیں یا بُہتان اور  دُشنام طرازی کرنے والے کو بڑا لیڈر سمجھتے ہیں نتیجہ آپ کے سامنے ہے   

میاں جی (دادا جی)

میاں جی 2 جون 1955ء کو بعد دوپہر اچانک فوت ہو گئے تھے ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی جنَّت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے
میاں جی بہت اچھے اتالیق (Teacher/Trainer) تھے ۔ میں نے بچپن میں اُن سے بہت کچھ سیکھا ۔ اُن کی بتائی ہوئی باتوں نے ساری زندگی میری راہنمائی کی ۔ بالخصوص مندرجہ ذیل 3 اقوال نے
1 ۔ نیکی کر دریا میں ڈال
2 ۔ کُتا اِنسان کو کاٹتا ہے ۔ اِنسان کُتے کو نہیں کاٹتا
3 ۔ جس نے سِیکھنا ہو وہ نالی کے کیڑے سے بھی کوئی اچھی بات سِیکھ لیتا ہے اور جس نے نہ سیکھنا ہو اُسے عطّار کی دکان پر 10 سال بٹھائے رکھیں تو بھی اُسے خُشبُو کی پہچان نہیں ہوتی
میاں جی جہاں کہیں جاتے تو مجھے ساتھ لے کر جاتے تھے ۔ گوشت خریدنا ۔ قربانی کیلئے دُنبہ یا بکرا مُنتخب کرنا اور مُرغی ذبح کرنا میں نے میاں جی سے سیکھا
میاں جی کی اِتنی عزت تھی کہ جہاں سے گزرتے لوگ ادب سے سلام کرتے
وہ جموں کے چند امیر ترین آدمیوں میں سے تھے مگر انکساری اتنی کہ سوچ سے باہر
اُن کے تحمل اور بُردباری کا ایک واقعہ مُختصراً بیان کرتا ہوں
میں 1946ء میں میاں جی کے ساتھ بازار سے واپس آ رہا تھا ۔ اپنے گھر کے قریب ایک رشتہ دار ملا ۔ میاں جی نے قریب جا کر بڑی دھیمی آواز میں اُسے کچھ کہا ۔ اُس شخص نے ایک زور دار تھپڑ میاں جی کے گال پر جَڑ دیا ۔ میاں جی نے بغیر غصہ کھائے بڑے تحمل کے ساتھ اُسے کہا ”الله بھلا کرے“۔
میں نے دیکھا کے سامنے بازار سے 2 دکاندار ہماری طرف بھاگے ۔ میاں جی نے ہاتھ سے اُنہیں رُکنے کا اشارہ کیا اور وہ رُک گئے ۔ میاں جی نے اس واقعہ کا بالکل کسی سے ذکر نہ کیا
ہم 1947ء میں پاکستان آ گئے ۔ میں غالباً 1956ء میں سیالکوٹ گیا ہوا تھا اور ایک بازار سے گزر رہا تھا کہ مجھے کسی نے آواز دی ۔ میں مُڑ کر پیچھے گیا تو وہی شخص ایک دُکان پر بیٹھا مجھے بُلا رہا تھا ۔ میں قریب گیا تو اُس نے بڑی ندامت کا اظہار کرتے ہوئے مجھے بتایاکہ اس نے جو گستاخی کی اس پر وہ بہت پشیمان ہے اور مزید غلطی یہ کہ مہاجر ہونے کے بعد نان و نفقہ کی فکر میں لگ گیا اور اس دوران میاں جی فوت ہو گئے ۔ اُن سے معافی مانگنا چاہیئے تھی
اُس شخص نے مجھے بتایا کہ میاں جی نے اُس کی والدہ کا پیغام اُسے پہنچایا تھا

والدین

جیُوندیاں پُچھی نہ وات ماپیاں دی

مَویاں ڈھَونگ رچاوَن دا کی فائدہ ؟

جیُوندیاں کول بہہ کے دُکھڑا پھَولیا نئیں

مَویاں تے فیر رَون کُرلاوَن دا کی فائدہ ؟

ساء ہُوندیاں بھُکھ نہ پیاس پُچھی

پِچھوں دیگاں چڑھاوَن دا کی فائدہ ؟

جَندے نال ماپے نہ گئے راضی

اَوہنوں مکے وَل جاوَن دا کی فائدہ؟

غور کیوں نہیں کرتے ؟

(میری 14 دسمبر 2016ء کو شائع کردہ تحریر)

قرآن شریف کی تلاوت کارِ ثواب ہے لیکن قرآن شریف کا مقصد اِسے سمجھنا اور اِس کے مطابق عمل کرنا ہے

سُوۡرَةُ 39 الزُّمَر آیة 9 ۔ ‌ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الَّذِيۡنَ يَعۡلَمُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‌ؕ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ

(اِن سے پوچھو) کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں

دین کی بات نہ بھی کریں تو بھی عِلم والے کا مطلب رَٹا لگانے والا نہیں ہے بلکہ سمجھ کر اُس پر عمل کرنے والا ہے

الله نے انسان کو غور کرنے کا سبق بار بار دیا ہے کیونکہ غور کرنے سے ہی درست سمجھ آ سکتی ہے ۔ میرے عِلم کے مطابق غور کرنے کے بارے میں قرآن مجید میں 10جگہ الله کا فرمان موجود ہے

سورت+ 6 الانعام ۔ آیت 50 ۔ ہَلۡ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ؕ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوۡنَ
بھلا اندھا اور آنکھ والا برابر ہوتے ہیں؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟
سُوۡرَةُ  2 البَقَرَة آية 219 ۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَكَّرُوۡنَۙ

اس طرح الله تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو
سُوۡرَةُ 2 البَقَرَة آية 266 ۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَتَفَكَّرُوۡنَ

 اس طرح الله تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو اور سمجھو
سُوۡرَةُ 10 یُونس آية 3 ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟
سُوۡرَةُ 11 هُود آية 24 ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟
سُوۡرَةُ 11 هُود آية 30 ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟
سُوۡرَةُ 16 النّحل آية 17 ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟
سُوۡرَةُ 23 المؤمنون آية 85 ۔ قُلۡ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ کہو کہ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟
سُوۡرَةُ 37 الصَّافات آية 155 ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ‌ۚ ۔ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟
سُوۡرَةُ 45 الجَاثیَة آية 23 ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟

ایک غیر مُسلم آئزک نِیوٹَن (1643ء ۔ 1727ء) جو مشہور ماہر طبیعات و ریاضی تھے نے اِن الفاظ میں غور کرنے کو اُجاگر کیا تھا
ایک انگھوٹھے کی ایک پَور کا مطالعہ ہی یہ سمجھنے کیلئے کافی ہے کہ خدا ہے

 ہم سِینہ ٹھَونک کر مسلمان ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں ۔ الله کا فرمان (قرآن شریف) احترام کی خاطر مخمل میں لپیٹ کر اُونچی جگہ پر رکھتے ہیں لیکن اُسے سمجھنے اور اُس پر غور و فکر کرنے کا ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا ۔ عمل کرنے کا تو شاید ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں

حد تو یہ ہے کہ ہم دُنیاوی معاملات میں بھی صورتِ حال اور معاملہ کا مکمل جائزہ لئے بغیر فتوٰی صادر کر دیتے ہیں
الله سُبحانُهُ و تعالٰی ہمیں اپنے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

حقیقی حُسن

ظاہری حُسن پہ نہ جایئے ۔ دھوکا ہو سکتا ہے
دولت پہ نہ جایئے ۔ ختم ہو جاتی ہے
پہچانئے اُسے جو آپ کو مُسکراہٹ دے
مُسکراہٹ تاریک دِن کو بھی رَوشن بنا دیتی ہے
تلاش کیجئے اُسے جو آپ کے دل کو مُسکراہٹ دے

بارش اور میں

برسات کے اِس موسم میں ۔ کیا معلوم کب کس جگہ پر
بادل گرجے، بارش برسے ۔ نِکلُوں میں جب بھی گھر سے
چھتری ساتھ رکھ لیتا ہوں لیکن اکثر یُوں ہو جاتا ہے
جھَٹ سے بادل آ جاتے ہیں ۔ جھَٹ سے بارش ہو جاتی ہے
چھَتری کھُلنے سے پہلے ہی بارش مجھے بھگو جاتی ہے

لوگ بھی اکثر یونہی کرتے ہیں۔ کیا معلوم کب کس جگہ پر
اچانک ہی سے آ جاتے ہیں اور ہر بار میری سُنے بِنا ہی
اپنا سب کچھ سُنا جاتے ہیں جیسے بادل سا گرج جاتے ہیں
ساوَن سا برس جاتے ہیں ۔ آنکھیں میری بھگو جاتے ہیں
اِس سے پہلے کہ کچھ بولوں ۔ وہ اپنے رَستے ہو جاتے ہیں
میرے لَب اُس چھتری مانِند کھُلتے کھُلتے رہ جاتے ہیں
ہر بار کہ جیسے میرے شِکوے اَشکوں کے سَنگ بہہ جاتے ہیں