Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

میری یادیں 1947ء کی ۔ دوسری قسط

ہمارے ہمسایہ عبدالمجید ریاست کی فوج میں کرنل تھے اور اُن دنوں اُن کی تعیناتی برفانی علاقہ گلگت بلتستان میں تھی ۔ اکتوبر 1947 کے وسط میں پتہ چلا کہ ان کے بیوی بچے ستواری (جموں چھاؤنی) جا رہے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں کے کہنے پر وہ لوگ ہم بچوں کو ساتھ لے جانے کو تیار ہو گئے ۔ ہمارے ساتھ اس کوٹھی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹا میں 10 سال کا ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئے 6 نومبر 1947 کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ جونہی کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا ۔ سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا ۔

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔ نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947 کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947 کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [جاری ہے]

میری یادیں 1947ء کی

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ۔ ۔ [سورت ۔ 53 ۔ النَّجْم ۔ آیت 39]
اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی

یومِ استقلال مبارک ہو

آؤ بچو سیر کرائیں ہم ۔ تم کو پاکستان کی
جسکی خاطر دی ہم نے قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان زندہ باد

آج 14 اگست ہے ۔ پاکستان بنے 78 سال مکمل ہوئے ۔ مسلمانوں نے لاکھوں جانوں اور لاکھوں ماؤں بہنوں کی عزت کی قربانی دے کر پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا ۔ ان قربانیوں کے ساتھ ساتھ اللہ کو بھی بھُولنے کا نتیجہ ہے کہ آج ہم ہر طرف سے ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور گہرائیوں کی طرف پھسلتے جا رہے ہیں ۔ جن اصولوں کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا وہ تو کم ہی حاصل کیا البتہ جو کچھ ملا تھا اُسے بھی کھوتے جا رہے ہیں ۔ آؤ ہم سب اپنی غلطیوں اور اپنے گناہوں کی سچے دل سے توبہ کریں اور اللہ جس نے 60 سال قبل ہمیں اپنا ملک دیا تھا اُسکی رسی کو پھر سے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں اور محنت کر کے اتھاہ گہرائیوں سے باہر نکلیں ۔

خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔ نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا

کئی ماہ سے مجھ سے بار بار مطالبہ کيا جا رہا ہے کہ ميں پاکستان بننے سے پہلے کے اپنے تجربات لکھوں ۔ جب پاکستان بنا ميری عمر 10 سال تھی ۔ مجھے پاکستان بننے سے ايک  ڈیڑھ سال  پہلے تک کے صرف وہ واقعات ياد ہيں جو کہ انوکھے تھے ۔ سو پہلی قسط حاضر ہے ۔

ایک دفعہ ہم کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو لڑکے نے ایک ہندو دکاندار سے پانی مانگا تو دکاندار نے پانی کا گلاس دیدیا اور اس نے گلاس سے منہ لگا کر پی لیا ۔ پھر ایک مسلمان لڑکے نے پانی مانگا تو دکاندار نے کہا چلُو کرو اور گلاس سے ڈیڑھ فٹ اونچائی سے لڑکے کے چلُو میں پانی پھینکنا شروع کیا جس سے لڑکے کے کپڑے بھیگ گئے اور وہ ٹھیک طرح پانی بھی نہ پی سکا ۔

ایک دن ایک ہندو آدمی فٹ پاتھ پر جا رہا تھا کہ ایک مسلمان لڑکا بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گیا تو ہندو چیخا کپڑے بڑھشٹ کری گیا مطلب کہ کپڑے پلید کر گیا ہے اور اس لڑکے کو کوسنے لگا ۔ کچھ دن بعد وہی ہندو گذر رہا تھا کہ راستہ ميں کھڑی ایک گائے نے پیشاب کیا جو اُسکے کپڑوں پر پڑا بلکہ اس کا پاجامہ بالکل بھيگ گيا تو وہ بولا پاپ چڑی گئے پاپ چڑی گئے یعنی گناہ جھڑ گئے ۔

جب مارچ 1947 میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلے دن آدھی چھٹی کے وقت میرے ہم جماعت رنبیر نے جو مجھ سے تین سال بڑا تھا قائداعظم کو گالی دی ۔ میرے منع کرنے پر اُس نے جیب سے چاقو نکالا اور اُسے میرے پیچھے شانوں کے درمیان رکھ کر زور سے دبانے لگا ۔ اچانک کچھ مسلمان لڑ کے آ گئے اور وہ چلا گیا ۔ دو دن بعد ہمارا خالی پیریڈ تھا ۔ ہم کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رنبیر کے ایک دوست کیرتی کمار نے مسلمانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ میرے منع کرنے پر کیرتی کمار نے کہا ہم تم مُسلوں کو ختم کر دیں گے اور مجھ پر پل پڑا اور ہم گتھم گتھا ہو گئے ۔

جموں میں اکتوبر 1947 میں کرفیو لگا دیا گیا تھا ۔ اس کرفیو میں ہندوؤں اور ہندوستان سے آئے ہوئے ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح دستے بغیر روک ٹوک پھرتے تھے مگر مسلمانوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی ۔ ہمارے گھر کے قریب ہندوؤں کے محلہ میں دو اونچی عمارتوں پر نابھہ اور پٹيالہ سے آئی ہوئی بھارتی فوج نے مشین گنیں نصب کر لیں ۔ آنے والی رات کو دونوں عمارتوں کی چھتوں سے ہمارے گھر کی سمت میں متواتر فائرنگ شروع ہو گئی ۔ ہمارا گھر نشانہ بننے کی وجہ یہ تھی کہ اس پر پاکستان کا بہت بڑا جھنڈا بہت اُونچا لگا ہوا تھا ۔ اگلے دن دس سال سے ہمارا کرائے دار ہندو جس پر میرے دادا جان کے کئی احسان بھی تھے ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا میں نے سوچا کہ کرفیو کی وجہ سے آپ کی زمینوں سے دودھ نہیں آیا ہوگا اسلئے میں اپنی گاؤ ماتا کا دودھ بچوں کے لئے لے آیا ہوں ۔ دودھ اُبال کر ہمیں پینے کو کہا گیا مگر اُس وقت کسی کا کچھ کھانے پینے کو دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ دوسرے دن صبح دیکھا کہ دودھ خراب ہو گیا تھا اسلئے باہر نالی میں پھینک دیا ۔ تھوڑی دیر بعد باہر سے عجیب سی آواز آئی ۔ جا کر دیکھا تو ایک بلی تڑپ رہی تھی اور تڑپتے تڑپتے وہ مر گئی ۔ دراصل وہ برہمن ہمدرد بن کر ہم سب کو خطرناک زہر والا دودھ پلا کر مارنے آیا تھا

یادیں

نیچے نقل کردہ مضمون پڑھتے ہوئے میری آنکھوں سے برسات شروع ہو گئی اور جیسے کلیجہ اُچھل کر حلق میں پھنس گیا ۔ بہت کم عمری میں دیکھے مناظر اور سُنی آوازیں ذہن میں اس طرح سے چل پڑیں جیسے میں اُسی (1947ء کے) دِل دہلا دینے والے دور میں دوبارہ پہنچ گیا ہوں جب 3 ماہ ہر لمحہ موت سر پر مڈلاتی رہتی تھی ۔ جب کھانے کو کچھ یا پانی مل جائے تو الله کا لاکھ شکر بجا لاتے کہ نامعلوم پھر کب ملے یا نہ ہی ملے ۔ اسی لئے فلسطین والوں کیلئے میرا دل تڑپتا ہے ۔ 10 سال کی عمر ہوتے ہی اچانک ایسے ہولناک ماحول میں گھِر جانے کے بعد میری کیفیت صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو ایسے ماحول میں گھِرا ہو

کاش 1947ء کے بعد پیدا ہونے والے میرے ہموطن اس مُلک پاکستان کی قدر کو پہچانیں اور سوچیں کہ جو مُلک اُن کے برزگوں نے تو اپنی جان و مال اور بیٹیوں کی عزتوں کی قربانی دے کر بنایا تھا ۔ اب اس کی نگہداشت اور ترقی اُن کے ذمہ ہے


یہ 1977ء کی بات ہے۔ سرہند شریف میں حضرت مجدد الف ثانی کے عرس کی تقریبات اختتام پذیر ہوئیں تو اگلے روز قریباً 100 پاکستانی زائرین پر مشتمل وفد سر ہند سے قریباً 20 کلومیٹر پر واقع ایک قصبہ براس کی طرف روانہ ہوا جہاں ایک روایت کے مطابق بعض انبیائے کرام مدفون ہیں۔ زائرین کے لئے دو بسیں مخصوص کی گئی تھیں ۔ بس اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی تو پاکستانی وفد کے قائد مسٹر جسٹس (ریٹائرڈ) صدیق چودھری  (جو اب فوت ہوچکے ہیں) نے اپنے خالص دیہاتی لہجے میں گفتگو کا آغاز کیا۔ جسٹس صاحب قیام پاکستان کے بعد مغویہ عورتوں کے لئے قائم شدہ کمیشن کے رکن تھے اور اس عرصے میں انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے فرائض انجام دیئے تھے۔

وہ بتا رہے تھے ”اس وقت تم سڑک کے دونوں جانب جو ہرے بھرے کھیت دیکھ رہے ہو ۔ 1947ء میں یہاں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے سروں کی سرخ فصلیں کاٹی گئی تھیں۔ تم نے عورت کے کئی روپ دیکھے ہوں گے مگر اس کی بےچارگی اور مظلومیت کا رخ شاید اس طرح نہ دیکھا ہو جس طرح میں نے دیکھا ہے۔ جب مجھے پتہ چلتا کہ کسی گاؤں میں مسلمان عورتیں درندوں کے قبضے میں ہیں تو میں پولیس کے چند سپاہیوں کے ساتھ خون کے پیاسے افرا د کے درمیان میں سے گزر کر ان تک پہنچتا مگر کئی بار یوں ہوا کہ مغویہ ہمیں دیکھ کر ہمارے ساتھ چلنے کی بجائے اس وحشی کے پہلو میں جا کھڑی ہوتی جس نے اس کے والدین کو قتل کردیا تھا اور اسے اٹھا کر اپنے گھر ڈال لیا تھا لیکن جب ہم اسے یقین دلاتے کہ اب وہ مکمل طور پر محفوظ ہے اور اسے اس غنڈے سے ڈرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تو وہ ہمارے ساتھ چلنے پر رضا مند ہوتی اور پھر مغویہ عورتوں کے کیمپ میں پہنچ کر وہ اپنے بچے کچھے کسی عزیز کے گلے لگ کر ہچکیاں لے لے کر روتی“۔

جسٹس صاحب نے بتایا ”میری آنکھوں نے وہ خوں آشام مناظر دیکھے ہیں کہ ایک وقت میں انسانیت سے میرا اعتماد اُٹھ گیا تھا۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران میری ملاقات ان بچیوں سے بھی ہوئی جو پورے پورے گاؤں کی ملکیت تھیں۔ میں نے کیمپوں میں دھنسی ہوئی آنکھوں اور پھولے ہوئے پیٹ دیکھے ہیں۔ یہ اس وقت ہم جس علاقے سے گزر رہےہیں۔ یہاں مسلمان عورتوں کے برہنہ جلوس گزرتے رہے ہیں۔ مگر میں تمہیں ایک واقعہ ضرور سناؤں گا“۔ جسٹس صاحب نے کہا ”مجھے اطلاع ملی کہ ایک سیّد زادی کو ایک بھنگی نے اپنے گھر میں ڈالا ہوا ہے۔ میں پولیس کے سپاہیوں کے ساتھ اس گاؤں میں پہنچا اور دروازہ توڑ کر گھر داخل ہوا تو میں نے دیکھا صحن میں ایک بچی کھانا پکا رہی تھی اور ایک طرف جائے نماز بچھی تھی ۔ اتنے میں ایک دوسرے کمرے سے ایک ادھیڑ عمر کا کالا بھجنگ شخص نکلا اور ہمارے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ یہ وہی بھنگی تھا جس کے متعلق اطلاع ملی تھی کہ اس نے ایک سید زادی کو اغوا کر کے گھر میں ڈال رکھا ہے۔ اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک زور دار مکا اس کے منہ پر رسید کیا جس سے وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اس کے منہ سے خون جاری ہوگیا تھا۔ وہ تھوڑی دیر بعد اٹھا اور اپنی قمیض کے دامن سے اپنا منہ پونچھتے ہوئے اس نے کھانا پکاتی ہوئی لڑکی کی طرف اشارہ کر کے نحیف سی آواز میں پوچھا ۔ تم اسے لینے آئے ہو؟ اور پھر جواب کا انتظار کئے بغیر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی۔ وہ سیدھا لڑکی کی طرف گیا اور کہا ۔ بیٹی میرے پاس تمہیں الوداع کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس پوٹلی میں بس ایک دوپٹہ ہے۔ اور پھر دوپٹہ اس کے سر پر اوڑاتے ہوئے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں اور پھر وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا“۔

براس قصبہ ایک ٹیلے پر واقع تھا۔ زائرین بسوں میں سے اترے اور قدرے بلندی پر واقع اس چار دیواری میں داخل ہوگئے ۔ زائرین نے یہاں قرآن مجید کی تلاوت کی اور دعا مانگی۔ دعا سے فراغت کے بعد بسوں کی طرف واپس جانے کے لئے ڈھلوان سے اترتے ہوئے اچانک ایک دبلا پتلا سا ہندو وفد کے قائد جسٹس صدیق چودھری کے پاس آیا اور ان کے کان میں کچھ کہا اور پھر زائرین کے آگے آگے چلنے لگا۔ جسٹس صاحب نے بتایا کہ ”یہ ہندہ انہیں بتا کر گیا ہے کہ سکھوں نے اس گاؤں میں بہت وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا خون بہایا تھا۔ انہوں نے سینکڑوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی تھی، بے شمار مسلمان عورتوں کو انہوں نے اپنے گھر میں قید کر لیا تھا جو آج بھی انہی گھروں میں بند ہیں اور ان کے بچوں کی مائیں ہیں، نیز یہ کہ سینکڑوں مسلمان لڑکیوں نے اپنی عزت بچانے کے لئے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دی تھیں اور یہ کنوئیں ان کی لاشوں سے پٹ گئے تھے۔ ان میں سے تین کنوئیں اس کے علم میں ہیں اور وہ ان کی نشاندہی کرنا چاہتا ہے“۔

یہ خبر آگ کی طرح زائرین میں پھیل گئی اور وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اس شخص کے پیچھے چلنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک ہموار جگہ پر رک گیا جہاں خودرو پھول لہلہا رہے تھے۔ ان پھولوں کے نیچے کنواں تھا جو بند ہو چکا تھا یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک اور کنواں تھا جو مسلمان لڑکیوں کی لاشوں سے بھرا ہوا تھا اور اب اسے بھی بند کیا جا چکا تھا۔ یہاں بھی فاتحہ خوانی کی گئی۔ تیسرا کنواں بہت سارے گھروں کے درمیان واقع تھا اور یہ اپنی شکل میں موجود تھا۔ اسے بند نہیں کیا گیا تھا لیکن لاشوں کے پٹ جانے کی وجہ سے چونکہ اس کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا تھا، لہٰذا اب اس میں کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے ضبط کے سبھی بندھن ٹوٹ چکے تھے۔ غم کی شدت سے زائرین کے کلیجے شق تھے اور آنکھیں ساون کی طرح برس رہی تھیں۔

یہاں وفد میں شامل ایک باریش بزرگ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور پھر جوں جوں ان کی ہچکیوں بھری آواز بلند ہوتی گئی۔ زائرین کی آہ بکا میں شدت آتی گئی اور پھر روتے روتے گلے رندھ گئے۔ بھائی تیس برس بعد اپنی بہنوں کی خبر لینے آئے تھے اور پل بھر کے بعد انہوں نے پھر جدا ہو جانا تھا۔ اردگرد کے مکانوں سے بہت سی ہندو اور سکھ عورتیں بھی ذرا فاصلے پر کھڑے ہو کر دلخراش منظر دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے بہتے آنسو خشک کرنے کے لئے اپنے پلو آنکھوں پر رکھ لئے تھے اور ان میں سے ایک عوررت کے چہرے پر شدید کرب تھا اور ایک ایک زائر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بے اختیار ہو کر اس نے ایک چیخ ماری اور پھر بھاگ کر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ غالباً یہ عورت ان میں سےایک ہے جن کے پیٹ پھولے ہوئے تھے اور آنکھیں تارے لگی ہوئی ہیں۔

دعا سے فراغت کے بعد سندھ یونیورسٹی کے ایک نوجوان نے کہا ”یہاں آنے سے پہلے میں اکھنڈ بھارت کا قائل تھا۔ میری گزارش ہے کہ آپ واپس جائیں تو یہ تجویز پیش کریں کہ جو لوگ اپنے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے کچھ شکوک و شبہات رکھتے ہیں انہیں یہاں لا کر یہ کنوئیں دکھائے جائیں۔ یہ خونچکاں منظر نئی نسل کے ان افراد کو خصوصاً دکھائے جائیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان تاریخی عوامل کے بغیر بنا تھا۔ 1947ء کے بعد جنم لینے والی نسل کے افراد یہ کنویں دیکھ کر جان جائیں گے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے دارالامان پاکستان کے لئے کتنی قربانیاں دی تھیں اور وہ یہ بھی جان جائیں گے کہ اگر اس ملک پر آنچ آتی ہے تو تلواریں ایک بار پھر ہوا میں لہرائیں گی اور بہنوں کی چیخ و پکار اندھے کنوؤں میں دم توڑ دے گی“۔ اس نوجوان نے مزید کہا ”یہ کنویں ان بدنیت دانشوروں کو بھی دکھائیں جو پاکستانی قوم کے لئے یہ کنویں دوبارہ کھودنا چاہتے ہیں“۔

مدینہ منوّورہ سے محبت

اُنہوں نے مجھے مدینہ منوّرہ سے رخصت کر دیا، میں نے بہت عذر کیا کہ میرا یہاں سے ہلنے کو جی نہیں چاہتا لیکن وہ نہ مانے، فرمانے لگے پانی کا برتن بہت دیر تک آگ پر پڑا رہے تو پانی اُبل اُبل کر ختم ہو جاتا ہےاور برتن خالی رہ جاتا ہے، دنیا داروں کا ذوق شوق وقتی اُبال ہوتا ہے، کچھ لوگ یہاں رہ کر بعد میں پریشان ہوتے ہیں، ان کا جسم تو مدینے میں ہوتا ہے لیکن دل اپنے وطن کی طرف لگا رہتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ انسان رہے تو اپنے وطن میں مگر دل مدینے میں لگا رہے

قدرت اللہ شہاب

انسانی حِس اور دماغ

انسان کی چھونے کی حِس دنیا کی حساس ترین چیز سے زیادہ حساس ہے

انسان کا دماغ دنیا کے سب سے زیادہ پیچیدہ اور طاقتور کمپیوٹر سے زیادہ پیچیدہ ہے انسان کے دماغ میں ایک کھرب (100000000000) اعصاب کے خُلیئے ہیں

پس (اے انسانو اور جِنو) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟

آدمی کا کردار اور اللہ کی نعمت

سورت 17 ۔ بنی اسراءیل (یا الاِسرآء) ۔ آیت 36 ۔ اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پُرس ہوگی ‏

ہر صحتمند آدمی کا جسم  روزانہ خُون کے ایک کھرب (100000000000) سُرخ خُلیئے پیدا کرتا ہے جب ہم کسی چیز کو چھُوتے ہیں تو 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پیغام دماغ کو جاتا ہے 

پس (اے انسانو اور جِنو) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟