Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

سچا کون ؟

والد صاحب نے کہا ” انسان کو کسی کی عدم موجودگی میں وہی بات کرنا چاہیئے جو وہ اس کے منہ پر بھی دہرا سکے“۔
بات معمولی سی تھی مگر میں نے اس پر عمل بڑا مشکل پایا ہے

ہاں جب کبھی اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق ملی ہے اس وقت زندگی بڑی ہلکی اور آسان محسوس ہوئی ہے

قدرت اللہ شہاب

تہذیب و تمدّن

انگریز تو خیر اپنے مادری لہجے میں انگریزی بولنے پہ مجبور ہے لیکن جاپانی ، جرمن، اطالوی، فرانسیسی ، روسی اور چینی انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں تو اپنے فطری لہجے کو انگلستانی لہجے میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتے

غلامی کے دَور نے احساسِ کمتری کی یہ وراثت صرف ہمیں عطا کی ہے۔ اگر ہم اپنے قدرتی لہجے میں انگریزی زبان بولیں تو اسے بڑا مضحکہ خیز لطیفہ سمجھ لیا جاتا ہے قدرت اللہ شہاب

پاکستانی اور غیر زبان

” آپ پاکستانی ہو کر انگریزی میں درخواست کیوں لکھتے ہیں ؟“ اُس نے میری جواب طلبی کی
میں نے معذرت کی ” مجھے عربی نہیں آتی اس لئے درخواست انگریزی میں لکھنا پڑی“۔
” آپ کی زبان کیا ہے؟“ افسر نے پوچھا
” اُردو“ میں نے جواب دیا

” پھر انگریزی کے ساتھ آپ کا کیا  رشتہ ہے؟“ افسر نے طنزیہ پوچھا

میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ تسلیم کروں کہ انگریزی کے ساتھ میرا فقط غلامی کا رشتہ ہے

(قدرت اللہ شہاب)

کیا ہم اِس بوڑھی عورت سے بہتر ہیں ؟

ایک بوڑھی عورت مسجد کے سامنے بھیک مانگا کرتی تھی 

 ایک شخص نے اُس سے پوچھا کہ کیا آپ کا کوئی کمانے والا نہیں ہے ؟

بوڑھی عورت بولی کہ میرے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ 5 سال قبل بیٹا نوکری کے لئے بیرون ملک گیا تھا۔ جاتے ہوئے اخراجات کے لئے مجھے کچھ رقم دے گیا تھا ، وہ خرچ ہوگئی تھی اِس لئے بھیک مانگ رہی ہوں 

 اس شخص نے پوچھا ” کیا بیٹا کچھ نہیں بھیجتا؟

 بوڑھی عورت نے کہا ” بیٹا ہر ماہ رنگ برنگا کاغذ بھیجتا ہے جو میں گھر میں دیوار پر چپکا دیتی ہوں“۔ 

۔ ہر ڈرافٹ  50 ہزار روپے کا تھا وہ شخص بوڑھی عورت کے گھر گیا تو دیکھا کہ دیوار پر بینک کے 60 ڈرافٹ چسپاں کئے ہوئے تھے 

وہ عورت نہیں جانتی تھی کہ اس کے پاس کتنی دولت ہے 

 اس شخص نے اُسے ڈرافٹ کی اہمیت سمجھائی تو وہ پہلے خوش ہوئی پھر پریشان ہو گئی کہ دولت ہوتے ہوئے بھی وہ بھیک مانگتی رہی ہے

 ہماری حالت بھی اس بوڑھی عورت کی طرح ہے 

ہمارے پاس قرآن مجید ہے۔ ہم اسے فرفر پڑھتے ہیں ۔ چُومتے اور اُونچی جگہ پر رکھتے ہیں جبکہ اِس کا فائدہ صرف اِس صورت میں اُٹھا سکیں گے کہ ہم اِس کے معنی سمجھ کر ا قرآن مجید اپنی عملی زندگی میں لے آئیں ۔ تَب ہی ہماری دُنیا اور اس کے بعد کی زندگی دونوں بہتر ہوں گی

بہت بڑا خزانہ ہمارے پاس موجود ہے لیکن ہماری غفلت کی وجہ سے اس میں چھُپے انعامات سے ہم محروم ہیں

الله سبحانه و تعالیٰ ہمیں قرآن مجید میں لکھے  الله سبحانه و تعالیٰ کے احکامات کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے

 آمین یارب العالمین ۔

غزہ ۔ اسرائیل ۔ برطانیہ ۔ امریکہ اور یو این او

غزہ میں اسرائیل کی دہشتگردی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ برطانیہ نے روس اور قُرب و جوار سے نکالے گئے یہویوں سے اپنی جان چھُڑانے کے لئے یہ خطرناک ناسُور (اسرائیل) 1948ء میں مسلمانوں کے سینے میں گاڑھ دیا تھا جو برطانیہ ۔ امریکہ اور ان کے مغربی ساتھیوں کی بھرپُور امداد سے پھُلتا پھُولتا رہا

غزہ میں کُشت خون بھی 2 سال قبل شروع نہیں ہوا بلکہ 2 داہائیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ اِس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے مندرجہ ذیل ربط (لِنک) پر  کلِک کر کےدیکھیئے 31 دسمبر 2008ء کو شائع کردہ چند مناظر

https://theajmals.com/blog/2008/12/31

اور مندرجہ ذیل ربط (لِنک) پر  کلِک کر کے پڑھیئے امریکہ کے کردار کے بارے میں 4 جنوری 2009ء کو شائع کردہ مضمون

https://theajmals.com/blog/2009/01/04

اگر آپ اسرائیل کے بارے میں مکمل حقائق جاننا چاہتے ہیں تو مندرجہ ذیل ربط (لِنک) پر  کلِک کر کے پڑھیئے تحقیقی مقالہ (ریسرچ آرٹیکل) جس کا عنوان ہے بنی اسراءِیل اور ریاست اسرائیلhttps://theajmals.com/blog/%D8%A8%D9%86%DB%8C-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A1%DB%8C%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84

غزہ اور اسرائیل

امریکہ کی بھرپور مدد کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور کچھ دوسرے ممالک کی امداد کی بُنیاد پر اسرائیل فلسطین کے کے محصور مسلمانوں پر جو ظُلم ڈھا رہا ہے ۔ اس کا مقصد کیا ہے ؟

(اسرائیل 1948ء سے اب تک امریکا سے 851 کھرب 72 ارب روپے کی امداد لے چکا ہے اور  سالانہ 10 کھرب 79 ارب روپےکی فوجی امداد 2028ء  تک جاری رہے گی)


میرے کئی دہائیوں کے مطالعہ کے بعد یکم نومبر 2005ء کو شائع کردہ تحقیقی مقالہ کا صرف ایک بند (پیراگراف)

ریاست اسرائیل کا پس منظر

آسٹروی یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل جو بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے ۔ اس نے ایک کتاب جرمن زبان میں لکھی ” ڈر جوڈن شٹاٹ” یعنی یہودی ریاست جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896ء میں آیا ۔ اس ریاست کے قیام کے لئے ارجٹائن یا مشرق وسطہ کا علاقہ تجویز کیا گیا تھا ۔ برطانوی حکومت نے ارجٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا

لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا تو برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور اُس کے بعد برطانیہ نے مندرجہ ذیل ڈیکلیریشن منظور کی

“Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people….”

(ترجمہ ۔ حکومتِ برطانیہ اِس کی حمائت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے)

اس کے بعد صیہونی کانگرس کا باسل (سوٹزرلینڈ) میں اِجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تاکہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے ۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دِکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید ۔ سارا فلسطین ۔
سارا اردن ۔ سارا لبنان ۔ شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا ایک چوتھائی علاقہ ۔ ( دیکھیئے نقشہ)