Author Archives: افتخار اجمل بھوپال

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

نمرود کی خدائی ؟

اللہ سبحانہ و تعالی نے جو کمپیوٹر میرے جسم میں رکھا ہوا ہے اس کا پروسیسر دنوں یا ہفتوں نہیں مہینوں سے متواتر چل رہا ہے اور بلاگنگ کرتا جا رہا ہے ۔ اتنی زیادہ پوسٹس کہ ان کو انسان کے بنائے ہوۓ کمپیوٹر کے ذریعہ کسی ویب سائٹ پر منتقل کرنے کی میں استطاعت و استداد نہیں رکھتا ۔ اس کشمکش میں اپنا دماغ مناسب حروف تصنیف کرنے سے قاصر ہو گیا اور نیند کی پری مجھ سے روٹھ گئی ۔ کسی کا کوئی شعر یا عبارت بھی نہ مل رہی تھی کہ  پڑھ کر شائد کچھ سکون ملے ۔

وجہ کیا ہے ؟  سب جانتے ہیں مگر ظاہر کرنے میں پس و پیش ہے ۔ دھماکہ امریکہ میں ہو یا انگلستان یا مصر میں شامت بے سہارا پاکستانیوں کی بالخصوص اگر داڑھی والے ہوں ۔ ایسا کیوں نہ ہو جب ہم خود ہی اپنے آپ کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ یہ ہماری روشن خیالی کا ایک عمدہ نمونہ ہے ۔ کراچی میں روزانہ پچاس موبائل فون چھین لئے جائیں ۔ بیس سے چالیس تک کاریں اور موٹرسائیکل چوری کر لی جائیں یا چھین لی جائیں ۔ روزانہ بھرے بازاروں میں شہری بسوں میں سفر کرنے والے مسافروں کو پستول دکھا کر جیبیں خالی کروا لی جائیں ۔ راہ چلتے شریف آدمی کو گولی مار کے ہلاک کر دیا جائے یا کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بم چلایا جائے ۔ اندرون سندھ یا پنجاب حتی کہ اسلام آباد میں  کسی شریف زادی کی عزت لوٹ لی جائے اور اس میں پولیس والے بھی شامل ہوں ۔ کراچی لاہور اور راولپنڈی میں روزانہ گھروں میں ڈاکے پڑیں ۔ تو ہمارے شہنشاہ ہمیں گڈ گورننس کی یقین دہانی کراتے ہیں

جسے اللہ رکھے

ایک دوست کی یاد آئی جو اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے ہوئے ہیں ۔ اختر صاحب سے میری ملا قات 1964ء میں ہوئی جو آہستہ آہستہ دوستی میں ڈھل گئی ۔ انہوں نے 1952ء میں انجنیئرنگ کالج لاہور سے الیکٹریکل انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی ۔ وہ مجھ سے 13 سال بڑے تھے اس لئے بے تکلف دوستی ہوتے ہوئے بھی احترام قائم رہا ۔ اختر صاحب صاف گو انسان اور باعمل مسلمان تھے ۔ 1974ء میں وہ کسی ٹریننگ پروگرام کے تحت چیکوسلواکیہ گئے ۔ وہ ملک جو اب دو یا تین ملکوں میں بٹ چکا ہے ۔ اس زمانہ میں یہ کٹر کیمیونسٹ ملک تھا اور مسلمانوں والا نام رکھنا بھی واجب القتل جرم تھا ۔ واپس آ کر انہوں نے اس وقت کے لحاظ سے عجیب واقعہ مجھے سنایا جو اختر صاحب کی زبانی مختصر درج کرتا ہوں ۔

میں جس فیکٹری میں تھا وہاں کوئی دو سو مقامی نوجوان تربیت لے رہے تھے ۔ ان کے بال بہت لمبے تھے اور جینز ۔ بنیان اور جیکٹ پہنتے تھے ۔ بظاہر بالکل لا پرواہ تھے اور اپنی زبان کے علاوہ اور کوئی زبان نہیں بولتے تھے ۔ ایک دن میرا پاکستانی ساتھی بیمار ہونے کی وجہ سے فیکٹری نہ گیا ۔ دوپہر کی بریک کے دوران کیفیٹیریا میں ایک میز کے ساتھ اکیلا بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان احتیاط سے ادھر ادھر دیکھ کر جلدی سے میرے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔ چند منٹ بعد اس نے میری طرف اشارہ کر کے میرے کان میں کہا ۔ لا الہ ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے میرے کان میں کہا الحمدللہ ۔ پھر اس نے اشاروں سے پوچھا کہ تمہارا ساتھی کیا ہے ؟ میں نے کہا لا الہ تو اس نے نفی میں سر ہلایا اور اشاروں سے مجھے سمجھایا کہ وہ مسلمان نہیں وہ شراب پیتا ہے ۔ اس دن کے بعد جب بھی کیفیٹیریا میں کوئی آفیسر موجود نہ ہوتا وہ میرے پاس آ کر بیٹھ جاتا اور اشاروں میں پاکستان کے متعلق پوچھتا رہتا ۔ کبھی قرآن شریف کی کوئی صورۃ مجھے سنا دیتا ۔ ایک دن وقفہ لمبا تھا تو اس نے مجھے پوری سورۃ بقرہ سنا دی ۔ میں نے ہمت کر کے اسے پوچھا کہ قرآن تم نے کہاں سے سیکھا تو اس نے بتایا کہ ایک استاد ہے جو ان کی طرح کسی اور فیکٹری میں کام کرتا ہے لیکن سب کچھ خفیہ ہے اگر کسی کو پتہ چل جائے تو سب کو ہلاک کر دیا جائے گا ۔ پھر ایک دن میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ان کے گروہ میں بارہ ہزار مسلمان ہیں اور آہستہ آہستہ تعداد بڑھ رہی ہے ۔ 

اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن شریف کی حفاظت اپنے ذمّہ لے رکھی ہے ۔ یہ واقعہ اس کی ایک ادنی مثال ہے ۔  

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتاہے جو منظورخدا ہوتا ہے

اپنے مکروہ ارادوں کو جتنا چاہیں خوشنما بنا لیں صیہونی ۔ نیو کان ۔ان کے باج گذار اور خوشامدی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ

سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے

خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

مسلمانوں کو گبھرانہ نہیں چاہیئے اور علّامہ اقبال کا یہ شعر یاد رکھنا چاہیئے

تندیء باد مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

مدرسوں میں  کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے؟

میں صرف اپنے چشم دید کچھ واقعات اور ان سے مرتب ہونے والے خیالات بیان کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ سبحانہ و تعالی مجھے توفیق عطا فرمائے ۔ پہلے اپنے سائنسدانی سکولوں میں دینیات کا حال ۔

ہمارے سکول ۔ چھٹی اور ساتویں جماعت میں ہمارے جو استاد تھے وہ دینی مدرسہ سے پڑھے ہوئے نہیں تھے ۔ ایک لڑکے کو کہتے پڑھو ۔ وہ کھڑا ہو کر دوسرے پارہ کی بلند آواز سے تلاوت شروع کر دیتا ۔ تھوڑی دیر بعد استاد کہیں چلے جاتے اور طلباء اپنی مرضی سے پڑھتے رہتے ۔ دو سال ہم صرف دوسرا پارہ پڑھتے رہے ۔ آٹھویں جماعت میں میں دوسرے سکول چلا گیا ۔ وہاں کے استاد بھی کسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے نہیں تھے ۔ وہ کسی لڑکے کو پڑھنے کا کہہ کر خود کرسی پر دونوں پاؤں رکھ کر اکڑوں سو جاتے ۔ لڑکوں کے شور سے جاگ جاتے تو جو سامنے ہوتا اس کی پٹائی ہو جاتی ۔ ایک دن ایک لڑکا نیکر پہن کر آگیا ۔ استاد اسے شیطان کا بچہ شیطان کا بچہ کہتے گئے اور چھڑی سے پٹائی کرتے گئے ۔ اس کی ٹانگوں پر نیل پڑ گئے ۔ وہ کمشنر کا بیٹا تھا اس لئے استاد کی چھٹی ہو گئی ۔

پھر مولوی عبدالحکیم صاحب کو کنٹریکٹ پر رکھا گیا ۔ وہ مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل تھے اور راولپنڈی کی تین بڑی مساجد میں سے ایک کے خطیب تھے ۔ انہوں نے نویں جماعت میں سلیبس کے علاوہ ہمیں اچھا انسان بننے کے اصول بھی قرآن اور سنّت کی روشنی میں بڑی اچھی طرح سمجھائے ۔ ایک دن پڑھانے کے دوران ایک لڑکا شرارتیں کر رہا تھا ۔ دو بار منع کرنے پر بھی منع نہ ہوا تو مولوی صاحب نے اس کی پٹائی کر دی ۔ اگلے دن کلاس میں مولوی صاحب نے اس لڑکے کے پاس جا کر کہا بیٹا غصہ انسان کو پاگل کر دیتا ہے اسی لئے حرام ہے ۔ مجھے غصہ آگیا تھا اور میں نے آپ کی پٹائی کر دی مجھے معاف کر دو ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب 1970 کے الیکشن میں راولپنڈی سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب نے سکول کے ایک خلاف اسلام فنکشن میں شامل ہونے سے انکار کر دیا چنانچہ ایک سال بعد ان کی چھٹی ہو گئی ۔

دسویں جماعت میں جو صاحب اسلامیات کے استاد مقرر ہوئے انہوں نے ہمیں اسلامیات بالکل نہیں پڑھائی صرف شعر سناتے رہے اور کبھی کبھی افسانے ۔ موصوف شاعر تھے ۔ چھوٹی سی داڑھی رکھی تھی شائد اسی لئے اسلامیات کے استاد بنا دیئے گئے ۔ ارباب اختیار سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو بتایا گیا ۔ فکر کی ضرورت نہیں اسلامیات کا امتحان نہیں ہو گا ۔

 میں نے 1983 میں بوائے آرٹیزن کے لئے 1200 فرسٹ ڈویژن میٹرک پاس امیدواروں کا انٹر ویو لیا ۔ ہر امیدوار سے انگریزی ۔ حساب اور اسلامیات کے سوال پوچھے ۔ سوائے دو تین کے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ خلفائے راشدین کیا ہوتا ہے ۔ اکثر لڑکوں کو نماز کا صحیح طریقہ معلوم نہ تھا ۔ ایک امیدوار نے اسلامیات کے سوالوں کے فرفر جواب دیئے ۔ میں نے مزید سوال پوچھے اس نے صحیح جواب دیئے ۔ ایڈمن آفیسر نے بتایا کہ یہ لڑکا عیسائی ہے تو میں نے پوچھا کہ آپ عیسائی ہوتے ہوئے اسلامیات پڑھتے ہیں ؟  کہنے لگا بائبل کا کورس بہت زیادہ ہے ۔ اسلامیات کی چھوٹی سی کتاب ہے اس لئے میں نے اسلامیات لی ۔ بارہ دن میں انٹرویو ختم ہوئے تو لیبر یونین کے صدر جو سیّد ۔۔۔ شاہ تھے میرے پاس آئے اور کہا سر آپ ظلم کر رہے ہیں اسلامیات نہ کوئی پڑھتا ہے نہ کوئی پڑھاتا ہے ۔ میٹرک میں اسلامیات میں فیل ہونے کے باوجود لڑکے پاس کئے جاتے ہیں ۔ کوئی سائنس وائنس کی بات کریں ۔

مدرسے ۔ میں پچھلے چالیس سالوں میں لاہور ۔ کراچی ۔ اکوڑہ خٹک ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کئی مدرسوں میں معلومات کی خاطر گیا ۔ سب مدرسوں میں زیادہ تر طلباء ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس اپنا پیٹ پالنے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اور ان کی تعلیم کے علاوہ کھانے اور کپڑوں کا خرچ بھی مدرسہ کے ذمہ ہوتا ہے ۔سب مدرسے لوگوں کی مالی امداد سے چلتے ہیں ۔ میں مدرسوں کو دو قسموں میں تقسیم کرتا ہوں ۔

اول ۔ رجسٹرڈ مدرسے جن میں سے کئی عرصہ دراز سے قائم ہیں ۔ ان مدرسوں میں تعلیم اور امتحانی نظام ہمارے سرکاری سکولوں اور بورڈوں سے بہتر ہے ۔ وہاں کوئی نقل نہیں ہوتی اور نہ کوئی سفارش یا رشوت سے پاس ہوتا ہے ۔ جو پاس ہوتے ہیں وہ اس کے اہل ہوتے ہیں ۔ میں کم از کم دو ایسے اشخاص کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے اپنے باپوں کے مدرسوں سے گریجوایشن کی بنیاد پر برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ان مدرسوں میں ہمیشہ سے غیر ملکی طلباء دینی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ۔ مدرسوں میں دین کے علاوہ کچھ اسلامی تاریخ بھی پڑھائی جاتی ہے ۔ کچھ مدرسے ایسے ہیں جہاں دوسرے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔ یعنی حساب سائنس تاریخ جغرافیہ وغیرہ ۔ زیادہ تر رجسٹرڈ مدرسوں کے منتظم چندہ مانگنے نہیں جاتے لوگ از خود امداد کرتے رہتے ہیں ۔

دوم ۔ غیر رجسٹرڈ مدرسے ۔ یہ چھوٹے چھوٹے مدرسے ہیں اور عام طور پر مساجد کے اندر یا ان کے ساتھ ہیں ۔ یہ زیادہ تر صرف قرآن شریف پڑھاتے ہیں اور کچھ مدرسے حفظ بھی کراتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں گرد و نواح کے بچوں کے علاوہ یتیم اور غریب بچے بھی ہوتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں کچھ ایسے ہیں جن کے ارباب اختیار تنگ نظر ہیں ۔ ان مدرسون کی اصلاح کی فوری ضرورت ہے مگر امریکی ایجنڈا کی بجائے پاکستانی ایجنڈا کے مطابق ۔

انگریزوں کی عیّاری ۔ گورداسپور اور جموں میں مسلمانوں کا قتل عام

جموں میں کرفیو لگا دیا گیا ۔ اس کرفیو میں ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح دستے بغیر روک ٹوک پھرتے تھے مگر مسلمانوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی ۔ ہمارے گھر کے قریب ہندوؤں کے محلہ میں دو اونچی عمارتوں پر بھارتی فوج نے مشین گنیں نصب کر لیں ۔ آنے والی رات کو دونوں عمارتوں کی چھتوں سے ہمارے گھر کی سمت میں متواتر فائرنگ شروع ہو گئی اس کے جواب میں مسلمانوں کے پاس سوائے نعرہء تکبیر اللہ اکبر کے کچھ نہ تھا کیونکہ ان کے ہتھیار پہلے ہی نکلوا لئے گئے تھے ۔ ہمارا گھر نشانہ بننے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس پر بہت بڑا اور بہت اونچا پاکستان کا جھنڈا لگا ہوا تھا اور دوسری یہ کہ میرے دادا جان مسلم کانفرنس کی مالی امداد کرتے تھے ۔          

اگلی صبح دس سال سے ہمارا کرائے دار برہمن جس پر میرے دادا جان کے کئی احسان بھی تھے ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا میں نے سوچا کہ کرفیو کی وجہ سے آپ کی زمینوں سے دودھ نہیں آیا ہوگا اسلئے میں اپنی گاؤ ماتا کا دودھ لے آیا ہوں ۔ اس وقت کسی کا کچھ کھانے پینے کو دل نہیں چاہ رہا تھا چنانچہ دودھ ابال کر رکھ دیا گیا ۔ بعد دوپہر دیکھا تو دودھ خراب ہو گیا تھا اسلئے باہر نالی میں پھینک دیا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد باہر سے عجیب سی آواز آئی ۔ جا کر دیکھا تو ایک بلی تڑپ رہی تھی اور مر گئی ۔ وہ برہمن ہمدرد بن کر ہم سب کو زہر والا دودھ پلا کر مارنے آیا تھا ۔  

ہمارے ہمسایہ عبدالمجید ریاست کی فوج میں کرنل تھے اور ان دنوں کشمیر کے کسی برفانی علاقہ میں تھے ۔ پتا چلا کہ ان کا خاندان ستواری (جموں چھاؤنی) جا رہا ہے ۔ ہمارے بزرگوں کے کہنے پر وہ ہم بچوں کو ساتھ لیجانے کو تیار ہو گئے ۔ اگلی رات ایک اور دو بجے کے درمیان ایک فوجی ٹرک پر میں ۔ میری دونوں بہنیں (بڑی) ۔ دو کزن اور ایک سترہ سالہ پھوپھی ان کے ساتھ چلے گئے ۔ کچھ آٹا۔چاول۔دالیں۔تیل زیتون ایک لٹر اور کچھ پیسے ہمیں دے دیئے گئے ۔

چھاؤنی میں بعض اوقات رات کو جے ہند اور ست سری اکال کے نعروں کی آوازیں آتیں جو کہ کبھی بہت قریب سے ہوتیں ۔ پتا چلا کہ مسلح ہندو اور سکھ پچاس یا زیادہ کے جتھوں میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے کبھی وہاں سے گذرتے ہیں ۔ حفاظت کا معقول انتظام نہ ہونے کے باعث ہم ہر وقت موت کے لئے تیار رہتے ۔ باقی انشاءاللہ آئیندہ

جاہل ملّا کہاں سے آئے

کہتے ہیں نیم حکیم خطرہء جان نیم مُلّا خطرہء ایمان ۔ صرف دو واقعات درج کروں گا ۔ آٹھویں جماعت میں میرے سکول کی اسلامیات کا حال دیکھ کر والد صاحب نے راولپنڈی شہر میں محلے کی مسجد کے امام صاحب کی ٹیوشن مقرر کی کہ میں قرآن شریف دوہرا لوں ۔ میں تلاوت شروع کرتا تو مولوی صاحب سو جاتے ۔ پارہ ختم ہو جاتا تو وہ جاگ جاتے ۔ اسی طرح دو ماہ میں پورا قرآن شریف پڑھا ۔ یہ صاحب بغیر مدرسہ گئے مولوی بن گئے تھے ۔ میری تلاوت کی تصحیح پھر میری والہ صاحبہ نے کی ۔

حکومت نے 1984 میں سکولوں میں مدرسوں سے سند یافتہ اسلامیات کے استاد رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ کام ایک سیکشن آفیسر کے سپرد ہوا جو ہمارے سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی والے گھر کے قریب مسجد کے خطیب بھی تھے ۔ ایک شام میں کسی کام سے ان کے پاس گیا تو پریشان پایا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے پہلی قسط میں پانچ سو استاد بھرتی کرنا ہیں ۔ ایک سالہ کورس کی سند ہونی چاہیئے میں نے چھ اور تین ماہ والوں کے نام بھی لکھ لئے ہیں اس کے باوجود 247 ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا جناب اتنے سارے امام مسجد خیراتی روٹیوں پر پل رہے ہیں ان کو لے لیں ۔ فرمانے لگے محلہ میں جو بقیہ چار مساجد ہیں ان کے امام ایک دن کے لئے مدرسہ نہیں گئے ۔ میں نے حیرت سے کہا تو یہ امام کیسے بن گئے ۔ فرمایا لوگوں نے اپنی مقصد براری کے لئے بنا دیئے یا خود زورآوری سے بن گئے ہوں گے ۔

جاہل ملّا کہاں سے آئے ۔ ملّا اور جاہل اس حقیقت نے مجھے لڑکپن ہی میں پریشان کر دیا تھا ۔ میں اس کا منبہ تلاش کرنے میں لگ گیا ۔ حالات کی سختیاں جھیلتے سال گذرتے گئے مگر میری جستجو جاری رہی ۔ آخر عقدہ کھلا ۔ ہندوستان ميں انگریزوں کی حکومت بننے سے پہلے بڑی مساجد علم کا گھر ہوا کرتی تھیں اور انہیں جامع یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ وہاں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علموم بھی پڑھائے جاتے تھے ۔ طلباء دور دراز سے آکر سالہا سال قیام کرتے اور علم حاصل کرتے ۔ اساتذہ اور تعلیم کا خرچ چلانے کے لئے ان مساجد کے ساتھ بڑی بڑی جاگیریں تھی ۔ اس کے علاوہ مسلمان بادشاہ اور امیر طلباء نذرانے بھی دیتے تھے ۔ 1857 میں جب ہندوستان پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا تو انہوں نے ہنرمندوں کے ساتھ علماء بھی قتل کروا دیئے اور مساجد کی جاگیریں ضبط کر لیں ۔ پھر پسماندہ علاقوں سے لوگ چنے جو دینی علم نہ رکھتے تھے ۔ ان لوگوں کو برطانیہ بھیج کر چند ماہ کا امام مسجد کا کورس کرایا گیا اور واپسی پر مساجد کا بغیر تنخواہ کے امام مقرر کر دیا ۔ ان اماموں کا نان و نفقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا اور نگرانی علاقہ کے نمبردار یا چوہدری یا وڈیرے یا سردار وغیرہ جو خود انگریزوں نے مقرر کئے تھے کے ذمہ کر دی ۔ آجکل کے جاہل ملّا زیادہ تر اسی عمل کا نتیجہ ہیں ۔    

فرقہ وارانہ تشدد ۔ موجودہ حالات میں سمجھ میں نہیں آتا کہ فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ متحدہ مجلس عمل دیوبندی ۔ بریلوی ۔ شیعہ یا اثناعشری اور اہل حدیث سب کا اتحاد ہے اور حکومت کی اسے توڑنے کی کوششوں کے باوجود یہ اتحاد قائم ہے ۔ کوئی ایسی قوت ہے جو ایم ایم اے کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے کبھی ایک فرقہ کے اور کبھی دوسرے فرقہ کے لوگوں کو قتل کر یا کروا رہی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام صرف دین کے دشمن ہی کر سکتے ہیں ۔

جاہل اور فرقہ واریت پھیلانے والے ملّا حکومت کی لگائی ہوئی پنیری اور حکومت کے باغ کے درخت ہیں ۔ حکمران ان لوگوں کو علماء و مشائخ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ان میں مساجد کے امام بھی ہیں اور شیخ بے مسجد بھی ۔ کنونشن سنٹر اسلام آباد میں حکومت کے خرچ پر ایک علماء و مشائخ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس سے صدر جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا اور ان سے اپنے حق میں قرارداد منظور کروائی ۔ اس کانفرنس کا ایم ایم اے ۔ بے نظیر کی پی پی پی اور نواز شریف کی مسلم لیگ نے بائیکاٹ کیا تھا ۔ اس کے باوجود صرف راولپنڈی سے 260 علماء و مشائخ شامل ہوئے جبکہ راولپنڈی میں 150 مساجد بھی نہیں اور بہت سے مولوی ایم ایم اے ۔ بےنظیر اور نواز شریف کے حامی ہیں ۔ ہر حکومت کو ایسے داڑھی والوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت کے حق میں فتوی دیں ۔ باقی وقت اپنا ٹیکا رکھنے کے لئے یہ نام نہاد علماء و مشائخ فرقہ پرستی کرواتے ہیں ۔ ان کے خلاف اگر حکومت کوئی قدم اٹھائے گی تو پھر حکومت کے حق میں فتوے کون دے گا ۔

میں پاگل ہوں بیوقوف نہیں

دماغی امراض کے ہسپتال کے سب سے بڑے ڈاکٹر صاحب شام کو فارغ ہو کر گھر جانے کے لئے اپنی کار کے پاس پہنچے تو سر پکڑ کر رہ گئے ۔ ایک مریض اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا بولا ۔

مریض ۔ ڈاکٹر صاحب کیا پریشانی ہے ؟

ڈاکٹر ۔ کوئی شریر میری کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھبریاں اتار کر لے گیا ہے ۔ ڈھبری کو انگریزی میں نٹ کہتے ہیں ۔

مریض ۔ ڈاکٹر صاحب اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔ باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھبری اتار کر اس میں لگا لیں اور کار آہستہ چلاتے ہوئے سپیئر پارٹس کی دکان تک چلے جائیں ۔ وہاں سے چار ڈھبریاں خرید کر لگا لیں پھر گھر چلے جائیں ۔

ڈاکٹر ۔ تم نے پاگل ہوتے ہو وہ بات کہہ دی جو میری عقل میں نہیں آئی تھی ۔

مریض ۔ میں پاگل ہوں مگر بیوقوف نہیں ۔

ہم خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا ؟ ؟ ؟

جب شور ہوا تھا کہ بیکن ہاؤس کے سکولوں میں عریاں جنسی سوالنامہ مڈل سکول کے بچوں اور بچیوں میں تقسیم کیا گیا ہے تو ہماری ہمیشہ صحیح اور سچی موجودہ حکومت نے قرار دیا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا یہ دشمن یعنی اپوزیشن کا جھوٹا پراپیگنڈہ ہے بالخصوص دقیانوس اور جاہل ملّاؤں کا ۔ حکومتی اہلکاروں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ آغاخان بورڈ صرف امتحان لےگا اور سلیبس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ کسی نے سچ کہا ہے سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ۔

آغا خان یونیورسٹی کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز طلعت طیّب جی کے مطابق متذکّرہ بالا سوالنامہ سکولوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ مزید طلعت طیّب جی کے مطابق آغا خان بورڈ ایک ایسا نظام دینے کی کوشش کر رہا ہے جس سے طالب علموں کو سیکھنے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع حاصل ہوں ۔طلعت طیّب جی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کے سلیبس کی 32  کہانیوں میں سے عریاں سیکس کی شاہکار کہانیاں جیسے پچھم سے چلی پروا اور سعادت حسن منٹو کی کھول دو سمیت سات کہانیاں استانیوں اور استادوں کے احتجاج کے بعد نکال دی گئی ہیں ۔

صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے بڑے بڑے اہلکاروں نے سراسر جھوٹ پر جھوٹ بولے ۔

والدین کے مطابق بقیہ 25 کہانیوں میں سے بھی زیادہ تر محظ  عریاں سیکس یا  پورنو  ہیں ۔ 

کہانیاں صرف اردو کے سلیبس میں شامل کی گئی ہیں اور وہ زیادہ تر پورنو ہیں ۔ لیکن انگریزی کے سلیبس میں کوئی کہانی شامل نہیں ۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ سب طلباء اور طالبات کے دماغ کو پراگندہ کیا جائے کیونکہ آغا خان بورڈ کے خیال میں سب بچے شائد انگریزی نہ سمجھ سکیں اور سیکس کی عریانی سے بچ جائیں اسلئے کہانیاں صرف اردو میں رکھی گئی ہیں جو کہ پورنو ہیں ۔