اسلامیہ مڈل سکول سرکلر روڈ راولپنڈی (کب کا ہائی ہو چکا) سے میں نے ساتویں جماعت پاس کی تھی ۔ مجھے اس دور (1949ء۔1950ء) میں لکھی ڈائری سے پھٹا ایک ورق مل گیا تو میں نے سنبھال کر رکھ لیا تھا مگر ایسا سنبھالا کہ 2 دہائیاں بعد پچھلے دنوں کچھ اور تلاش کرتے ملا ۔ سوچا اسے کمپیوٹر میں محفوظ کیا جائے
مُلک ۔ ۔ ۔ آزادی دلانے والے ۔ ۔ ۔ آزادی کا دن
پاکستان ۔ ۔ ۔ محمد علی جناح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 اگست 1947ء
بھارت ۔ ۔ کرمچند موہنداس گاندھی ۔ ۔ 15 اگست 1947ء
ترکی ۔ ۔ ۔ ۔ مصطفٰی کمال پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ یکم نومبر 1923ء
مصر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سعد زغلول پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ 12 جنوری 1924ء
امریکا ۔ ۔ ۔ ۔ ابراھیم لنکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4 جولائی 1776ء
چین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موزے تُنگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 اکتوبر 1948ء
فرانس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 جولائی
اٹلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26 مارچ
یونان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 مارچ
پرتگال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 اکتوبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیدائش
چرچل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1874 ء
علامہ اقبال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 نومبر 1876ء
قاعد اعظم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 دسمبر 1876ء
سر آغا خان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1877ء
محمد علی جوہر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 دسمبر 1878ء
مارشل سٹالن ۔ ۔۔ ۔ ۔ 1879ء
جناب محمدعلی جوہر کی پیدایش غلط ٹاہپ ہو گیی ہے-
علی صاحب
تصحیح کا شکریہ ۔ 1878 کی بجائے 1978 لکھ دیا تھا
اسی سکول سے میں نے بھی پڑھا ، ۲۰۰۱ میں میٹرک کی تھی، ہیڈ ماسڑ کے کمرے میں میٹرک میں سکول ٹاپ کرنے والے لڑکوں کے سنہری بورڈ پر احقر کا نام بھی درج ہے. الحمداللہ. اس سکول کے اساتذہ کا میری تربیت میں بہت بڑا کردار ہے، اللہ انہیں جزا دے.
حافظ سعد صاحب
آپ کے ہم مدرسہ ہونے کی خوشی ہوئی ۔ میں نے آٹھویں سے دسویں جماعت مسلم ہائی سکول جو اصغر مال کے قریب ہے وہاں سے پاس کیں
ماشاءاللہ آپ اس زمانہ سے اہم باتوں کو لکھ کر رکھنے کے عادی تھے ۔
بہت اچھا لکھتا ہے جب اپنی پرانی چیزیں نظر آتی ہیں بہت معلوماتی یادگار ہیں آپ کے
بہن کوثر بیگ صاحبہ
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ میں ایک عجیب مخلوق ہوں ۔ میری عادات سب ہی نرالی ہیں ۔ بقول میری پھوپھی زاد بہن جو مجھ سے 8 سال بڑی ہیں اور میرے بچپن میں ہمارے پاس رہتی تھی ۔ میں نے 5 سال کی عمر میں لطیفے بنانے شروع کئے اور 7 سال کی عمر میں کہانیاں بنانے لگا تھا ۔ ڈائری جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے 8 اور 9 سال کی عمر کے درمیان لکھنا شروع کی تھی ۔ اس میں پہلی تحریر میرا 1946ء کی تعطیلاتِ گرما میں جموں سے کشمیر کا سفر تھا ۔ میں نے پتنگ بازی نہیں کی ۔ بنٹے بلور یا گولیاں نہیں کھیلیں ۔ گلی میں کھڑے رہنا ۔ کسی لڑکے کو تنگ کرنا ۔ لڑکیوں کی باتیں کرنا ۔ لڑکیوں کو چھیڑنا اور اُن کی طرف دیکھنا بھی مجھے بُرا لگتا تھا ۔ اس سلسلہ میں کئی بار دوسرے لڑکوں کے ساتھ جھگڑا ہوا ۔ پڑھائی کے بعد میرے پاس بہت فارغ وقت ہوتا تھا جس میں سیریں کرتا ۔ غیرنصابی کتب پڑھتا مگر افسانے نہیں ۔ ڈائری لکھتا ۔ اور گھر کا سارا سودا سلف لاتا ۔ گھر کی صفائی کرتا ۔ امی کے ساتھ کپڑے دھونے میں مدد کرتا ۔ اور ایک خاص بات بتاؤں ۔ میں نے کبھی جیب خرچ نہیں لیا تھا ۔ بس عیدوں پر عیدی مل جاتی تھی یا کوئی قریبی رشتہ دار دوسرے شہر سے آتے تو کبھی کبھی کچھ پیسے دے دیتے اور وہ بھی سارے اپنے اوپر خرچ نہیں کرتا تھا
ابراھیم لنکن نہیں جارج واشنگٹن–امریکہ کے لئے
واقعی آپ کی عادتیں نرالی تھین میں نے البتہ وہ سب باتیں کی جو آپ کو اچھی نہیں لگتی تھین سوائے اس کے کہ لڑکیوں کا چھیڑنا میں نے بھی نہیں کیا
میں نے ڈائری لکحنی شروع کی تھی 1951 میں مگر ایک سال بعد ختم اور وہ بھی ضائع ہو گئ۔
جیب خرچ مجھے بھی کبھی نہین دیا گیا کیوںکہ اماں جان اس کے خلاف تھیں
بھائی وھاج الدین احمد صاحب
جی ۔ جارج واشگٹن ہی ہونا چاہیئے لیکن میں وہی لکھا ہے جو اپنی ڈائری میں ساتویں جماعت میں لکھا تھا
وہ کہتے ہیں نا ہو نہار بروے کے چکنے چکنے پات ماشاءاللہ بچوں میں یہ خصوصیت آتے ہیں، گھر کے ماحول ، طریقہ تربیت اور لڑکوں پر دوستوں کے اثرات بہت زیادہ مرتب ہوتے ہیں ۔پہلے زمانہ میں بچوں پر خاص توجہ دی جاتی تھی اب دیکھتی ہوں کہ والدین اپنے کاموں میں مگن ہیں تو بچے اپنے مشغلوں میں خیر اس موضوع کوچھیڑے تو بات طویل ہوجائے گی۔۔
پاکٹ منی ہمیںبابا دیتے تھے بہت چھوٹے رہنے امی ضرورت پر مانگ لیتے اور کچھ بڑے ہوئے تو واپس بھی دینے لگی پھر ہم اپنی چھوٹی سی جمع بندی کبھی امی تو کبھی کسی بھائی کو ہاتھ بدل دیتے پھر مانگ مانگ کر لے لیتے ۔ ہاہاہاہا ۔ بچپن کو غور کریں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون کیسے نکلنے والے ہیں ۔
الحمدللہ آپ کے اندر تو بہت اچھی وہ باتیں ہیں جو ہر ایک اپنے بیٹوں میں دیکھنا چاہتے ہیں
بہن کوثر بیگ صاحبہ
آپ جیسے بے لوث ہمدردوں کی دعائیں ساتھ رہیں تو اللہ اخیر اچھا کرے گا
ارے کیا بات کرتے ہیں بھائی آپ میں ناچیز خود آپ کی دعاوں کی گزارش کرتی ہوں ۔ویسے بہت ساری دعائیں دل سے نکلتی رہتی ہیں جب بھی آپ کے بلاگ پر آتی ہوں ۔ آج میڈنائٹ انڈیا کے لئے نکل رہی ہوں فیملی کے ساتھ سفر کی آسانی کے لئے دعا کریں ہمارے ۔۔۔۔۔
اب تک جتنا بھی آپ کا بلاگ پڑھا ہے سب بہت خوب لکھا آپ نے مگر آپ نے اپنی امی کا نماز کو اٹھانے والی بات اور اس کے بعدآپ کا اس پر ہمیشہ قائم رہنا بہت متا ثر کیا کیونکہ میں خ ود آزمائی ہوں کہ جو بہت نیک ہوتے ہیں ان کی زبان میں ایسا اثر آجاتا ہے کہ اللہ پاک اس کو پورا فرمادیتا ہے ۔ان کی معیت اورنظرِعنایت سے دنیا آخرت ٹھیک ہوجاتی ہے ۔اللہ بہتر جانتا ہے میں کسی لالچ میں یہ بات نہیں کہی بلکہ کیا پتہ ہوائی سفر ہے میں رہو یا نہ رہوں یہ بات دلمیں رہ جائے آپ آخرت کی فکر کی بات کی تو رہ نہ سکی ۔۔۔ان شاءاللہ حیات باقی تو بات باقی
بہن کوثر بیگ صاحبہ
شاید میرا یہ جواب پڑھنے سے قبل آپ روانہ ہو چکی ہوں بہرحال میری دعا ہے کہ آپ کو سفر میں اور جہاں کہیں بھی ہوں بخیروعافیت رکھے اور سفر کی تکلیفات آسان کرے
محترم ۔ ۔
شاید میں نے زندگی میں جس بلاگ کو فیوریٹ میں سیو کیا وہ آپ کا ہی تھا۔۔۔ تب میں بلاگ کی دنیا سے نا واقف تھا ۔ ۔ مگر میں نے آپ کے بلاگ کا ایک مضمون پڑھا تو اس کا ایڈریس سیو کیا کہ موقع ملنے پر اسے کھنگالتا رہوں گا ۔ ۔ ۔
واقعتا” یہاں آ کر بہت ساری کارآمد باتیں سیکھنے ملتی ہے ۔ ۔ ۔
تبصرہ نمبر 6 پڑھ کر بڑا رشک آ رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اللہ آپ کی عمر دراز کرے ۔ آمین
آپ کی دعا پر آمین کہتی ہوں نور بھائی
اجمل بھائی آپ کی دعا سے میں یہاں خیریت سے پہنچ گئی الحمدللہ ۔۔۔دعا کا شکریہ
بہن کوثر صاحبہ
اللہ کا شکر ہے ۔ وہی حفاظت کرنے والا ہے ۔ میں پوچھ سکتا ہوں کہ انڈیا میں آپ کی رہائش کس شہر میں ہے ؟
حیدرآباد دکن ۔۔۔ جی اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ آپ نے مجھے یہ بتا کر دکھی کر دیا ۔کیونکہ میں نے ایک بلاگر والے بھائی پر انکشاف کیا تو انہوں نے یہ ہی کہا پھر میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ نہہہیں نہیں میں نے حیدرآباد کے مسلمانوں کی حکومت کے زوال کا یاد کرکے کہا تھا ۔ میں نے آپ کے جواب کے خیال سے بلاگ میں کہا مگر پھر آپ آئے یا نہ آئے سوچ کر جواب لکھنے لگھی ہوں۔۔۔۔
بہن کوثر بیگ صاحبہ
شکریہ ۔ میں غمگین نہیں ہوتا کیونکہ وہ منزل تو بہت پیچھے رہ گئی