جہاں تک مجھے حقائق کا علم ہے تو عبدالرشید غازی نے آخری وقت تک مذاکرات کامیاب بنانے کی پوری کوشش کی۔ وہ اپنے ساتھیوں کی زندگیاں بچانا چاہتے تھے لیکن عزت کے ساتھ۔ مذاکرات کی ناکامی کی وجہ حکومت کے ساتھ ساتھ ان علماء کا رویہ بھی ہے جو آخری وقت میں چوہدری شجاعت حسین کے ہمراہ لال مسجد کے باہر موجود تھے۔ بعض علماء کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ تھا۔ چوہدری شجاعت حسین اور مولانا فضل الرحمان خلیل موبائل فون پر عبدالرشید غازی کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے اور ان کے ساتھ موجود بعض علماء آپس میں قہقہے لگا رہے تھے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ علماء کے قہقہے روکنے کیلئے چوہدری شجاعت حسین کے کچھ ساتھیوں کو ان سے باقاعدہ درخواست کرنی پڑی۔ شام چھ بجے شروع ہونے والی بات چیت رات کے پچھلے پہر میں داخل ہوئی تو ان علماء نے اسلام آباد کے بلیو ایریا سے کھانا منگوا کر کھانا شروع کردیا جبکہ چوہدری شجاعت حسین اور فضل الرحمان خلیل بسکٹوں اور پانی پر گزارا کر رہے تھے۔ ان دونوں نے عبدالرشید غازی سے پوچھا کہ کیا آپ نے کچھ کھایا ہے ؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ اگر آپ چند سو افراد کا کھانا بھجوا دیں تو ہم سمجھیں گے کہ آپ واقعی ہمارے خیر خواہ ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے فوری طور پر تین سو آدمیوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کیلئے اپنے آدمی دوڑائے۔
اس دوران عبدالرشید غازی اپنے چند مبینہ غیر ملکی ساتھیوں کو حکومت کے حوالے کرنے پر راضی ہو چکے تھے کیونکہ یہ چھوٹی چھوٹی عمروں کے طلباء تھے۔ وہ لال مسجد اور جامعہ فریدیہ بھی چھوڑنے والے تھے۔ موقع پر موجود علماء جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس کے حوالے کرانا چاہتے تھے لیکن حکومت راضی نہ تھی۔ یہ اتنا اہم مسئلہ نہ تھا۔ اصل مسئلہ لال مسجد اور محصور سیکڑوں طلباء و طالبات کی زندگیاں بچانا تھا لیکن مولانا حنیف جالندھری اور ان کے ساتھی علماء اس مسئلے پر مذاکرات کو چھوڑ کر چلے گئے۔ صرف مولانا فضل الرحمان خلیل وہاں رہ گئے۔ انہوں نے آخر میں عبدالرشید غازی کو 20 عورتیں اور مرد باہر بھیجنے پر راضی کر لیا لیکن اس دوران عبدالرشید غازی کے موبائل فون کی بیٹری ڈاؤن ہوگئی اور رابطہ منقطع ہو گیا۔ مولانا فضل الرحمان خلیل اور چوہدری صاحب رابطہ دوبارہ بحال کرنے کا راستہ نکال ہی رہے تھے کہ آپریشن شروع ہو گیا۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود بھوکے پیاسے مردوں کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا اور مجبور عورتوں نے خاموشی سے موت کے منہ میں جانا قبول کر لیا۔ کتنی عورتیں اور بچیاں شہید ہوئیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا حکومت کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ عبدالرشید غازی کی شہادت سے اگلے دن حکومت نے صحافیوں کو لال مسجد کا دورہ کروایا اور بہت سا اسلحہ دکھایا جس میں راکٹ لانچر بھی موجود تھے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ عبدالرشید غازی اور ان کے ساتھیوں نے یہ راکٹ لانچر کیوں نہ چلائے ؟
اس آپریشن سے اگلے روز اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین تھری میں ایک خاتون وزیر مملکت نے ایک ڈانسنگ کلب کا افتتاح کیا۔ اس علاقے میں شراب فروخت کرنے کی دکان بھی قائم ہوچکی ہے۔ کیا ڈانسنگ کلب اور شراب خانے قائم کر کے پاکستان میں انتہاء پسندی کم ہو جائے گی ؟ سچ تو یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی دراصل لبرل اور سیکولر انتہا پسندی کا ردعمل ہے۔ جب تک مغرب پسند لبرل اور سیکولر حکمران طبقہ اپنی انتہاء پسندی ختم نہیں کرتا معاشرے میں اعتدال پسندی فروغ نہ پائے گی۔ ذرا سوچئے اگر برطانوی حکومت کی پالیسیاں وہاں کے مسلمان ڈاکٹروں کو انتہا پسند بنا سکتی ہیں تو ہمارے حکمرانوں کی انتہا پسندی ہمارے نیم پڑھے لکھے مذہبی نوجوانوں کو کدھر لیکر جائے گی ؟
گئے۔16/جولائی کے ”قلم کمان“ میں خاکسار نے یہ لکھا تھا کہ علماء کی واپسی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت جامعہ حفصہ اور جامہ فریدیہ کو وفاق المدارس کے حوالے کرنے کو تیار نہ تھی۔ اس کالم میں بعض علماء کے غیر سنجیدہ رویے کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ میں نے لفظ بعض علماء اس لئے استعمال کیا کہ مذاکرات کرنے والے تمام علماء قصور وارنہ تھے۔ مفتی رفیع عثمانی صاحب بھی مذاکرات کرنے والوں میں شامل تھے انہوں نے ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ مذاکرات چھوڑ کر واپس آنے کی پہلی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے عبدالرشید غازی کو ان کے اہل و عیال کے ہمراہ ان کے گاؤں بھجوانے اور وہاں قیام پر رضا مندی ظاہر کی تھی اور یہ بھی طے تھا کہ جن طلبہ پر جامعہ حفصہ کے نزاع سے پہلے کے مقدمات نہیں انہیں رہا کردیا جائے گا۔ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس کے حوالے کرنا تیسرا نکتہ تھا جس پر حکومت نے اتفاق کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک متفقہ تحریر بھی تیار ہوگئی تھی لیکن جب چوہدری شجاعت حسین یہ تحریر لیکر ایوان صدر گئے تو اسے تبدیل کردیا گیا۔ نئی تحریر میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ عبدالرشید غازی کو ان کے گھر میں رکھا جائے گا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، دوسرا نکتہ یہ تھا کہ لال مسجد سے باہر آنے والے تمام لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، تیسرا نکتہ یہ تھا کہ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا مستقبل محکمہ اوقاف، وفاق المدارس اور دیگر حکومتی اداروں کے مشورے سے طے کیا جائے گا۔ مفتی رفیع عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ ہمیں کہا گیا صرف پندرہ منٹ میں ہان یا ناں کریں۔ اسی دوران فوج کے ایک افسر نے ہمارے ساتھیوں سے کہا کہ اب آپ حضرات یہاں سے چلے جائیں چنانچہ ہم صدمے کی حالت میں ڈھائی بجے رات واپس چلے آئے۔ مفتی صاحب نے وضاحت کی ہے کہ اس دووران ہم نے جو کھانا کھایا وہ چوہدری شجاعت نے منگوایا۔ نیز یہ کہ اتنی طویل اور سنجیدہ گفتگو کے دوران اگر کسی نے کوئی ہنسی کی بات کہہ دی ہو تو اسے سب کی طرف سے قہقہے لگانے سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ مفتی رفیع عثمانی صاحب انتہائی قابل احترام عالم دین ہیں۔ میں انہیں غلط قرار دینے کی جرأت نہیں رکھتا۔ علماء کے کردار کے بارے میں سوالات اس وقت پیدا ہوئے جب مولانا فضل الرحمان خلیل اور چوہدری شجاعت حسین صبح چار بجے تک مذاکرات کرتے رہے اور ڈھائی بجے مذاکرات چھوڑ کر واپس آنے والے علماء نے اپنے فون بند کردیئے۔ مفتی محمد نعیم صاحب نے مذاکرات چھوڑ کر واپس آنے کی مخالفت کی تھی لیکن حنیف جالندھری کے اصرار پر نہ صرف علماء واپس آگئے بلکہ انہوں نے سب علماء کے فون بند کروائے اور خود پنجاب ہاؤس جاکر سوگئے۔ جب لال مسجد میں آپریشن شروع ہوا تو جالندھری سوئے ہوئے تھے تاہم اس موقع پر مفتی رفیع عثمانی اور مولانا زاہد الراشدی نے مذاکرات کی ناکامی کی کچھ وجوہات میڈیا کو بتاکر کچھ نہ کچھ فرض ادا کردیا۔