میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا جب میں نے پہلی بار یہ شعر سنا تھا
سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خُوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
اس کے ساتھ ہی ایک ضرب المثل یاد آئی ۔ ”بدبُودار کیچڑ میں اُگی سبزی بھی بدبُودار ہوتی ہے“۔ اس کا عملی ثبوت چند ماہ قبل کراچی سے ملا جہاں گندھے نالے کے پانی سے سیراب شدہ سبزیوں کی تاثیر پر بہت واویلا کیا گیا تھا
موجودہ حکومت نے پچھلے 4 سال سے احتساب کے نئے قانون کی رٹ لگا رکھی ہے اور کہا جاتا رہا کہ مسلم لیگ (ن) نیا قانون نہیں بننے دیتی ۔ جب کاغذ کے پھولوں پر چھِڑکی گئی خُوشبُو ختم ہوئی تو احتساب قانون کی کونپل کو لگے گندے پانی کی بدبُو نمودار ہو گئی ہے
مجوّزہ احتساب قانون کی جھلکیاں
1۔ کسی ایسے پارلیمنٹرین یا سرکاری ملازم کیخلاف کرپشن کا کیس نہیں بنایا جائے گا جسے سرکاری آفس یا پارلیمنٹ چھوڑے 7 سال گزرچکے ہوں
2۔ نیک نیتی سے کی جانیوالی کسی بھی قسم کی کرپشن کو جُرم نہیں مانا جائیگا بلکہ اسے غلطی کہا جائیگا جس کی کوئی سزا نہیں ہوگی
(زبردست ۔ کل کو یہ قانون بننے کی راہ ہموار ہو گی کہ کسی نے نیک نیّتی سے زنا کیا تو اسے زنا نہیں سمجھا جائے گااور غلطی کہہ کر معاف کر دیا جائے گا)
3۔ جس دن احتساب بل کو قانون کی حیثیت ملے گی وہ اسی دن سے نافذ العمل ہوگا
(یعنی اس سے قبل کا سب معاف)
4 ۔ نئے احتساب بل کے تحت بننے والا کمیشن بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی غیر ملکی دولت اور کالے دھن کی تحقیقات نہیں کرسکے گا
5۔ تاحال رائج قانون کے مطابق کرپشن ثابت ہونے پر سزا 14 سال ہے ۔ مجوّزہ قانون میں 7 سال
اسلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم افتخار اجمل صاحب،
نیا کیا ہے اس خبر میں جس پر تبصرہ کیا جائے؟ اسی لیئے پرانا تبصرہ پھر سے نقل کررہا ہوں کہ بھئی پاکستانی ہونے کے باوجود بھی مجھ کو تو پاکستانی نوکر شاہی، میڈیا اور پاکستانی حکام بشمول فوج ، پولیس و عدالت کے ، کسی پر بھروسا نہیں ہے، کیونکہ تجربہ و تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ انگریزی سرکار کے مفاد پرست پٹھوؤں کا ہی تسلسل ہیں ،جنھوں نے محض اپنے مفاد کے لیئے 1857 میں ملک و قوم سے غداری کی اور مسلم و غیر مسلم دونوں کی مشترکہ جنگ آزادی کی کوشیشوں کو ناکامی سے دوچار کرایا۔ آج بھی اس مفاد پرست ٹولے سے ایسی خبروں کے علاوہ کسی نیکی کی توقع کرنا خود فریبی ہے۔
سات سال کی سزا کے بعد بہت سے انعام و اکرام ملنے کی راہ بھی ہموار ہو جایا کرے گی۔
عبدالرؤف صاحب
جد و جہد آزادی جو 1857ء میں شروع ہوئی بنیادی طور پر مسلمانوں ہی کی تھی ۔ صرف کچھ غیرمسلموں نے ساتھ دیا تھا ۔ البتہ غداروں مین غیرمسلموں کے ساتھ نام نہاد مسلمان بھی شامل ہوئے ؎جو قائد اعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی کو قتل کرا کے پاکستان پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔ عوام اگر باشعور ہوتے تو تو اس سازش کو کامیاب نہ ہونے دیتے ۔ وجہ یہی تھی کہ عوام کی اکثریت دین پر عمل پیرا نہیں تھی اور خودغرضی میں مبتلاء تھی
یہ بھی زرداری کا ایک شاندار کارنامہ ہے …
جو کام یعنی کرپشن چھپ کر ہوتی تھی اب ببانگ دہل ہو گی ….
یہ تو قانون تو پیشرفت ہے کرپشن کو قانون بنانے کی جانب … اب کہا جاے گا کہ جب کرپشن پہ سزا ہی نہیں ہے .. کیونکہ وہ نیک نیتی کے ساتھ کی گئی لہذا کیوں نہ ہر کام کے ریٹ طے کر دے جایں …
ویسے جس ملک میں ہر کام رشوت یا سفارش کے بغیر نہ ہوتا ہو … وہاں بہتر یہی ہے کے سب غلط کام قانونی بنا دے جایں..
یا جس طرح رشوت ٹریفک پولیس کے لئے حلال کی گئی ہے اس طرح سب کے لئے کر دی جائے …(آپ حضرت جانتے ہی ہوں گے … ہر چالان میں ٹریفک پولیس کا حصہ ہوتا ہے )
اسی طرح ہر کام کرانے کی فیس میں متعلقہ آفس کا حصہ بھی متعین کر دیا جائے کیا مضایقہ ہے …
رہی بات غیر ملکی سرمایہ کے بارے میں پوچھ گچھ نہ ہو گی … اس سے سب مقتدر قوتوں کو فائدہ ہو گا …
اب “شریف ” سیاستدانوں سے لیکر “محب ” وطن جرنیلوں .. اور “دیانتدار” بیوروکریٹس تک کسی سے پوچھ گچھ نہ ہو گی …. یعنی “لوٹو اور پھٹو” کی سیاست اور “سروس” زوروں پر ہو گی …
نعمان صاحب
سُنا ہے کہ چالان کرنے والے پولیس مین کو چلان کے جرمانہ کا چوتھائی ملتا ہے ۔ لیکن آپ پرویز مشرف کو بھول گئے جس نے محکمہ نَیب بنایا اور پلی بارگین ایجاد کیا کہ سات کروڑ لوٹو اور سات لاکھ دے کر پاک ہو جاؤ ۔ مزے کی بات ہے کہ یہ سات لاکھ بھی قومی خزانے میں نہیں جاتا بلکہ نیب کے اہلکاروں کو خود بخود بطور انعام مل جاتا ہے
نعمان اور اجمل صاحب، آپ دونوں سے ایک ہی سوال ہے کہ بے فائدہ و بے مقصد زرداری، یا مشرف کو کوسنے سے مسائل حل ہوجایئں گے؟ اگر مجھ سمیت کوئی کسی انقلاب یا کایا پلٹ کا منتظر ہے تو بھی یہ معجزہ کب اور کیسے ظہور پذیر ہوگا؟ میں دبئی میں ٹھنڈے کمرے میں بیٹھا اپنی نوکری کے اوقات میں سے وقت نکال کر یہ تبصرے کررہا ہوں، افتخار صاحب اپنی جوانی گذار کر جو کرسکتے ہیں وہی کر رہے ہیں یعنی نوجوانوں کی رہنمائی، اور نعمان صاحب کا مجھ کو علم نہیں ، مگر کہنے کا مقصد ہے کہ ہمیں سوچنا چاہیئے کہ کیا اس طرح سے ہمارے مسائل ختم ہوجایئں گے ؟
عبدالرؤف صاحب
اصل مسئلہ عوام الناس کی سوچ کو درست رُخ دینے کا ہے ۔ جب تک عوام الناس کی سوچ درست سمت اختیار نہیں کرتی کچھ بھی بہتر نہیں ہو سکتا ۔ میں نے اللہ کے دو اہم فرمان اس سلسلے میں اپنے بلاگ کے بائیں حاشیئے میں نقل کئے ہوئے ہیں ۔
میں نے متواتر کم از کم 40 سال اپنے ارد گرد کے لوگوں کی سمت درست کرنے کی بھر پور کوشش کی اور باوجود شدید مخالفت کے اور بے یار و مدد گار ہونے کے صرف اللہ کی مہربانی سے کامیابیاں حاصل ہوئیں جو دیر پا ثابت نہ ہوئیں کہ بعد میں آنے والوں میں اتنی سکت نہ تھی کہ سچ کی خاطر جم جاتے ۔ میں پھر بھی اپنے آپ کو کامیاب سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی کی سی کوشش تو کی ۔
آج تو ملک کے کسی بھی حصے میں کسی کو اُٹھایا جاتا ہے تو سب کو خبر ہو جاتی ہے ۔ مجھے 1973ء میں اُٹھانے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر میرے اللہ نے میری حفاظت کی ۔ میں نہ کہیں چھپا اور نہ کام چھوڑا اور اُٹھائے گئے اپنے 5 ماتحت اہلکاروں کو 9 دن میں رہا کروا لیا ۔ اللہ بڑا مہربان ہے کوئی اللہ پر تکیہ کر کے تو دیکھے ۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی تو نہیں کہا ”جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں“۔
باتیں کرنا بہت آسان کام ہے دیکھنا ہے کوئی عمل کیا کرتا ہے۔ باتیں کرنا مجھے بھی بہت آتا ہے ۔ مباحثے اللہ کے کرم سے میں نے بہت جیتے مگر ان کا اثر صرف تعریفوں اور باتوں تک رہتا ہے ۔
سر جی ، آپ نے میرے تبصرے کو اپنی ذات تک محدود کرلیا، میں نے محض بات برائے بات نہیں کی تھی بلکہ سوال کرنے کا میرا مقصد یہ جاننا ہے کہ آج کے حالات کے پیش نظر آیا درست سمت کیا ہے کہ جس میں ہم اپنی تمام قوتیں صرف کردیں، کامیابی یا ناکامی دینا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے، مگر ہم کو کم سے کم یہ اطمینان تو ہونا کہ ہماری محنتیںدرست سمت میں لگ رہی ہیں؟
جناب بھوپال صاحب،
سابق آرمی چیف کا ذکر اس لئے نہیں کیا .. بات لمبی چلی جاتی اور موضو ع سے ہٹ جاتی …
عبدالرؤف صاحب …
بات آپکی صحیح ہے .. لیکن اس طرح ذکر کرنے ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کے لوگوں کو پتا تو چلتا ہے انکے ساتھ کیا ہاتھ ہو رہا ہے …
ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کے نیب اور اسکے قانون نے سیاستدانوں کو سدھارنے کی کوشسش کی تھی ….
اچھے خاصے پڑھے لکھ لوگوں کو یہ خیال تک نہیں ہوتا کہ ارکان اسمبلی کا کام قانون سازی ہے … سڑکیں بنانا یا دوسرے کام کرنا نہیں …
یہ تو اداروں کے کرنے کے کام ہیں جو ایک لمبے پروسیس کے تھرو مستقل کراۓ جائیں تو اثر کرتے ہیں …
اسی طرح صوبائی اور قومی اسمبلیوں کا وجود مملکت یا صوبوں کے لئے تو فائدہ مند ہو لیکن عوام الناس کا ان سے ڈائریکٹ فائدہ نہیں ہوتا ….
عوام کا ڈائریکٹ فائدہ تو مقام حکومتوں یا بلدیاتی اداروں میں ہے .. جو انکے بنیادی مسائل حل کرتے ہیں ….
آپکے گھر پانی نہیں آے تو یہ اچھا ہے کہ آپ وزیر سے رابطہ کریں یا مقامی مونسپل آفس میں کونسل یا رابطہ افسر کو ….
واضح رہے یہ میرا نقطۂ نظر ہے …
والسلام
نعمان صاحب کا فرمانا ہے کہ ارباب اختیار خواتین و حضرات کو کوسنے اور انکے مکروہ کرتوتوں کا پردہ فاش کرنے سے عوام کو شعور حاصل ہوتا، کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارے میڈیائی مجاہدین جیسے کامران خان، جاوید چوہدری، حسن نثار، انصار عباسی، اور حامد میر وغیرہ پہلے ہی سے اور ہم سے زیادہ بہتر انداز میں یہی کارنامہ سرانجام نہیں دے رہے ہیں؟ مگر کیا کچھ فائدہ ہورہا ہے؟ اگر کچھ فائدہ ہورہا ہے تو ابھی تک قوم کی کایا پلٹ کیوں نہیں ہوئی؟ اور اگر کچھ فائدہ نہیں ہورہا ہے تو پھر ہمارے اضافے سے کیا فرق پڑ جائے گا؟
آپ کو ایک کہانی سُناتا ہوں، ایک دفعہ کی بات ہے ایک تاجر نے اپنے گدھے سے کہ جس پر اس نے سامان تجارت لادا ہوا تھا، کہا کہ تیز دوڑو کہ ڈاکو پیچھے لگے ہوئے ہیں مگر جواب میںگدھے نے کہا کہ اگر تم کو اپنی جان پیاری ہے تو تم تیز دوڑو مگر مجھ کو تیز دوڑنے کا مت کہو کہ مجھ کو تو سامان ہی اٹھانا ہے اب وہ تیرا ہو یا ڈاکو کا، اس سے میری صحت پر کیا فرق پڑتا ہے۔ تو بھائی میرے جب عوام کو روٹی کے لالے پڑے ہوں اور تحفظ کا احساس ختم ہوکررہ گیا ہو تو کیا وہ اس شعور کا اچار ڈالے گا؟ ویسے بھی عوام کو شعور دینے کے لیئے شہریت کا مضمون سب طلباء کے لیئے لازمی کردینا چاہیئے، آنے والی نسل کو خود ہی علم ہوجائے گا کہ کس ادارے کا کیا کام ہے اور کس کے کیا حقوق و فرائض ہیں۔
اور جہاں تک سوال ہے کہ ارکان اسمبلی کا کام قانون سازی ہے ناکہ سڑکیں بنانا یا آپ کے گھر کی واٹر سپلائی درست کرنا، تو اس سلسلے میں جان لینا چاہیئے کہ ہمیشہ سے کام تو سارے ادارے ہی کرتے ہیں مگر جمہوری نظام میں وزیر صاحبان ان اداروں کے سربراہ کی حیثیت سے منتخب ہوتے ہیں، اور پاکستان جیسے کرپشن زدہ ممالک میں تو یہ وزیر صاحبان الہ دین کے چراغ والے جن کا کام کرتے ہیں۔ اس لیئے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس کا کیا کام ہے، بلکہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ کس کا کتنے بڑے اور بااثر وزیر سے جان پہچان ہے۔
اور نظام بلدیاتی ہو یا کمشنری اس بات سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا، یہ ایسے ہی ہے کہ کسی ادارے میں آپ باس کے سیکریٹریوں کی تعداد بڑھا دیں اور سب کو الگ الگ اختیارات دے دیں، مگر حرف آخر اور مختار کل باس ہی رہے گا یعنی صوبائی وزیر۔ تو اسطرحسے غلام گردشیں اور اخراجات میں تو اضافہ ہوسکتا ہے مگر نظام درست نہیں ہو سکتا ہے۔ اور یوں میرا بنیادی پھر سے سر ُاٹھائے گا کہ درست حل کیا ہے؟