اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت نے پاکستان کے مرکز اسلام آباد کے دل ۔ آبپارہ ۔ میں واقع لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر 2 جولائی بعد دوپہر فوج کشی شروع کی او ر اب تک جاری ہے ۔
چند یوم قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور اور صدر جنرل پرویز مشرف کے چہیتے ڈاکٹر عامر لیاقت سے ایک ٹی وی انٹرویو میں پوچھا گیا
“لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر آپریشن ہونا چاہیئے یا نہیں؟”
ڈاکٹر عامر لیاقت نے یہ جانتے ہوئے کہ حکومت اور بالخصوص اسکی اپنی جماعت ایم کیو ایم کی پالیسی سے اختلاف بہت مہنگا پڑ سکتا ہے جواب دیا
“وہ ہمارے بچے بچیاں ہیں ۔ ان کے خلاف کوئی مسلحہ کاروائی نہیں ہونا چاہیئے”
اس نے مزید کہا
” اول اور آخر راستہ مذاکرات کا راستہ ہے”
نتیجہ حسب اُمید تھا اور بہت جلد نکل آیا ۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کو فوراً مستعفی ہونا پڑا ۔ اس کے باوجود جن لوگوں کی عقلوں پر پردہ پڑ چکا ہے وہ حکومت کے اس ظالمان بلکہ خونخوار اقدام کو جائز قرار دینے کیلئے مختلف بہانے گڑھ رہے ہیں ۔ اللہ ان لوگوں کو سیدھی راہ دکھائے ۔ آمین ۔
اجمل صاحب ، کارروائی مدرسے کے طالبعلموں کے خلاف نہیں ہوئی۔ ان کے خلاف ہوئی ہے جو قانون شکنی پر اترے ہوئے تھے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جو طالب علم ان کا ساتھ چھوڑ کر باہر آ گئے ان کو کچھ نہیں کہا گیا۔ اور اگر اب بھی کوئی ان کا ساتھ دے رہا ہے تو وہ طالبعلم کہلانے کا حقدار نہیں ہے کیوں کہ حکومت نے بہت زیادہ وقت دیا ہے کہ طالبعلم جامعہ چھوڑ دیں۔
ساجد صاحب
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس تحریر کے لحاز سے آپ کا جواب غیر متعلقہ ہے
آپ کا جواب شائد یہ ہے کاروائی امریکہ کے خلاف کی جا رہی ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ مر پاکستانی رہے ہیں اور وہ بھی نہتے طلباء اور طالبات جن کے ساتھ آپ کو کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔
آپ نے کہا ہے کہ باہر نکل آئیں ۔ میں نہیں سمجھتا تھا کہ آپ اتنے ہی بے خبر ہیں ۔ میری 4 جولائی کی تحاریر پڑھیئے ۔ جو چھ سو کے قریب طلباء و طالبات حکومت کی یقین دہانی کے بعد باہر نکلے تھے ان کے ساتھ حکومت نے کیا سلوک کیا؟ آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ وہ ابھی تک مختلف جگہوں پر محبوس ہیں ۔ جن طلباء نے 5 جولائی کو اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کیا ان کی شلواروں کے علاوہ باقی کپڑے اتار دیئے گئے ۔ ہاتھ پشت پر باندھ دیئے گئے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر نامعلوم مقام کی طرف بھج دیا گیا ۔ اب باقی کس امید پر باہر نکلیں ؟
معلوم ہوتا ہے کہ قانون کا سبق صرف آپ نے اور پرویز مشرف نے پڑھا ہوا ہے اور باقی سب جاہل ہیں
ساجد صاحب نعمان بننا چاہ رہے ہیں۔
یہ جب نئے آئے تھے تو لگا سہی لکھیں گے مگر مشرف نواز
محترم اجمل صاحب ، اگر میرا تبصرہ آپ کی توقعات کے مطابق نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ یہ غیر متعلقہ ہے۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کے جامعہ حفصہ پر کنٹرول کہ جس کو آپ فوج کشی کہہ رہے ہیں کے متعلق اور طلباء کی حالت زار کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا تھااور میں نے یہی وضاحت کی ہے کہ یہ آپریشن طلباء کے خلاف نہیں تھا بلکہ ان کے خلاف ہے جو طلباء کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عامر نے غلط نہیں کہا تھا یہ طلباء و طالبات ہمارے ہی بھائی بہنییں ہیں اسی لئیے تو ان کو باہر آنے کے لئیے کافی وقت دیا گیا۔ حتیٰ کہ غازی صاحبان کو بھی اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے کے لئیے کہا گیا لیکن وہ تو قانون سے بغاوت پر اس قدر راسخ ہو چکے ہیں کہ برقعہ اوڑھ کر تو پوری دنیا میں مذاق کا نشانہ بنے لیکن عزت سے گرفتاری نہ دی اور نہ ہی شوق شہادت کے جذبے سے مؤجزن ہو کر “باطل“ کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوئے۔
جی ہاں میں بھی ڈاکٹر عامر کی بات سے متفق ہوں کہ اول و آخر راستہ مذاکرات کا ہی ہے لیکن میرے بھائی پچھلے 7 مہینے سے مذاکرات ہی تو چل رہے تھے۔ کیا نتیجہ نکلا؟ چادر اور چاردیواری کی پامالی، خودکش حملوں کی دھمکیاں، غیر ملکیوں پر حملے، متوازی عدالتوں کا قیام، مارکیٹوں پر دھاوے، لوگوں پر تشدد، اغواء کی وارداتیں، قتل کے فتوے—— آپ ہی ایمانداری سے فیصلہ کیجئیے ان میں سے کون سا کام اسلام کے مطابق ہے۔
مولانا کے دادا استاد محترم مولانا مفتی محمود مرحوم کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن نے بھی ان صاحبان کے ان کاموں پر نا پسندیدگی کا بار بار اظہار کیا۔ آج کا ان کا بیان پڑحئیے وہ کہہ رہے ہیں کہ نفاذ اسلام کی جدوجہد آئینی حدود کے اندر رہ کر کرنا ان کی جماعت کا اصول ہے۔
مولانا عبدالعزیز خود تسلیم کر رہے ہیں کہ جامعہ کے اندر موجود طلباء کے پاس کلاشنکوفیں ہیں۔ جامعہ سے باہر آنے والی طالبات خود کہہ رہی ہیں کہ اگر آنسو گیس نہ پھینکی جاتی تو وہ رینجرز کا حشر کر ڈالتیں کیونکہ ان کے پاس اسلحہ بھی ہے اور اس کو چلانے کی بہترین تربیت بھی۔ وہ یہ بھی اقرا کر رہی ہیں کہ یہ اسلحہ انہون نے خود جامعہ میں منتقل کیا اور طلباء کے حوالے کر دیا۔ اور آپ کی سادگی دیکھئیے کہ ان مسلحین کو نہتے کہہ رہے ہیں۔ اس سادگی پہ کون مر نہ جائے۔
محترم ، میں نعمان کے بلاگ پر بھی لکھ چکا ہوں کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں جب ایسے حالات درپیش آئیں جیسا کہ جامعہ میں آئے تو اپنی مرضی سے خود کو قانون کے حوالے کرنے والوں سے بھی تفتیش کی جاتی ہے۔ معافی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ قانون شکنی میں براہ راست ملوث نہ ہوئے تو ان کے خلاف عدالتی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس کا یہ مطلب اخذ کر لینا کہ باہر نکلو اور گھر چلے جاؤ ٹھیک نہیں ہے۔ ایسا ممکن ہوتا تو مولانا صاحب گرفتار نہ ہوئے ہوتے اور بڑے آرام سے فرار ہو جاتے۔ آپ کی بات میں وزن ہوتا اگر آپ ان پر تشدد کا ثبوت لے کر آتے۔
محترم ، جان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جو لوگ اب بھی اندر موجود ہیں ان کو باہر آنے پر کم از کم جانی تحفظ تو حاصل ہو جائے گا۔ بصورت دیگر وہ خود ہی اپنی جان خطرے میں ڈالیں گے۔ رہی بات ان کی تلاشی کی تو اس میں کیا حرج ہے؟
محترم ، اگر آپ نے پاکستان سے باہر کسی ملک میں کچھ عرصہ گزارا ہو تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی جب کسی کو پولیس سے واسطہ پڑے تو اس سے بھی کہیں سخت تلاشی لی جاتی ہے۔
محترم ، آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہمارا دین کسی بات کی تصدیق کئیے بغیر اس کو عام کرنے کی کتنی سخت ممانعت کرتا ہے۔ سو میرے پرویز مشرف کے قانونی شاگرد ہونے کی اگر آپ کے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کریں۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ کیا آپ نے پرویز مشرف کی صدارت اور وردی کے بارے میں میرا مؤقف کبھی پڑھا؟ ایم کیو ایم کے بارے میں میرے ذاتی خیالات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی؟ یا پھر آپ نے یہ قیاس کر لیا کہ چونکہ میں ایک لبرل نقطہ نظر کا حامل ہوں تو یقینَا مشرف کا حامی ہی ہوں گا؟ کیا آپ نے بش انتظامیہ کے بارے میں میرے خیالات کبھی کسی سائٹ پر ملاحظہ فرمائے؟
لال مسجد کا معاملہ میری حد تک مشرف کی صدارت کے معاملے سے بالکل مختلف ہے۔ میں نے لال مسجد کے پورے معاملے میں ریاست، اس کے قانون کے احترام اور آئین کی پاسداری کی بات کی ہے۔ مشرف صاحب کے بارے میں میرا مؤقف یہ ہے کہ ان کو صدارت یا آرمی میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا چاہئیے۔لیکن میں اس ساری جدوجہد کا ریاستی قانون کے اندر رہ کر حامی ہوں۔ تشدد توڑ پھوڑ اور لٹھ برداری کا میں قائل نہیں ہوں۔ کہ یہ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
ملاء رقم طراز ہیں:
“ساجد صاحب نعمان بننا چاہ رہے ہیں۔
یہ جب نئے آئے تھے تو لگا سہی لکھیں گے مگر مشرف نواز“
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
اجی قبلہ ملاء صاحب ، یہ کیا ظلم کر دیا آپ نے ، مشرف اور نواز کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا۔
ویسے بندہ نا چیز نہ تو کبھی مشرف بہ پرویز ہوا ہے اور نہ ہی نواز کا ناز بردار ہے۔ حتیٰ کہ میں نے تو کبھی اپنے لئیے “آدمی ہے بے نظیر“ کا دعوی بھی نہیں کیا۔ نہ کسی کا کبھی “جی آلہ“ بنا ہوں اور نہ ہی دوسروں کے لئیے آفت کاپرکالہ۔
بخدا میرے ہاتھ صاف ہیں کہ یہ آج تک پولنگ سٹیشن کی سیاہی سے نہیں رنگے گئے۔
قانون یا قنون کہیں اس کو تو پهر تو جی اپنے مشرف صاحب کی بیدائش هی غر قانونی هو جاتی هے ـ
کیا انہوں نے سیاست میں دخل نه دینے کا حلف نہیں اٹهایا تها ـ
وقت کے وزیر اعظم چاهے وه گنگو تیلی هی کیوں نه هو کے حکم کو خلاف ورزی نہیں کی ـ
اب وردی نه اتار کر چیف اف آرمی سٹاف کے عہدے کے حق دار کا حق مارنا کیا قنون کی خلاف ورزی نہیں هے ـ
میرے پاکستانیوں کو قتل کروا رها ہے یه بنده کیا یه غیر قانونی نہیں هے؟
قتل هونے والا هر پاکستانی میرے لیے دکھ کا باعث هے چاهے یه پاکستانی مشرقی پاکستان کے شہر ڈهاکه میں مرے یا بلوچستان میں
وزیرستان هو یا باجوڑ میرے پاکستان پر حملے کرنے والا ایک غیر قانونی کام کر رها ہے
اس کے کسی بهی قدم کو قانونی کہنے والا غلطی کا شکار ہے
اور ایک ڈکٹیٹر کے زلاف مزحمت کرنے والے کو برا کہنے والے کو ایک لمحے کے لیے سوچ لینا جاءهيے که کہیں اس کو دماغی اسپتال جانے کی تو ـضرورت نہیں هے ـ
یا پهر آمریت کی مخالفت کرنے والے لوگوں کو ہسپتال جانے کی ضرورت ہے
ساجد صاحب
آپ کو تفصیلی جواب دینے سے پہلے ایک نقطے کی وضاحت ضروری ہے ۔ آپ نے کہا ہے کہ اگر میں کسی غیر ملک میں رہا ہوں تو مجھے معلوم ہو گا کہ وہاں کیا سلوک کیا جاتا ہے ۔ کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کس کس ملک میں کتنا کتنا عرصہ رہے ہیں اور کس کس حیثیت میں ؟ اس سلسلہ میں جب مجھے آپ کے علم اور تجربہ کا کچھ ادراک ہو جائے گا تو مجھے جواب لکھنے میں آسانی رہے گی ۔
خاور صاحب
مسئلہ سوچ کا ہے ۔ جن کی سوچ ہی مغربی میڈیا کے طابع ہے ان کو سمجھانا بہت مشکل ہے ۔
ساجد صاحب
میں نے آپ سے کچھ استفسار کیا تھا مگر جواب سے محروم رہا ۔ بہرحال آپ نے جتنا وقت اس بے ثبات جذباتی تحریر پر لگایا ہے اگر اس کا آدھا وقت کھُلے ذہن سے حقائق کو سمجھے پر صرف کرتے تو شائد معاملات آپ کی سمجھ میں آ جاتے ۔ فوج کشی کے لفظ پر آپ نے اعتراض کر دیا کیونکہ آجکل ہر اس چیز کو جس کے پیچھے بدنیّتی ہوتی ہے ایک خوبصورت نام دیدیا گیا ہے ۔ چلئے آپریشن کہہ لیتے ہیں جس کا ترجمہ اُردو میں فوج کشی ہی ہے ۔
آپ نے فرمایا کہ یہ آپریشن طلباء و طالبات کے خلاف نہیں بلکہ ان کے خلاف ہے جو طلباء کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں ۔ تو پھر آپ ہی بتائیے کہ طلباء اور طالبات کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے ؟ اور دو درجن سے زائد طلباء و طالبات کو کیوں ہلاک کیا گیا ؟ ان میں پانچ چھ وہ طلباء بھی شامل ہیں جو آپریشن کرنے والوں کے اعلان پر کہ جو باہر آکر اپنے آپ کو حکام کے حوالے کر دے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ باہر نکلے اور آپریشن کرنے والوں کی گولیوں کا نشانہ بنے ۔
ایک بات آپ بھول رہے ہیں کہ 2 جولائی بعد دوپہر اچانک بغیر کسی وارننگ کے آپریشن شروع کیا گیا تھا اور اس وقت 5 سے 12 سال کے بچے اور بچیاں قرآن شریف پڑھنے لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں آئے ہوئے تھے اور کچھ ان کے ساتھ آئے ہوئے اور کچھ دوسرے لوگ جن میں ایک بزرگ بھی شامل تھے اپنی ذاتی وجوہات کی وجہ سے لال مسجد کے احاطہ میں موجود تھے ۔ آپ کہتے ہیں کہ جان بہت پیاری ہوتی ہے ۔ اسی لئے جب ایک دم گولیاں چلنے لگیں تو وہ لوگ اندر بند ہو گئے ۔ ان میں سے بمع ان بزرگ کے چند لوگ آپریشن کرنے والوں کے پھینکے ہوئے گولوں سے ہلاک ہوئے ۔
جب 3 جولائی کو جی ۔ 9 ۔ 1 اور 2 میں اچانک کرفیو لگا کر دوکان داروں کو دکانیں بند کر کے چلے جانے کا حکم دیا گیا تو دکان بند کر کے جاتا ہوا ایک دکاندار اور ایک راہگیر آپریشن کرنے والوں کی گولیوں سے ہلاک ہوئے ۔ آپ بتائیے کہ ان کا کیا قصور تھا ؟
لال مسجد کے قریبی رہائشی علاقہ جی ۔ 9 ۔ 1 اور 2 میں 3 جولائی کو کرفیو لگانے کے ساتھ بجلی بند کر دی گئی تھی اور 5 جولائی سے گیس بھی بند کر دی گئی ہے ۔ کرفیو میں 30 گھنٹے بعد 2 گھنٹے کیلئے نرمی کی گئی مگر بلند بانگ دعووں کے باوجود انتظامیہ نے اشیاء خورد و نوش کا کوئی بندوبست نہ کیا ۔ اکثر دکاندار اس علاقہ میں نہیں رہتے اور باہر سے کوئی اس طرف جانے نہیں دیا جاتا اسلئے صرف چند دکانیں کھلیں ۔ کافی واویلے کے بعد 6 جولائی کو 4 پک اپ یوٹیلیٹی سٹورز کی بھیجی گئیں جبکہ ضرورت بارہ پندرہ کی تھی ۔ گیس بند ہو جانے کے بعد لوگ کھانا کیسے پکائیں گے ؟ اب آپ بتائیے کہ ان لوگوں کا کیا قصور ہے ؟
لال مسجد اور جامعہ حفصہ سے 6 کلو میٹر دور ایک جامعہ فریدیہ ہے ۔ پولیس نے 3 جولائی کو اس کا بھی محاصرہ کر لیا تھا اور 6 اور 7 جولائی کی درمیانی رات تمام طلباء کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا ۔ شائد آپ کو ان کا قصور بھی معلوم ہو ۔
آپ نے پوچھا ہے “پچھلے 7 مہینے سے مذاکرات ہی تو چل رہے تھے۔ کیا نتیجہ نکلا؟” ۔ حکومت کی طرف سے بھیجا گیا پہلا صلح کار خواجہ خالد تھا جس کو مذاکرات کے آخری دن اچانک ایجنسیوں والے اُٹھا کر لے گئے ۔ اس کے بعد وزیر مذہبی امور اعجاز الحق نے بہت گھٹیا رول ادا کیا ۔ اس کے بعد چوہدری شجاعت حسین نے مذاکرات کئے ۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چوہدری شجاعت حسین نے بہت اہم کردار ادا کیا اور سب کچھ طے ہو گیا مگر اس پر حکومت نے عمل نہ کیا ۔ چوہدری شجاعت حسین نے موجودہ آپریشن شروع ہونے کے بعد اس کا اعادہ کیا ہے کہ ان کے کئے ہوئے معاہدے پر کچھ لوگوں نے عمل درآمد نہیں ہونے دیا ۔ مگر آپ تو اس میں بھی لال مسجد والوں کا قصور بتائیں گے ۔
آپ نے لکھا ہے ” مولانا کے دادا استاد محترم مولانا مفتی محمود”۔ کیا مولوی مفتی محمود مولوی عبدالعزیز اور مولوی عبدالرشید کے دادا تھے ؟ اگر آپ کا یہی مطلب ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے ۔ رہے مولوی فضل الرحمٰن صاحب تو اُنہوں نے عورت کی حکومت کو غیراسلامی قرار دینے کے بعد عورت کی حکومت میں وزارت کی بھیک وصول کی ۔ مزید متحدہ مجلسِ عمل کے باقی عہدیداروں کو اندھیرے میں رکھ کر 17 ویں ترمیم منظور کرانی اور آمر پرویز مشرف کے ہاتھ مضبوط کئے ۔
آپ نے جامعہ حفصہ سے نکلنے والی طالبات کے حوالے سے جو خبریں لکھی ہیں ۔ ان کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی خوابی دنیا میں ہیں ۔
آپ نے لکھا ہے “، اگر آپ نے پاکستان سے باہر کسی ملک میں کچھ عرصہ گزارا ہو” ۔ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے بندہ کو ایک مقدّم رابطہ کار ۔ خبیر اور منصوبہ ساز کی حیثیت میں افریقہ ۔ مشرقِ وسطہ اور یورپ میں متیّن کروایا ۔ وہاں کے اعلٰی سطح کے لوگوں اور دفاتر بشمول پولیس اور افواج سے واسطہ رہا ۔ اللہ کے فضل و کرم سے اپنے وطن میں بھی اعلٰی سول اور فوجی افسران سے واسطہ رہا ۔ پھر بھی میری تمنا ہے کہ آپ سے دساور اور ملک کے قوانین اور طور طریقے سیکھوں ۔
آپ نے لکھا ہے ” جان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی”۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی نہ کہتے “تم اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک تمیں اللہ اور اس کا رسول اپنے مال ۔ اولاد اور جان سے زیادہ عزیز نہ ہو جائیں”۔ مزید اس دنیا میں بھی ہم نے دوسروں کی خاطر اپنی جان کے نذرانے دئیے جاتے دیکھے ہیں ۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی کی ماں ۔ بہن ۔ بیوی ۔ بیٹی ۔ باپ یا بیٹے کو کوئی قتل کرے یا اُٹھا کر لے جائے اور وہ اپنی قیمتی جان کی حفاظت کرتا رہ جائے ؟ ہم نے استاذ کیلئے شاگرد ۔ شاگرد کیلئے استاذ اور ساتھی کیلئے ساتھی کو بھی جان دیتے دیکھا ہے ۔ نجانے آپ کونسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں صرف اپنی جان عزیز ہوتی ہے ۔
آپ نے لکھا ہے “ہمارا دین کسی بات کی تصدیق کئیے بغیر اس کو عام کرنے کی کتنی سخت ممانعت کرتا ہے۔ سو میرے پرویز مشرف کے قانونی شاگرد ہونے کی اگر آپ کے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کریں” ۔ مجھے آپ سے ہمدردی ہے کہ سیدھی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ میں نے لکھا تھا ” معلوم ہوتا ہے کہ قانون کا سبق صرف آپ نے اور پرویز مشرف نے پڑھا ہوا ہے اور باقی سب جاہل ہیں”
اسی حوالے سے عرض ہے کہ آپ نے جو طالبات کے بیانات کا حوالہ دیا ہے کیا ان کی مناسب چھان بین کر لی ہے ؟
آپ نے لکھا ہے”میں نے لال مسجد کے پورے معاملے میں ریاست، اس کے قانون کے احترام اور آئین کی پاسداری کی بات کی ہے۔ “۔ آپ کس آئین اور قانون کی بات کر رہے ہیں ؟ روزانہ پرویز مشرف اور اس کے چہیتے جس کی دھجیاں اُڑاتے ہیں ؟ کس قانون کے مطابق 600 پاکستانیوں کو پاکستان کے مختلف علاقوں سے اُٹھا کر بغیر قانونی کاروائی کی ابتداء بھی کئے امریکہ کے حوالے کیا گیا ؟ پھر جب امریکہ نے ایک سے دو سال پہلے سو کے قریب پاکستانی رہا کر دئیے تو اُن کو کس قانون کے مطابق ابھی تک بغیر قانونی کاروائی کے انہیں جیل میں رکھا ہوا ہے ؟ کس قانون کے مطابق پرویز مشرف کی ایجنسیوں نے سینکڑوں بیگناہ پاکستانیوں کو اغواء کر کے بغیر کسی قانونی کاروائی کے قید رکھا ہوا ہے ؟ کس قانون کے مطابق بغیر مناسب وارننگ دیئے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا محاصرہ اور ان پر حملہ کیا گیا ؟ کیا آپ آئین کی وہ شق اور قانون کی وہ مد بتائیں گے ؟
آپ نے لکھا ہے “مشرف صاحب کےبارے میں میرا مؤقف یہ ہے کہ ان کو صدارت یا آرمی میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا چاہئیے”۔ آپ کا یہ مؤقف بھی آئین کے مطابق نہیں ہے ۔ آئین کے مطابق پرویز مشرف کو دونوں عہدے چھوڑنا ہیں ۔ پھر اگر اس کو انتخاب لڑنا ہے تو فوج کا عہدہ چھوڑنے کے بعد دو سال گھر بیٹھے پھر الیکشن لڑے ۔
آپ نے مُلا صاحب کے جواب میں لکھا ہے ” بخدا میرے ہاتھ صاف ہیں کہ یہ آج تک پولنگ سٹیشن کی سیاہی سے نہیں رنگے گئے”۔ اگر آپ کی عمر ووٹ دینے کی تھی اور آپ نے جان بوجھ کر ووٹ نہیں دیا تو آپ نے آئین کی خلاف ورزی اور قوم کے ساتھ خیانت کی ہے ۔ آپ جیسے لوگ جو گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور ووٹ ڈالنے نہیں جاتے وہ بھی اتنے ہی مجرم ہیں جتنے وہ جو غلط آدمی کو ووٹ دیتے ہیں ۔
برادرم اجمل صاحب ، بہت شکریہ کہ آپ نے اپنا نقطہ نظر وضاحت سے بیان فرمایا۔ گو کہ آپ نے میری سابقہ تحریر کو جذباتی گردانا لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ اجمل صاحب ، یہ جان کر اچھا لگا کہ آپ دنیا کے بہت سے ممالک میں رہ چکے ہیں۔ بقول آپ کے کہ آپ ایک مقدم ، رابطہ کار ، خبیر اور منصوبہ ساز کی حیثیت سے افریقہ، مشرق وسطی اور یورپ میں قیام فرما چکے ہیں۔ اللہ آپ کو مزید ترقی عطا فرمائے ۔ لیکن آپ کے ساتھ بھی وہی مسئلہ درپیش ہے جو آپ کے بیان کردہ High Profile عہدوں کے حامل اکثر لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی بنیادی مسائل اور ان کی وجوہات سے عدم واقفیت۔کیا کریں دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں یہ افسر شاہی چیز ہی ایسی ہے کہ عوام اور افسر کے درمیان سوتن بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اور چونکہ یہ ہوتی بہت خوبصورت ہے تو اس کے ہوتے کون ٹیڑھی ہڈیوں اور زرد چہرے والی عوام کو منہ لگائے اور اس کی بھاں بھاں سنے۔
محترم ، ذاتی تشہیر اور خِبرہ کا اظہار میرا مقصد نہیں ہے اس لئیے میں نے نمائشِ مناصب و حیثیت سے پرہیز کیا تھا۔ ویسے بھی میرے خیال میں صرف اور صرف بہ حیثیت انسان بھی ہم پوری دنیا گھوم سکتے ہیں اور مختلف مملک کے طریقہ ہائے حکومت و دساتیر کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اور اسی طرح سے ہم زیادہ غیر جانبداری سے حقائق کا تجزیہ بھی کرسکتے ہیں۔
محترم ، بنیادی طور پر میرا کام ہے لوگوں کو سخت گرمی میں بھی ٹھنڈا رکھنا اور اسی کام کی تربیت بھی حاصل کی ہے میں نے۔ یہ الگ بات ہے کہ میری “تحریری بد تمیزیاں“ کبھی کبھی اس کے بر عکس بھی کام کرتی ہیں۔ شاید توازن برقرار رکھنے کے لئیے یہ سب ہو جاتا ہے۔ آپ نے جتنے بر اعظموں کی زیارت اور قیام کا ذکر کیا ہے اتنے ہی میرے کھاتے میں بھی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ممالک کی تعداد میں فرق ہو۔ ایک چیز کا فرق البتہ بہت واضح ہے وہ ہے میری اور آپ کی وہ حیثیت جس میں ہم اللہ کی بنائی ہوئی اس خوبصورت دنیا میں گھوم رہے ہیں۔ میں ٹھہرا ایک معمولی صنعتی مزدور۔ میلوں کا سفر بھی پیدل طے کیا تو کیا۔ دس سے بارہ گھنٹے بھی مشرق وسطی کے تپتے صحراؤں میں سورج کی آگ جیسی دھوپ میں کام کر کے کسی مارکیٹ یا ادارے کے لئیے ٹھنڈک کا انتظام کر دیا تو اپنے لئیے چار پیسے کما لئیے۔ کسی (ڈاکٹر) صاحب نے گریس لگے کپڑے اور بکھرے بال دیکھ کر چٹا ان پڑھ گردانتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے انگریزی زبان میں میری حیثیت پر کوئی نا معقول تبصرہ کیا تو جہاں مجھے دکھ ہوا وہاں خوشی بھی ہوئی کہ خدا کا شکر ہے میں جان گیا کہ لوگ میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ کسی اہم شخصیت کی آمد پر سلیوٹ مارنے والے اہلکاروں کو جب اپنے ہی ہم نفسوں کو ذرا سی بات پر کالر سے پکڑ کر گھسیٹتے دیکھا تو عقدہ کھلا کہ ایک یہ بھی انداز ہے “احترامِ آدمیت“ کا۔
ایک خلیجی ملک کے ائرپورٹ پر جب میں شلوار قمیض میں ملبوس اپنے سامان کے ساتھ سیکورٹی اہلکار کے سامنے آتا ہوں تو وہ میرے بیگ کے بخیے تک ادھیڑ دیتا ہے اور ٹھیک 94 دن بعد اسی ائرپورٹ پر میں ایک نفیس تھری پیس سوٹ پہنے ٹائی لگا کر اسی آدمی کے سامنے اپنا بیگ اٹھائے پہنچتا ہوں تو وہ مجھے سر کہہ کر پکارتا ہے اور میرے بیگ کو چھوئے بغیر اس پر سٹکر لگا دیتا ہے۔
اجمل صاحب ، صرف یہیں پر بس نہیں ایسے ہزاروں تجربات و معاملات ہیں جن سے میرے جیسے عام آدمی کو واسطہ پڑتا ہے۔ یہ واقعات میری درجنوں ڈائریوں میں محفوظ ہیں۔لیکن آپ جیسے عہدوں پر فائز رہنے والے لوگوں کے تجربات میں ایسی باتیں نہیں آتیں۔ کیوں کہ افسری کا مضبوط خول آپ کی حفاظت کر رہا ہوتا ہے۔ محترم ، یہی بنیادی فرق ہے حیثیتوں میں اور معاملات کو پرکھنے اور سمجھنے میں۔ اگر آپ کا واسطہ دوسرے ممالک کی فوج اور پولیس سے پڑا تو بالکل ایک الگ صورت حال اور سیاق و سباق میں۔
محترم ، لال مسجد آپریشن پر آپ کے اور میرے مؤقف میں بہت فرق ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اس آپریشن کی ضرورت پیش کیوں آئی؟ اگر غازی صاحبان مصالحانہ رویہ اختیار کرتے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آپریشن کیا جاتا؟ ابھی بھی عبدالرشید صاحب تا دم آخر مقابلے کی بات کر رہے ہیں ، اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ میں نے اگر ریاستی قانون کے احترام کی بات کہی تھی اور آپ نے اس کو پرویز مشرف کی حمایت پر محمول کیا تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پرویز مشرف کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا ہے؟
اجمل صاحب ، ایک عرض کرنا چاہوں گا کہ اپنی تحاریر میں احادیث مبارکہ کا استعمال کرتے ہوئے اتنی احتیاط ضرور کیجئیے گا کہ ان کا کہیں غلط استعمال تو نہیں ہو رہا۔ ہم سب اس حدیث مبارکہ کو مانتے ہیں کہ اللہ اور اس کے نبی کی محبت ہمیں اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہونا چاہئیے۔ اب میں پھر آپ سے ایک گستاخانہ سوال پوچھوں گا کہ کیا مولانا عبدالعزیز صاحب نے یہ حدیث نہیں پڑھی تھی؟ ان کو اپنی جان اللہ اور نبی کی محبت سے کیوں کر پیاری ہوئی؟ ایک مبلغ اور میر کارواں کی حیثیت سے تو ان کو اس حدیث پر کیا عمل نہیں کرنا چاہئیے تھا؟ کیا دوسروں کے معصوم بچوں کا خون دے کر اور پھر اس حدیث کو بنیاد بنا کر ہم اسلام کو بدنام کرنے کا سبب تو نہیں بن رہے؟ مولانا جیسے بھی گرفتار ہوئے یہ ان کے لئیے اور ہم سب کے لئیے اچھی بات ہے۔ خون خرابہ کسی طور بھی اچھی بات نہیں ہے۔ اس لئیے کہہ رہا ہوں کہ حدیث کا استعمال کرنے سے پہلے خدا را سوچ لیا کیجئیے۔
محترم ، آپ کو جنرل صاحب اور ان کی پالیسیوں سے اختلاف کا پورا حق ہے ۔ میں نے کب کہا ہے کہ مشرف صاحب فرشتہ ہیں ۔ ان کی صدارت کے قانونی جواز کو ایم ایم اے کے ووٹ نے ہی تحفظ دے رکھا ہے اور جب انہوں نے فوج کی نوکری چھوڑنے کا وعدہ پورا نہیں کیا تو ایم ایم اے کو پارلیمنٹ میں یہ معاملہ اٹھانا چاہئیے اور اراکین اسمبلی کے تعاون سے جنرل صاحب کو ایفائے عہد پر مجبور کرنا چاہئیے۔ اس معاملے کو لال مسجد سے نتھی کرنا غلط ہے۔ لال مسجد کا معاملہ 7 مہینے پہلے شروع ہوا اور مشرف 7 سال سے صدر ہیں۔ نہایت کمزور دلیل ہے اس شورش کو مشرف کے خلاف رد عمل کے طور پر پیش کرنے کی۔
محترم ، اسی پارلیمنٹ نے مشرف صاحب کو صدر چنا ہے اور اگر میں یہ کہتا ہوں کہ وہ آرمی چھوڑ کر صدر رہیں تو اس میں میں نے کون سے آئین کی خلاف ورزی کر دی؟ اب تو یہ معاملہ الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے ہمارے سیاستدانوں کے امتحان کا ہے۔ اگر وہ مشرف صاحب کو پسند نہیں کرتے تو اپنے انتخابی منشور میں یہ بات بیان کریں اور عوام سے ووٹ لے کر جمہوری طریقے سے اس معاملے کو حل کریں۔
محترم اجمل صاحب ، آپ کی جلالت کے صدقے جاؤں اور جان کی امن پاؤں تو عرض کروں کہ اگر کوئی آدمی یا عورت ووٹ دینے کا اہل ہے اور ووٹ دینے نہیں جاتا تو وہ قانونی یا آئینی طور پر کوئی جرم نہیں کر رہا ۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی امیدوار بھی اس کی پسند کا نہ ہو۔ اور پھر اس میں خیانت کی بات کہاں سے آئی؟ اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے مجھے اس معاملے میں بھی کسی کا ایجنٹ قرار نہیں دے دیا۔ محترم عرض یہ ہے کہ جب سے میری ووٹ دینے کی عمر ہوئی میں پاکستان سے باہر ہی رہا ہوں اور پاکستانی سفارتخانوں کے مقدمین اور رابطہ کاروں کی مہربانی سے بذریعہ ڈاک میرے جیسا مزدور ووٹ دینے کی کوشش کرے تو اس کی دیہاڑی ضائع ہو جائے۔
میری گزشتہ تحریر کی سطر نمبر چار کو اس طرح پڑھا جائے۔
کے ساتھ بھی وہی مسئلہ درپیش ہے جو آپ کے بیان کردہ “ہائی پروفائل“عہدوں کے حامل اکثر لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی بنیادی مسائل اور ان
ساجد صاحب
میں نے اُردو لکھ دی اور آپ غلط فہمی کا شکار ہو گئے ۔ اگر یہی عہدے میں انگریزی میں لکھ دیتا تو شائد آپ اتنے زیادہ پریشان نہ ہوتے ۔ خیر ۔
دیگر بغیر جانے ہوئے کہ میں ساری عمر کیا کرتا رہا ہوں اور اب کیا کرتا ہوں اپنے متعلق آپ کی گل فشانی سے میں محظوظ ہوا ۔
آپ نے فرمایا ہے ” اپنی تحاریر میں احادیث مبارکہ کا استعمال کرتے ہوئے اتنی احتیاط ضرور کیجئیے گا کہ ان کا کہیں غلط استعمال تو نہیں ہو رہا”۔
اب تک جو احادیث میں نے غلط استعمال کی ہیں فوری طور پر مجھے ان سے مطلع کیجئے اور میری صحیح راہنمائی فرمائیے ۔ میں آپ کا مشکور ہوں گا ۔
محترم اجمل صاحب ، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس جملے سے بات سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی وہ میرے کمپیوٹر پر ٹھیک طرح سے نظر نہیں آ رہا تھا اور جب دوسری نشست میں کمپیوٹر چالو کرنے پر وہ جملہ واضح نظر آیا تب تک میری تحریر آپ کی سائٹ پر شائع ہو چکی تھی۔ ایک سیدھی سی بات میری سمجھ میں نہ آنے پر آپ کی ہمدردی کا شکریہ۔
دوسرے کہ آپ نے اپنے جن مناصب کا تذکرہ کیا مثال کے طور پر مقدم اور خبیر یہ خالص عربی زبان کے الفاظ ہیں ۔ میں نے ان الفاظ کو عربی کے معانی میں لیا ہے۔ خیر چھوڑئیے اس بات کو آپ کم از کم بقول آپ کے میری “گل فشانی“ سے تو محفوظ رہے۔ ویسے ایک بات کہوں گا کہ آپ میری پوری تحاریر کھنگال لیں آپ کو میں کسی کی ذات یا اس کے ذاتی عمل پر تنقید کرتا ہوا نہیں ملوں گا۔نہ جانے آپ نے یہ اندازہ کیسے لگایا کہ میں آپ کو تختہ مشق بناتا۔
بندہ نواز ، آپ کی توجہ میں نے آپ کی تحریر کے اس پہلو پر مبذول کروائی تھی جس میں آپ ایک حدیث مبارکہ اس عمل کی توجیہہ میں پیش فرما رہے تھے جو اپنے ساتھ خون خرابہ لے کر آیا۔ بلا شبہ یہ حدیث بر حق ہے ۔ لیکن آپ ہی بتائیے کہ کیا اس حدیث کے امر کا اطلاق مو جودہ حالات کہ جن میں مزید خون خرابے کا خطرہ ہے پر کیا جا سکتا ہے؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو مولانا عبدالعزیز صاحب نے اس حدیث پر عمل کیوں نہ کیا۔ آخر وہ دوسروں کے جگر گوشوں کو موت کے منہ میں چھوڑ کر سرکاری مہمان کیوں بن گئے؟ آپ صرف مولانا کی باپردہ گرفتاری کو ہی ذہن میں رکھتے تو اس حدیث کو بنیاد بنا کر یہ بحث نہ چھیڑتے۔اور خاص طور پر جب کہ دونوں مسلح پارٹیاں مسلمان ہیں تو کیا اب بھی ہمیں حالات کی شدت کا احساس کئے بغیر اتنی غیر ذمہ داری کا رویہ اختیار کرنا چاہئیے؟ محترم ، جھوٹ جیسے نا پسندیدہ عمل کی بھی اس صورت میں ہمارے دین میں اجازت ہے کہ جب مسلمانوں کے درمیان صلح کے لئیے اس کی ضرورت ہو۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ہم بگڑتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کے لئیے قانون شکنی پر آمادہ لوگوں پر دباؤ ڈالیں نہ کہ ان کے عمل کو اس حدیث کے ذریعے جائز قرار دینے کی سبیل کریں۔
محترم ، بس اتنا ہی عرض کرنا تھا ۔ آپ کی تحاریر پر بحث برائے بحث میرا مطمع نظر کبھی بھی نہیں رہا ۔
ساجد صاحب
حدیث میں نے لال مسجد کے حوالے سے نہیں لکھی ۔ آپ ذرا کھُلے ذہن سے میری تحریر پڑھیئے ۔
آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ میں نے “مقدم رابطہ کار” لکھا تھا ۔ ہر چند کہ اس میں شامل دو لفظ انفرادی طور پر عربی زبان کے ہیں لیکن کار فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ آپ نے اس کے تین ٹکڑے کر کے عربی زبان بنا دی ہے لیکن یہ اردو ہے ۔ اب میں آپ کی تشفّی کیلئے انگریزی ترجمہ لکھ دیتا ہوں ۔ چیف کوآرڈی نیٹر
Chief Coordinator
میں ایک ملک میں کسی کام کیلئے بھیجا گیا تھا ۔ اپنے کام کے علاوہ مجھے یہ کام بغیر تنخواہ کے دیدیا گیا جو میں نے ساڑھے چھ سال سرانجام دیا ۔ اس میں سرکاری طور پر بھیجے گئے پاکستانیوں کے سلسہ میں وہاں کی حکومت سے رابطہ رکھنا ۔ پاکستانی سفارتخانہ اور عام پاکستانیوں کے درمیان رابطہ رکھنا ۔ ٹریول ایجنٹوں کے ہاتھوں لُٹے ہوئے تارکینِ وطن پاکستانیوں کو قانونی تارکین بنوانا اور ان کو روزگار دلانے مدد کرنا شامل تھے
اجمل صاحب ، وضاحت کا شکریہ۔ مجھے آپ کی نیک نیتی پر شبہ نہیں ۔ آپ نے میری جس بات کے جواب میں مذکورہ حدیث مبارکہ بیان فرمائی تھی اس کے سیاق و سباق میں دیکھئیے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ بے خیالی میں آپ سے چُوک ہو گئی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اگر مدرسے میں موجود خواتین و حضرات باہر آ جائیں تو ان کو کم از کم جانی تحفظ تو مل جائے گا اور محترم آپ نے جواب میں مجھے کسی خوابی خیالی دنیا کا فرد قرار دے کر نہ صرف یہ حدیث بیان فرمائی بلکہ بیٹی۔ بیٹے ۔ بیوی اور بہن کو اٹھائے جانے یا قتل کئیے جانے کے خوفناک الفاظ اور ساتھی کے لئیے ساتھی کے جان دینے کی روایات اور استاد کے لئیے شاگرد کے جان کے نذرانے کی بات کہی۔ حضور عالی جناب مذکورہ بالا الفاظ کھلی دلالت کرتے ہیں کہ آپ نے یہ بات لال مسجد کے واقعات کے پس منظر میں ہی کہی۔
محترم جان دینے کی بات دوسروں کے لئیے کہہ دینا بہت آسان ہے لیکن جب اپنی جان شکنجے میں آتی ہے تو اس کو بچانے کے لئیے برقعہ اور دیگ بھی غنیمت محسوس ہوتے ہیں۔
اگر آپ کے مؤقف کے مطابق بات کریں تب بھی نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی نکلے گا۔ مثال کے طور پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی کسی کی بہن ، بیٹی اور بیوی کو اٹھا لے جائے یا قتل کر دے تو کیا وہ اپنی قیمتی جان کی حفاظت کرتا رہ جائے؟ محترم یہاں ایک نقطے کی بات ہے کہ جو جان بہن، بہو بیٹی کی جان و عصمت بچانے پر چلی گئی یا ساتھی یا پھر استاد پر قربان ہو گئی تو بلا شبہ وہ جان اللہ اور نبی پر تو قربان نہ ہوئی ۔ اور حدیث پاک میں تو ذکر ہے مال ،اولاد او جان سے زیادہ اللہ اور اس کے نبی کو عزیز ماننے کا۔ محترم یہ تو بڑی گڑ بڑ ہو گئی۔ حدیث پر تو عمل ہو ہی نہ سکا۔ بلا شبہ حدیث بر حق ہے ۔ اس کا امر بھی اٹل ہے۔
محترم بات یہ ہے کہ اس حدیث میں مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ آپ کی محبت ایسی ہو کہ جب کبھی دنیاوی آسائشیں اور رشتے اس محبت میں رکاوٹ بنیں تو ان کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ مثال کے طور پر عکرمہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اور اپنی جان سے زیادہ عزیز کا مطلب یہ ہے کہ اس دین اسلام کی سر بلندی کے لئیے اگر ضرورت پڑے تو اپنی جان پیش کر دی جائے۔ لیکن یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ اسلام کے دشمنوں کے خلاف جنگ کا حکم صرف مسلمان حاکمِ وقت کے اعلان کے بعد لاگو ہوتا ہے اور اس میں بھی فی زمانہ بہترین عسکری تربیت یافتہ اور مشاق پیشہ ور فوجیوں کو محاذ پر بھیجا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر انفرادی طور پر اور ایک مسلم ریاست کی حکومت کے امر کے خلاف چلتے ہوئے دشمن کے خلاف کاررروائیاں شروع کر دی جائیں۔ یہ نہ صرف مذہبی نقطہ نظر سے غلط ہے بلکہ مروجہ فوجی حکمت عملی کے لحاظ سے بھی خود اپنے لئیے خطرناک ہے۔ محترم اگر آپ کی طبع پر ناگوار نہ گزرے تو عرض کروں کہ راقم اسی لئیے بار بار کہتا ہے کہ ہم کو اپنے ملک کے قانون کا بہر صورت احترام کرنا چاہئیے ۔ قطع نظر اس کے کہ حاکم کون ہے اور آپ اس کو پسند کرتے ہیں یا نہیں۔ دیکھئیے ، ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت بننے سے پہلے پورا ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا ۔ اور قانون نام کی کوئی چیز یہاں نہ تھی۔ کوئی بھی بیرونی طالع آزما کسی بھی ریاست پر حملہ کرتا تھا اور اس میں لوٹ مار کر کے دولت سمیٹ کر فرار ہو جاتا تھا۔ لیکن جب مسلمان فاتحین نے اس کو یکجا کیا اور ایک ایک مضبوط مرکزی حکومت اور قانون کی عملداری قائم کی تو یہ عروس البلاد اور سونے کی چڑیا تو بنا ہی ساتھ ہی باقی دنیا کے لئیے خوراک مہیا کرنے والا عظیم ملک بنا۔ کسی کی جراٰت نہ ہوئی کہ اس کے للکارے جب تک کہ مسلمان خود بد عملی کا شکار نہ ہو گئے۔
یورپ جب تک آپس میں لڑتا رہا تب تک یہ غربت ، افلاس اور جہالت میں گھرا رہا اور جب انہوں نے اتفاق کا سبق سیکھ لیا تو مسلمانوں کی عظیم سلطنت ہسپانیہ بھی ان کے ہاتھ میں چلی گئی۔اور آج ہم جدید دور کی کوئی بھی سہولت یا ضرورت استعمال کریں تو ان کی مہارت کا ہمیں قائل ہونا پڑتا ہے۔ کبھی مسلمان بھی اس مقام پر فائز تھے۔ ایک دنیا کے معلم تھے۔ پھر کیا ہوا کہ ہم اس اتھاہ گہرائی میں جا گرے۔ تاریخ اٹھائیے اور دیکھئیے ۔ آپ کو سب سمجھ آ جائے گا اور سمجھ کر بھی ہم نہ سمجھیں تو ہم سے بڑا بے وقوف کوئی نہ ہو گا۔ غیروں کی تو بات ہی چھوڑئیے اپنوں نے اپنوں کے ساتھ کیا کیا۔ درباری سازشیں ، مذہبی عدم برداشت ، سائینسی علوم سے انکار، نئے افکار و خیالات اور ایجادات کو بنا سوچے سمجھے اپنی ثقافت اور مذہب کے لئیے خطرہ قرار دینے کی روش ، تحقیق و تدقیق کو اللہ کی برابری قرار دے کر اس پر وعیدیں دینا محترم اور کیا کیا لکھوں یہ سلسلہ دراز ہو کر یہاں تک آن پہونچا ہے کہ ہم مذہب کا اصل مفہوم اور اس کا مقصود تک بھلا بیٹھے ہیں۔ ذرا سی بات پر دور جاہلیت کے عربوں کی طرح جھگڑتے ہیں اور خون خرابے پر اتر آتے ہیں۔ اجمل صاحب ، لوگوں کے درمیان اختلافات تو ہمیشہ رہیں ہیں اور رہیں گے بھی۔ لیکن ہم نے ان اختلافات کو نبھانے کا طریقہ بھلا دیا ہے۔ معاملات کو سیدھے طریقے سے حل کرنے کی بجائے ان سے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی روش اپنا لی ہے۔ اس میں ہر حکومت اور اس کی مخالفت کرنے والی ہر حزب نے اپنے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ غریب اور تعلیم سے محروم عوام کو کبھی سیاسی لٹیروں نے لُوٹا تو کبھی مذہبی ٹھیکیداروں نے۔
محترم ، آپ مجھے مغربی میڈیا کا ڈسا ہوا کہیں یا پرویز مشرف جیسی روشن خیالی کا علمبردار۔ یہ آپ پر منحصر ہے ۔ لیکن حقیقت میں میرا پس منظر مذہبی ہے۔ آپ کو یہ سن کر شاید عجیب لگے کہ میں بھی ایک اسلامی مدرسے کا طالب علم رہ چکا ہوں۔ جن علماء کی ایک جھلک دیکھنے کے لئیے لوگ گھنٹوں انتظار میں رہتے تھے میں نے ان ہستیوں کی مدرسے کے مکتب میں مہمان نوازیاں کی ہیں۔ میرے بہت سارے ہم جماعت اور بچپن کے لنگوٹئیے آج پاکستان کی بہت سی مساجد میں پیش امام ہیں یا مدرس ہیں۔ کسی پر انگلی اٹھانا میرا مقصد نہیں ہے صرف یہ کہوں گا کہ علماء کرام بھی ہماری طرح کے گوشت پوست کے انسان ہیں۔ انسانی جبلت کے تمام خصائل ان میں بھی ہیں۔ اس لئیے یہ فرض کر کے چلنا کہ ان سے کبھی کوئی غلطی سر زد نہیں ہو سکتی ، بذات خود بہت بڑا مغالطہ ہے۔ اللہ کا دین اسلام سب کے لئیے ہے اور ہم سب اس پر عمل کرنے کے مکلف ہیں۔ لیکن دوسروں کی غلطیوں کو اچھالنا ، ان کا ٹھٹھہ لگانا اور اپنی پارسائی پر فخر کرنا کبھی بھی اسلام میں پسندیدہ نہیں۔ مسلمان بھی دنیا کے باقی مذاہب کے ماننے والے انسانوں کے جیسے ہی انسان ہیں۔ اس لئیے فطرت کے قوانین بھی ان پر مساوی لاگو ہوتے ہیں۔ ہم نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں دعا کے ساتھ ساتھ دوا بھی کرنا ہو گی۔ آسمان سے فرشتے ہماری مدد کو نہیں پہنچنے والے۔ کچھ بننا ہے تو کچھ کرنا پڑے گا۔ ان لوگوں سے سیکھنا پڑے گا جنہوں نے محنت کا راستہ اختیار کیا اور آج دنیا ان کی مٹھی میں ہے۔ خالی اللہ ہو کی ضربیں یا صرف آنسو بھری دعائیں ہمیں کامیاب نہیں کر سکتیں۔ ہمیں وہی ملے گا جس کی ہم سعی کریں گے۔ اب یہ ہمارے پر ہے کہ ہم ایک دوسرے کو فاجر اور فاسق قرار دے کر نفاق کا بیج بوئیں اور اس کا کڑوا پھل مرگ مفاجات کی شکل میں پائیں یا واعتصمو بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقو کی عملی تفسیر بن کر اپنے خالق کائنات کے فرمان کی پیروی کرتے ہوئے اپنے مسلکی اختلافات بالائے طاق رکھ کر اپنے دین اور وطن کی سربلندی اور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی جستجو کریں۔ ایک دوسرے پر بندوقیں اٹھائیں یا طریقہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر عمل کرتے ہوئے یہ اعلان کریں کہ اگر میری جان جانے سے فتنہ ختم ہوتا ہے تو میں حاضر ہوں۔
محترم ، امریکہ کو جب بھی کسی ملک میں جا کر انسانی خون سے اپنی پیاس بجھانی ہوتی ہے تو وہ سب سے پہلے وہاں مختلف گروہوں کو لڑواتا ہے۔ پھر ایک گروہ کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کو ہلا شیری دیتا ہے۔ اس کے بعد مرکز گریز قوتوں کی جمہوریت اور انسانی حقوق کی آڑھ میں حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کو بھی ان قوتوں کی طاقت سے خائف کر کے اپنے دباؤ میں رکھتا ہے تا کہ حکومت ان مرکز گریز قوتوں کے خلاف کارروائی نہ کر سکے اور اگر کرے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا شور مچایا جاتا ہے۔ اور ایک کمزور مرکزی حکومت امریکہ کے لئیے ایک تر نوالہ ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ مرکزی حکومت بھی کافی کمزور ہے اور اس بات کا امکان قوی ہے کہ امریکہ کسی وقت بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر پاکستان پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور نام کی مسلم امہ ہمارا تماشہ دیکھتی رہے گی یا شاید ایک آدھ قرارداد مذمت او آئی سی میں پاس بھی ہو جائے وہ بھی تب اگر اس کے اراکین کو اپنے دیگر مشاغل سے فرصت نصیب ہو تو۔ لہذا وقت کی شدید ضرورت ہے کہ ہم سب کو ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہئیے اور ایک دوسرے کو واقعات کا ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے جتنی جلدی ہو سکے فریقین کو بات چیت پر راضی کرنا چاہئیے۔ غازی برادران کو بھی ضد چھوڑ دینی چاہئیے اور اس نازک وقت میں ایک اور خون خرابے سے بچنا چاہئیے۔ شوق سے مشرف صاحب کی صدارت کی مخالفت کریں لیکن اس کے لئیے بہترین جگہ پارلیمنٹ ہاؤس ہے اسلام اباد کی سڑ کیں یا جامعہ حفصہ اس کام کے لئیے قطعی موزوں نہیں۔
( اس عنوان پر اپنے تبصروں کا میں یہاں اختتام کرتا ہوں۔ تمام دوستوں کا شکریہ کہ جنہوں نے میری تحاریر پر اپنی صائب رائے کا اظہار کیا۔)
ساجد صاحب
میں ہار مانتا ہوں ۔ میں آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ آپ کے فلسفہ اور میری سوچ میں بنیادی فرق ہے ۔
آپ اپنے عزیز یا دوست کی جان بچانے کو ذاتی غرض سمجھتے ہیں اور میں اللہ کی خوشنودی بشرطیکہ دونوں مسلمان ہوں ۔
آپ پاکستان کی موجودہ حکومتی کو اسلامی سمجھتے ہیں اور میں طاغوطی ۔
آپ لال مسجد کے تمام واقعات کو حکومتی اعلانات اور اسلام دشمن میڈیا کی دی ہوئی خبروں سے پہچانتے ہیں جبکہ مجھے اسلام آباد کا باسی ہونے کے باعث سب نہیں مگر کچھ صحیح خبریں مل جاتی ہیں ۔
جو تاریخی باتیں آپ نے لکھی ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ۔
آپ نے صحیح لکھا ہے کہ مولوی یا مُلّا بھی گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں ۔ یہی بات تو ہماری قوم کو سمجھ نہیں آتی ۔ وہ مُلّا کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کا پہاڑ تو بنا دیتے ہیں مگر اپنی پہاڑ جیسی غلطیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔
آخر میں میں آپ کو بتا دوں کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ کے بعد اسلام آباد میں جو کچھ حکومت یا فوج کر رہی ہے یہ سب امریکی حکومت کے ایماء پر یا اسکی خوشنودی کیلئے ہو رہا ہے ۔ آپ مانیں یا نہ مانیں مگر اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ۔