میں زندگی بھر صحرا نورد اور طالبِ علم رہا ہوں ۔ میرا زیادہ وقت علمِ نافع کی کھوج میں گذرتا ہے تاکہ میں اپنی سمت درست سے درست تر کر سکوں ۔ تقاضہ کیا گیا تھا کہ اُردو محفل میں حاضری دوں ۔ چنانچہ میں نے وسط مئی میں اُردو محفل کی رُکنیت اختیار کی ۔ میں سمجھا تھا کہ فلاحی نظریات کی ترویج کیلئے مجھے دعوتِ دی گئی اور اسی لئے دو درجن خواتین و حضرات نے میرا پُر جوش خیر مقدم کر کے میری حوصلہ افزائی کی ۔ اس یقین اور اُمید کے ساتھ کہ سب نہ صرف جانتے ہیں بلکہ حامی ہیں ۔ میں نے ایک ایسے موضوع سے آغاز کیا جو زبان زدِعام ہے اور اہلِ وطن کی اکثریت اپنی نجی محافل میں اس پر گُل فشانی کرتی رہتی ہے یعنی بہبودِ عامہ ۔
میں نے 21 اور 23 مئی کو یہ موضوع اُردو محفل کے سامنے رکھا مگر “جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دُکان اپنی بڑھا گئے ” کے مِصداق ایک ماہ گذرنے کے بعدبھی میری التماس توجہ کی محتاج ہے ۔ بہبودِ عامہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے ۔ بہبودِ عامہ ایسا فعل ہے جس سے کوئی مالی یا مادی فائدہ وابستہ نہ ہو اور نہ بڑائی یا مشہوری یا سند یا منظورِ نظر بننے کی خواہش ۔ بہبودِ عامہ ہر کوئی کر سکتا ہے خواہ وہ مالدار ہو یا نہ ہو ۔ پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو ۔ تجربہ کار ہو یا ناتجربہ کار ۔ بوڑھا ہو یا جوان ۔ مذکر ہو یا مؤنث ۔ صرف عقل اور ارادہ شرط ہے ۔
آجکل پاکستان میں ہزاروں این جی اوز ہیں جو اپنا نصب العین تو بہبودِ عامہ بتاتی ہیں مگر اصل مقاصد کچھ اور ہیں ۔ بلا شبہ ایسے ادارے ہیں جو بہبودِ عامہ کا کام کر رہے ہیں لیکن ان کا دائرۂِ اختیار محدود کر دیا گیا ہے ۔ اسلام آباد میں چار درجن این جی اوز ہیں [ان میں وہ شامل نہیں جو خاموشی سے بہبودِ عامہ کا کام کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو این جی او نہیں کہتے] ۔ میں نے پچھلے دس سال میں اسلام آباد کی اکثر این جی اوز کے دفاتر میں جا کر ان کے اغراض و مقاصد اور کام کے متعلق معلومات حاصل کیں اور صرف معدودے چند کو فعال پایا باقی سب صرف لفاظی نکلی ۔
ہمارے ملک میں عام آدمی کی اکثریت کو معلوم نہیں کہ فرائض اور ذمہ داریوں میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ نہ کسی کو معلوم ہے کہ اس کے فرائض کیا ہیں ۔ نہ پتہ ہے کہ ذمہ داریاں کیا ہیں ۔لیکن حقوق کا بہت شور شرابہ ہے ۔ جب کوئی اپنے حق کی بات کرتا ہے تو دراصل وہ دوسروں کی ذمہ داری کی بات کر رہا ہوتا ہے کیونکہ ہر حق کے ساتھ ذمہ داری منسلک ہوتی ہے ۔ ہماری چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں ہیں جو ہم پوری نہیں کرتے نتیجہ یہ کہ قوم انحطاط کا شکار ہے ۔ کیا ہر شخص کو پہلے اپنی ذمہ داریوں کو نہیں پورا کرنا چاہیئے تاکہ وہ دوسروں کیلئے مثال بنے اور پھر دوسرے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا سوچیں جو باقی لوگوں کے حقوق ملنے کا باعث بنیں ؟
آپ کی بات سو فیصد درست ہے اور اسی لیے کہتے ہیں کہ احتساب کا عمل پھلے اپنے گھر سے شروع کرنا چاہئے۔ ہم دراصل بنی اسرائیل کی طرح ہو چکے ہیں جو کہتے تھے کہ ہم کچھ نہیں کریں گے ہمارا خدا ہی ہمارے لیے سب کچھ کرے گا۔
افضل صاحب
ہماری قوم کی بدقسمتی یہی ہے کہ گفتار کے غازی بہت زیادہ ہیں اور کردار کے بہت کم
اجمل صاحب ،
میں عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ کی اس پوسٹ کا میں اور قیصرانی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے کہ آگے کچھ بڑھے مگر نہیں بڑھی اور آپ شاید جلدی ہی مایوس ہو گئے ورنہ ایسی بھی بات نہیں کہ کوئی اس پر دھیان نہ دے۔ آپ دوبارہ وہیں سے سلسلہ کلام شروع کریں ، انشاءللہ میں ہی نہیں اور بھی بہت لوگ آپ کے ساتھ ہوں گے۔
محب علوی صاحب
اتنظار کا شکریہ لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ کس مضمون کی انتظار میں تھے ۔ میں نے اپنی 21 اور 23 مئی کی تحاریر میں موضوع واضح کر دیا تھا اور 21 مئی کی تحریر میں تجاویز بھی مانگی تھیں ۔ پانچ ہفتے گذر جانے کے بعد بھی کوئی تجویز نہ آئی اور آپ نے فرمایا ہے کہ میں جلدی مایوس ہو گیا ۔ اگر ابتدائی تجاویز کیلئے پانچ ہفتے کم ہیں تو بہبودِ عامہ کا کام شروع کرنے کیلئے تو سالوں کی کئی دہائیاں لگ جائیں گی ۔ میں نے کالا باغ ڈیم بنانے کی بات تو نہ کی تھی
اجمل صاحب
”
آپ نے ٹھیک کہا کہ “ہماری قوم کی
بدقسمتی یہی ہے کہ گفتار کے غازی بہت زیادہ ہیں اور کردار کے بہت کم
پر ہم کردار کے غازی کیسے بن سکتے ہیں۔
سچ بھولنے والا شرمندہ ہے اور جھوٹے کو کوئی پکڑھنے والا نہیں۔
Aaaaa صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ ہم نے سچ بولنا ہے اپنے لئے اور اپنے پیدا کرنے والے کی خوشنودی کیلئے تو پھر شرمندگی کیسی ؟ خیال رہے کہ جھوٹ بولنے والا سب کے سامنے تو سینہ تانے رہتا ہے لیکن اندر سے شرمندہ ہوتا ہے ۔
درخت لگائیں، ماحول دوستی اپنائیں۔
نہ کہہ کرکے دکھا!
الف نظامی صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ اچھی تجویز ہے آپ کی ۔