آئیندہ کل یعنی 14 اگست کو پاکستان میں چھیاسٹھواں یومِ آزادی منایا جائے گا ۔ پاکستان میں آنے والے علاقے کی آزادی کا اعلان 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر کیا گیا تھا ۔ اُس رات ہند و پاکستان میں رمضان المبارک 1366ھ کی ستائیسویں تاریخ تھی اور اتفاق سے 14 اور 15 اگست 2012ء کو میں دبئی میں ہوں اور یہاں رمضان المبارک 1433ھ کی ستائسویں تاریخ ہو گی
آج کے دور میں کچھ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی
اب مستند تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟
برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زير استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات
ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے عوام کے دباؤ کے تحت بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير ميں فوج کشی بھی کی گئی
انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا
حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔
کيبنٹ مشن کے سيکرٹری (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ” مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟ (Mr. Jinnah! Is it not a step forward for a greater Pakistan?)”۔
قائد اعظم نے کہا ” بالکل ۔ آپ درست سمجھے (Exactly, you have taken the point)”
مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنيف (INDIA WINS FREEDOM) کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا موقف مضبوط تھا
کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔
کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں
یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ عوام ہی کے ووٹ سے پاکستان کی حکومت آج اُن لوگوں یا جماعتوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی خواہ وہ سرحدی گاندھی کہلانے والے عبدالغفار خان کی اولاد کی جماعت ہو یا قائد اعظم کی مخالفت کرنے والے شاہنواز بھٹو کی اولاد کی یا کانگرسی مولوی مفتی محمود کی اولاد کی یا بھارت جا کر برملا کہنے والے الطاف حسین کی کہ “پاکستان بنانا فاش غلطی تھی”۔
افتخار صاحب اگر کوئی بھی حقائق اور تاریخ کا ذراسا مطالعہ کرے تو اس حقیقت کو پالے گا جس کو آپ نے بیان کیا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ٹی وی پر ہونے والے مباحثوں میں اس کو ایک متنازعہ مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ میرے جیسے نوجوان اکثر کنفیوز ن کا شکار ہو جاتے ہیں اور تنگ آ کر ان بکھیڑوں میں پڑتے ہی نہیں۔ بھلا ایک واضح حقیقت پر بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
محترم آپ کی سب باتیں درست سوائے اس ایک کے کہ “یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ عوام ہی کے ووٹ سے پاکستان کی حکومت آج اُن لوگوں یا جماعتوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی” ادھر آپ پاکستانی سیاست میں فوج اور اسکے کردار کو نظر انداز کرگئے ہیں۔ ورنہ جس طرح یہ بات غیر متنازعہ ہے کہ پاکستان کا قیام ناگذیر تھا اسی طرح اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ آج پاکستان کے سارے سیاست دان فوج کی گود میں بیٹھ کر ہی اپنی سیاسی دکان چلاتے ہیں۔ لہذا آپ کا جملہ معترضہ کچھ یوں ہو تو پورا مضمون درست ہوجائے گا :
“یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ پاک فوج کی مدد سے پاکستان کی حکومت آج اُن لوگوں یا جماعتوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی !
اسد حبیب صاحب
ذرائع ابلاغ تو ہیں ہی مادر پدر آزاد دولت کے پجاریوں کے ہاتھ میں
عبدالرؤف صاحب
میں نے اسلئے فوجی جرنیلوں کا ذکر نہیں کیا کہ انہیں سویلین ہی میدان میں لائے ۔ جب غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت غیر آئینی طریقے سے ختم کی تو جنرل ایوب خان کو وردی میں وزیرِ دفاع بنا دیا ۔ جب ایوب خان حکومت چھوڑ کر انتخابات پر راضی ہو گیا تو سیاستدانوں نے اپنے مطالبات تبدیل کرتے ہوئے ایوب خان کو حکومت چھوڑنے کا کہا ۔ اس نے حکومت یحیٰ خان کے حوالے کر دی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قابل جرنیلوں کو ریٹائر کر کے ضیاء الحق کو اسلئے چیف بنایا۔ کہ وہ اسے کچھ نہیں کہے گا ۔ جب ریٹائرڈ جنرل تکا خان کی تجویز پر لاکھ دو لاکھ آدمی مارنے کا فیصلہ کیا تو نحیف صدر چوہدری فضل الٰہی کا ضمیر جاگ اُٹھا اور اس نے کور کماندروں کو شکار کے بہانے بلا کر حقیقت بتا دی پھر نتیجہ اُلٹ گیا ۔ اور ذوالفقار علی بھٹو ہی تھا جس نے تمام ادارے ذاتی مفاد کی خاطر تباہ کئے اور اہلیت کی بجائے رشوت نے زور پکڑا ۔ لیٹرل اَینٹری اس کی ایک ادنٰی مثال ہے ۔ اس کے بعد کا حال تو آپ جانتے ہی ہوں گے
محترم اجمل صاحب
شائد میرا تبصرہ واضح نہیں تھا اسی لیئے میری بات آپ تک درست مفھوم میں نہیں پہنچ سکی، ذرا کھل کر کہتا ہوں کہ میرا آپ سے مطالبہ کہ “عوام ہی کے ووٹ سے” کو بدل کر “فوج کی مدد سے” کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کی اس رائے سے مجھ کو سخت اختلاف ہے کہ “عوام ہی کے ووٹ سے پاکستان کی حکومت” تشکیل پاتی ہے، حقیقت میں تو انتخابات تو وہ “نورا کشتی” ہوتی ہے، جس میں عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ تمھارے حکمران جوکہ تم پر مسلط ہیں وہ درحقیقت خود تمھاری ہی مرضی سے تم پر مسلط کیئے گئے ہیں۔ باقی پاکستان میں جمہوریت کا جو حال ہے وہ تو اسکا تو آپ کو مجھ سے ذیادہ ہی علم ہوگا۔
خیر پاکستان کی فوج کے کردار پر تھوڑی سی روشنی جناب ڈاکٹر خلیل احمد صاحب نے بھی ڈالی ہے آپ وقت نکال کر ادھر سے ملاحظہ فرمالیں، مجھ کو تو درست ہی معلوم ہورہی ہے:
http://www.hum-azad.org/node/46
عبدالرؤف صاحب
ڈاکٹر خلیل احمد صاحب نے تاریخی حقائق نقل کئے ہیں جن میں کچھ سنجیدہ غلطیاں ہیں ۔ مثال کے طور پر لکھتے ہیں :
” ٭پہلے مجوزہ آئین کا دوسرا ڈرافٹ قیام پاکستان کے پانچ برس بعد 22 دسمبر 1952 کو آئین ساز اسمبلی کے سامنے رکھا گیا اوراس پر بحث شروع ہوئی۔ لیکن اس ضمن میں پیش رفت کے بجائے ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔ مگر وزیر اعظم محمد علی کی کوششوں سے حائل رُکاوٹوں کو دور کرنے میں کامیابی ہوئی۔ 16 ستمبر 1954 کو آئین ساز اسمبلی نے پاکستان کے پہلے آئین کا حتمی ڈرافٹ منظور کر لیا۔ 17 اکتوبر 1954 سے آئین پر بحث کا آغاز ہونا تھا۔ محمد علی نے قوم کو آئین کا تحفہ دینے کی تاریخ ( 25دسمبر1954) بھی مقرر کر دی تھی”
محمد علی تو اس وقت سیکریٹری مالیات تھے ۔ وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین تھے ۔ غلام محمد نے 1953 میں خواجہ ناظم الدین کو برخواست کر دیا تاکہ آئین کا منظور شدہ مسؤدہ پیش نہ ہو سکے مگر اسمبلی نے اس پر پیشرفت جاری رکھی تو 1954ء میں اسمبلی توڑ دی ۔
البتہ مشکل یہ ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت تاریخ کی بجائے اخباری بیانات کا مطالعہ کر کے رائے قائم کرتی ہے
آپ کی بات میں سمجھ گیا تھا میں نے اس کی وضاحت کر دی تاکہ دوسرے قارئین سمجھ سکیں ۔ ایک بات مجھ سے بھی رہ گئی کہ پہ؛ا مارشل لاء سکندر مرزا ضودساختہ صدر پاکستان نے لگایا تھا اور یہ کہ پاکستان کو موجودہ حال میں پہنچانے والے انگریزوں کے پروردہ جاگیردار اور بیوروکریٹ ہیں
لٹے،جلے،اجڑے اور اندھیرے میں ڈوبے پاکستان کو آزادی کے65سال مبارک
محترم اجمل صاحب
ہوسکتا ہے کہ غازی صاحب سے تاریخی حقائق نقل کرنے میں کچھ سنگین غلطیاں بھی ہوگئی ہوں مگر پھر بھی محض لوگوں کے نام یا سال آگے پیچھے ہونے سے پاکستان کی مجموعی تاریخ پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے، اگر آپ جان بوجھ کر فوج کے گھناؤنے کردار پر بات کرنا پسند نہیں کرتے ہیں تو یہ اور بات ہے ورنہ ہماری پاک فوج کے کارنامے کوئی ایسی ڈھکی چھپی باتیں بھی نہیں ہیں کہ آپ جیسے تجربہ کار و باعلم شخص کو بھی معلوم نہیں ہوں، مگر پھر بھی حوالے کے لیئے یہ ربط ملاحظہ کیجیئے : http://urdu.jamaat.org/site/article_detail/35
نوٹ: آپ کی ہی طرح میں بھی ایک محب وطن پاکستانی ہوں مگر کچھ تلخ حقائق و تجربات نے میرے خیلات میں ایسا انقلاب برپا کردیا ہے کہ اب میں پاکستانی داروں بشمول پاک فوج کے کسی پر بھی اندھا اعتماد کرنے کا قائل نہیں رہا ہوں۔
عبدالرؤف صاحب
غلطی لاپرواہی سے ہوتی ہے جو ایسے اہم معاملہ میں نہیں ہونا چاہیئے ۔ فوج کے متعلق عرض ہے کہ جس ملک میں اکثریت لوٹ مار اور بدیانتی میں مشغول ہو وہاں دیانتدار فوج کہاں سے آئے گی ۔ فوج میرے اختیار میں نہیں ۔ میں عوام میں سے ہوں اور عوام کی بات کر رہا تھا ۔ میری تعلیم اور تجربہ کہتے ہیں کہ جیسی قوم ویسے فرشتے اور اللہ کا فرمان اٹل ہے
سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ۔ ترجمہ ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے ۔
عبدالرؤف صاحب
اندھا دھند اعتماد کرنے کا حکم تو اللہ سبحانہ و تعالٰی نے بھی دیا ۔ گو میں اللہ کو بغیر کسی دلیل کے بچپن سے مانتا ہو لیکن اللہ کی عظمت کو اس کی صفات سے پہچانا ہے ۔ فوج درخت کی ایک شاخ ہے خواہ موٹی اور مضبوط ہے ۔ ایک شاخ سول بیوراکریسی ہے ۔ تنا پارلیمنٹ ہے مگر جڑیں عوام ہیں ۔ درخت کی صحت کیلئے سپرے سے وقتی فائدہ ہو سکتا ہے مگر درست اور دیرپا درستگی کیلئے جڑوں کا علاج کیا جاتا ہے
محترم بھائ اجمل صاحب
آپ نے بھت اچھا کیا یہ مختصر بیان لکھ دیا خصوصا’ ان جوانوں کے لئے جو نہیں جانتے وہ کیا دن تھا سیاسی سطح پر آپ نے جو لکھا ھے وہ بھی حقیقت بیانی ہے باوجود کچھ ابجکشنز کے۔
میرے والد نے ساری عمر کانگرس میں گزاری سی پی اور برار کے کانگرس کے صدر تھے جب انھوں نے کانگرس سے استعفےا دیا 1945 میں ان کی وجہ استعفےا دینے کی یہ تھی
کانگرس اپنے اصولون کے خلاف ہو چکی ہے اور مہا سبھا ئ اثر زیادہ ہو گیا ہے اس لئے مین ان حالات میں کانگرس میں رہ کر کام نہیں کر سکتا- آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کو میرے والد مرحوم کے اس فیصلے سے تقویت ملتی ہے
اس کے بعد وہ تمام سیاسیات سے ھی کنارہ کش ہوگئے- مگر یہ بات ان کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے ہے– آج کا دن اس مبارک دن سے کتنی مماثلت رکھتا ہے اس لئے مجھے 15 اگست 1947 کا وہ دن بہت یاد آرہا ہے
یوم آزادی کے موقع پر آپ نے تاریخ کودھرا کر اچھا پیغام دیا ورنہ ہم صرف آزادی کی مبارک باد دینا ہی کافی سمجھتے ہیں۔
رمضان کے مہینے میں پاکستان کی آزادی معنی خیز ہے اللہ کرے ہم پاکستان کو اپنی آنکھوں سے ترقی کرتا دیکھ سکیں۔ آمین۔
بھائی وھاج الدین احمد صاحب
راشٹریہ سیوک سنگ اور مہاسبھا کے مسلح جتھوں نے بھارت کی نابھہ اور پٹیالہ کی فوج کی پشت پناہی سے جموں میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا ۔ کانگریسی حکومت ہی نے انہیں جموں میں پہنچایا تھا ورنہ جموں کشمیر میں یہ پارٹیاں نہیں تھیں ۔ وہاں صرف مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس تھیں ۔ مہاسبھہ کا پورا نام کیا تھا ؟ شاید ہندو مہاسبہ ؟