زمانہ کیا بدلا طور طریقے بدل کے رہ گئے ۔ وفاداری کتے کی مشہور ہے لیکن بات ہے آدمی کی جو اشرف المخلوقات ہے ۔ واقعہ اُس زمانے کا ہے جب تبدیلی کی کونپل پھُوٹ چکی تھی یعنی تبدیلی کا نعرہ لگایا جا چکا تھا ۔ ایوب خان کے خلاف نعرہ لگا تھا اور کچھ نوجوانوں کو ” گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو” کہتے سُنا گیا
سن 1968ء میں میرے سپرد ایک نہائت اہم قومی پروجیکٹ تھا جس کی نشو و نما اور پیداوار کی منصوبہ بندی بہت کٹھن اور دماغ سوز کام تھا اس پر طرّہ یہ کہ سوائے اللہ کے میرا مددگار کوئی نہ تھا
میں اپنے دفتر میں بیٹھا اسی پروجیکٹ کے ایک اہم اور غور طلب جُزو کے لائحہ ءِ عمل پر غور و خوض میں غرق تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ کوئی میرے سامنے آ بیٹھا ہے ۔ میں نے سر اُٹھا کر نظرِ غائر ڈالی تو یہ میرے باس تھے جن کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں ۔ میرا ذہن ابھی فارغ نہ ہوا تھا کہ اُنہوں نے کچھ کہا جسے میرے مصروف دماغ نے کانوں میں گھُسنے نہ دیا ۔ میں باس کو تجسس بھری نظر سے دیکھنے لگ گیا ۔ وہ پھر بولے اور بات میرے کانوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی ۔ اُنہوں نے کہا تھا
“Bhopal, You should be loyal to your officer
(بھوپال ۔ تمہیں اپنے افسر کا وفا دار ہونا چاہیئے)”
میری سوچ کے سامنے جیسے پہاڑ گر پڑا ۔ میں نے جیسے کرب میں سر اُٹھایا اور نحیف اور انکسار آمیز آواز میں کہا
” میں نے کوئی ایسی بات کہی ہے یا کوئی ایسا فعل کیا ہے جو آپ یہ کہہ رہے ہیں ؟”
باس نے کہا
“I am telling you, you should be loyal to your officer
(میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ تمہیں اپنے افسر کا وفا دار ہونا چاہیئے)”
میری سوچ توبکھر ہی چُکی تھی جس نے میرے دل کو بوجھل کر دیا تھا ۔ لمحہ بھر توقف کے بعد میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے
“First I am loyal to my religion Islam because it is the way of life laid down by the Creator, then I am Loyal to Pakistan because it is my country, then I am loyal to Pakistan Ordnance Factories because Allah has provided me livelihood through it, and I think you are fully covered in it. If not then I am sorry.
(اول میں اپنے دین اسلام کا وفادار ہوں کہ یہ لائحہءِ حیات خالق نے مقرر کیا ہے پھر میں پاکستان کا وفادار ہوں کہ یہ میرا مُلک ہے پھر میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کا وفادار ہوں کیونکہ اللہ نے مجھے روزگار اس کے ذریعہ دیا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ اس میں پوری طرح شامل ہیں ۔ اگر نہیں تو مجھے افسوس ہے)”۔
میرے باس یہ کہتے ہوئے میز پر مُکا مارا اور اُٹھ کر چلے گئے
” I say, you should be loyal to your officer
(میں کہتا ہوں کہ تمہیں اپنے افسر کا وفادار ہونا چاہیئے)”
بہت بہترین جواب دیا آپ نے ۔۔۔۔۔ لاجواب کر دیا۔۔۔۔ باس جائے بھاڑ میں !!!!!
اجی حضرت سرکاری نوکری تھی، ذرا غیر سرکاری نوکری کریں تو دن میں تارے نظر آجایئں۔ ویسے ایک سوال ذہن میں اٹھ رہا ہے ، اگر ذاتی اور برا نہ لگے تو غیر جانبداری سے جواب عنایت فرمانے کی کوشش کریں ، کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے اتنے بہترین دماغ روز و شب اہم قومی پروجیکٹس پر بڑی جانفشانی سے کام کرتے ہیں مگر پھر بھی ملک کی ڈھیٹگاڑی ہے کہ آگے بڑھنے کے بجائے روز بروز پچھے ہی کی طرف سرکتی جارہی ہے ؟
عبدالرؤف صاحب
اس موضوع پر لکھنے کا مجھ سے متعدد بار مطالبہ کیا جا چکا ہے ۔ میں نے ایک دو بار لکھنے کا سوچا بھی مگر اس خیال سے کہ معاملہ ذاتی بن جائے گا نہیں لکھا ۔ یہ مضمون اور جس کا اس مضمون میں حوالہ دیا ہے انہی وجوہات کی طرف ایک مدھم سا اشارہ ہے ۔ میں بیٹے کے پاس 2 ماہ دبئی رہ کر آیا ہوں ۔ وہاں افکارِ زمانہ سے فراغت رہی تو میں اسی بارے لکھنے کا سوچتا رہا کہ ہمارا ملک یا قوم ترقی کی بجائے مائل بہ تنزل کیوں ہیں ۔ اللہ نے توفیق دی تو لکھنے کی کوشش کروں گا
زمانہ کیا بدلا طور طریقے بدل کے رہ گئے ۔ وفاداری کتے کی مشہور ہے..
مگر آجکل کچھ لوگ “کتے”سے وفاداری کی وجہ سے مشہور ہو رہے ہیں۔ شیخ سعدی نے کہا تھا “کیا بستی ہے۔ پتھر بندھے ہیں اور کتے آزاد ہیں”۔ والا معاملہ پاکستان میں ہے۔ شرفاء منہ چھپاتے ہیں۔ بد قماش دندناتے ہیں۔ دیانتداری عیب اور بدیانتی ہنر ہے۔
جب کسی عہدہ کے لئیے کوئی حلف اٹھاتا ہے اور اس پہ پورا اترتا ہے یہ بھی اللہ تعالٰی سے وفاداری کی ایک شکل ہے۔ جب کسی جاب پہ ایک مقرر کردہ روزینہ لیتے ہوئے اس جاب کی ذمہ داری اُٹھاتے ہیں اور اپنی جاب ۔ اپنی ذمہ داری سے مکمل انصاف کرتے ہیں۔ تو یہ بھی اللہ تعالٰی ہی سے وفاداری کی ایک صورت ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس کا حکم دے رکھا ہے۔نوکری یا ملازمت بھی ایک معائدہ ہے۔ اور اسے پورا کرنا ایک مسلمان کے لئے از بس ضروری ہے۔اسلئیے وفاداری صرف نوکری یعنی فرائض کو پورا کرنے سے ہونی چاہئیے۔اور ایسے کسی معائدے میں عام طور پہ افسرانِ کا حکم ماننا تو ضروری ہوتا ہے جو آپکی صلاحیتوں سے بہتر استفادہ کرنے کے لئیے ہی ہوتا ہے۔مگر معائدے میں تفویض کردہ فرائض کے برعکس افسر بالا یا افسران بالا سے وفادای کی کوئی شرظ نہیں ہوتی۔
السلام و علیکم ،
بے شک آپ نے صحیح کیا ….
مشکل ہمارے ملک میں یہ ہو گئی ہے .. کوئی ملازمت صحیح طرح کرے نہ کرے… اگر باس کا فرمانبردار ہے اور اسکے نا جائز کام کرتا ہے .. تو اسکی لئے آسانی ہے ….
الله ہم سب کے ساتھ عافیت کا معاملہ فرماۓ …
آپ تو افسر تھے .. چھوٹے گریڈ والوں کے ساتھ تو اور بھی ظلم ہے ….
آج کل تو جو ماحول ہے اس میں نہ کسی عزت دار کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی شرفا کی شرافت ….
انسان کی عزت اسکی خامیوں کی وجہ سے ہے .. جو جتنا برا ہے اتنی ہی اسکی عزت کی جاتی ہے …
دل لگتی بات تو یہ ہے کہ …
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
مٹ جاۓ گی مخلوق تو انصاف کرو گے
نعمان صاحب
میں تو اللہ کا بہت شکرگذار ہوں کے مجھ سے اچھے وقت ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کروا دیا ۔ میرے والد صاحب کو فالج کا شدید حملہ ہوا ۔ ملازمت کے حالات سے میں خوش نہ تھا ۔ گو والد صاحب کیلئے ایک اچھا خدمتگار ملازم رکھ لیا تھا پھر بھی سوچا کیوں نا ہمہ وقت والد صاحب کی خدمت کر کے جنت میں جگہ بنانے کی سعی کی جائے ۔ جب میں ریٹائر ہوا میری عمر 53 سال سے کم تھی
اب تو ملازمت میں بہت ہی بُرا حال ہے