صاف باتیں والے محمد عمران طارق صاحب نے لکھا تھا “ہر پاکستانی اپنے آپ کو ماہر سمجھتا ہے لیکن دکھ کی بات کہ جو کام کر رہے ہیں وہ اس کے ماہر نہیں ہیں” ۔
میرے خیال کے مطابق ہماری قوم کے تنزّل کی وجہ ہی یہی ہے ۔ عملی زندگی میں آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ میرے ہموطنوں کی اکثریت اپنے اندر کوئی خامی یا کمی ماننا نہیں چاہتی اور وہ اپنے آپ کو ہر فن مولا ظاہر کرتے ہیں ۔ جس کو دیکھو ایسے موضوع پر بات کرے گا جس کا اُسے کوئی علم نہیں ۔ ہر چیز پر مشورہ ایسے دیں گے گویا کہ اس کے ماہر ہیں ۔ ایسا وہ لوگ کرتے ہیں جن کو شائد ہی کوئی کام ڈھنگ سے آتا ہو ۔
بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ہمارے سرکاری محکموں میں بہت کم بلکہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہیں ایسی اسامی پر لگایا جاتا ہے جس کی اس نے تعلیم حاصل کی ہو اور تجربہ رکھتا ہو ۔ ورنہ جہاں انجنیئرنگ کا کام ہے وہاں بی اے پاس سویلین یا میٹرک فوجی کو لگا دیتے ہیں اور انجنیئر کو ایسی جگہ لگا دیتے ہیں کہ وہ سوچتا ہے کہ پڑھائی میں عمر برباد کی ۔ میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں دیکھا کہ ایک شخص کو کسی خاص تربیت کیلئے یورپ بھیجا گیا اور جب وہ تربیت حاصل کر کے واپس آیا تو اسے کسی اور جگہ پر لگا دیا جس کا کام وہ بالکل نہیں جانتا تھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب لوگ تربیت کیلئے غیرملک بھیجے جاتے تھے وہ محنت کم کرتے اور سیر سپاٹے پر زیادہ توجہ دیتے ۔
ہر فن مولا لوگوں کے کئی مشورے تفننِ طبع کا سبب بنتے ہیں ۔ چند پیشِ خدمت ہیں ۔
ایک دفعہ میں ویگن میں راولپنڈی سے واہ کینٹ جا رہا تھا ۔ میرے آگے والی سیٹ پر ایک صاحب بڑے وثوق کے ساتھ اپنے ساتھی کو بتا رہے تھے کہ واہ فیکٹری [پاکستان آرڈننس فیکٹریز] میں کیا ہوتا ہے ۔ جب ویگن واہ کینٹ میں داخل ہو گئی تو میں نے موصوف سے پوچھا ” آپ واہ فیکٹری میں کام کرتے ہیں ؟” بولے “نہیں” ۔ میں نے اُن سے کہا “میں ویپنز فیکٹری میں پروڈکشن منیجر ہوں” تو وہ صاحب چُپ ہو گئے ۔ وہ ویپنز فیکٹری ہی کے حوالے سے خود ساختہ باتیں کر رہے تھے ۔
میں پچھلے ماہ راولپنڈی کچہری گیا ہوا تھا اور ایک وکیل صاحب کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک باریش صاحب آئے ۔ پہلے اُنہوں نے ہومیو پیتھی کے مشورے دئیے اور پھر کوئی دینی باتیں کیں جو میں صحیح طرح نہ سمجھ سکا ۔ پھر کسی اور مضمون پر تقریر کردی ۔ جب وہ تشریف لے گئے تو میں نے وکیل صاحب سے پوچھا کہ یہ صاحب ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے یا دینی مبلغ تو مختصر جواب ملا “وکیل” ۔
ایک صاحب کافی بیمار تھے ۔ اُن کی ایک عزیز خاتون مزاج پُرسی کیلئے آئیں اور جاتے ہوئے نصیحت کی “تم دماغی کام بہت کرتے ہو ۔ یہ بیماری اسی وجہ سے ہے ۔ تمہارے دماغ کو طاقت کی ضرورت ہے ۔ روزانہ بادام پستہ اور چار مغز ملا کے دودھی بنا کے پینا اور لیٹ کے پینا تا کہ سیدھی سر کو جائے”
ایک صاحب کے گردے میں پتھری ہو گئی ۔ ان کے ایک جاننے والے مزاج پرسی کیلئے آئے ۔ صورتِ حال تفصیل سے پتہ کر نے کے بعد پوچھا “آپ گردے کھاتے ہیں ؟” مریض نے کہا “کبھی کبھار گوشت میں آ جائے تو کھا لیتا ہوں” ۔ بولے “بس ۔ اسی وجہ سے آپ کو پتھری ہوئی ہے ۔ اب کبھی گردے نہ کھائیں” ۔
میں ایک صاحب کے گھر کسی کام سے گیا ۔ انہوں نے نئی کار خریدی تھی ۔ کہنے لگے ” آؤ اجمل تمہیں بھی سواری کرائیں” ۔ انہوں نے ایک دوست کو بھی ساتھ لیا اور چل پڑے ۔ ایک میدان میں جا کر انہوں نے کار چلانے کی مشق شروع کر دی کیونکہ نئی نئی ڈرائیونگ سیکھی تھی ۔ سارا وقت انکے دوست انہیں بتاتے رہے کہ ایسے کرو اور اب ایسے کرو ۔ کافی دیر مشق کی ۔ اس کے بعد میرے میزبان نے اپنے دوست سے کہا “میں تھک گیا ہوں ۔ اب تم چلاؤ اور ہمیں گھر لے چلو”۔ دوست نے پریشان ہو کر کہا “میں ؟ مجھے تو ڈرائیونگ نہیں آتی”۔
ایک صاحب نے مجھے اپنا کچھ کام کرنے کو کہا جس کا انہیں بالکل علم نہ تھا جب میں نے کام کرنے کی حامی بھر لی تو شروع ہو گئے ہدایات جاری کرنے کہ اس طرح کرنا اور اس طرح نہ کرنا اور اس طرح کرلینا وغیرہ ۔ جب ان کی تقریر ختم ہوئی تو میں نے کہا “جناب آپ تو یہ کام بہت اچھی طرح سے کر سکتے ہیں۔ مجھے آپ کی ہدایات شائد صحیح طرح سے سمجھ نہیں آئیں اسلئے آپ خود ہی کر لیجئے”
السلام علیکم،۔
آپ کی بات سولہ آنے سچی ہے۔ مجھے بھی بیسیوں بار ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے لیکن میرے خیال میں یہ کہنا کہ صرف پاکستانیوں میں یہ خصوصیت پأی جاتی ہے، شاید پوری طرح صحیح نہ ہو گا۔
میری مسلمان کمیونٹی میں مختلف ممالک کے لوگ بستے ہیں اور ان میں سے کافی شاید اسی بیماری میں مبتلا ہیں کہ ہر بندہ اپنی دانشمندی کی دکان سجا کر بیٹھا ہے۔
ابھی کچھ مہینے پہلے ہماری مسجد میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس کا مقصد یہ تھا کہ جو مسجد کا چندہ جمع ہوا ہے، اس کو مسجد پر کیسے خرچ کیا جأے۔ خرچ کرنا تو مسجد کو بہتر کرنے کے لیے تھا لیکن جو ہم میں انجینیر تھا، یا جو آرکیٹیکٹ تھا ان کے بولنے کی تو باری ہی نہیں آٔی۔ باقی تمام افراد جن میں ڈاکٹر سے لے کر خانساموں تک نے عمارت تعمیر کرنے کا پورا طریقہ بتایا۔
میں نے یہ عادت کچھ کینیڈین لوگوں میں بھی دیکھی ہے پر ان لوگوں کی بات پر کؤی کان نہیں دھرتا کیونکہ یہاں کا سسٹم ہی ایسا ہے کہ اگر کسی نے اپنی ناک کسی مسٔلے میں ڈالی تو فوراً اس سے اس کی سند پوچھی جاتی ہے کہ کس بلبوتے پر فلاں بندہ اپنی رأے دے رہا ہے۔ اگر وہ واقعی ہی اس فیلڈ میں کؤی سند رکھتا ہے، تب تو اس کی بات کو وزن دیا جأے گا ورنہ یہ کہ کر ٹال دیا جأے گا کہ آپ کی رأے کا شکریہ۔
اسی رأے کے چکر میں ہمارے لوگ اپنا نقصان بھی کروا بیٹھتے ہیں۔
ابھی کچھ عرصہ قبل، ہمارے شہر میں ایک صاحب نے ایک دکان خریدی اور اس کو رستوران بنانے کا سوچا۔ اب چاہیے تو ان کو یہ تھا کہ جتنا بھی کام تھا اس کا دو تین کمپنیوں سے کوٹیشن لیتے اور جو زیادہ موزوں ہوتا اس کو کام سونپ دیتے۔ پر ان کو ایک اور پاکستانی صا حب نے مشورہ دیا کہ بجأے اس کے کہ اس لمبے چوڑے چکر میں پڑیں، آسان یہی ہے کہ کسی دھرکان وغیرہ سے بات کر لی جأے اور کم پیسوں میں کام کروا لیا جأے ۔ چنانچہ کسی کے کہنے پر وہ ایک بندے سے زبانی بات کر کے کام اس کو سونپ دیا۔ وہ دھرکان چور نکلا، روز کے گھنٹے لگاتا جاتا اور یہی کہتا کہ بس ایک ہفتہ اور لگے گا۔ جب ۳ مہینوں سے بھی ٹأم گزر گیا تو ہمارے پاکستانی بھأی کو تشویش ہؤی کہ چکر کیا ہے۔ مجھ سے انھوں نے ذکر کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اپنی کمپنی کا کارپنٹر بھجوا کر آپ کو ایک کوٹیشن بنوا دیتا ہوں تاکہ آپ کو پتا چلے کے یہ کام کتنی دیر میں اور کتنے پیسوں میں ہونا چاہیے۔ جب پتا کیا تو پتا چلا کہ اس بندے نے کؤی کام بھی بلڈنگ کوڈنگ کے حساب سے نہیں کیا تھا اور سارا کام اب دوبارہ کرنا پڑا۔ وہ صاحب اب تک بیس ہزار ڈالر سے زیادہ خرچ کر چکے تھے۔
بس اللہ ہم سب کو سمجھ دے اور جیسا کہ ہمارے امام صاحب کہا کرتے ہیں کہ اللہ سے اس بات کی بھی دعا مانگو کہ اللہ توفیق دے مجھے کہ اگر میں کسی بات کو نہیں جانتا تو منہ سے بھی کہنے کے قابل بنوں کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
ابو حلیہ صاحب
آپ نے درست کہا ۔ مزے کی بات یہی ہے کہ ہمارے لوگ کہتے ہیں سستا کام ہو جائے گا اور نقصان اُٹھا کر بھی نہیں سمجھتے ۔