کل یعنی جمعرات 26 اپریل کو عدالتِ عظمٰی میں ایک کیس پیش ہوا جس سے عدالتِ عظمٰی کے تمام جج صاحبان کے خلاف پریزڈینشل ریفرنس کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے ۔ سن 2004 عیسوی میں پبلک سروس کمیشن کے سلیکشن بورڈ نے فتح شیر جویا صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس کی بطور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ترقی کی سفارش کی ۔ وزیرِ اعظم شوکت عزیز صاحب نے فتح شیر جویا صاحب کا نام نکال کر اس کی بجائے ظفر اقبال لکھ اور ظفر اقبال قریشی صاحبان جن کے نام ترقی والی فہرست میں موجود ہی نہ تھے کو ترقی دے کر ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس بنا دیا تھا ۔ بعد میں ظفر اقبال قریشی صاحب کا نام واپس لے لیا گیا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ظفر اقبال لکھ [جسے قانون قاعدے کے خلاف ترقی دی گئی] کے خلاف کرپشن کے الزامات تھے جو کہ اس کی اپنی وزارت کے ریکارڈ میں تھے ۔ فیصل آباد کے مشہور لینڈ سکینڈل میں اس کے خلاف کاروائی نیشنل اکاؤنٹی بیلیٹی بیورو [NAB] میں ہو رہی تھی ۔
فتح شیر جویا صاحب کی درخواست عدالتِ عظمٰی کے بنچ کے سامنے ہے جس میں جسٹس صاحبان خلیل الرحمٰن رمدے ۔ فلک شیر اور محمد جاوید بُٹر شامل ہیں ۔ جسٹس فلک شیر صاحب نے کہا کہ یہ کیسی گُڈ گورننس ہے ؟ اور کیا کرپشن اس حکومت کی ترجیح ہے ؟
عدالتِ عظمٰی کے چیف جسٹس نے وزیراعظم شوکت عزیز صاحب کی سربراہی میں پرائیویٹائز ہونے والی پاکستان سٹیل مل کی فروخت پر کرپشن کا الزام عائد کیا تھا تو سب نے دیکھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ۔ مندرجہ بالا واقعہ سے تو پوری عدالتِ عظمٰی کی عزت اور وقار خطرے میں نظر آتا ہے ۔
masha-Allah Shaukat Aziz saheb ko sirf apni shaukat he aziz hay, Mulk aur uska qanoon jayay bharr main.
Main dekh raha hun keh Amrika ka asar to pakistan peh hay he ab pakistan ka asar bhi amrika per hota ja raha hay. Attorny General ka qissa to ab tak subnay sun liya hoga.
بھائی وہاج احمد صاحب
طاغوت ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ چمکدار مگر غلیظ