اپنے ہی لوگوں کی مٹی پلید جیسے ہمارے ملک میں حکومت اور اس کے ادارے کرتے ہیں ایسا یورپ اور امریکہ تو کیا لبیا اور سعودی عرب میں بھی نہیں ہوتا ۔ ان ملکوں میں بعض اوقات انسانی جان بچانے کيلئے کئی ادارے بیوقوف بن جاتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک واقع ۔
چھٹی کا دن تھا ۔ ایک بہت بڑی کمپنی کے کمپیوٹر میں گڑبڑ ہو گئی تو کمپنی کے ایم ڈی نے ماہر انجنیئر کے گھر ٹیلیفون کیا ۔
ایک بچے کی مدھم سی آواز آئی ۔ ہیلو ۔
ایم ڈی ۔ ابو گھر میں ہیں ؟
بچہ ہلکی آواز میں ۔ ہاں ۔
ایم ڈی ۔ میں ان سے بات کر سکتا ہوں ؟
بچہ ۔ نہیں ۔
ایم ڈی نے سوچا شائد غسلخانہ میں ہوں اور پوچھا ۔ آپ کی امی ہیں ؟
بچہ ۔ ہاں ۔
ایم ڈی نے التجا کی ۔ بیٹا اپنی امی سے بات کرا دیں ۔
بچے نے اسی طرح مدھم آواز میں کہا ۔ نہیں ۔
ایم ڈی نے سوچا شائد وہ باورچی خانہ میں ہو ۔ اتنے چھوٹے بچے کو اکیلا تو نہیں چھوڑا جا سکتا چنانچہ اس نے کہا ۔ آپ کے قریب کوئی تو ہو گا ؟
بچہ مزید مدھم آواز میں بولا ۔ ہاں پولیس مین ۔
ایم ڈی حیران ہوا کہ کمپنی کے انجنیئر کے گھر میں پولیس مین کیا کر رہا ہے ۔ اس نے معاملہ معلوم کرنے کے لئے پولیس مین سے بات کرنے کا سوچا اور کہا ۔ میں پولیس مین سے بات کر سکتا ہوں ؟
بچے نے سرگوشی میں کہا ۔ نہیں ۔ وہ مصروف ہیں ۔
ایم ڈی نے مزید حیران ہو کر کہا ۔ پولیس مین گھر میں کیا کر رہے ہیں ؟
بچہ ۔ وہ ابو ۔ امی اور ایک فائر مین سے باتیں کر رہے ہیں ۔
اچانک فون میں سے گڑگڑاہٹ سنائی دی ۔ ایم ڈی نے پریشان ہو کر پوچھا ۔ بیٹا یہ کیسا شور ہے ؟
بچے نے سرگوشی میں کہا ۔ ہیلی کاپٹر اترا ہے
ایم ڈی نے نہائت پریشانی میں پوچھا ۔ یہ ہیلی کاپٹر کیوں آیا ہے ؟
ایک پریشان سرگوشی میں بچے نے کہا ۔ سرچ ٹیم ہیلی کاپٹر سے اتری ہے ۔
ایم ڈی کا دل دھک دھک کرنے لگا ۔ ہمت کر کے پوچھا ۔ کیا ہوا ہے ؟ یہ سرچ ٹیم کیوں آئی ہے ؟
بچے نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے سرگوشی میں کہا ۔ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں ۔