سرحد پولیس نے جمعہ کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایبٹ آباد کے مدرسہ نما نجی عقوبت خانے کے بارے میں اپنی رپورٹ چیف جسٹس چودھری افتخار محمد چودھری کو پیش کردی ہے۔ ایبٹ آباد پولیس نے گزشتہ ماہ ایک نجی جیل سے سات برطانوی شہریوں سمیت ایک سو بارہ قیدی برآمد کیئے تھے۔ اس نجی جیل کو گزشتہ پندرہ برس سے مولانا الیاس قادری نامی ایک شخص چلا رہا تھا ایبٹ آباد پولیس کے اعلی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں مقدمے کی ایف آئی آر میں درج حقائق کی تصدیق کرتے ہوئے مولانا الیاس قادری اور اُس کے چھ ساتھیوں کو ایک سو بارہ افراد کو غیر قانونی طور پر حبس بے جا میں رکھنے اور اُن سے غیر انسانی سلوک کرنے نیز شدید جسمانی تشدد کرنے کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔ تاہم پولیس کی رپورٹ کا اہم ترین حصہ ایڈیشنل سیشن جج ہری پور، یوسف خان خٹک کے کردار کے بارے میں ہے۔ عقوبت خانے سے رہا ہونے والے ٹیکسلا کے رہائشی مجیب کے والد ولی محمد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج یوسف خٹک خان نے فروری 2006 میں مولانا الیاس قادری سے تین لاکھ روپیہ رشوت لے کر مدرسے میں پولیس مداخلت کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا تھا۔ عقوبت خانے سے رہا ہونے والے متعدد افراد کا کہنا ہے کہ مذکورہ جج مولوی الیاس قادری سے ہر مہینے پچاس ہزار روپیہ بھتہ بھی وصول کرتے تھے۔
سرحد پولیس نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ چھ اکتوبر کو مدرسے سے بازیاب ہونے والے 112 افراد کو جوڈیشل مجسٹریٹ ہری پور حنا خان کی عدالت میں پیش کیا گیا تو ایڈیشنل سیشن جج یوسف خان خٹک نے نہ صرف یہ کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کو دفعہ 164 کے تحت بازیافتہ افراد کے بیانات ریکارڈ کرنے سے روک دیا بلکہ پولیس کو حکم دیا کہ الیاس قادری کو رہا کر کے بازیافتہ افراد کو دوبارہ ادارہ انسداد منشیات میں پہنچا دیا جائے۔
اس پر جوڈیشل مجسٹریٹ حنا خان نے تحریری طو ر پر بازیافتہ افراد کے بیانات درج کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ چنانچہ پولیس ان افراد کو ہری پور کے دوسرے ایڈیشنل سیشن جج حافظ نسیم اکبر کی عدالت میں لے گئی جنہوں نے باز یاب ہونے والے افراد کے بیانات قلم بند کرکے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ انہوں نے مولانا الیاس قادری اور ان کے ساتھیوں کی درخواست ضمانت بھی مسترد کر دی۔ جن قیدیوں نے ملزمان پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا، ایڈیشنل سیشن جج حافظ نسیم اکبر نے انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہری پور میں طبی معائنے کے لیے لے جانے کی ہدایت بھی کی۔
مبینہ طور پر تحصیل ہری پور کے تھانہ کھلا بٹ کے علاقے میں مولانا الیاس قادری نامی ایک شخص گزشتہ پندرہ برس سے یہ مدرسہ نما نجی جیل چلا رہے تھے۔ مولانا الیاس قادری اپنے چھ ساتھیوں سمیت پولیس کی تحویل میں ہیں۔ اٹھائیس اکتوبر کو سیشن جج ہری پور نے ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی۔
ہری پور میں انسانی حقوق کے کارکن کے مطابق تین اور چار اکتوبر کی درمیانی شب ہری پور، پولیس کے ڈی ایس پی عبدالمجید آفریدی چند سپاہیوں کے ساتھ جیب پر گشت کررہے تھے۔ پولیس پارٹی نے تربیلا جھیل کے کنارے سڑک پر دومشتبہ افراد کو روک کر پوچھ گچھ کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ دونوں افراد، ماجد محمود اور شاہد وسیم کے پاؤں زنجیروں میں جکڑے ہوۓ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مولانا الیاس قادری کے ’ادارہ انسداد منشیات‘ سے فرار ہوئے تھے۔ عبدالحمید آفریدی انہیں جیپ میں بٹھا کر تھانے لے آئے۔ شدید تشدد کا شکار رہنے والے دونوں افراد الیاس قادری کے خوف سے کچھ بتانے سے گریزاں تھے۔ انہیں تحفظ کی یقین دہانی کرانے کے بعد ان کے نام سے الیاس قادری اور دیگر ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ پولیس کے اعلیٰ ضلعی حکام کو آگاہ کیا گیا اور تحصیل ناظم کی موجودگی میں علی الصبح مولانا الیاس قادری کے مدرسے پر چھاپہ مارا گیا۔ اس موقع پر ساڑھے سات منٹ کی ویڈیو فلم بھی تیار کی گئی۔
اس غیرمعمولی احتیاط کی وجہ یہ تھی کہ کچھ عرصہ قبل مولانا الیاس قادری نے پولیس کی ممکنہ مداخلت سے بچنے کے لیے ایڈیشنل سیشن جج ہری پور سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا تھا۔