علّامہ محمد اقبال ايک فلسفی اور مُفکّر تھے جنہوں نے پہلے سب اہلِ ہندوستان اور بعد ميں مسلمانانِ ہند ميں مِلّی اور سياسی شعور بيدار کيا ۔ بعض اوقات وہ خود ہی سوال کرتے اور خود ہی جواب لکھ کر صورتِ حال کو واضح کرتے ۔ شکوہ اور جواب شکوہ اس کی بہت عمدہ مثال ہيں ۔ اللہ سے شکوہ کا آغاز يوں کرتے ہيں ۔
کيوں زياں کار بنوں ۔ سود فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کروں ۔ محوِ غمِ دوش رہوں ؟
نالے بُلبُل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا ميں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں
جُرأت آموز ميری تابِ سُخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ۔ خاکم بدہن ۔ ہے مجھ کو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اے خدا ۔ شکوۂِ اربابِ وفا بھی سن لے
خُوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
اس پر ہندوستان کے کانگرسی مولويوں نے علّامہ پر مقدمہ کر ديا اور تاجدارِ برطانيہ نے علامہ کو قيد ميں ڈال ديا ۔ پھر جواب ميں مسلمانانِ ہند کی حالت کا خوب نقشہ بيان کرتے ہيں
ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم تو مائل بہ کرم ہيں کوئی سائل ہی نہيں
راہ دِکھلائيں کسے ۔ راہروِ منزل ہی نہیں
تربيت عام تو ہے ۔ جوہرِ قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی يہ وہ گِل ہی نہيں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں
ہاتھ بے زور ہيں ۔ الحاد سے دل خُوگر ہيں
اُمتی باعثِ رُسوائیِ پیغمبر ہیں
بُت شکن اُٹھ گئے ۔ باقی جو رہے بُت گر ہيں
تھا ابراھيم پِدر ۔ اور پِسر آزر ہيں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے
ہم سے کب پيار ہے ہاں نيند تمہيں پياری ہے
طبعِ آزاد پہ قيدِ رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہہ دو يہ آئينِ وفاداری ہے ؟
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہيں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہيں ۔ محفلِ انجم بھی نہيں
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن ۔ تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن ۔ تم ہو
بِجلياں جن ميں ہوں آسودہ وہ خرمن ۔ تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مَدفَن ۔ تم ہوہو
ہو نِکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے ؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
منفعت ايک ہے اس قوم کی نقصان بھی ايک
ايک ہی سب کا نبی دين بھی ايمان بھی ايک
حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ايک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کی يہی باتيں ہيں
قلب ميں سَوز نہيں ۔ رُوح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغامِ محمد کا تمہيں پاس نہيں
جا کے ہوتے ہيں مساجد ميں صف آرا تو غريب
زحمتِ روزہ جو کرتے ہيں گوارا تو غريب
نام ليتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غريب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غريب
Very Nice selection of verses!
اسماء صاحبہ
شکريہ
not bad but good.
محترمہ سارا صاحبہ
میرے بلاگ کو رونق بخشنے کیلئے مشکور ہوں
آپ نے بہت سے اشارے لکھ دیئے ہی اور میں دو جماعت پاس ناتجربہ کار ہوں اسلئے شش و پنج میں پڑ گیا ہوں