انشاء اللہ العزيز
سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟ آزادی آزادی آزادی
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا
انتباہ ۔ کوئی کراچی یا اسلام آباد میں رہتا ہے یاپشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تین قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے
رنگ لائے گا شہيدوں کا لہو اور ظُلم کی تلوار ٹوٹے گی
جموں کشمير ہو کر رہے گا آزاد اِن شاء اللہ اِن شاء اللہ
قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”
جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں
اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ پھر موت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایثار کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہلِ جموں کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہلِ جموں کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی
اہلِ جموں کشمیر صرف جموں کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں
حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں ۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ؟
بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے اِن شاء اللہ ناکامی اس کا مقدّر ہے
بھارت جموں کشمیر کے لوگوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔ بھارتی معاندانہ پروپيگنڈہ سے بھونچکا ہوئے ہموطن بھی دشمن کی بانسری بجانے لگے ہيں
یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے ؟
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا ۔ میں نے اپنے دوسرے يعنی انگريزی بلاگ پر ستمبر 2005ء میں لکھا تھاکہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت نے 5 فروری کو چھٹی قرار دیا اور اسے سرکاری طور پر منایا اور آج تک 5 فروری کو چھٹی ہوتی ہے
اہل جموں کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، جموں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ جموں کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمير کے باشندوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ جموں کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے رياست جموں کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں دلال [Middle Man] کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر جموں کشمير کے باشندوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے تین بڑے دریا راوی چناب اور جہلم بھارت کے قبضہ میں ہیں جن پر کئی ڈيم بنا کر بھارت انہيں خُشک کرنے کے در پۓ ہے
جموں کشمیر کی جد و جہد آزادی کا مختصر جائزہ لینے کیلئے یہاں کلِک کیجئے
یہ کاہے کی آزادی مانگ رہے ہیں آپ؟
الگ سے نامی اسلامی جمہوریہ بنالیا آپ نے
ساٹھ سال سے بے نامی زندگی ہے، ہر لمحہ اپنوں سے موت کا خوف رکھنے والے ڈھنگ سے ایک اسلامی جمہوریہ بنا نہیں سکے، کشمیر آزاد کرائیں گے آپ؟
دل کو چبھنے والا تبصرہ ہے مگر سوچنے اور اپنے ضمیر سے پوچھنے کی بات ہے ۔
عید میلاد النبی ﷺ کےمقدس موقع پر کشمیر کا دن بھی وقوع ہو چکا ہے اس سال اللہ تعالٰی سے دعاہے کہ کچھ ایسا انتظام ہو سکے کےکشمیریوں کی زندگیوں کا کوئی اہم فیصلہ ان کی منشاء کے مطابق ہو سکے اور سالوں سے جاری خوں ریز کھیل اختتام کو پہنچے
ہمارے حکمرانوں نے اسے کبھی سنجدگی سے نہ لیا ہے اور شائد نہ کبھی لینے کا ارادہ بھی ہے
اقوام متحدہ بھی اس معاملہ کو ختم کرنے کی نہیں سوچ رہی
اللہ کشمیری مسلمانوں کی زندگی آسان فرمائے
اور انہیں بھی دیگر اقوام کی مانند حقوق حاصل کرنے کیو توفیق عطا فرمائے
آمین
جب سے ہوش سنبھالی ہے کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے کے انتظار میں سر کے بال سفید ہو گئے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ ممالک متحدہ ہوتی تو شائد فیصلہ ہو جاتا ۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ۔ جس کی کم از کم ہمیں قدر نہیں ۔
نئ باتیں–میری سمجھ سے باہر ہیں
مجھے یاد آیا ایک بار ایک ہندوساتی بچہ مجھ سے سوال جواب کے لئے آیا اس نے کوئ پیپر تیار کرنا تھا۔ چھوٹتے ہی پہلا سوال یہ تھا کہ کشمیری ٹیرورسٹ نے کب اور کیسے کام شروع کیا۔
مین نے اسے وہیں پکڑ لیا کہ وہ لوگ جو اپنی آزادی کی جدو جہد کرتے ہیں انھیں ٹیرورسٹ نہیں کہا جاتا اور بتایا کہ کیوں نہیں اور پھر گاندھی جی کی مثال دی جس سے اس ہندوستانی کو آسانی ہوگئ سمجھنے میں
شعيب صاحب
آپ نے بھارتيہ جنتا پارٹی کی زبان بول دی ہے ۔ عصرِ حاضر ميں جس کی لاٹھی اُس کی بھينس عام رواج پا گيا ہے جس کا ايک بڑا سبب ذرائع ابلاغ ميں ٹيکناکوجی کا بُوم ہے ۔ گھر بيٹھے ٹی وی اور کمپيوٹر کے ذريعہ اجاراداروں کی بنائی خبريں سننے سے اکثريت کی عقل پر پردہ پڑ چکا ہے ۔
آپ کُلی طور پر کچھ تلخ حقائق پس انداز کر گئے ۔ اول يہ کہ آزادی کا حق وہی مانگتا ہے جس کی آزادی سلب کی جاتی ہے اور ميں نے اپنی اس تحرير ميں اُنہی کا ذکر کيا ہے ۔ پاکستانيوں کو تو اُن کی حوصلہ افزائی کيلئے مخاطب کيا ہے ۔ دوسری بات جو شايد آپ کے علم ميں نہيں يہ ہے پاکستان ميں شہری بھارت کے شہريوں سے کہيں اچھی زندگی گذار رہے ہيں ليکن وہ اس سے مطمئن نہيں اور بہتر کا واويلا کرتے اور اپنے ليڈروں کو جنہيں وہ نااہل سمجھتے ہيں کھری کھری سناتے ہيں ۔ بھارت کی طرح نہيں کہ جو بولے وہ دہشتگرد
خدا کرے کہ وہ دن آئے جب کشمیری بھی آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں ۔
Pingback: یومِ یکجہتیءِ کشمیر | Tea Break