کسی زبان کی ترقی کيلئے پُر مغز اور محنتی زبان دانوں کی ضرورت سے انکار نہيں کيا جا سکتا ۔ بّرِ صغير ميں ايسی ہستياں ايک ايک کر کے مُلکِ عدم کو سدھاريں اور اُردو يتيم ہو کر رہ گئی ۔ دہی مذکر ہے يا مؤنث ۔ اس پر بحث تو 1945 عيسوی ميں شروع ہو گئی تھی ۔ دہلی والے دہی کو مؤنث اور دوسرے مذکر کہتے ۔ اُميد تھی کہ آزادی کے بعد اُردو پروان چڑھنے لگے گی ليکن 1947 کے بعد بھارت نے سنسکرت جس سے خود ہندو نابلد تھے عام کرنے کی سعی شروع کر دی اور پاکستان ميں لياقت علی خان کے قتل کے بعد عنانِ حکومت انگريز کے پِٹھوؤں کے ہاتھ آگيا اور وہ اُردو کو ثانوی حثيت دے کر انگريزی سے محبت کو اُجاگر کرنے لگے کہ شائد گورا مرغوب ہو کر نذر نياز کرنے لگے ۔
پاکستان بننے کے بعد يہ سوال بھی پيدا ہوا کہ اُردو مذکر ہے يا مؤنث ۔ اُردو زبان يا بولی ہے ۔ زبان اور بولی دونوں مؤنث ہيں اسلئے اُردو کو ہونا تو مؤنث چاہيئے ۔ خير ۔ يہ پُرانی بات ہے ۔
آجکل بالخصوص جوان طبقہ ميں اس طرح کی اُردو سننے ميں آتی ہے ۔
نَٹ [not] يار ۔ ايسا تو نہيں بولو ۔
تُو پھر مجھے ملنے ضرور آئِيں ۔
اوہ يار ايمان سے وَٹ شُڈ آئی ٹَيل يُو [what should I tell you] ۔ ۔ ہے نا فنٹاسٹک [fantastic] ؟
تُم آنا شام کو دھَين وِی گو [then we go] نا ۔ ٹھيک ؟
فارسی کا مصدر ہے آمدَن جس کا مطلب ہے آنا ۔ اس سے بنا آمدَيد يعنی آپ آئے ۔ اس سے بنا خُوش آمدَيد ۔ مگر ہوتے ہوتے يہ بن گيا خُوش آمدِيد ۔ يعنی درميانی د پر زبر کی بجائے نيچے زير آ گئی ۔
فارسی کا مصدر ہےنوشيِدَن جس کا مطلب ہے پِينا ۔ اس سے بنا نَوش يعنی پينے کا فعل ۔ کسی کو مشروب پيش کيا جائے تو کہا جاتا تھا نوش فرمائيے اور اگر کھانے کی چيز پيش کی جائے تو کہا جاتا تھا تناول فرمائيے ۔ اب اتنے الفاظ کا بوجھ کون اُٹھائے ۔ عام ديکھا ہے کہ کھانے کی اشياء پيش کر کے کہا جا تا ہے نوش فرمائيے ۔
ميز جو انگريزی ميں ٹيبل [table] ہوتی ہے سے بنا ميزبان جو انگريزی ميں ہَوسٹ [host] ہوتا ہے ليکن نمعلوم کيسے يہ مِيزبان بن گيا يعنی م پر زبر کی بجائے نيچے زير بن گئی جبکہ ميز ابھی مِيز نہيں بنی ۔
عربی زبان ميں دوسرے کو ثانی اور دوسری کو ثانيہ کہتے ہيں مگر ث کو ت بولتے ہيں ۔ کسی نے تانيہ سُنا جو کہ دراصل ثانيہ تھا اور اپنی بيٹی کا نام تانيہ رکھ ديا ۔
مصر ميں ق کو آف اور ج کو گِيم بولا جاتا ہے چنانچہ ہند و پاکستان ميں جن لڑکيوں يا خواتين کا نام ادريہ ہے دراصل وہ عربی کا نام قدريہ اور اسی طرح گيلانی دراصل جيلانی ہی ہے ۔
ميرے بڑے بيٹے کا نام ہے زَکَرِيَّا ۔ اس نام کے ايک نبی ہوئے ہيں جو حضرت مريم کے ماموں يا خالو تھے ۔ 40 سال سے زائد پہلے ميرے ماتحت ايک فورمين تھے وہ اپنا نام ذِکرِيہ لکھتے اور اِسی طرح بولتے ۔ جب 1985عيسوی ميں ميری تبديلی بطور جنرل مينجر ايم آئی ايس ہوئی تو محکمہ ميں ايک ڈاٹا اينٹری آپريٹر تھے وہ اپنا نام ذِکرِيا لکھتے تھے ۔ ميرے چھوٹے بيٹے کی شادی ہوئی تو کراچی ميں نکاح رجسٹرار صاحب نے ميرے بيٹے کا نام بطور گواہ ذِکريا ذال سے لکھا ۔ ميں نےکہا کہ زے سے لکھيئے تو فرمانے لگے ۔ يہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ آپ نہيں جانتے ۔ اب اُنہيں کون سمجھاتا کہ حضور قرآن شريف کھول کر سورت مريم پڑھيئے اُس ميں زَکَرِيَّا زے سے لکھا ہوا ہے اور يہ عربی زبان کا نہيں بلکہ کسی قديم زبان کا لفظ ہے جو قرآن شريف ميں زَکَرِيَّا لکھا گيا ہے ۔ شائد نيم مُلا خطرہءِ اِيمان اِسی لئے کہتے ہيں