جموں کشمير اور فلسطين ۔ پھر شيشان ۔ افغانستان اور عراق اور اب لبنان ۔ ہر جگہ مُسلمان کا خُون بے دريغ بہايا جا رہا ہے ۔ مگر چاروں طرف ہُو کا عالم ہے ۔ کوئی نہيں جو چِلّائے کہ بس کرو يہ ظُلم ۔ ۔ ۔ مانا کہ آج کے مُسلمان کا دُنيا کی مُحبت ميں پڑنے سے ايمان کمزور ہو گيا ليکن کيا مُسلمانوں کا خُون سفيد ہو چکا ہے ؟
چند سال قبل اسلام آباد کی ايک ناجائز کچی آبادی کے قريب ايک ديوار طوفان سے گِر گئی اور ايک عيسائی بچہ اس کے نيچے آ کر مر گيا تو واشنگٹن کے در و ديوار ہِل گئے تھے اور اسلام آباد ميں ہاٹ لائين ٹيليفون کی گھنٹی بجنے لگی تھی ۔ پھر کيا تھا اسلام آباد کے بادشاہ کے حُکم پر وہاں ری اِنفورسڈ کنکريٹ کی ديوار بن گئی اور سرکاری زمين پر بنی ہوئی ناجائز بستی کو بھی جائز قرار دے ديا گيا ۔
کيا ہزاروں بلکہ لاکھوں بے گناہ مُسلمان جن ميں ہزاروں معصوم بچے بھی شامل ہيں ايک عيسائی بچے کے برابر بھی نہيں کہ اُن کا بے جواز قتلِ عام کيا جائے اور اسلام آباد کے بادشاہوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہو ؟ کيا دنيا کے حُکمرانوں ميں سوائے دو تين کے ايک بھی مُسلمان نہيں ؟ اور کيا سوائے اُن چند ہزار کے جو اپنی جان ہتھيلی پر رکھ کر ظالم قاتلوں سے برسرِپيکار ہيں دُنيا کے ايک ارب مُسلمانوں ميں ايمان کی اتنی رمق بھی باقی نہيں رہی کہ اور کچھ نہيں تو وہ سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر ہی نکل آئيں ؟
ليکن کيسے ؟ اللہ تو اُنہيں نظر نہيں آتا مگر بُش کو تو وہ روزانہ ٹی وی پر ديکھتے ہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مُسلمان اس لئے کہتے ہيں کہ مُسلمان گھرانے ميں پيدا ہوئے ورنہ اُن کے رول ماڈل اللہ کے رسُول حضرت محمد صلَّی اللہ علَيہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلَّم اور اُن کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہيں بُش اور اُس کے چيلے ہيں ۔
*
میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔
Hypocrisy Thy Name – – http://iabhopal.wordpress.com یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔
Very touching!
Kitne afsos ki baat hai is tarah khoon kharaba ho raha hai. Aapne umda likha hai lekin kya kiya jaye. Kaash koi zabardast moaashrati tahreek chale aur yeh sab band ho.
Adnan
(www.urduinda.wordpress.com
شيرازی صاحب
خوس آمديد ۔ کاش کہ آج کا مسلمان مدہوشی سے نکل آئے
عدنان صاحب
خوش آمديد ۔ آج کے انسان کی آنکھوں کو سائنس کی چکاچوند نے خيرا کر ديا ہے اس لئے اُسے اپنے سوا کچھ نظر نہيں آتا ۔ غيروں سے کيا شکوہ اپنے ہی غيروں کے غلام بن چکے ہيں دُنياوی فائدوں کی لالچ ميں