You asked for it
کا بامحاورہ ترجمہ ہے ” آ بَيل مُجھے مار” ليکن ميں اس کا لفظی ترجمہ کرتا ہوں “آپ کی فرمائش”۔
داؤدی صاحب کی کاوش قابلِ تعريف ہے کہ اُنہوں نے مرزا غلام احمد قاديانی کے پيروکار ہونے کا حق ادا کيا ۔ حقيقت يہ ہے کہ آج تک احمديہ کميونِٹی اپنے دعوے منطقی طور پر ثابت نہيں کرسکی بلکہ صرف لفظی ہيراپھيری کا سہارہ ليا جاتا ہے ۔ بہر حال ميں اس بحث ميں اُلجھنے کی بجائے کچھ ايسے حقائق منظر پر لانا چاہتا ہوں جو عام لوگوں کے علم ميں نہيں ۔
احمديہ کميونٹی کے لوگ سيّدنا آدم عليہ السّلام کو پہلا نبی مانتے ہيں ليکن پہلا انسان نہيں مانتے ۔ اُن کے مطابق اگر پہلے انسان موجود نہ تھے تو سيّدنا آدم عليہ السّلام نبی کس لئے بنائے گئے ۔
پاکستان بننے سے پہلے احمديہ کميونِٹی نے اپنے پيشوا کی ہدائت پر حکومتِ برطانيہ کو ہزاروں دستخطوں کے ساتھ ياد داشت پيش کی جس ميں بتايا گيا کہ احمدیہ کميونِٹی اُن لوگوں ميں سے نہيں جن کے ليڈر محمد علی جناح ہيں اور حکومتِ برطانيہ کيلئے احمديہ کميونِٹی کی خدمات کا خاکہ پيش کر کے مطالبہ کيا گيا کہ اِن خدمات کے صِلہ ميں قاديان احمديہ کميونِٹی کے حوالے کيا جائے ۔ اُدھر ہندو ليڈر لارڈ مؤنٹ بيٹن پر زور ڈال رہے تھے ۔ نتيجہ يہ ہوا کہ صرف قاديان نہيں بلکہ گورداسپور جو مُسلم اکثريت والا ضلع تھا کو بھارت ميں شامل کر ديا گيا اور بھارت نے اس کے راستے اپنی فوجيں جموں کشمير ميں داخل کر کے اس بھاری مُسلم اکثريت والی رياست پر قبضہ کر ليا اور يہ ناسُور اب تک پاکستان کے سينہ پر رِس رہا ہے ۔
يہ تو بہت سے لوگ جانتے ہيں کہ احمديہ تحريک قابض برطانوی حکومت نے مسلمانوں ميں تفرقہ ڈال کر انہيں کمزور کرنے کيلئے بنائی ليکن بہت کم لوگ جانتے ہيں کہ بيسويں صدی کے شروع ميں احمديہ تحريک کو صيہونيوں کی پُشت پناہی حاصل ہوئی ۔ پھر جب صيہونيوں نے 14 مئی 1948 کو از خود “یہودی ریاست اسرائیل” کا اعلان کر دیا تو سب سے پہلا غيرمُلکی دفتر جو اسرائيل ميں قائم ہوا وہ احمديوں کا تھا ۔ يہ دفتر حيفہ ميں قائم کيا گيا تھا ۔ خيال رہے کہ صيہونيوں کی طرف سے رياست اسرائيل کا اعلان يک طرفہ اور بے جواز ہونے کے باعث اُن دنوں تمام عالمِ اِسلام سراپا احتجاج تھا اور مرزا غلام احمد قاديانی صاحب کے پيروکار صيہونيوں کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے تھے ۔
پُرانی بات ہے کہ قُدرت اللہ شہاب صاحب کو اقوامِ مُتحدہ کے حقائق معلو م کرنے والے مِشن کا رُکن بنا کر اُن کا بھيس بَدَل کر اسرائيل بھيجا گيا ۔ اس مشن کے ارکان اسرائيل کی ہائی کمان کے دفاتر ميں گئے ۔ وہاں راہداری ميں چلتے ہوئے قُدرت اللہ شہاب صاحب نے ديکھا کہ ڈاکٹر عبدالسّلام [احمديہ] ايک اعلٰی صيہونی آفيسر کے کمرہ سے نکل کر دوسرے اعلٰی آفيسر کے کمرے ميں داخل ہوئے ۔ ڈاکٹر عبدالسّلام پاکستانی ہوتے ہوئے اسرائيل کيسے گئے اور اسرائيل کی ہائی کمان کے دفاتر ميں کيا کر رہے تھے يہ آج تک کسی نے نہيں بتايا ۔
پاکستان کے پہلے وزيرِ خارجہ ظفراللہ صاحب بھی احمدیہ تھے جنہوں نے پاکستان کے پہلے وزير اعظم لياقت علی خان صاحب کو 1948 ميں جموں کشمير ميں جنگِ آزادی جب آخری مراحل ميں داخل ہو چکی تھی فائر بندی پر راضی کيا جس کا نتيجہ آج تک پاکستان بھُگت رہا ہے ۔
ميں نے داؤدی صاحب کے بلاگ پر لکھا
آپ کی نقل کردہ تحرير سے ميرے ذہن ميں کچھ سوالات اُبھرے ہيں ان کی وضاحت فرمائيں گے آپ ؟
اول ۔ پہلا نبی کون تھا اور کيا پہلا نبی پہلا انسان بھی تھا يا کہ انسان پہلے نبی سے قبل موجود تھے ؟
دوم ۔ خاتمُ النَّبیين سے کيا مُراد ہے ۔ آخری نبی يا کچھ اور ؟
سوم ۔ اگر دين مکمل ہو گيا تھا تو پھر مرزا غلام احمد صاحب قاديانی کا کيا رول تھا ؟
چہارم ۔ قران شريف کی کونسی آيت کے مطابق جہاد حکومت کے حُکم سے فرض ہوتا ہے انفرادی طور پر نہيں ہوتا ؟
پنجم ۔ قرآن شريف کی کس آيت کے مطابق حضرت عيسٰی عليہ السّلام نے اس دنيا ميں وفات پائی ؟
داؤدی صاحب نے احمديہ کميونِٹی کی لمبی چوڑی ويب سائٹ کا يو آر ايل لکھ کر ٹہلا ديا اور مزيد لکھا
لیکن خاکسار کو اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ آپ اس سائٹ کو کبھی وزٹ نہیں کریں گے
جس ويب سائٹ کا اُنہوں نے حوالہ ديا وہ ميں بہت پہلے پڑھ چکا تھا اِس کے باوجود ميں نے کھول کر ديکھی ۔
ميں جب آٹھويں جماعت ميں پڑھتا تھا ميرے ايک ہمجماعت دوست کے والدين احمديہ تھے مگر دودھيال احمديہ نہ تھے ۔ وہ ميرے ساتھ نماز پڑھتا تھا اور گھر سے احمديہ لٹريچر پڑھ کر مجھے سناتا رہتا تھا ليکن اِنہماک کے ساتھ احمديت کا مطالع ميں نے 1953 عيسوی ميں شروع کيا جب ميں لاہور ميں ايک احمديہ خاندان کہ ہاں دس دن مہمان رہا ۔ اُن دنوں ختمِ نبُوّت تحريک کے بعد مارشل لاء لگا کر سينکڑوں مسلمانوں کو گوليوں سے ہلاک کيا جا چکا تھا اور روزانہ شام 5 بجے سے صبح 8 بجے تک کرفيو ہوتا تھا ۔ خيال رہے کہ اُس دور کے گورنر جنرل غلام محمد صاحب احمدي تھے ۔ اپنے ميزبان کی لائبريری ميں پڑی تقريباً تمام کتابيں ميں نے پڑھ ليں جن سے ميں احمديت کی حقيقت کو پا گيا ۔ مرزا غلام احمد کے بيانات جن کو وہ وحی کہتے ہيں باہمی تضاد کا پلندہ تھے ۔ ايک اور تجربہ جو مجھے ہوا يہ ہے کہ مرزا غلام احمد قاديانی صاحب کے جو بيانات 50 سال قبل ميں نے پڑھے تھے اُن ميں سے کچھ اب غائب ہو چکے ہيں اور کچھ ميں ترميم ہو چکی ہے ۔
میرا انگريزی کا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے“ یہاں کلِک کر کے یا مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔
https://iabhopal.wordpress.com/
ماشاءاللہ
مندرجہ بالا تحریر بہت با وزن اور مصنف کے علم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قادیانیت کے مخالف لٹریچر کا تو میں نے کبہی مطالعہ نہیں کیا تہا مگر قادیانیت کا مطالعہ ایک قادیانی دوست کے زریعے ضرور کیا تہا جو میرے کچہ سوالات یعنی ختم نبوت جیسے موضوعات کی تاب نہ لا سکا اور ہمیشہ کے لیۓ میری جان بخش گیا جسکے بعد میں نے کبہی اس مضمون کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی مگر مندرجہ با لا تحریر کچہ ایسے تاریخی پسمنضر بیان کر چکی ہے کہ اک پاکستانی ہونے کے ناطے اس مضمون کا مطالعہ بہت ضروری ہے ۔
شکریہ
زاہد حسین
زاہد حسين صاحب
دير کيلئے معذرت خواہ ہوں ۔ ورڈپرس کے نظام ميں کسی خرابی کی وجہ سے مُجھے آپ کے تبصرہ کی اطلاع نہ ملی ۔ قاديانيت کا مطالعہ آجکل کافی مُشکل ہے ليکن جس زمانہ ميں ميں نے مطالعہ کيا اتنا مُشکل نہ تھا ۔ دوسرے اللہ نے مُجھے بغير مانگے سُنہری مواقع مہيّا کئے ۔ اور بھی کئی بنيادی باتوں ميں اُن کا اسلام سے اختلاف ہے ۔