مندرجہ ذيل ايک خط کا متن ہے جو ہندوستان ميں اَوکھِل چندر سَين نے صاحب گنج ڈويزنل ريلوے آفس کو 1909ء ميں لکھا تھا ۔ يہ خط نئی دہلی [بھارت] ميں ريلوے عجائب گھر ميں رکھا ہوا ہے
“I am arrive by passenger train Ahmedpur station and my belly is too much swelling with jackfruit. I am therefore went to privy. Just I doing the nuisance that guard making whistle blow for train to go off and I am running with ‘lotah’in one hand and ‘dhoti’ in the next when I am fall over and expose all my shocking to man and female women on plateform. I am got leaved at Ahmedpur station. This too much bad, if passenger go to make dung that dam guard not wait train five minutes for him. I am therefore pray your honour to make big fine on that guard for public sake. Otherwise I am making big report to papers.”
آخر اس خط کی اتنی کيا تاريخی اہميت ہے کہ عجائب گھر ميں اس کی نمائش کی گئی ہے ۔ يقينی طور پر اس کا سبب اَوکھِل چندر سَين کی کمزور انگريزی نہيں ہے ۔ اس خط نے اُس وقت کی حکومتِ برطانيہ کو جن کا ہندوستان پر راج تھا مجبور کيا کہ ٹرين کے ڈبوں کے اندر ہی بيت الخلاء بنائے جائيں کيونکہ اُس وقت تک کسی ٹرين ميں بيت الخلاء کی سہولت موجود نہ تھی
کوئی تجويز يا خيال جو ذہن ميں آئے خواہ کتنا ہی احمقانہ لگے اس کا اظہار ايک عمدہ عمل کا پيش خيمہ ہو سکتا ہے ۔ اظہار خيال کی آزادی کا يہی مطلب و مقصد ہے جو بدقستی سے دوسروں کی پگڑياں اُچھالنا سمجھ ليا گيا ہے
چنانچہ کہہ دينا چاہيئے جو دل ميں آئے بشرطيکہ اس سے کسی کی دل آزاری نہ ہوتی ہو
شرمانا چاہيئے جہاں شرم کی بات ہو مگر اس لئے نہيں کہ “لوگ کيا کہيں گے”
جائز تکليف کا اظہار کرتے ہوئے شرم نہيں کرنا چاہيئے
جائے گا جب يہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہو گا
دو گز کفن کا ٹکڑا ۔ تيرا لباس ہو گا
يہ ٹھاٹھ باٹھ تيرا ۔ يہ آن بان تيری
رہ جائے گی يہيں پر يہ ساری شان تيری
اتنی ہی ہے مسافر بس داستان تيری
مطلب کی ہے يہ دُنيا کيا اپنے کيا پرائے
کوئی نہ ساتھ آيا ۔ کوئی نہ ساتھ جائے
دو دن کی زندگی ہے کر لے جو دل ميں آئے
Pingback: اظہارِ خيال کی آزادی | Tea Break