آج سے 17 سال 4 ماہ قبل 23 مارچ 1994ء کا واقعہ ہے کہ ايک امريکی رونلڈ اَوپس نے دِل شِکنی سے مغلوب ہو کر خود کُشی کا فيصلہ کيا جس کا واضح اظہار اُس کے چھوڑے ہوئے خط ميں تھا ۔ اُس نے ايک 10 منزلہ عمارت کی چھت سے چھلانگ لگائی ۔ چھلانگ لگاتے ہوئے رونلڈ اَوپس نے غور نہ کيا کہ آٹھويں منزل سے نيچے عمارتی کام ہو رہا ہے اور ايک مضبوط جال لگايا گيا ہے کہ کوئی مزدور گر کر زخمی يا ہلاک نہ ہو
مزدوروں نے ديکھا کہ ايک آدمی اُوپر سے جال پر سر کے بل گرا ۔ وہ اُسے اُٹھا کر ہسپتال لے گئے جہاں اُسے مردہ بتايا گيا ۔ پوليس کے ڈاکٹر نے لاش کا معائنہ کرکے بتايا کہ اس کی موت سر ميں بندوق کی گولی لگنے سے ہوئی ہے
عمارت کی کھڑکيوں کا معائنہ کرنے پر پوليس نے ديکھا کہ نويں منزل پر ايک کھڑکی کا شيشہ گولی لگنے سے ٹوٹا ہوا ہے ۔ گولی چلنے والے کمرے ميں بوڑھے مياں بيوی رہتے تھے ۔ وقوعہ کے وقت وہ آپس ميں جھگڑ رہے تھے ۔ خاوند کے ہاتھ ميں بندوق تھی اور وہ بيوی کو مارنے کی دھمکی دے رہا تھا ۔ انہوں نے بتايا کہ يہ جھگڑا اُن کا آئے دن کا معمول ہے اور وہ اسی طرح اپنی بيوی کو دھمکی ديتا ہے اور بندوق کا گھوڑا بھی دبا ديتا ہے کيونکہ بندوق ميں کوئی کارتوس نہيں ہوتا ۔ مگر اس دن انہيں ٹھا کی آواز آئی جس پر وہ بھی حيران تھے
ہوا يہ تھا کہ بندوق سے درست نشانہ تو ليا نہیں گيا تھا اسلئے گولی اُس کی بيوی کو لگنے کی بجائے کھڑکی کا شيشہ توڑتی ہوئی رونلڈ اَوپس کے سر ميں پيوست ہو گئی ۔ اس طرح اس بوڑھے پر قتل کا مقدمہ بن گيا ۔ مقدمہ کے دوران مياں بيوی کا اٹل مؤقف تھا کہ اُنہوں نے کبھی بندوق ميں کارتوس نہيں ڈالے اور اُن کے عِلم ميں نہيں کہ بندوق ميں کارتوس کہاں سے آ گيا ۔ اس لئے رونلڈ اَوپس کی ہلاکت صرف ايک حادثہ ہے
قسمت کا چکر
پوليس نے تفتيش جاری رکھی ۔ اتفاق سے پوليس کو ايک ايسا آدمی ملا جس نے بتايا کہ اُس نے وقوعہ سے چند روز قبل بوڑھے جوڑے کے بيٹے کو بندوق ميں کاتوس ڈالتے ديکھا تھا ۔ اس بوڑھےجوڑے کا بيٹا رونلڈ اَوپس ہی تھا ۔ مزيد تفتيش سے معلوم ہوا کہ ماں نے اپنے بيٹے کی مالی امداد بند کر دی تھی ۔ بيٹا اپنے باپ کی عادت جانتا تھا کہ جب اُس کے ماں باپ جھگڑتے ہيں تو باپ خالی بندوق کی نالی اُس کی ماں کی طرف کر کے ہلاک کرنے کی اداکاری کرتا ہے ۔ وہ اپنی ماں سے بدزن تھا اور اسے ہلاک کرنے کيلئے اُس نے بندوق ميں کارتوس ڈال ديا کہ جب اُس کا باپ اگلی بار جھگڑے گا تو اس کی ماں ہلاک ہو جائے گی ۔ ليکن ايسا نہ ہوا
جب رونلڈ اَوپس نے خود کُشی کے لئے دسويں منزل سے چھلانگ لگائی تو اُسے معلوم نہ تھا کہ آٹھويں منزل پر مضبوط جال لگا ہے ۔ اگر وہ گولی سے ہلاک نہ ہوتا تو زندہ بچ جاتا ۔ دوسری صورت ميں اگر خودکشی کيلئے چھلانگ لگانے کے وقت رونلڈ اَوپس کے والدين کا جھگڑا نہ ہوتا يا نشانہ خطا نہ جاتا پھر بھی رونلڈ اَوپس زندہ رہتا
قانون
رونلڈ اَوپس نے اپنی والدہ کو قتل کرنے کی نيت سے بندوق ميں کارتوس ڈالا تھا ۔ اُس کی والدہ تو ہلاک نہ ہوئی وہ خود ہلاک ہو گيا ۔ قانون کے مطابق اگرچہ رونلڈ اَوپس نے اپنی ماں کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی مگر گولی ماں کی بجائے خود اُسے لگی اور وہ ہلاک ہو گيا ۔ چنانچہ اس کيس کو خود کُشی قرار ديا گيا
کمال کی انٹرٹینمنٹ اور سبق آموزی بھی ۔ کانسیپچوئل کریئیٹیویٹی ۔ نائس شیئر ۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Ronald_Opus
ھمممم:
جیسی کرنی ویسی بھرنی۔۔۔۔
کیا کہنے قدرت کے انصاف کے
محترم افتخار صاحب، السلام علیکم
اچھی مزیدار اور سبق آموز کہانی ہے۔ لیکن غالبا حقیقی نہیں ہے۔ میں نے اپنے ایک انگریزی دان دوست کو بھیجنے کے لیے اس کا انگلش ورژن انٹرنیٹ پر ڈھونڈا تو پتہ چلا کہ یہ حقیقی واقعہ نہیں بلکہ طبِ قانونی کے کسی امریکی ماہر کے زرخیز دماغ کی اختراع ہے۔ اس سلسلے میں ویکیپیڈیا پر بھی ایک مضمون موجود ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
بہر حال ایک اچھی کہانی سنانے پر شکریہ
غلام مرتضٰے علی صاحب
ميں نے يہ واقع تين ساڑھے تين سال قبل کسی انگريزی رسالے ميں پڑھا تھا اور اپنے پاس انگريزی ميں نقل کر ليا تھا ۔ حقيقت اللہ جانتا ہے ۔ ويسے اس طرح کے اتفاقات ہوتے رہتے ہيں
سلام،
میںنے بھی یہ خبر پڑھی تھی، مگر آپ کی زبانی اور پھر الفاظ کے چناؤ اور ترکیبات نے لطف دوبالا کردیا، اگر پہلے سے ہی علم میںنہ ہوتی یہ خبر تو بلکل ایک افسانہ محسوس ہوتی۔
اللہ آپ کو صحت اور سلامتی سے رکھے
Pingback: قسمت اور قانون | Tea Break
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
بہت عمدہ کافی سبق آموز کہانی ہے
شئیر کرنے کے لئے بہت شکریہ
اچھا دوسری بات آپ کے بلاگ پر کیا مسئلہ ہے میرے پاس نہیں کھلتا پروکسی سائٹ سے آنا پڑتا ہے
ايم اے راجپوت صاحب ۔ و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاة
حوصلہ افزائی کا شکريہ
اگر آپ پاکستان ميں ہيں اور پی ٹی سی ايل يا الامارات المتحدھ العربيہ ميں اتصالات انتڑنيٹ کا استعمال کر رہے ہيں تو ايسا ہوتا ہے کہ کبھی کھُلے کگا اور کبھی نہيں کھُلے گا کيونکہ وہ کچھ ويب سائٹ کو بلاک کرنے کيلئے بعض اوقات سرور کو بلاک کر ديتے ہيں ۔