آج ايک پاکستانی خاندان کے متعلق کچھ حقائق جو عصرِ حاضر کی مادہ پرست دنيا ميں شايد ايک عجوبہ لگے مگر سوچنے والے کيلئے اس ميں بہت سبق ہے
يہ 1987ء کے دوسرے نصف کی بات ہے ۔ ميں اُن دنوں جنرل منيجر ايم آئی ايس تھا ۔ ايک دن کمپيوٹرائيزڈ اِنوَينٹری منيجمنٹ سسٹمز پروجيکٹ [Computerised Inventory Management Systems Project] نشو و نما اور تنفيذ [Development and implementation] پر گفت و شنيد کرنے ايک فيکٹری کے ايم ڈی صاحب کے پاس گيا ۔ انہوں نے اس پروجيکٹ کے سلسلہ ميں اپنی فيکٹری کی معلومات اکٹھا کرنے کيلئے ايک منيجر کو مقرر کيا ۔ وہ شخص آيا اور يوں اپنا تعارف کرايا
“السلام عليکم سر ۔ ميں عظيم الدين ہوں آپ کے بيٹے زکريا کے دوست انعام الحسن کا باپ”
انعام الحسن اور ميرا بڑا بيٹا زکريا اُن دنوں سر سيّد کالج واہ کينٹ ميں بارہويں جماعت ميں تھے ۔ اس ملاقات کے بعد عظيم الدين صاحب سے چند ايک بار سرکاری کام ہی کے سلسلہ ميں سرسری سی ملاقاتيں ہوئيں ۔ ميں اوائل 1988ء ميں دفتر سے گھر پہنچا ہی تھا کہ باہر کی گھنٹی بجی ۔ زکريا جو اُسی وقت کالج سے گھر پہنچا تھا ديکھنے گيا ۔ واپس آيا تو کچھ پريشان لگا
ميں نے پوچھا “کون تھا؟”
بولا “انعام تھا ۔ اُس کے والد کو ہارٹ اٹيک ہوا ہے اور راولپنڈی لے گئے ہيں ۔ وہ راولپنڈی جا رہا ہے ۔ کہنے آيا تھا کل کالج نہيں آ سکے گا”
ميں نے پوچھا “کيسے جائے گا ؟”
زکريا کہنے لگا “بس پر”
ميں نے زکريا کو بھگايا اور پيچھے اپنی کار لے کے پہنچا ۔ انعام الحسن کو آرمڈ فورسز انسٹيٹيوٹ آف کارڈيالوجی راولپنڈی لے گيا ۔ انعام الحسن ہی اُن کا سب سے بڑا بچہ تھا ۔ اس کے بعد 3 بيٹياں اور ايک بيٹا
عظيم الدين صاحب بہار [بھارت] سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے ۔ پاکستان ميں ايک اور مہاجر خاندان ہی ميں شادی کی تھی ۔ اُن کا پاکستان ميں سوائے سسرال کے اور کوئی رشتہ دار نہ تھا ۔ نہ اپنا کوئی گھر تھا نہ زمين ۔ تنخواہ کے علاوہ اور کوئی ذريعہ معاش نہ تھا ۔ وہ ايک نہائت شريف ۔ سفيد پوش اور باعمل مسلمان شخص تھے اور دين کی ترويج و تبليغ کيلئے بھی وقت نکالتے تھے
بيماری کے چند روز بعد عظيم الدين صاحب انتقال کر گئے ۔ انگريز ايک ظالم قانون بنا گئے تھے جسے آج تک ہمارے حکمرانوں نے قائم رکھا ہوا ہے کہ دوران ملازمت وفات پر گريجوئٹی نہيں ملتی ۔ اس کی بجائے صرف 4 ماہ کی تنخواہ ملتی ہے ۔ اُن کی ملازمت کا دورانيہ بھی 30 سال سے بہت کم ہونے کے باعث پنشن بھی بہت کم بنتی تھی ۔ کمانے والے کی وفات کے بعد 6 افراد کی روٹی اور 5 بچوں کی تعليم اور معمولی پنشن ۔ اس خاندان کيلئے مشکلات کا گويا پہاڑ آ سامنے کھڑا ہوا تھا ۔ ميں ان خيالات ميں گُم اُن کے گھر پہنچا اور انعام کو گلے لگا کر دلاسہ دينے لگا تو انعام کے يہ الفاظ ميرے کانوں ميں پہنچے
“دعا کيجئے اَنکل ۔ اُن کيلئے دعا کيجئے”
نہ وہ چِلايا ۔ نہ اُس نے آنسو بہائے ۔ ميرے جسم کا ہر عضوء برملا کہہ اُٹھا “يہ ہيں اللہ کے بندے”۔ يہ تھا پہلا دن جب ہمارا عظيم الدين صاحب مرحوم کے خاندان سے تعلق پيدا ہوا
مگر بات يہيں ختم نہيں ہو جاتی ۔ اصل مشکلات تو ابھی شروع ہونے والی تھيں ۔ انعام الحسن کا بارہويں کا نتيجہ آيا ۔ راولپنڈی بورڈ ميں اُس کی چھٹی پوزيشن تھی ۔ اُسے راولپنڈی ميں فوج کے انجنيئرنگ کالج داخل کرايا گيا تاکہ وہ 4 سال ميں انجنيئر بن جائے ۔ باقی يونيورسٹيوں ميں ہڑتالوں کے باعث پانچ چھ سال لگتے تھے
ساری روئيداد لکھوں تو کتاب بن جائے گی ۔ انعام الحسن اور اس کی بہنوں نے کيا کيا پاپڑ بيلے اور کس طرح اپنی خوراک اور تعليم کے اخراجات پورے کئے يہ وہی جانتے ہيں يا اللہ جانتا ہے ۔ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اللہ کے احکام پر عمل کی پوری کوشش کرتا ہے ۔ اللہ آگے بڑھ کر اس کی مدد کرتا ہے اور ايسے وسيلے پيدا کر ديتا ہے جو مددگار ثابت ہوتے ہيں ۔ کچھ نيک دل افسران نے پوری کوشش کے بعد اس خاندان کو مکان کيلئے ايک چھوٹا سا پلاٹ سرکاری قيمت پر دلا ديا ۔ ايک ٹھيکيدار نے کہا کہ وہ بغير منافع کے صرف لاگت کی بنياد پر انکا مکان تعمير کروا دے گا اور اُس نے ايسا کر دکھايا
کسی طرح 2 کمرے بغير پلستر اور اندرونی دروازوں کے بغير تيار ہو گئے اور وہ لوگ اس ميں رہنے لگے ۔ چھوٹے دو بہن بھائی کی تعليم ابھی باقی تھی کہ اُن کے پاس پيسے ختم ہو چکے تھے ۔ اللہ نے پھر مدد فرمائی اور اُنہيں قرضِ حسنہ مل گيا ۔ ملازمت حاصل کرنے کے بعد انعام الحسن نے پہلا کام يہ کيا کہ جہاں سے قرضِ حسنہ ليا تھا وہ واپس کيا
جس خاندان کو دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل نظر آتا تھا اُس کے پانچوں بچوں نے ماشاء اللہ اعلٰی تعليم نہائت خاموشی سے حاصل کی ۔ کبھی ہم نے بيگم عظيم الدين يا اُن کے بچوں کے منہ سے بيچارگی کا لفظ نہ سُنا ۔ جب پوچھا جواب ملا ” اللہ کا کرم ہے”۔ انعام الحسن نے ملازمت کے دوران ہی ايم ايس سی انجنئرنگ پاس کی ۔ دو بہنيں ڈاکٹر بنيں جن ميں سے ايک نے ايف سی پی ايس کيا۔ تيسری بہن نے ايم ايس سی پاس کی ۔ چھوٹے بھائی نے ايم بی اے پاس کيا ۔ يہ خاندان اب ايک گھر کا مالک بھی ہے جو کہ مکمل کيا جا چکا ہے اور سب بہن بھائيوں کی شادياں ہو چکی ہيں
عظيم الدين صاحب کے خاندان کے سب لوگ عملی طور پر پکے مسلمان ہيں ۔ انعام الحسن کی والدہ ۔ بہنيں اور دونوں بھائيوں کی بيوياں سب پردہ کرتی ہيں ۔ پچھلے 20 سال سے ہمارے ساتھ سب اپنے گھر والوں کی طرح ہيں ۔ اس کے باوجود انعام الحسن کی والدہ سميت سب خواتين ہم سے پردہ کرتی ہيں
کيا پردہ تعليم يا ترقی کی راہ ميں رکاوٹ ہے ؟
عظيم الدين صاحب کے متعلق ايک بات ميں نے جان بوجھ کر آخر ميں رکھی ۔ ميرے خالو جو پاکستان آرڈننس فيکٹريز سے بطور منيجر ريٹائر ہوئے اور واہ چھاؤنی ہی ميں رہتے تھے نے رائے وِنڈ ميں تبليغی جماعت کے سالانہ اجتماع ميں شرکت کی ۔ جب وہ واپس تشريف لائے تو ميں ملنے گيا اور اس نئے تجربہ کا پوچھا ۔ اُنہوں نے پروگرام کے متعلق سرسری تفصيل بتانے کے بعد کہا کہ وہاں پہچنے والے لوگ ايک دوسرے کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے ليکن دو آدميوں کيلئے تو ميرے دل ميں بے پناہ احترام و عزت پيدا ہو گئی ہے جن ميں سے ايک عظيم شخص واہ کے ہيں ۔ منيجر آرٹلری ايميونيشن عظيم الدين ۔ کہنے لگے “ميں نے ديکھا کہ سارا وقت يہ دونوں حضرات لوگوں کو کھانا کھلانے ميں لگے رہتے اور جب سب کھانا کھا چکتے تو جو پليٹيں واپس آ رہی تھيں ان ميں بچا ہوا کھانا وہ کھاتے جاتے اور پليٹيں صاف کر کے رکھتے جاتے ۔ ميں نے عظيم الدين صاحب سے بات کی تو کہنے لگے کہ حلال رزق کا ايک دانہ بھی جو ضائع ہو گا اس کی ہم سے باز پُرس کی جائے گی”
اصل چیز محنت ہے جو کامیابی کی کنجی ہے۔
Pingback: يہ بھی پاکستانی ہيں | Tea Break
سعد صاحب
بالکل درست کہا آپ نے
جو لوگ بھرے ہوتے ہیں یعنی جو اندر سے خالی یا ادھ بھرے نہیں ہوتے۔ وہ لوگ دنیا میں کسی بھی تکلیف کے سامنے نہیں چھلکتے اور ہر حال میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اور اعمال صالح کے ذریعے اپنی اور دوسروں کی زندگی بدلتے ہیں۔
اللہ آپکو جزائے خیر دے۔