ہوئے زیورِ آدمیت سے عاری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معطل ہوئیں قوتیں ان کی ساری
نہ ہمت کہ محنت کی سختی اٹھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ جراءت کہ خطروں کے میداں میں آئیں
نہ غیرت کہ ذلت سے پہلو بچائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ عبرت کہ دنیا کی سمجھیں ادائیں
نہ کل فکر تھی یہ کہ ہیں اس کے پھل کیا ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہے آج پروا کہ ہونا ہے کل کیا
نہیں کرتے کھیتی میں وہ جاں فشانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہل جوتتے ہیں نہ دیتے ہیں پانی
پہ جب یاس کرتی ہے دل پر گرانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کہتے ہیں حق کی ہے نامہربانی
نہیں لیتے کچھ کام تدبیر سے وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سدا لڑتے رہتے ہیں تقدیر سے وہ
کبھی کہتے ہیں ہیچ ہیں سب یہ ساماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ خود زندگی ہے کوئی دن کی مہماں
دھرے سب یہ رہ جائینگے کاخ و ایواں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نہ باقی رہے گی حکومت نہ فرماں
ترقی اگر ہم نے کی بھی تو پھر کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بازی اگر جیت لی بھی تو پھر کیا
مگر اک فریق اور ان کے سوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرف جس سے نوعِ بشر کو ملا ہے
سب اس بزم میں جن کا نور و ضیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب اس باغ کی جن سے نشوونما ہے
ہوئے جو کہ پیدا ہیں محنت کی خاطر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنے ہیں زمانہ کہ خدمت کی خاطر
نہ راحت طلب ہیں نہ محنت طلب وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لگے رہتے ہیں کام میں روز و شب وہ
نہیں لیتے دم ایک دم بے سبب وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت جاگ لیتے ہیں سوتے ہیں تب وہ
وہ تھپکتے ہیں اور چین پاتی ہے دنیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کماتے ہیں وہ اور کھاتی ہے دنیا
اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی
آپ نے اچھائیاں بیان کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے بہت مفید ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ تنقید برائے تنقید کا سلسلہ رک گیا ہے۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
Pingback: احوالِ قوم ۔ 17 ۔ آدميت کا زيور | Tea Break
مجھے ایسی ہی کسی نظم کی ضرورت تھی۔ جزاک اللہ۔
آخری شعر میں غالباً یہ “تھکتے” ہے جسے غلطی سے “تھپکتے” لکھ دیا گیا۔
محمد سعد صاحب
لفظ “تھپکتے” ہی ہے